سال گرہ مبارک
افواج پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کو ضرب عضب کی سالگرہ مبارک۔
WASHINGTON:
افواج پاکستان کو ہی نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کو ضرب عضب کی سالگرہ مبارک۔ اس ملٹری آپریشن کا آغاز انتہائی نامساعد اور پریشان کن حالات میں گزشتہ سال 15 جون کو کیا گیا تھا۔ اس وقت بعض حلقوں کا خیال تھا کہ ایسا نہ کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ مگر جب گھی سیدھی انگلیوں سے نکالنا ممکن نہ رہے تو پھر ٹیڑھی انگلیوں سے ہی نکالنا پڑتا ہے۔بہ الفاظ دیگر ''تنگ آمد بہ جنگ آمد۔''
بلاشبہ ہماری افواج جذبہ حب الوطنی سے سرتا پا سرشار ہیں۔ ان کا عزم چٹان کی طرح غیر متزلزل اور حوصلہ کوہ گراں کی طرح بلند ہے۔ وہ جب کسی ہدف کو حاصل کرنے کی ٹھان لیتی ہیں تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کا راستہ روکنے کی جرأت نہیں کرسکتی۔ ان کا اس بات پر پختہ اور کامل یقین ہے کہ:
مشکلے نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہر اساں نہ شود
حسب روایت اور توقع کے عین مطابق آپریشن ضرب عضب کے معاملے میں بھی صد فیصد یہی ہوا۔ باد مخالف نے بڑا زور لگایا مگر ہماری بہادر اور جاں باز فوج کے پائے استقامت میں ذرا سی بھی لغزش آنا تو کجا اس کے حوصلے بلند سے بلند تر ہوتے چلے گئے۔ یہ ایک فطری امر تھا کیونکہ ہماری فوج کو یہ سبق پڑھایا گیا ہے کہ:
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
چناں چہ ایک سال کے عرصے میں ہماری مسلح افواج نے وطن عزیز کے سیکیورٹی منظر نامے کو حیرت انگیز طور پر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے جس کی واضح شہادت ہمیں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی کے مثبت اعداد و شمار کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ایک سال کی اس مختصر مدت میں ایک جانب تو ہماری فوج نے بہت سے علاقے دہشت گردوں کے پنجہ ستم سے واگزرا کرائے ہیں اور دوسری جانب مختلف دہشت گرد گروہوں کے پاؤں اس بری طرح اکھاڑ دیے ہیں کہ وہ اب راہ فرار اختیارکرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور ان پر نہ صرف زمین تنگ ہوگئی ہے بلکہ عرصہ حیات ہی تنگ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔
تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے اور مطمئن ہوکر بالکل آرام سے بیٹھ جائیے۔ نہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ اصل صورتحال اس کے برعکس کچھ یوں ہے:
دشمن ہیں ہزاروں یہاں جان کے
ذرا ملنا نظر پہچان کے
ضرب عضب کے آغاز کے بعد بہت سے دیگر عوامل بھی ابھرکر سامنے آچکے ہیں جن کی جانب فوری اور بھرپورتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ نئے عوامل ازسر نو جائزہ لینے اور نئی حکمت عملی اختیار کرنے کے متقاضی ہیں ورنہ تو ضرب عضب سے حاصل ہونے والے فوائد اورکامیابیوں کے ہاتھوں سے نکل جانے کا اندیشہ لاحق ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ سال 2015-16 کو نیشنل ایکشن پلان (NAP)پر مکمل عملدرآمد کا سال قرار دے دیا جائے۔
حکومت کو بھی اس بات کا اندازہ ہوچلا ہے کہ نیپ (NAP)پر عملدرآمد کے حوالے سے عوام الناس میں بڑے پیمانے پر عدم اطمینان کا احساس پایا جاتا ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ نیپ (NAP)کے بیس نکات کا اسکوپ بہت وسیع ہے۔
البتہ ان نکات پر عملدرآمد کی راہ میں بعض رکاوٹیں ضرور حائل ہیں۔ لیکن ان رکاوٹوں میں سے زیادہ تر رکاوٹیں اداراتی نوعیت کی ہیں جس میں سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیوں میں مناسب رابطے کا فقدان بھی شامل ہے۔ سیاسی عزم کا فقدان بھی ایک اور اہم سبب ہے ایک انتہائی تلخ لیکن کھری بات یہ بھی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے عملاً اپنی ذمے داری کو قبول کرنے کا ابھی تک کوئی ثبوت ہی پیش نہیں کیا ہے۔
محض باتیں ہیں یا الفاظ کی ہیرا پھیری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ National Counter Terrorism Authority ابھی تک مکمل طور پر فنکشنل نہیں ہوسکی۔ ادھر سویلین ادارے ابھی تک داخلی سیکیورٹی پالیسی کا موثر حصہ بننے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگرچہ ضرب عضب، خیبر اول اور دوم ملٹری آپریشنز پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہیں لیکن اس کے باوجود بعض دہشت گرد فاٹا کے آپریشن سے متاثرہ علاقوں میں اپنی اکا دکا کارروائیاں کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ دہشت گردوں کے کچھ نہ کچھ ٹھکانے ابھی تک کچھ علاقوں میں موجود ہیں۔
بلوچستان کی سیکیورٹی بھی ڈھیلی پڑتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے جہاں دہشت گردی اور فرقہ وارانہ وارداتوں میں اضافہ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کی اس رائے سے ہمیں بھی اتفاق ہے کہ مستونگ میں حالیہ ہلاکتوں کے پس پشت باغیوں کا ایک مقصد یہ پیغام دینا بھی تھا کہ بلوچستان پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
یہ بات تو اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ پاک چائنا اکنامک کوریڈور کن بیرونی قوتوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر چبھ رہا ہے۔ یہی قوتیں بلوچستان میں غیر بلوچ ورکرز کا قتل عام کرانے میں بھی ملوث ہیں اور ان ہی کی سازش یہ بھی ہے کہ بلوچستان کے بلوچ اور پشتون بھائیوں کو آپس میں لڑوایا جائے جو ایک مدت دراز سے یک جان دو قالب کی صورت میں اس صوبے میں پیار و محبت کے ساتھ اپنی زندگیوں کے بہترین دن گزار رہے ہیں۔ ہم اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں بلوچستان کے بلوچوں اور پختونوں میں بڑی محبت اور بہت بھائی چارہ ہے اور دونوں باہم شیر و شکر ہیں۔
ادھر صوبہ پنجاب میں بھی فرقہ وارانہ ہلاکتوں کی صورت میں وقتاً فوقتاً دہشت گردی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دہشت گرد وہاں بھی سرگرم عمل ہیں اور ان کے کچھ نہ کچھ ٹھکانے وہاں بھی موجود ہیں۔
پاکستانی فوج جولائی کے وسط میں آپریشن ضرب عضب کے اختتامی مرحلے کی تیاریوں میں مصروف ہے جس کا بنیادی مقصد افغانستان سے ملحقہ سرحد پر دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنا ہے۔ فوجی ذرایع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس شروع کیے جانے والے آپریشن ضرب عضب کے دوران 2,763 دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے۔ تاہم اس آپریشن کے دوران ہماری فوج کے تین سو سے زائد جاں بازوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ایک ملین سے زیادہ لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنا پڑے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ضرب عضب کے ایک سال کو فتح کا سال قرار دیا ہے جب کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس موقعے پر پاکستانی قوم اور پاک فوج کو مبارکباد پیش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضرب عضب دہشت گردی کی لعنت کو ملک بھر سے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم صمیم کی علامت ہے۔ انھوں نے کہا کہ پوری قوم ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی شکر گزار ہے جنھوں نے دہشت گردی کے خاتمے کی خاطر اپنے بیٹوں، بھائیوں اور شوہروں کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ قوم ان قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔