جرمنی میں سُرخ ٹریفک لائٹ 28 برس سے روشن
مرمت کی مد میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل میں سرخ کے ساتھ ساتھ سبز اور زرد بلبوں کی تبدیلی کا بھی ذکرہوتا ہے
گذشتہ 28 برسوں کے دوران جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ کمیونزم کا خاتمہ ہوا، جمہوریت پروان چڑھی اور شہر نے ایک نیا جنم لیا۔ مگر ایک چیز ویسی کی ویسی ہی رہی۔ ہم کسی عمارت یا یادگار کی بات نہیں کررہے بلکہ ہمارا اشارہ سُرخ ٹریفک لائٹ سے ہے جو 1987ء سے مسلسل روشن ہے۔
ٹریفک لائٹ دریائے ایلب کے جنوب میں چار مختلف سڑکوں کے سنگم پر واقع ہے۔ سگنل پر پہنچنے والے مسافر جو دائیں جانب Güntzustraße کے علاقے میں داخل ہونا چاہتے ہیں، وہ سگنل پر رُکے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں ، مگر جو لوگ سگنل کراس کرکےGerokstraße کی طرف جانا چاہیں انھیں طویل انتظار کرنا ہوگا۔ یہ انتظار تین عشرے تک بھی طویل ہوسکتا ہے!
سرخ شارہ اٹھائیس برس کے دوران کبھی سبز اشارے میں تبدیل نہیں ہوا۔ یہ کوئی اتفاق یا خرابی ہرگز نہیں ہے، بلکہ شہر کی انتظامیہ نے اسے ہمیشہ سرخ رکھنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
تین عشروں کے دوران ٹریفک لائٹ کی مرت پر ڈیڑھ لاکھ یورو کی رقم خرچ ہوچکی ہے۔ سگنل کی مرمت پر ہونے والے سالانہ اخراجات تقریباً 5500 یورو ہیں۔
ٹریفک لائٹ کا ہمیشہ سُرخ رہنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیشہ سُرخ رہنے والا اشارہ ٹریفک کو رواں رکھنے میں کیسے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی وضاحت دیتے ہوئے محکمہ ٹریفک کے ترجمان کہتے ہیں،'' اس سگنل کی تنصیب ' دی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹ ٹرانسپورٹیشن' کی تجاویز اور ہدایات کی روشنی میں عمل میں لائی گئی تھی۔
چوں کہ سبز اشارے کا مطلب ہوتا ہے کہ ٹریفک آگے بڑھنے کے لیے آزاد ہے تو ظاہر ہے کہ دیگر تمام اشارے سرخ ہونے چاہییں۔ سرخ اشارہ ٹریفک کو رکنے کی ہدایت کرتا ہے۔ سرخ اشارے پر رُکی ہوئی کوئی بھی گاڑی دائیں جانب مُڑ سکتی ہے اگر سرخ اشارے کے نیچے لگی ہوئی سبز بتّی روشن ہو جس پر سیاہ پس منظر میں تیر کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ دی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹ ٹرانسپورٹیشن کی تجاویز کی روشنی وضع کردہ ضوابط کے تحت سرخ لائٹ اور اس کے نیچے سبز بتی کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر قواعد و ضوابط کی تکمیل نہیں ہوگی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ مرمت کی مد میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل میں سرخ کے ساتھ ساتھ سبز اور زرد بلبوں کی تبدیلی کا بھی ذکر ہوتا ہے، جب کہ سبز اور زرد بلب سرے سے جلتے ہی نہیں ہیں۔
ٹریفک لائٹ دریائے ایلب کے جنوب میں چار مختلف سڑکوں کے سنگم پر واقع ہے۔ سگنل پر پہنچنے والے مسافر جو دائیں جانب Güntzustraße کے علاقے میں داخل ہونا چاہتے ہیں، وہ سگنل پر رُکے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں ، مگر جو لوگ سگنل کراس کرکےGerokstraße کی طرف جانا چاہیں انھیں طویل انتظار کرنا ہوگا۔ یہ انتظار تین عشرے تک بھی طویل ہوسکتا ہے!
سرخ شارہ اٹھائیس برس کے دوران کبھی سبز اشارے میں تبدیل نہیں ہوا۔ یہ کوئی اتفاق یا خرابی ہرگز نہیں ہے، بلکہ شہر کی انتظامیہ نے اسے ہمیشہ سرخ رکھنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
تین عشروں کے دوران ٹریفک لائٹ کی مرت پر ڈیڑھ لاکھ یورو کی رقم خرچ ہوچکی ہے۔ سگنل کی مرمت پر ہونے والے سالانہ اخراجات تقریباً 5500 یورو ہیں۔
ٹریفک لائٹ کا ہمیشہ سُرخ رہنا سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیشہ سُرخ رہنے والا اشارہ ٹریفک کو رواں رکھنے میں کیسے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی وضاحت دیتے ہوئے محکمہ ٹریفک کے ترجمان کہتے ہیں،'' اس سگنل کی تنصیب ' دی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹ ٹرانسپورٹیشن' کی تجاویز اور ہدایات کی روشنی میں عمل میں لائی گئی تھی۔
چوں کہ سبز اشارے کا مطلب ہوتا ہے کہ ٹریفک آگے بڑھنے کے لیے آزاد ہے تو ظاہر ہے کہ دیگر تمام اشارے سرخ ہونے چاہییں۔ سرخ اشارہ ٹریفک کو رکنے کی ہدایت کرتا ہے۔ سرخ اشارے پر رُکی ہوئی کوئی بھی گاڑی دائیں جانب مُڑ سکتی ہے اگر سرخ اشارے کے نیچے لگی ہوئی سبز بتّی روشن ہو جس پر سیاہ پس منظر میں تیر کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ دی ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹ ٹرانسپورٹیشن کی تجاویز کی روشنی وضع کردہ ضوابط کے تحت سرخ لائٹ اور اس کے نیچے سبز بتی کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے بغیر قواعد و ضوابط کی تکمیل نہیں ہوگی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ مرمت کی مد میں ہونے والے اخراجات کی تفصیل میں سرخ کے ساتھ ساتھ سبز اور زرد بلبوں کی تبدیلی کا بھی ذکر ہوتا ہے، جب کہ سبز اور زرد بلب سرے سے جلتے ہی نہیں ہیں۔