قوم کے خادم قوم کے محسن

سرکاری ملازمین خود کو عوام کا خادم سمجھتے ہوئے اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے انجام دیں۔


جب تک اس استحصالی اور فرسودہ نظام کو ختم نہیں کیا جاتا اُس وقت تک عوام کے مفادات اور اُن کی ترقی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ فوٹو: فائل

سرکاری ملازمت ہر فرد کا دلی ارمان ہوتا ہے۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ اُسے سرکار کی نوکری ملے، وجہ یہ نہیں کہ عوام کی خدمت کریں، بلکہ اِس کے درپردہ وہ سہولیات ہیں جو حکومت ملازمین کو دیتی ہے، ہر سال تنخواہوں میں اضافہ، علاج معالجے کی مفت سہولیات، بروقت تنخواہیں اور مدت ملازمت پوری ہونے پر پنشن کا حصول۔ اکبر الہ آبادی اِس حوالے سے فرمایا؎
کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مرگئے

اور اسی شعر کے مصداق سرکاری ملازمت صرف اپنی زندگی کی بیمہ پالیسی کا نام ہے۔ ہونا بھی چاہئے کہ عوام کو ملازمت دینا حکومت کا اولین فرض ہے، شہری کو ضروریات زندگی کی بروقت فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں پبلک سروس (سرکاری ملازمین کی عوامی خدمت) کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اِس دن کے منانے کا مقصد اچھی طرزِ حکمرانی اور ترقی کے عمل میں سرکاری ملازمین کے کردار کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ سرکاری نظام میں سرکاری ملازمین بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔اُن کی دلچسپی اور ایمانداری سے سرکاری دفاتر میں بہتر ماحول بنتا ہے۔ جسم میں جیسے شیریان کی اہمیت ہے اْسی طرح سرکاری نظام بھی سرکاری ملازمین کی بڑی اہمیت ہے۔

آج کے اس دور میں اداروں میں ملازمین کی سخت محنت اور دلچسپی ہی ادارہ کی کامیابی کی ضامن ہوتی ہیں۔ ملک کی ترقی میں سرکاری ملازمین کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نظام ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سرکاری ملازمین اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھتے ہوئے اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے انجام دیں اور ملک و ریاست کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ سرکاری نظام میں کتنے ملازمین آئے اور اپنی خدمات انجام دے کر ریٹائرڈ ہوگئے۔

میں چاہ رہا ہوں کہ لکھوں ان لاکھوں نوجوانوں کے لئے جو ڈگریاں اٹھائے سرکاری نوکریوں کے حصول کے لئے دفاتر میں ذلیل و خوار ہو رہے ہوتے ہیں، میرا من کہہ رہا ہے کہ لکھوں سرکاری دفاتر میں آرام طلب کرسیوں پر بیٹھ کر عوام کو خوار کرنے والے ان احباب کے نام لکھوں جو عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر دفاتر میں ذلیل کرواتے ہیں اور تحریر کروں پاکستان کے ان سرکاری ملازمین کے نام جو مٹھی گرم ہونے سے پہلے کسی غریب کا کام نہیں کرتے۔ لیکن ان میں سے کسی موضوع پر لکھنے سے پہلے میری اپنے احباب پر نظر پڑھتی ہے اور پھر میرا قلم رک جاتا ہے اور کیوں نہ رکے کہ میرے سامنے میرے درجنوں دوست ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود سفارش اور مٹھی گرم کرنے کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تاحال بیروزگار ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر میں اُن کے بارے میں لکھوں گا تو میرے اُن دوستوں اور احباب کی حق تلفی ہوگی جو رشوت اور سفارش کا پل باندھ کر سرکاری نوکر بنے ہیں۔



میں کیوں لکھوں گا اپنے ان عزیوں کے بارے میں جو میرے سامنے عوام کو ذلیل خوار کر رہے ہوتے ہیں اور ہاں مجھے نہیں لکھنا اپنے ان دوستوں اور رشتہ داروں کے نام بھی جو ہزاروں غریبوں کا خون نچوڑ کر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے ہوتے ہیں۔ بس یہی وجہ ہے کہ میں نے سوچا کہ آج صرف سرکاری ملازمین کی شان میں قصیدہ گوئی کروں گا۔ لیکن وہ وعدے جو ہم نے صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران کئے تھے، جو دعوے اپنے والدین کے سامنے کئے تھے ان کی پاسداری بھی تو کرنا لازمی ہے۔ کیا اچھی طرزِ حکمرانی اور ترقی کے عمل میں سرکاری ملازمین اپنا کردار ادا کررہے ہیں؟ کیا محکمہ پولیس کی کارکردگی ہمارے لئے سوالیہ نشان نہیں؟ کیا ملکی ترقی میں ایک چوکیدار سے اعلیٰ عہدے پر براجمان بیورو کریٹ تک اپنے فرائض بہ احسن سرانجام دے رہے ہیں؟ میں شعبہ تعلیم کی جانب نظریں دوڑاتا ہوں تو ایک سرکاری اسکول کا معلم 30 ہزار سے زائد تنخواہ وصول کرکے اپنے نتائج درست دے رہا ہے؟ کیا دوسری جانب نجی اسکول میں 1500 روپے سے 10 ہزار تک تنخواہ لینے والا استاد سرکاری استاد سے بہتر کارکردگی نہیں دکھا رہا؟ کیا ہمارے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر ہسپتال میں کم اور اپنے نجی کلینک پر زیادہ وقت صرف نہیں کرتے؟ ہمارے پروفیسر کالجز میں وقت دینے کے بجائے اپنی اکیڈمیاں بنا کر تعلیم کا کاروبار نہیں کر رہے؟ میں کسی پر الزام تراشی نہیں کر رہا، آپ اپنے اردگرد نگاہیں دوڑائیں تو ہر سرکاری محکمہ کرپشن، بدعنوانی اور اقربا پروری سے بھرا ملے گا اور اس اس سے بالکل واضح ہے کہ محکمے افراد سے بنتے ہیں اور سرکاری محکموں میں کام کرنے والے افراد حکومت کے ملازم ہوتے ہیں۔

عوام اپنی جیبوں سے ٹیکس بھر کر ان کی سہولیات کے لئے رقوم دیتے ہیں، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ ملازمین قوم کے خادم ہوتےلیکن وہ قوم کا خون نچوڑنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے ضائع نہیں ہونے دیتے۔ پاکستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ سطح سے کبھی بھی اِس کے خاتمہ کے سلسلے میں کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ ملک پر مخصوص طبقات کی حکمرانی ہے جن کے اثاثے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جس قومی دولت نے عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی و خوشحالی کے لئے صرف ہونا ہے، اُس کا خطیر حصہ ان مخصوص طبقات کی مراعات وہ ان کے مفادات کی نذر ہوجاتا ہے۔ لیکن ان محکموں کی نگرانی اور ان کا احتساب حکومت کی ذمہ داری ہے، کیوںکہ اگر حکمران ملک و قوم کے مفاد کے لئے کام کریں گے تو ہی دیگر محکمے درست سمت پر روانہ ہوں گے۔



 

سرکاری ملازمین ملک کا بہترین سرمایہ ہیں، اُن کی اصلاح اور نگرانی کے لئے موثر نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو موثر پالیسی سازی کے ذریعے ان مسائل کا حل نکالنا ہوگا جن کا اس وقت ملک کو سامنا ہے۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں نظام کو موثر بنانا ہوگا اور خود احتسابی کے ذریعے ان معاملات کا جائزہ لینا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو اِس حوالے سے نہ صرف موثر پالیسی بنانا ہوگی بلکہ اُس پر عمل درآمد بھی یقینی بنانا ہوگا۔ جمہوریت میں پارلیمنٹ اور سیاسی قائدین، عوام اور مملکت کے مفاد میں پالیسیاں وضع کرتے ہیں۔ مسائل کے حل کے سلسلے میں نظام کو موثر بنانے کی بات اُسی وقت کی جاسکتی ہے جب سیاسی قائدین اور حکومتوں کے ہاتھ صاف ہوں، لیکن جب وہ بدعنوانیوں سے آلودہ ہوں اور احتساب کے نظام کو دانستہ مضبوط نہ بنائیں تو ایسے میں عوام کے ساتھ کس طرح انصاف کیا جاسکتا ہے۔ جب تک اس استحصالی اور فرسودہ نظام کو ختم نہیں کیا جاتا اُس وقت تک عوام کے مفادات اور اُن کی ترقی کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔

آج اِس عالمی دن پر جہاں سرکاری ملازمین کے سینوں پر احسن کارکردگی کے تمغے سجائے جائیں گے وہیں ملک عزیز کے خادم اپنی گریبانوں میں جھانک کر ایک بار اللہ سے عہد کرلیں کہ اپنے فرض سے غداری نہیں کریں گے، اپنے ملک کی خدمت کو اپنا فرض عین جانیں گے اور اپنے اہل وطن کو رشوت، کرپشن، لوٹ مار اور اقرباء پروری کی لعنت سے پاک معاشرہ بنا کردیں گے اور یہ تبھی ممکن ہوگا جب سب سچے دل سے فرض نبھائیں گے۔

[poll id="500"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں