حکومت مالیاتی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز

بجٹ میں پارلیمانی کمیٹیوں وکاروباری حلقوں کی بیشتر تجاویز شامل نہ کرنے سے اہداف کا حصول دشوار ہوگا


Numainda Express June 23, 2015
تعلیم، صحت اور پانی کے امور سے متعلق وفاقی ترقیاتی اخراجات میں کمی ملکی سماجی اور اقتصادی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتی، دستاویز ۔ فوٹو : فائل

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)نے کہا ہے کہ اقتصادی پالیسیوں کو متوازن اور اقتصادی ترقی کے لیے سود مند بنانے کے لیے ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ اس ضمن میں آئی ایس پی کی جانب سے حکومت کے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کے بارے میں جاری کردہ جائزہ رپورٹ میں حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ آئندہ مالی سال کے لیے مالیاتی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے تاکہ انہیں متوازن، عملی اور ترقی کے لیے سودمند بنایا جا سکے۔

اعلامیے کے مطابق اس رپورٹ کوآئی پی ایس کی خصوصی ٹاسک فورس کی زیرنگرانی تیار کیا گیا ہے جو نامور ماہر اقتصادیات اور آئی پی ایس کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد، پاکستان کے سابق چیف اکانومسٹ فصیح الدین، سابق سیکریٹری وزارت پانی و بجلی مرزا حامد حسن، ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن، ماہر امورمحصولات ملک محمد عرفان اور آئی پی ایس کے لیڈ کوآرڈی نیٹر عرفان شہزاد پر مشتمل ہے۔

اعلامیے کے مطابق ماہرین کی رائے میں حکومت کے اس وعدے کے باوجود کہ بجٹ کی تشکیل میں دوسروں کی آرا کو بھی شامل کیا گیا ہے' عملی صورت یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹیوں اور کاروباری حلقوں کی طرف سے دی گئی بیشتر تجاویز کو آنے والے مالی سال کی منصوبہ بندی میں درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا جس کے نتیجے میں اہداف کا حصول دشوار ہو جائے گا۔

ماہرین کی رائے ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے کے لیے حکومتی پالیسی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس نظام کا انحصار بالواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں ہی رہے گا گویا لاکھوں نئے افراد کو ٹیکسوں کے نظام میں لانے سے اعتنا ہی برتا گیا ہے، حکومت کا قرضوں پر انحصار تجزیہ کاروں کے لیے کھلی کتاب کی مانند ہے۔

انہیں یقین ہے کہ 2015-16 کے دوران قرضوں کا یہ بوجھ مزید 1کھرب روپے سے زائد بڑھ جائے گا، بجٹ میں توانائی کے شعبے بالخصوص پن بجلی کے منصوبوں پر توجہ ان پہلووں میں سے ایک ہے جن کی رپورٹ میں تعریف کی گئی ہے تاہم گردشی قرضے کے معاملے میں کسی واضح حکمت عملی کی کمی کو تشویشناک قرار دیا گیا ہے، اسی طرح اس دستاویز میں تیل اور گیس کے شعبے پر غفلت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

رپورٹ میں شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کے لیے بلاسود قرضوں کی فراہمی اور ایگری کریڈٹ کے اقدامات کو سراہا گیا ہے تاہم اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ زرعی شعبے میں پیداواری لاگت میں کمی اور اضافی قدر کی جانب پیش قدمی کے پہلوئوں کو متعارف کراتے ہوئے اسے اہمیت کا حامل شعبہ بنانے میں مناسب توجہ کی اب بھی کمی ہے۔ دستاویز کے مطابق برآمدات کے لیے زیادہ توجہ ٹیکسٹائل کے شعبے کو دی گئی ہے جس کے نتیجے میں دیگر برآمدات بالخصوص غیرروایتی اشیا نظرانداز ہو گئی ہیں۔

رپورٹ میں ایس آروز میں کمی کے ثانوی مرحلے کو خوش آئند قرار دیا گیا ہے تاہم یہ تجویز دی گئی ہے کہ تمام امتیازی ایس آر اوز اور استثنیٰ جلد سے جلد ختم ہونے چاہیئں، اس پر تجویز دی گئی ہے کہ اضافی گرانٹس فراہم کرنے کی مشق فوری طور پر بند کی جائے اور اسے پارلیمنٹ سے منظوری کے ساتھ مشروط کیا جائے کیونکہ یہ پہلے ہی گزشتہ سال کی نسبت تقریباً دگنا ہو کر 200 ارب روپے پر پہنچ چکی ہے۔ بجٹ کے اس تجزیے میں وفاقی ترقیاتی اخراجات میں اضافے کو وقت کی ضرورت قرار دیا گیا ہے لیکن اس کے تعین کا طریقہ کار کو سوالیہ نشان قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پی ایس ڈی پی منصوبوں کی تعداد1500کے قریب ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر منصوبے کے لیے مختص رقم کی تعداد بہت کم ہو گی۔ رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پی ایس ڈی پی کا جامع تجزیہ کیا جائے تاکہ اس بات کا تعین ہو سکے کہ کون سے منصوبے فائدہ مند ثابت نہیں ہو رہے اور اس کے بعد ترجیحات کو اس کے مطابق طے کیا جائے۔

دستاویز کے مطابق تعلیم، صحت اور پانی کے امور سے متعلق وفاقی ترقیاتی اخراجات میں کمی ملکی سماجی اور اقتصادی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ رپورٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر بھی تنقید کی گئی ہے جس کے ذریعے ماہانہ انتہائی کم ادائیگیوں کے ذریعے قوم کو معاشی طور پر فعال کرنے اور اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے بجائے دست گر ہونے کے مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ اس نکتہ نظر کو ازسرنو پرکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے غریب طبقے کو تعمیراتی عمل میں شریک کیا جا سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں