مکمل نہیں یہ جیون

اگرخاندان یا برادری سے باہرکوئی معقول رشتہ موجود ہوتومحض اسے خاندان یا برادری کے فرق کی وجہ سے مسترد نہیں کرنا چاہیے


سویرا فلک June 22, 2015
رشتہ کرتے وقت حسب نسب دیکھنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی قدروں اور کردارکو ضرورمدنظررکھیں۔ فوٹو: فائل

SAN ANTONIO: اسلام دین فطرت ہے، جس کے تمام اصول و ضوابط، انسان کے مزاج کو مدنظر رکھ کر معین کیے گئے ہیں۔ جس طرح سونا، جاگنا، کھانا پینا وغیرہ۔

انسان کی بنیادی ضرورت وجبلت ہیں، بالکل اسی طرح مجلسی طبیعت اور ضرورت بھی انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے۔ اس دنیا میں زندگی کی ابتدا ہی میاں بیوی کے رشتے سے ہوئی۔ ماہرین کے مطابق انسان ایک سماجی جانور ہے، لہٰذا اس کا تنہا رہنا اسے نفسیاتی اضطراب میں مبتلا کردیتا ہے، جب کہ شادی کے بعد آپ دوسروں کے لیے جینا سیکھتے ہیں اور دکھ درد بانٹ کر ذہنی سکون حاصل کرتے ہیں، لیکن فی زمانہ رشتہ طے کرنا اور شادی ہونا ایک گمبھیرمسئلے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔رشتوں میں تاخیر کی کئی بنیادی وجوہات ہیں۔ آئیے ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

٭تاخیر سے شادی کی سب سے بڑی وجہ آج کل کے معاشرے کے خود ساختہ معیار ہیں۔ آج کے لڑکے لڑکیاں اور ان کے والدین اپنے دل و دماغ میں ایک آئیڈیل شخصیت اور رشتہ ترتیب دے کر اس کی تلاش میں عمر کے کئی سال برباد کر دیتے ہیں اور پھر آخر کار شادی کی عمر ہی نکل جاتی ہے۔ لڑکے والے خوب صورت، کم عمر، اعلیٰ خاندانی حسب نسب رکھنے والی لڑکی تلاش کرتے ہیں، تو لڑکی والے اپنی گاڑی، بنگلا اور بھاری بھرکم بینک بیلنس رکھنے والے لڑکے کے متلاشی ہوتے ہیں۔ یوں ساری عمر ایک سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے گزر جاتی ہے، جب کہ پرانے وقتوں میں لوگ شرافت، کردار اور سلیقہ مندی کو دوسری تمام خصوصیات پر فوقیت دیتے تھے۔

٭جہیز حقیقتاً ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آج کل متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا انسان زندگی کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا اور مکان کے حصول میں ناکام نظر آتا ہے۔ ایسے میں جہیز کی تیاری تو ناگزیر ہو ہی جاتی ہے یا پائی پائی جوڑ کر مطلوبہ جہیز تیار کرنے میں لڑکی کی خاصی عمر ضایع ہو جاتی ہے۔ لڑکے والے جہیز کو اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں۔ آج بھی جو لڑکی ٹرک بھر کر جہیز نہ لائے، اس کی سسرال میں کوئی عزت نہیں ہوتی، جب کہ موجودہ دور میں فریج، ٹی وی اور دیگر ضروری آلات تقریباً ہر گھر میں موجود ہوتے ہیں اور اکثر جگہ کی کمی کے باعث برسوں تک جہیز میں آیا سامان یوں ہی پڑا رہتا ہے۔

٭دکھاوے کا شوق بھی اس مسئلے کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ لوگ کچھ کم پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ بڑے پیمانے پر دھوم دھڑکے کے ساتھ شادی کرنے کے علاوہ جہیز کی بھاری مقدار دے کر صاحب حیثیت لوگ متوسط طبقے کے لوگوں کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ ادھر متوسط طبقے بھی اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے کے بہ جائے اپنے آپ کو ہنس سمجھ کر اس کی چال چلنے کی کوشش میں، بہتر سے بہتر کی تلاش میں وقت ضایع کرتے ہیں۔

٭خاندان اور جانے پہچانے لوگوں میں رشتہ کرنے کا رواج کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قریبی لوگوں سے تعلقات اتنے اچھے نہیں رہ پاتے کہ ان سے مزید رشتے داریوں کے بارے میں سوچا جائے۔ لہٰذا لوگ باہر سے بہو یا داماد لانا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ دراصل لوگ رشتے ناتے ختم کر کے اپنی اپنی ذات میں اس قدر گم ہو گئے ہیں کہ میل ملاپ کے سارے راستے ہی ختم ہوتے جا رہے ہیں، جب رابطہ ہی نہیں رہے گا، تو تعلقات کیسے استوار ہوں گے۔ جب کہ پہلے عموماً شادی بیاہ کی تقریبات میں ہی لوگ لڑکے اور لڑکیوں کو پسند کر لیا کرتے تھے اور قریبی جان پہچان کے باعث زیادہ تردد بھی نہیں کرنا پڑتا تھا۔

٭اس حوالے سے ایک اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ بعض اوقات والدین وقتی چمک دمک سے متاثر ہو کر جیسے باہر کے رشتوں کے چکر میں بنا چھان بین کیے رشتے طے کر دیتے ہیں، ایسے میں جب شادیاں ناکام ہو جاتی تھیں، تو دیگر والدین اور لڑکے لڑکیوں کے شادی کرنے کا فیصلہ مشکل ترین ہو جاتا ہے۔ وہ ڈر اور خوف کے باعث رشتہ طے کرنے میں اس قدر ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ بالآخر رشتہ ہونے کا وقت ہی ختم ہو جاتا ہے اور وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے، جب کہ ہونا یوں چاہیے کہ اپنی عقل و دانش کو استعمال کرتے ہوئے، بساط بھر معلومات کے بعد رشتہ طے کرنا چاہیے۔

٭اگرخاندان یا برادری سے باہر کوئی معقول رشتہ موجود ہوتو، محض اسے خاندان یا برادری کے فرق کی وجہ سے مسترد نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ لوگ آج بھی سختی سے اس روایت پر کاربند ہیں، جس کی وجہ سے لڑکیوں کے رشتے نہیں ہوپاتے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں اور شادی جیسے اہم فریضے سے پہلو تہی نہ برتیں۔

شادی گڑیا گڈے کا کھیل نہیں۔ اس لیے اس معاملے میں مکمل سوچ بچار، چھان بین اور لڑکا لڑکی دونوں کی پسند اور رضا شامل ہونا ضروری ہے۔ جلدبازی کا عمل بھی زندگی بھر کا خسارہ بن کر سامنے آسکتا ہے۔ لڑکیوں کے معاملے میں بعض اوقات والدین ہر رشتہ پر ہاں کرنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست نہیں، اس حوالے سے متوازن سوچ کی ضرورت ہے۔ جلد بازی سے لڑکیوں کی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ صلاح مشورے، مناسب چھان پھٹک اور اطمینان کے بعد ہی رشتے کے لیے رضامندی ظاہر کرنی چاہیے۔ دنیا میں کوئی بھی انسان مکمل اور بے عیب نہیں اور گیا وقت ہاتھ نہیں آتا۔۔۔ اگر ہم ان باتوں کو ذہن نشین کر لیں تو ان خودساختہ مسائل سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ رشتہ کرتے وقت حسب نسب دیکھنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی قدروں اور کردارکو ضرورمدنظررکھیں، کیوںکہ گھر اینٹوں سے نہیں اس کے مکینوں سے بنتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں