جتنی بڑی آزمائش ہے اُتنا بڑا انعام

مجھے کربلا کے بھوکے پیاسے مسافر یاد آگئے، افریقہ کی سسکتی انسانیت، اپنے تھر کے بلکتے انسان آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔


زید عفان June 22, 2015
رمضان کے روزے ہمارا امتحان ہیں اورانھیں رکھنے کی توفیق اللہ کے اذن سے ہوتی ہے۔فوٹو:فائل

گرمی پورے زوروں پر تھی۔ 45 دن بغیر کسی چھٹی کے اندرونِ سندھ میں کیرتھر پہاڑیوں کے قریب کام کرنا ایسا ہی ہے جیسے تندور کے پاس کھڑے ہوکر سارا دن روٹی بنانا۔۔۔ کام کے سلسلے میں میری جہاں پوسٹنگ ہوئی تھی وہ جگہ وڈو جبل کے نام سے جانی جاتی ہے جو سطح سمندر سے تقریباً 3500 فٹ بلند ہے۔۔۔ شدید خشک اور گرم موسم۔۔۔ مجھے وہیں کسی نے بتایا تھا کہ چین نے پاکستان کو پیشکش کی تھی کہ کیرتھر پہاڑیوں کو کاٹ کر سندھ کو ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔۔ مگر اس وقت کے حکمران نے جواب دیا۔۔ 'مجھے اپنے موسم نہیں اجاڑنے۔۔'

موسم کے ساتھ ساتھ اگر حکمران آدھی توجہ عوام پر بھی دے دیتے تو کیا جاتا۔۔۔ خیر اُن 45 دنوں میں کئی بار میں نے لوگوں کو گرمی کی شدت سے بیہوش ہوتے دیکھا۔۔۔ آپس کی بات ہے دل تو میرا بھی کرتا تھا کہ بیہوش ہوجاؤں تاکہ کیمپ میں جاکر ٹھنڈی مشین کے مزے لوں۔۔ مگر ڈر یہ تھا ایسا نہ ہو کہ جوش میں ہوش ہی نہ آئے۔ میری 15 دن کی چھٹیاں ہونے والی تھیں کیوںکہ میں نے 45 دن کا چلہ پورا کاٹا تھا۔۔ مگر تف ہے کوئی ایک سفلی ہی جو مجھے آیا ہو۔۔ اس لیے فی الحال مجھے 15 دن بعد شروع ہونے والے رمضان کی فکر لاحق نہ ہوئی۔۔۔ حالانکہ رمضان میرا پھر اسی گرمی میں گزرنا تھا۔

چھٹیاں ختم ہوئیں۔ دوسرا روزہ تھا، میں جب روزے کی حالت میں اپنے کیمپ پہنچا تو خاصا مطمئن تھا۔ شہری بندہ تھا اور چھٹیاں گزار کر آیا تھا اِس لیے ذہن تازہ تھا۔ اگلے دن سے کام پر جانے کی تیاری کی، شام میں بھرپور افطاری کی اور آرام سے سوگیا۔ صبح 4 بجے سحری کی بلکہ زبرستی ٹھونسا، اتنا زیادہ پانی پینے کی کوشش کی کہ بقیہ پوری زندگی گزارا ہوجائے۔ پھر زبردستی فوراً ہی سائٹ پر بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکا دیے گئے۔ گرمی کی شدت کا اندازہ تو پہلے ہی تھا۔ اِس لیے دعا گو تھا کہ آج واقعی ہوش نہ کھو بیٹھوں۔ سورج ابھی نکلا بھی نہیں تھا، دور کہیں پہاڑیوں کے پیچھے افق پر ہلکی ہلکی روشنی تھی۔ سنسان پہاڑیوں کے کچے راستوں پر ڈبل کیبن رواں دواں تھی۔ سوچ کے رستے پر صرف ایک دعا تھی کہ 'یا اللہ رحم'، انجانے سے خوف تھے دل میں۔ روزہ تو بندہ اللہ کے لیے رکھتا ہے، اُمید بھی اسی ذات سے تھی۔

سائٹ تک کا سفر 45 منٹ کا ہوتا تھا اور ہمیشہ میری یہ خواہش ہوتی تھی کہ یہ سفر 45 منٹ کے بجائے 45 ہزار منٹ کا ہو کیوںکہ گاڑی کا اے سی دل و دماغ ٹھنڈا رکھتا تھا۔ بمشکل آدھا راستہ طے پایا تھا کہ پتا چلا آگے رہائشیوں نے اپنے مطالبات منوانے کے چکر میں سڑک بند کی ہوئی ہے۔۔۔ ہر دفعہ ایسی صورت میں مذاکرات یا کچھ دے دلا کر ہم سائٹ تک پہنچ جاتے تھے۔۔ مگر شاید وہ دن کچھ زیادہ ہی بھاری تھا۔ راستہ چونکہ بلاک تھا اس لیے 50، 40 افراد پر مشتمل قافلہ کچی سڑکوں پر ہی رک گیا۔۔ کچھ دیر بعد پتا چلا کہ ان لوگوں نے واپسی کا راستہ بھی بند کردیا ہے جس سے اندازہ ہوا کہ معاملہ کافی پریشان کن ہے۔۔



دن چڑھتا جاتا اور سورج بے رحمی سے آگ اگلتا جاتا۔ خشک ترین موسم میں ایسا لگتا تھا کہ جسم کا 70 فیصد پانی بھی ہوا میں تحلیل ہوگیا ہو۔ اندر تک رگیں خشک ہوئی پڑی تھیں۔ زبانیں ایسے باہر نکل جاتی تھیں کہ شاید کچھ نم ہوجائیں۔ حلق کی خشکی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ جیسے تیسے کرکے 2 بجے معاملات ٹھیک ہوئے اور ہمیں واپس جانے کے بجائے سائٹ پر جانے کی اجازت ملی۔ کام کی سکت تو پہلے ہی نہیں تھی۔ مگر جب سائٹ پر پہنچا تو دیکھا ایک طرف 'کھوجے دار' چِلر کا ٹھنڈا پانی پی رہے ہیں اور دوسری طرف 'کھوجے دار' کھانے میں مصروف ہیں۔ چلر کے پاس جاکر ٹھنڈا پانی خود پر بار بار انڈیلا، منہ بھر بھر کر کلیاں کی، اپنا رومال گیلا کرکے چہرے پر لپیٹ لیا تاکہ منہ نم رہے۔ اُس وقت روزے کے امتحان کا صحیح اندازہ ہوا۔ میری جنت میرے سامنے تھی، سب کچھ میسر تھا، اسی پیٹ کے لیے انسان اپنی عزت تک کا سودا کرلیتا ہے۔۔۔ پھر مجھے کربلا کے بھوکے پیاسے مسافر یاد آگئے۔ افریقہ کی سسکتی انسانیت، اپنے تھر کے بلکتے انسان آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے۔۔۔ سر گھومنے لگا تھا۔۔



ویسے بھی قومی عادت ہے جب اپنے سر مشکل پڑتی ہے تو دوسروں کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ سر پر ٹھنڈا پانی انڈیلا۔ اتنا یخ پانی منہ میں ڈال کر کئی دفعہ خیال آیا اتنے لوگ اطمینان سے پی رہےہیں، ایک میرے پینے سے اعتراض تو کیا ۔۔ کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا۔ مگر ہر بار وہ حلق تک پہنچ نہیں پاتا تھا۔ عجیب سا احساس تھا جس نے روکا ہوا تھا۔ کام کے دوران یہ عمل مجھے بار بار دوہرانا پڑتا تھا۔ اس دن مجھے یہ یقین ہوگیا کہ اب زندگی میں اس سے مشکل روزہ نہیں آئے گا۔۔ یں سوچ رہا تھا کہ مزدور طبقہ جس کا روزہ نہیں تھا، شاید اس کے لیے واقعی ناممکن تھا 12 گھنٹے دھوپ میں کام کے ساتھ روزہ رکھنا۔ مگر پھر بھی ان میں سے کئی کا روزہ تھا جنہیں اللہ نے توفیق دی۔

رمضان کے روزے ہمارا امتحان ہیں اورانھیں رکھنے کی توفیق اللہ کے اذن سے ہوتی ہے۔ اس رمضان میں گرمی کی شدت کچھ زیادہ ہی ہے۔ خاص کر کراچی میں سورج آج کل آگ برسا رہا ہے اور وہاں کے افراد اتنی گرمی کے عادی نہیں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گرمی کی شدت سے کم و بیش 150 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔۔ جن بھائیوں اور بہنوں کو کراچی میں اِس رمضان میں بھی روزہ رکھنے کی توفیق ہورہی ہے تو اِسے آزمائیش اور اللہ کی منشاء سمجھ کر صبر شکر سے برداشت کیجئے۔ کیونکہ جتنی بڑی آزمائش ہے اتنا برا انعام۔۔۔

[poll id="498"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں