ڈیپیوٹیشن پر تعیناتیوں نے محکمہ اینٹی کرپشن کو کرپشن کا مرکز بنادیا
سوئی گیس، واٹر بورڈ، ایجوکیشن،بورڈ آف ریونیو جیسے غیر متعلقہ اداروں سےتعیناتیاں کی گئی ہیں، سیاسی کیسز بنائے جاتے ہیں۔
انسداد بدعنوانی کے لیے قائم محکمہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں بڑی تعداد میں ڈیپوٹیشن پر افسران واہلکاروں کی تعیناتی سے یہ محکمہ نہ صرف اپنی افادیت کھو چکا ہے بلکہ ڈیپوٹیشن پر تعیناتی کا پروانہ لے کر آنیوالے افسران نے اس اہم محکمے کو کرپشن کا مرکز بنادیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں بڑے پیمانے پر کی جانیوالی سفارشی تعیناتیوں اور بھرتیوں کی وجہ سے ادارے کا انتظامی ڈھانچہ مکمل طورپر تباہ ہوچکا ہے۔ متعدد افسران غیرمتعلقہ اداروں سے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں تعینات کیے گئے ہیں جن میں سوئی سدرن گیس، واٹربورڈ، ایجوکیشن، ورکس اینڈ سروسز، بورڈ آف ریونیو اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ سندھ پولیس کے انسپکٹر مظفر بلوچ اب ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہے ہیں اور ان کی ملازمت اینٹی کرپشن میں ضم کردی گئی ہے۔
سوئی گیس سے آنے والا افسر بھی ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہا ہے جبکہ سندھ پولیس سے آنے والا ایک اور افسر کامران بلوچ ٹو پروموشن لے کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہا ہے، سندھ پولیس کا ایک افسر مبین ہالیپوٹو ڈیپوٹیشن پر اینٹی کرپشن میں تعینات کیا گیا تھا اور اب اس نے اپنی خدمات بھی ادارے میں ضم کرالی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان افسران کے ذریعے سیاسی مخالفین کے خلاف کیسز بنائے جاتے ہیں اور ان افسران کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جو مخالف سیاسی جماعت کے دور میں اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ واٹرا ینڈ سیوریج بورڈ کے مختلف افسران سے متعلق ماضی قریب میں شروع کی جانیوالی تحقیقات واضح ثبوت ہیں جن کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے جبکہ ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے متعلقہ افسران سے ''معاملات طے ہونے کے بعد'' تحقیقات کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ حال ہی میں شہری حکومت کے ڈائریکٹر پارکس لیاقت علی قائمخانی کے خلاف کروڑوں روپے کی رشوت کے الزام میں مقدمات درج کیے گئے تھے تاہم انھیں گرفتار کرنے کے بجائے عدالتوں سے ضمانت حاصل کرنے کا موقع دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے افسران اپنی کارکردگی دکھانے کیلیے سرکاری محکموں کے نچلے درجے کے ملازمین جن میں زیادہ تر کلرکس شامل ہوتے ہیں کے خلاف مقدمات بناتے ہیں جبکہ اعلی افسران کے خلاف کیس بنانے کے بجائے ان سے معاملات طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
گذشتہ سال اینٹی کرپشن میں کی جانے والی بھرتیوں کو بھی مکمل طور پر سیاسی قرار دیا جارہا ہے، ذرائع نے بتایا کہ بھرتیوں کیلیے اخبارات میں مشتہر کی جانے والی اسامیوں سے کئی گنا زیادہ بھرتیاں کی گئیں اور اس کے لیے دوبارہ اشتہار دینے کی زحمت بھی نہیں کی گئی، 11 سب انسپکٹرز کی اسامیاں مشتہر کی گئیں اور بھرتی 20 سے زیادہ کیے گئے۔ اے ایس آئی کی 9 اسامیوں پر 30 سے زائد افراد بھرتی کیے گئے اور اسی طرح سپاہی کی 20 اسامیاں مشتہر کی گئیں جبکہ بھرتی ہونے والوں کی تعداد سو سے زائد ہے۔
تفصیلات کے مطابق گذشتہ چند سالوں کے دوران اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں بڑے پیمانے پر کی جانیوالی سفارشی تعیناتیوں اور بھرتیوں کی وجہ سے ادارے کا انتظامی ڈھانچہ مکمل طورپر تباہ ہوچکا ہے۔ متعدد افسران غیرمتعلقہ اداروں سے اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں تعینات کیے گئے ہیں جن میں سوئی سدرن گیس، واٹربورڈ، ایجوکیشن، ورکس اینڈ سروسز، بورڈ آف ریونیو اور دیگر ادارے شامل ہیں۔ سندھ پولیس کے انسپکٹر مظفر بلوچ اب ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہے ہیں اور ان کی ملازمت اینٹی کرپشن میں ضم کردی گئی ہے۔
سوئی گیس سے آنے والا افسر بھی ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہا ہے جبکہ سندھ پولیس سے آنے والا ایک اور افسر کامران بلوچ ٹو پروموشن لے کر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہا ہے، سندھ پولیس کا ایک افسر مبین ہالیپوٹو ڈیپوٹیشن پر اینٹی کرپشن میں تعینات کیا گیا تھا اور اب اس نے اپنی خدمات بھی ادارے میں ضم کرالی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان افسران کے ذریعے سیاسی مخالفین کے خلاف کیسز بنائے جاتے ہیں اور ان افسران کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جو مخالف سیاسی جماعت کے دور میں اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ واٹرا ینڈ سیوریج بورڈ کے مختلف افسران سے متعلق ماضی قریب میں شروع کی جانیوالی تحقیقات واضح ثبوت ہیں جن کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے جبکہ ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے متعلقہ افسران سے ''معاملات طے ہونے کے بعد'' تحقیقات کو سرد خانے کی نذر کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ حال ہی میں شہری حکومت کے ڈائریکٹر پارکس لیاقت علی قائمخانی کے خلاف کروڑوں روپے کی رشوت کے الزام میں مقدمات درج کیے گئے تھے تاہم انھیں گرفتار کرنے کے بجائے عدالتوں سے ضمانت حاصل کرنے کا موقع دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے افسران اپنی کارکردگی دکھانے کیلیے سرکاری محکموں کے نچلے درجے کے ملازمین جن میں زیادہ تر کلرکس شامل ہوتے ہیں کے خلاف مقدمات بناتے ہیں جبکہ اعلی افسران کے خلاف کیس بنانے کے بجائے ان سے معاملات طے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
گذشتہ سال اینٹی کرپشن میں کی جانے والی بھرتیوں کو بھی مکمل طور پر سیاسی قرار دیا جارہا ہے، ذرائع نے بتایا کہ بھرتیوں کیلیے اخبارات میں مشتہر کی جانے والی اسامیوں سے کئی گنا زیادہ بھرتیاں کی گئیں اور اس کے لیے دوبارہ اشتہار دینے کی زحمت بھی نہیں کی گئی، 11 سب انسپکٹرز کی اسامیاں مشتہر کی گئیں اور بھرتی 20 سے زیادہ کیے گئے۔ اے ایس آئی کی 9 اسامیوں پر 30 سے زائد افراد بھرتی کیے گئے اور اسی طرح سپاہی کی 20 اسامیاں مشتہر کی گئیں جبکہ بھرتی ہونے والوں کی تعداد سو سے زائد ہے۔