زرعی خوشحالی
کئی غیر معیاری پیسٹی سائیڈز سر بازار فروخت ہورہی ہیں۔
سندھ میں خصوصاً اورملک میں عموماً یہ تاثر پایا جاتاہے کہ مسلم لیگ (ن) حکومت کی پالیسیاں ہمیشہ کسان اور زراعت دشمن ہوتی ہیں۔چاہے پنجاب اوربلوچستان میں ٹیوب ویلز فلیٹ ریٹ پر دیے جائیں یا زرعی آلات کی درآمد میں ڈیوٹی بظاہرکم کی جائے ، لیکن خلق خدا کو ان اعدادوشمار سے غرض نہیں۔وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ روزبروز کھاد مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔یوریا 1900 تو ڈی اے پی3700 فی بوری تک بیچا جارہاہے۔
کئی غیر معیاری پیسٹی سائیڈز سر بازار فروخت ہورہی ہیں۔بیجوں کی بات ہی کچھ اور ہے اور جب گندم اور پھٹی کے بھائو دیکھتے ہیں تو کسان خود کشی کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔یہی تاثر سرکاری ملازمین میں بھی پایا جاتا ہے ۔میں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کو ایک طرف دیکھ کر جب زمینی حقائق دیکھتا ہوں تو مجھے کافی حد تک یہ تاثر درست لگتاہے،کیونکہ میں خود بھی تو اس کلاس سے تعلق رکھتا ہوں۔
ان سارے تحفظات کے باوجود میں جب سندھ کی زرخیز پٹی نوابشاہ سے لے کر ٹنڈوالہیار تک دیکھتاہوں تو مجھے ہر طرف سبز چادردکھائی دیتی ہے۔آموں،امرودوں، فالسوں کے بڑے بڑے باغات ہری بھری لہلہاتی فصلیں۔ ان کے درمیان عالیشان بلڈنگیں بقول لطیف سائیں'' میرا ملک ملیر، قیدوبند میں کیسے گذاروں! ملیرکا مطلب بھی ہرا بھرا علاقہ ہوتا ہے۔اسی خطے سے دریائے سندھ کی تاریخ کے کئی عکس پرانے بہائو کی شکل میں آپ کو ملیں گے اور ان کے کنارے کئی تاریخی مقامات بھی۔
اس پٹی کے مشرق میں ضلع سانگھڑ ہے ۔کہاجاتا ہے کہ کپاس کی پیداوارمیںیہ ضلع ملک میں ہر سال پہلے یادوسرے نمبر پر آتا ہے۔اس کے ساتھ مظفرگڑھ یا رحیم یارخان اضلاع بھی اسی دوڑ میں شریک ہوتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں سانگھڑ کایہ علاقہ دریائے سندھ کے مغربی اورمشرقی بہائوکے درمیان والا علاقہ رہا ہے، جس کی زمینیں دو سو برس سے اسی دریائی سسٹم کے تحت آباد ہوتی آئی ہیں۔
ان ہی دریائی بہائو پر موجود قدیم شہر برہمن آباد کے آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں،جسے ایک برہمن راجہ نے 4 صدی عیسوی میں آبادکیا اور 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا ۔ مسلمانوں کی فتح کے بعد یہ شہر امیہ دور میں دو عرمیں المضورۃ کہلوایا۔ عربوں کے بعد 1020 میں سلطان محمود غزنوی نے یہاں اپنا نیا حاکم مقررکیا ۔یوں وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہر بھی دریا کی لہرو ں یا زلزلے کے جھٹکوں کی نذر ہوگیا جب کہ قابض حکمرانوں نے بھی اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔اس سانگھڑ کا ایک اور تاریخی مقام مکھی جھیل اور جنگل، جہاں سے کسی دور میں مچھلی اور شہد تحائف کے طور پر بھیجے جاتے تھے۔ اس ضلع کا مشرقی علاقہ صحرا ہے، جہاں کے لوگوں کا گذر بسر مال مویشیوں پر ہوتا ہے ۔
سنا ہے کہ محکمہ موسمیات نے اس بارکم بارشوں کی پیشگوئی کی ہے ، جس کی وجہ سے اس صحرا میں خشک سالی کا خطرہ ہے، جہاںمال مویشی چرند پرند اورانسانوں کی زندگیاں بھی دائو پر لگ سکتی ہیں ، ہجرت کا خطرہ محسوس رہا ہے ۔اسی سے کئی انسانی المیات جنم لے سکتے ہیں ۔بقول شیخ ایاز ' جہاںآگ کا پودا تپتا ہوگرم لو لگتی ہو وہ یہی میرا مسافر دیس ہے۔' سانگھڑ ضلع کے دیہی علاقے سندھ کے دوسرے دیہی علاقوں کی بہ نسبت سرسبز شاداب اور خوشحال نظرآئیں گے۔
سانگھڑ کے لوگ اب دبئی،لندن سے لے کر آسٹریلیا تک اپنے کاروبارکا نیٹ ورک پھیلاچکے ہیں۔ اور یہ کوئی شہری لوگ نہیںبلکہ اسی دیہات کی پیداوار ہیں۔میں نے پورا سندھ دیکھا ہے لیکن آپ کو وہاں کے اکثر دیہات جھونپڑیوں،کانٹوں کی باڑوں میںقید بے ترتیب زندگی نظر آئے گی۔ یہاں کے دیہی علاقوں کے اکثر لوگ خوش وخرم نظر آئیں گے۔
بڑے بڑے گھر، اوطاقیں ،جدید سہولتوں سے آراستہ ،جدید قسم کی شاندار گاڑیاں، مال مویشیوں کے انبار نظر آئیں گے، جس سے ایسے محسوس ہو گا کہ یہ علاقہ سندھ کے باقی دیہی علاقوں سے زیادہ خوشحال ہے اور اس کی ایک ہی وجہ ہے زرعی خوشحالی۔ یہاں کپاس اورگندم کے بمپر فصل اترتی ہیں ،نارا کا زرخیز پانی بھی اسی مٹی میں زرخیزی لاتا ہے۔جس کے پشتوں سے متصل زمین کی تو کیا بات ہے چھوٹی بڑی جھاڑیوں کے باوجود شاندار فصل۔اس لیے اس علاقے کے کئی زمیندار'' نارا کے نواب'' بھی کہلاتے تھے ۔حال ہی میں کسی دوست نے مجھے اس موضوع پر کتاب بھیجی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کیسے آرام کی زندگی گذارتے تھے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس علاقے میں سماجی طور پر زمیندارکی زیادہ عزت کی جاتی ہے،بلکہ آج تک کئی جاگیردار فیملیز خانصاحب اور خان بہادر کہلانے پر فخر محسوس کرتی ہیں ۔ جس سے مراد ان کے یہ انگریزوں کے القا بات نہیں بلکہ جدی پشتی زمیندار ہونا ہے ۔اب جب آہستہ آہستہ انسانی آبادی بڑھ رہی ہے تعلیم اور صحت کی جدید سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ شہروں کی طرف ہجرت کرنے لگے ہیں ۔تو ان کی اوطاقوں کا وہ رومانس بھی نہیں رہا ۔البتہ علامتی طور پر ابھی ایسی عمارات قائم دائم ہیں۔
جب کہ غریب لوگ زراعت اور زرعی صنعت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان ہی سرسبز فصلوں کے محتاج ہیں۔ان کا اور ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی اسی زراعت سے وابستہ ہے۔ اس لیے میری وقت کے حکمرانوں سے گذارش ہے کہ اسی زرعی خوشحالی کو مزید خوشحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔نہ کہ ایسے علاقوں میں بدحالی لانے کو ترجیح دیں۔ یہ زرخیز زمینیں ہیں جس سے انسانی پیٹ بھر تاہے ۔ جس سے انسانی زندگی متحرک ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے آپ کی ٹیکسٹائل ملز چلتی ہیں ،اوران میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی کا پہیہ، جس سے کپڑے کی صنعت کو فروغ ملتا ہے۔ ویسے بھی کسی سیانے نے کہا ہے کہ ''دیسی یارکرنے چاہیے نہ کے پردیسی '' سمجھنے والے کو اشارہ کافی ہوتا ہے ، ورنہ یہ لوگ نہ رہے تو آپ بھی نہ رہیں گے۔
کئی غیر معیاری پیسٹی سائیڈز سر بازار فروخت ہورہی ہیں۔بیجوں کی بات ہی کچھ اور ہے اور جب گندم اور پھٹی کے بھائو دیکھتے ہیں تو کسان خود کشی کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔یہی تاثر سرکاری ملازمین میں بھی پایا جاتا ہے ۔میں اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کو ایک طرف دیکھ کر جب زمینی حقائق دیکھتا ہوں تو مجھے کافی حد تک یہ تاثر درست لگتاہے،کیونکہ میں خود بھی تو اس کلاس سے تعلق رکھتا ہوں۔
ان سارے تحفظات کے باوجود میں جب سندھ کی زرخیز پٹی نوابشاہ سے لے کر ٹنڈوالہیار تک دیکھتاہوں تو مجھے ہر طرف سبز چادردکھائی دیتی ہے۔آموں،امرودوں، فالسوں کے بڑے بڑے باغات ہری بھری لہلہاتی فصلیں۔ ان کے درمیان عالیشان بلڈنگیں بقول لطیف سائیں'' میرا ملک ملیر، قیدوبند میں کیسے گذاروں! ملیرکا مطلب بھی ہرا بھرا علاقہ ہوتا ہے۔اسی خطے سے دریائے سندھ کی تاریخ کے کئی عکس پرانے بہائو کی شکل میں آپ کو ملیں گے اور ان کے کنارے کئی تاریخی مقامات بھی۔
اس پٹی کے مشرق میں ضلع سانگھڑ ہے ۔کہاجاتا ہے کہ کپاس کی پیداوارمیںیہ ضلع ملک میں ہر سال پہلے یادوسرے نمبر پر آتا ہے۔اس کے ساتھ مظفرگڑھ یا رحیم یارخان اضلاع بھی اسی دوڑ میں شریک ہوتے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں میں سانگھڑ کایہ علاقہ دریائے سندھ کے مغربی اورمشرقی بہائوکے درمیان والا علاقہ رہا ہے، جس کی زمینیں دو سو برس سے اسی دریائی سسٹم کے تحت آباد ہوتی آئی ہیں۔
ان ہی دریائی بہائو پر موجود قدیم شہر برہمن آباد کے آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں،جسے ایک برہمن راجہ نے 4 صدی عیسوی میں آبادکیا اور 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا ۔ مسلمانوں کی فتح کے بعد یہ شہر امیہ دور میں دو عرمیں المضورۃ کہلوایا۔ عربوں کے بعد 1020 میں سلطان محمود غزنوی نے یہاں اپنا نیا حاکم مقررکیا ۔یوں وقت کے ساتھ ساتھ یہ شہر بھی دریا کی لہرو ں یا زلزلے کے جھٹکوں کی نذر ہوگیا جب کہ قابض حکمرانوں نے بھی اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔اس سانگھڑ کا ایک اور تاریخی مقام مکھی جھیل اور جنگل، جہاں سے کسی دور میں مچھلی اور شہد تحائف کے طور پر بھیجے جاتے تھے۔ اس ضلع کا مشرقی علاقہ صحرا ہے، جہاں کے لوگوں کا گذر بسر مال مویشیوں پر ہوتا ہے ۔
سنا ہے کہ محکمہ موسمیات نے اس بارکم بارشوں کی پیشگوئی کی ہے ، جس کی وجہ سے اس صحرا میں خشک سالی کا خطرہ ہے، جہاںمال مویشی چرند پرند اورانسانوں کی زندگیاں بھی دائو پر لگ سکتی ہیں ، ہجرت کا خطرہ محسوس رہا ہے ۔اسی سے کئی انسانی المیات جنم لے سکتے ہیں ۔بقول شیخ ایاز ' جہاںآگ کا پودا تپتا ہوگرم لو لگتی ہو وہ یہی میرا مسافر دیس ہے۔' سانگھڑ ضلع کے دیہی علاقے سندھ کے دوسرے دیہی علاقوں کی بہ نسبت سرسبز شاداب اور خوشحال نظرآئیں گے۔
سانگھڑ کے لوگ اب دبئی،لندن سے لے کر آسٹریلیا تک اپنے کاروبارکا نیٹ ورک پھیلاچکے ہیں۔ اور یہ کوئی شہری لوگ نہیںبلکہ اسی دیہات کی پیداوار ہیں۔میں نے پورا سندھ دیکھا ہے لیکن آپ کو وہاں کے اکثر دیہات جھونپڑیوں،کانٹوں کی باڑوں میںقید بے ترتیب زندگی نظر آئے گی۔ یہاں کے دیہی علاقوں کے اکثر لوگ خوش وخرم نظر آئیں گے۔
بڑے بڑے گھر، اوطاقیں ،جدید سہولتوں سے آراستہ ،جدید قسم کی شاندار گاڑیاں، مال مویشیوں کے انبار نظر آئیں گے، جس سے ایسے محسوس ہو گا کہ یہ علاقہ سندھ کے باقی دیہی علاقوں سے زیادہ خوشحال ہے اور اس کی ایک ہی وجہ ہے زرعی خوشحالی۔ یہاں کپاس اورگندم کے بمپر فصل اترتی ہیں ،نارا کا زرخیز پانی بھی اسی مٹی میں زرخیزی لاتا ہے۔جس کے پشتوں سے متصل زمین کی تو کیا بات ہے چھوٹی بڑی جھاڑیوں کے باوجود شاندار فصل۔اس لیے اس علاقے کے کئی زمیندار'' نارا کے نواب'' بھی کہلاتے تھے ۔حال ہی میں کسی دوست نے مجھے اس موضوع پر کتاب بھیجی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کیسے آرام کی زندگی گذارتے تھے ۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس علاقے میں سماجی طور پر زمیندارکی زیادہ عزت کی جاتی ہے،بلکہ آج تک کئی جاگیردار فیملیز خانصاحب اور خان بہادر کہلانے پر فخر محسوس کرتی ہیں ۔ جس سے مراد ان کے یہ انگریزوں کے القا بات نہیں بلکہ جدی پشتی زمیندار ہونا ہے ۔اب جب آہستہ آہستہ انسانی آبادی بڑھ رہی ہے تعلیم اور صحت کی جدید سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ شہروں کی طرف ہجرت کرنے لگے ہیں ۔تو ان کی اوطاقوں کا وہ رومانس بھی نہیں رہا ۔البتہ علامتی طور پر ابھی ایسی عمارات قائم دائم ہیں۔
جب کہ غریب لوگ زراعت اور زرعی صنعت سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان ہی سرسبز فصلوں کے محتاج ہیں۔ان کا اور ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی اسی زراعت سے وابستہ ہے۔ اس لیے میری وقت کے حکمرانوں سے گذارش ہے کہ اسی زرعی خوشحالی کو مزید خوشحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔نہ کہ ایسے علاقوں میں بدحالی لانے کو ترجیح دیں۔ یہ زرخیز زمینیں ہیں جس سے انسانی پیٹ بھر تاہے ۔ جس سے انسانی زندگی متحرک ہوتی ہیں، جن کی وجہ سے آپ کی ٹیکسٹائل ملز چلتی ہیں ،اوران میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی کا پہیہ، جس سے کپڑے کی صنعت کو فروغ ملتا ہے۔ ویسے بھی کسی سیانے نے کہا ہے کہ ''دیسی یارکرنے چاہیے نہ کے پردیسی '' سمجھنے والے کو اشارہ کافی ہوتا ہے ، ورنہ یہ لوگ نہ رہے تو آپ بھی نہ رہیں گے۔