بیوگی بے بسی نہیں عزم و جرات کا سفر ہے

عورت کا تنہا رہنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ مرد کی نسبت عورت معاشرتی اور معاشی طور پر زیادہ کمزور ہوتی ہے۔


انعم احسن June 23, 2015
معاشرتی ناانصافی کے سبب بیشتر بیواؤں کو شوہر کی جائیداد سے بھی بے دخل کر دیا جاتا ہے۔ فوٹو:فائل

اقوام متحدہ نے ہر سال 23جون کو بیوائوں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ اِس اعلان کا مقصد بیوائوں کے حوالے سے عوام میں شعور اور آگہی فراہم کرنا ہے۔ اس کی ابتداء ایک این جی او نے کی جس کے مالک کی ماں اوائل جوانی میں بیوہ ہوگئی تھی اور اُس نے زمانے کی مصائب اور تکالیف برداشت کئے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایسی بیوائیں جن کے شوہر حکومتی ملازمتوں کے دوران انتقال کرجاتے ہیں، اُن کے لیے تو حکومتیں پنشن اور دیگر فنڈز کی مد میں مدد کرتی ہیں مگر جن کے شوہر نجی سیکٹر سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کی باقی کی زندگی گزارنے کے لیے کوئی ادارہ موثر طور کام نہیں کر رہا اور ایسی بیواؤں کی تعداد کثرت میں ہے کہ جو شوہر کے انتقال کے بعد نہایت مجبوری اور مایوسی کے عالم میں جی رہی ہیں۔



اِس دن کے منانے کا مقصد ایسی خواتین اور اُن کے بچوں کی فلاح بہبود کے لیے نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ عوامی سطح پر بھی ایسے ادارے قائم کرنا ہے جن کا مقصد ان بیواؤں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہو۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے بہت سے خطوں میں اب بھی بیوہ خواتین کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے، جب کہ زمانہ قدیم میں فرسودہ روایات کی پیروی کرتے ہوئے بیوہ عورت کو اُس کے مرے ہوئے شوہر کے ساتھ ہی زندہ جلا دیا جاتا یا زمین میں دفن کر دیا جاتا تھا۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ اس انسانیت سوز رسم کا خاتمہ ہوگیا۔ اسلام نے جہاں پر عام خواتین کے حقوق کی پاسداری کی وہاں بیواؤں سے اچھے سلوک کی تلقین کی۔ ہمارے معاشرہ میں جہاں بہت سی خامیاں ہیں ان میں سے ایک بیواؤں کے حوالے سے بھی کوئی مثبت تاثر کا نہ پایا جانا بھی شامل ہے۔اگر حقیقی نظر سے دیکھا جائے تو بیوہ کے بیشتر مسائل کا حل نکاح میں ہے، عورت کو قدم قدم پر مرد کی ضرورت پڑتی ہے، ایسی بیوائیں جن کے بچے ہوں ان کے بچوں کے تحفظ اور اچھی پرورش کے لیے دوسرا نکاح زحمت نہیں رحمت ہے۔ اگر بیوہ نکاح پر مائل نہ ہورہی ہو تب بھی سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ اسے مناسب طریقے سے راضی کریں۔

ہمارا معاشرہ ویسے تو کئی قسم کے مسائل سے دوچار ہے لیکن کچھ سماجی مسائل ایسے بھی ہیں جن کو حل کرنا ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔ان گو ناں گو مسائل میں بیوگی بھی شامل ہے، بیوہ ہونا کسی کے اختیار میں نہیں ہے لیکن معاشرتی اقدارکی کمزوریوں کے سبب قائم ہونے والا المیہ یہ ہے کہ شوہر کی موت کا ذمہ دار اسکی بیوہ کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ اکثر و بیشتر دیکھنے میں آیا ہے کہ بیوہ کے سسرال والے اس سے قطع تعلق کر لیتے ہیں۔ بیشتر بیواؤں کو شوہر کی جائیداد سے بھی بے دخل کر دیا جاتا ہے اور اگر وہ بے بس اور لاچار عدالت کا رجوع کرے تو اسے بے شمار ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے دل برداشتہ ہو کر وہ خود ہی پیچھے ہٹ جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں رہنے والے بے حس افراد ایک بیوہ کے دکھ کا اندازہ نہیں کرسکتے کیونکہ یہ دکھ اتنا گہرا ہوتا ہے کہ برداشت نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں لیکن معاشرے کی روش کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مرد اگر بیوی کی وفات کے بعد دوسری شادی کرلے تو ہم اس اقدام کو سراہتے ہیں، ہمارے نزدیک گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کیلئے دوسری شادی ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی بیوہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کرلے تو اُس کے اِس قدم کو اچھی نظروں نہیں دیکھا جاتا جبکہ درحقیقت اکیلی عورت کا تنہا رہنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ مرد کی نسبت عورت معاشرتی اور معاشی طور پر زیادہ کمزور ہوتی ہے۔ اسلام بیوہ عورت کے حقوق کا بہترین تحفظ کرتا ہے۔ عورت چاہے کنواری ہو یا بیوہ، اسلام نے اسے بے شمار حقوق دئیے ہیں خود آنحضورﷺ نے بیوہ خواتین سے نکاح کرکے مثالیں قائم کی ہیں اور آج وہی خواتین امت کی مائیں ہیں۔

اگر پاکستان میں بیوہ خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کئے گئے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو سوائے تاسف کے کچھ حاصل نہیں ہوگا،2008 میں خواتین کے لئے شروع کیا جانے والا فلاحی منصوبہ ''بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام'' خصوصی طور پر غریب و نادارخواتین کے فائدے کیلئےشروع کیا گیا تھا، اِس پروگرام کے تحت خواتین کس قدر مستفید ہو رہی ہیں اسکا اندازہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر کے باہرجائزہ لے کر کیا جاسکتا ہے۔ اِس پروگرام کے تحت اتنا فرق ضرور پڑا کہ بے بس اور لاچار غریب عورتوں میں خود اعتمادی، حوصلہ اور جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی عمومی نفسیات کو مسخ کرکے ہاتھ پھیلانے، خود ترسی، خود کو لاچار و بیکار سمجھ کر دوسروں پر انحصار کرنے کی نفسیات کو فروغ دیا گیا۔

پاکستان میں پائی جانے والی بیوہ خواتین ہمت وجرات اوراستقامت کا ایک پہاڑ ثابت ہوئی ہیں جہاں وہ معاشرے کے جبر سے لڑتی ہیں وہیں اولاد کی پرورش کے لئے بھی ہاتھ پیھلانے کے بجائے محنت کو ترجیح دیتی ہیں۔ اپنی ہمت، محنت اور حوصلے سے نہ صرف اپنے بچوں کی پرورش کی بلکہ انہیں اعلیٰ تعلیم بھی دلوائی۔ ان کی جدوجہد پاکستانی خواتین کے لئے تقلید کے قابل ہے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر ٹیکسی چلاتی زاہدہ کاظمی کی کہانی ہو یا کسی بھی تنگ و تاریک گلی میں رہائش پذیر لوگوں کے گھروں میں برتن دھو کر اپنے بچوں کا مستقبل تعمیر کرتی کوئی بیوہ ماں، یقیناً ہمارے معاشرے کی بلندی کی علامت ہیں جہاں عورت کو زر خرید نہیں بلکہ قابل عزت و احترام سمجھا جاتا ہے۔

[poll id="499"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں