’’پشین گو کو اینکر‘‘

ایک کلک پر پشین گو اینکر کا لیپ ٹاپ سامنے بیٹھی شخصیت کے متعلق کچا چھٹا ان کی سکرین پر ظاہر کر دیتا ہے۔


اس نے اپنے کام کو مزید جدید نہج دی، اپنا سارا علم لیپ ٹاپ میں بند کردیا اور پھر اُس کی محنت رنگ لائی اور اسے ٹی وی پروگرامز تک رسائی مل گئی۔ فوٹو: فائل

وہ بچپن سے ہی پی ٹی وی کے ہارر ڈرامے ''حقیقت'' کے کردار ''مقدس'' کی طرح تھی۔ ایویں خلاوں میں گھورتے رہنا اُس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اُس کا بچپن سے ہی دعوی تھا کہ چاند اس کے ساتھ بھاگتا ہے اور اُس کے ساتھ بھاگنے والے بچوں کا بھی یہی دعوی تھا لیکن اُس کے ہتھ چھٹ مشہوری کی وجہ سے بچے اِس دعوی سے دست برادر ہوجاتے تھے چونکہ اُس کے منہ میں جو کچھ آتا تھا وہ بنا سوچے، سمجھے کہہ دیتی تھی اس لئے بڑے بھی اس سے کنی کتراتے تھے۔

ایک روز جب صحن میں مرغی اس کو ٹھونگیں مارنے کے لئے دوڑ رہی تھی تو اس نے رک کر دور کھڑے ہو کر تماشہ دیکھتے ہوئے سینہ پھیلائے مرغی کو دیکھ کر یہی کہا تھا ''اللہ کرئے آج تیرا شوہر یہ مشٹنڈا مرغا مرجائے'' اور مرغے نے اس کی بد دعا کے جواب میں ایک لمبی بانگ سے اسے نوازا تھا جیسے کہہ رہا ہو میں کونسا بیمار ہوں۔ دوسرے دن اُس نے دیکھا کہ کہ مرغا اور مرغی تو اسی طرح صحن میں فخر سے پھر رہے ہیں البتہ ہمسائیوں کا مرغا ''تھانیدار'' رات کسی بلی کا شکار بن کر پسماندگان میں صرف اپنی وردی چھوڑ گیا ہے۔ یہ خبر گاوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی اور اِس واقعہ کے بعد خاص طور پر عورتیں اس کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل لیتی تھیں۔



اُسے بچپن سے ہی گڑیوں کی بجائے ہاتھ کی لکیروں سے کھیلنا ذیادہ پسند تھا، وہ اپنی صحن میں لگی ٹاہلی کے نیچے بیٹھ کر اپنے ہاتھ کی لکیروں جیسا جال کچی مٹی پر بناتی اور مٹاتی رہتی۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ کر اپنے ہاتھ کی لیکروں سے موازنہ کرتی۔ ہائی اسکول میں اسے کتابوں سے پتہ چلا کہ چاند، سورج کے علاوہ بھی نظام شمسی کے اور بھی سیارے ہیں، اُس کے علاوہ لامحدود کہکشاں ہیں، بیش بہا ستارے ہیں، پتھروں کی بہت سی اقسام ہیں، ہاتھ کی لیکروں کے علاوہ لوگوں کے چہروں میں بھی بہت کچھ چھپا ہوتا ہے جسے قیافہ شناسی کہتے ہیں۔

خالی پیریڈ میں اسکول کی لڑکیاں اپنی ہتھلیاں کھولے اس کے گرد اکٹھا ہوجاتیں اور جب وہ لیکروں، ستاروں، کہکشاوں اور دیگر علوم سے قیافہ کرکے اس کے کان میں معلومات انڈیلتی تو اُس کی اپنی کان کی لویں تک گرم محسوس ہوتیں۔ ہائی کلاس میں اس کی جانے والی کوئی پشین گوئی سچی ثابت نہیں ہوسکی تھی، صرف ایک کلاس فیلو کی شادی کی پشین گوئی کے جس کی پکی خبر اس کی والدہ نے دی تھی کہ بلو کی کی شادی تو چٹ منگنی پٹ بیاہ والی بات ہوئی اور یہ کہ اُس کی شادی کی تاریخ پکی کر دی گئی ہے۔ یہی خبر اُس نے اپنی کلاس میں پھیلائی تھی جو سو فی صد سچی ثابت ہوئی۔

کالج، یونیورسٹی تک پہنچتے ہوئے اُس کی پامسٹری اور قیافوں کی دنیا مزید وسیع ہوگئی۔ اُسے کتابوں اور رسائل تک رسائی حاصل ہوگئی جو کہ بطور خاص ان علوم سے متعلق تھے۔ وہ درباروں اور شاپنگ بازاروں سے حاصل کئے ہوئے مختلف پتھر، عقیق، سپیاں، گھونگے، مختلف سیاروں کی مٹی خواہش مند لڑکیوں میں ان کی خواہش کی بہتر حصول کے لئے بانٹنے لگی۔ کوئی ایک آدھ کام ہونے لگا اور باقی کے ناکام کام وہ اپنی چرب زبانی کے بل بوتے پر سو طرح کے نقص نکال کر وہ اپنا دامن صاف بچا جاتی۔

اسے ٹی وی پر بیٹھے ہوئے ''ماموؤں'' کو دیکھ کر بہت رشک آتا تھا، جو کبھی صبح اور کبھی رات کے اوقات میں عوام کو ''ماموں'' بناتے وہ خیالوں میں اپنے آپ کو ''ماموؤں'' کی صف میں بیٹھے ہوئے پاتی۔ پھر اُس نے اپنے کام کو مزید جدید نہج دی، اپنا سارا علم لیپ ٹاپ میں بند کردیا، اور پھر اُس کی محنت رنگ لائی اور اسے ٹی وی پروگرامز تک رسائی مل گئی چونکہ اسے مشہور شخصیات کے زائچہ پر بات کرنا ہوتی تھی اور ان کے زندگی کے بارے میں ساری معلومات گوگل سے حاصل ہوجاتی تھیں تو اس نے ٹی وی کے ایک پروگرام میں سابق صدر آصف زرداری کی شادی کے بارے میں پشین گوئی کی تھی کہ تین چار ماہ تک وہ شادی کرلیں گے، اُن کی یہ پشین گوئی تقریباً پانچ سال بعد مبینہ اطلاعات کے مطابق سچ ثابت ہوئی۔

بلاول اتنے ناراض اپنے والد سے نہیں جتنا وہ اس پشین گو اینکر سے ہیں جنہوں نے جوانی کی سرد ہوتی آگ کو دوبارہ حدت دکھائی ہے۔ اب وہ ایک طنزو مزاح کے مستقل پروگرام میں پشین گو اینکر کم ماڈل کے طور پر شامل ہوتی ہیں۔ ایک کلک پر ان کا لیپ ٹاپ سامنے بیٹھی شخصیت کے متعلق کچا چھٹا ان کی سکرین پر ظاہر کردیتا ہے جسے وہ ایک مخصوص لگاوٹ اور بناوٹ کے ساتھ مصنوعی مسکراہٹ شامل کرتے ہوئے، ٹی وی اسکرین پر اچھال دیتی ہے جسے جھوٹ سمجھتے ہوئے بھی وہ شخصیت ان کے سامنے ''ماموں'' بن کر اسے ایک عظیم پشین گو سمجھ کر سچ مان لیتی ہے اور پورا ہال اس کے مصنوعی قہقہوں اور بائیں ہاتھ کی تالی سے گونج اٹھتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں