کراچی کھلونا بن کر بکتا تو

کراچی میں بڑھتی آبادی کی اہم وجوہات مہاجرین ہیں۔ جس کی پہلی لہر 1940-50 میں بھارت سے آنے والوں کی شکل میں آئی

qakhs1@gmail.com

پاکستان رینجرز (سندھ) کے ایک اعلامیے کے مطابق ڈی جی رینجرز نے گزشتہ دنوں اپیکس کمیٹی کو اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیے جانے والے کروڑوں روپوں کو مختلف گینگ وار دھڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ لینڈ مافیا میں سیاسی جماعتیں، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ایڈمنسٹریشن، کنسٹرکشن کمپنیاں، اسٹیٹ ایجنٹ اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔ نام لیے بغیر رینجرز نے ایک بڑی سیاسی جماعت کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ دیگر سیاسی لیڈران اور بلڈرز بھی اس مکروہ دھندے میں شامل ہیں۔

مختلف غیر قانونی طریقوں سے جبری وصولی کا تخمینہ تقریباً 230 بلین سالانہ بتایا گیا۔ ابھی ان انکشافات پر تبصرے جاری تھے کہ گھر کے بھیدی وزیراعلیٰ سندھ کی انسپکشن ٹیم کے کو آرڈینیٹر حاجی مظفر شجرہ نے لنکا ڈھاتے ہوئے کہا کہ محکمہ خزانہ سمیت 18 محکموں میں کرپشن اور خلاف ضابطہ بھرتیاں بھی ہورہی ہے۔ ان کی جانب سے مہیا تفصیلات پوری ایک کرپشن کی داستان ہے، لیکن ایک معاملے کا ذکر ضرور کروں گا جس میں انھوں نے بتایا کہ محکمہ داخلہ کے افسران نے 'وائٹو' لگا کر 20 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن کی، 284 انکوائریز پر کارروائی کی جارہی ہے، اب تک 18 کروڑ واپس کیے جاچکے ہیں۔

رینجرز اس سے قبل بھی واٹر گولڈ مافیا کی جانب سے غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی غیر قانونی آمدنی کے استعمال کے لیے اسی طرح کا ایک بیان جاری کرچکی تھی، جب واٹر گولڈ مافیا کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ واٹر بورڈ کا ماہانہ ریونیو اوسطاً صرف پچاس سے باون لاکھ روپے ہے جب کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کی سالانہ آمدنی 50 ارب روپے کا پانی فروخت کرتی ہے۔

کراچی کا مجموعی رقبہ 3,336 کلومیٹر تک پھیلا ہوا ہے، 18 قصبات، 6 عدد کنٹونمنٹ اور دیگر ایجنسیوں میں منقسم ہے، شہری علاقے 1800 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ کراچی 60 سے 70 فیصد پاکستان کی معیشت میں اقتصادی اور مالی سرگرمیوں کا حصہ دار بھی ہے۔ کراچی قومی GDP کا پندرہ فیصد بھی مہیا کرتا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 42 فیصد اور وفاقی حکومت کا کل 25 فیصد محصول بھی کراچی ادا کرتا ہے۔ شرح پیدائش ملکی شرح 3.0 فیصد جب کہ کراچی میں شرح پیدائش سالانہ 4.8 فیصد جب کہ کراچی کی آبادی میں بڑھتی ہوئی شرح ایک اندازے کے مطابق 35 ہزار خاندان یا 2 لاکھ افراد کی ہر سال اس عروس البلاد میں باہر سے آکر آباد ہونا بھی ہے۔ جس میں افغان، برمی، بنگالی، سمیت دیگر قومیتوں کے افراد شامل ہیں۔


کراچی میں بڑھتی آبادی کی اہم وجوہات مہاجرین ہیں۔ جس کی پہلی لہر 1940-50 میں بھارت سے آنے والوں کی شکل میں آئی، ویزہ پابندیوں کی وجہ سے اردو بولنے والے اپنے رشتے داروں سے کٹ گئے، 1960-80 میں پنجابی اور پختون آئے، جنھوں نے اپنے رشتے داروں سے تعلق قائم رکھا۔ 1970-90 میں سندھی قوم پرست ممتاز بھٹو کی جانب سے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر روزگار، سرکاری زبان اور سندھی نیشنل ازم اور پی پی پی کا عروج تھا، جس کی وجہ سے سندھیوں کو کراچی میں آنے کی ترغیب ملی۔ ہجرت کے چوتھے مرحلے میں غیر ملکیوں کی بشمول افغان، عراق (کرد)، ایران (بہائی) سری لنکا (تامل) 1979-90 کی دہائیوں میں سیاسی پناہ گزینوں کا ریلہ آیا، حالانکہ اقوام متحدہ کے بلوچستان اور صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) کے کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی لیکن کرپشن کی وجہ سے انھوں نے پاکستانی شہریت حاصل کرنا شروع کردی، یہیں مختلف مسائل کے ساتھ ساتھ جرائم نے بھی جنم لیا اور ایک تحقیقی اندازے کے مطابق کراچی میں تقریباً 200 سے زائد گینگ متحرک ہیں۔

10 جون 2004 میں کور کمانڈر کے فوجی کانوائے پر حملے کے تین روز بعد جب سات دہشت گرد پکڑے گئے تو پہلی بار ''جندولہ'' نامی تنظیم منظر عام پر آئی، 2003 میں جماعت المسلمین سے نکالے گئے عطا الرحمن نے قیادت سنبھالی، گرفتاری کے بعد قسم طوری اس کا منتظم بنا۔ بعدازاں مختلف مذہبی تنظیموں نے مسلح گروپ بنا لیے اور خود کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی عسکریت پسند تنظیموں کے لیے فنڈنگ اور کراچی کو اہم لیڈران کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔

یہ معاملات کراچی سے باہر اندرون سندھ بھی پھیلنے لگے۔ 2009 میں حساس اداروں نے سیاسی جماعتوں کو آگاہ کردیا تھا کہ عسکریت پسند کراچی میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر ایم کیو ایم، پی پی پی اور اے این پی اس بات سے مکمل آگاہ ہوچکی تھیں کہ کراچی میں اب صوبائیت، لسانیت کے بعد فرقہ واریت اور مذہب (مسلم مکاتب فکر) کی ایک نئی عالمی جنگ شروع ہونے والی ہے اور اس کے لیے بھی کراچی ہی فنڈ مہیا کرنے کا اہم مالی ذریعہ ہے۔ عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس نتیجے پر ضرور پہنچ چکے تھے کہ جب تک بڑی مچھلیوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا اس وقت تک کراچی میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ کراچی کا کالا بجٹ کا تخمینہ 230 ارب ہے یعنی یومیہ 63 کروڑ روپے، جب کہ اس سے قبل ایک غیر سرکاری تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کراچی کے عوام سے 83 کروڑ روپے یومیہ جبری وصول کیا جاتا ہے۔ کون کتنا لیتا ہے، کون کون سا ادارہ اس میں ملوث ہے، یہ سب بتانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ پبلک سب جانتی ہے۔

واٹر گولڈ مافیا کے خلاف جب رینجرز نے کارروائی کی کہ کالعدم جماعتوں کو فنڈنگ کی جاتی ہے تو سب نے اس کو سراہا۔ لیکن جب ساڑھے 14 ارب کے 1200 پلاٹوں کی چائنا کٹنگ کے الزام کے تحت لائنز ایریا پروجیکٹ کے پانچ افسران گرفتار کیے گئے اور سوک سینٹر میں قائم مقام ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے سے تعمیرات اور نقشوں کی منظوری سے متعلق رخصت پر گئے ڈی جی منظور قادر kakaکے بارے بھی معلومات کے لیے رینجرز نے پوچھ گچھ شروع کی تو پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنی مفاہمانہ پالیسی کے برعکس ایک حیرت انگیز بیان دے ڈالا کہ ''ہمیں تنگ مت کرو، ورنہ اینٹ سے اینٹ بجادیں گے، میں نے فہرست بنائی تو کئی جرنیلوں کے نام آئیں گے۔'' جیل کے گرم پانی کے ذکر میں انھوں نے کئی سیاست دانوں سمیت سابق فوجی چیف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اب بلاول زرداری کو اپوزیشن لیڈر اور اپوزیشن لیڈر کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنائے جانے کی خبریں بھی گردش کرنے لگی ہیں۔

غرض یہ ہے کہ ایک نیا پینڈورا بکس کھل گیا اور عوام یہ تمام تماشا رمضان سے قبل دیکھنے لگے۔ ایک بات طے ہے کہ مفاہمت کے بے تاج بادشاہ کی جانب سے انتہائی متنازعہ بیان آنے کے بعد ایک بات واضح ضرور ہوگئی ہے کہ ماضی میں ایوان صدر میں اپنی خواب گاہ میں مسلح ہوکر بیٹھنے والے سابق صدر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے یا پھر پی پی پی اپنی گرتی ساکھ کو بچانے کے لیے سیاسی شہید بننے کے لیے بلاول زرداری کے کندھے استعمال کرنا چاہتی ہے، کیونکہ بلاول زرداری اپنے تند و تیز بیانات سے پی پی پی کارکنان میں کافی مقبول ہیں، یا پھر ذوالفقار مرزا سے محاذ آرائی اور پھر عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد اس کے اعترافی بیانات سے ممکنہ پیدا شدہ صورتحال کے لیے فصیل اور نئی جنگ کے لیے نئے ہتھیار ہیں۔
Load Next Story