افغان پارلیمنٹ پر طالبان کا دھاوا
افغانستان میں جمہوریت کے ذریعے ترقی کا عمل رواں دواں ہے، لیکن شدت پسند عناصر اس کے مخالف ہیں
افغانستان میں جمہوریت کے ذریعے ترقی کا عمل رواں دواں ہے، لیکن شدت پسند عناصر اس کے مخالف ہیں، گزشتہ روز افغانستان کی پارلیمنٹ پر مسلح افراد کا حملہ اس کی بدترین مثال ہے، اس حملے کے نتیجے میں 2شہری، ایک رکن پارلیمنٹ اور بچوں سمیت 25 افراد زخمی ہوگئے،جب کہ سیکیورٹی فورسز سے مقابلے میں 7 حملہ آور مارے گئے، پاکستان نے پارلیمنٹ پر حملے کی شدید مذمت کی ہے ۔
دراصل پاکستان اور افغانستان دہشتگردی کا شکار ممالک ہیں ،دونوں چاہتے ہیں کہ وہ دہشت گرد عناصر سے نجات حاصل کریں،افغانستان گوکہ تاریخ میں ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے زندہ ہے لیکن اس کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہ عالمی استعماری قوتوں کے مذموم مقاصد کے ایجنڈے کا حصہ رہا ۔ روس ، برطانیہ ہو یا امریکا کوئی اس کو فتح نہیں کرسکا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ۔
ان کے مطابق افغان پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھاکہ اس دوران ایک بمبار نے خود کو عمارت کے قریب اڑالیا اور اس کے 6 ساتھی فائرنگ کرتے ہوئے عمارت کے اندر گھس گئے، ایوان فائرنگ اور دھماکوں کی آوازوں سے لرزتا رہا، جب کہ ایک حصے میں آگ لگ گئی جس سے ارکان پارلیمنٹ میں بھگدڑ مچ گئی تاہم سیکیورٹی اہلکاروں نے تمام ارکان کو بحفاظت نکال لیا، اس کے بعد حملہ آوروں کو مقابلے میں ہلاک کیا۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ انتخابات کے بعد ملک میں حقیقی نمایندے موجود ہیں تو ایسے میں طالبان کا پارلیمنٹ پر حملہ کھلی دہشت گردی ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔
اس طرح کے متواتر حملے طالبان نے پاکستان میں بھی کیے ہیں ۔جن میں ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے ۔ طالبان کی حکومت افغانستان پر رہی ہے، جب کہ افغانستان دنیا بھر سے کٹا ہوا ایک ملک تھا ، جس کے کسی کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں تھے، لیکن طالبان کی قبضہ کرنے کی علت اورگولی کی زبان میں بات کرنے کا چلن مسئلے کی اصل جڑہے،جب تک طالبان اپنے مائنڈسیٹ کو تبدیل نہیں کریں گے وہ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل سکتے،البتہ ان کی شناخت صرف ایک دہشت اور شدت پسند گروہ کی ہے جو اپنے نظریات دوسرے پر بزورطاقت لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال پاکستان اور افغانستان مشترکہ سوچ کا محوردہشتگردی کا خاتمہ ہے اوروہ اس عفریت سے نبرد آزما ہیں ۔
جس جرات مندی اور بہادری سے افغان سیکیورٹی فورسز نے حملے کو نہ صرف روکا بلکہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں کا ہلاک کیا وہ سراہے جانے کے قابل ہے ۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ملکر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے کے عزم پرکاربند ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اس مشترکہ جدوجہد میں افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پاکستان کی حکومت دہشتگردی کی تمام صورتوں اور شکلوں کی مذمت کا اعادہ کرتی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت سا جانی ومالی نقصان ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی اور افغان قوم کے حوصلے ،عزم اور جرات اور جذبہ قربانی میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے ۔ یہی سوچ دہشتگردوں کے حوصلے پست کرنے اور ان کی شکست کا سبب بنے گی ۔( انشااللہ)
دراصل پاکستان اور افغانستان دہشتگردی کا شکار ممالک ہیں ،دونوں چاہتے ہیں کہ وہ دہشت گرد عناصر سے نجات حاصل کریں،افغانستان گوکہ تاریخ میں ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے زندہ ہے لیکن اس کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہ عالمی استعماری قوتوں کے مذموم مقاصد کے ایجنڈے کا حصہ رہا ۔ روس ، برطانیہ ہو یا امریکا کوئی اس کو فتح نہیں کرسکا۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ۔
ان کے مطابق افغان پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھاکہ اس دوران ایک بمبار نے خود کو عمارت کے قریب اڑالیا اور اس کے 6 ساتھی فائرنگ کرتے ہوئے عمارت کے اندر گھس گئے، ایوان فائرنگ اور دھماکوں کی آوازوں سے لرزتا رہا، جب کہ ایک حصے میں آگ لگ گئی جس سے ارکان پارلیمنٹ میں بھگدڑ مچ گئی تاہم سیکیورٹی اہلکاروں نے تمام ارکان کو بحفاظت نکال لیا، اس کے بعد حملہ آوروں کو مقابلے میں ہلاک کیا۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملے کی ذمے داری قبول کی ہے۔ انتخابات کے بعد ملک میں حقیقی نمایندے موجود ہیں تو ایسے میں طالبان کا پارلیمنٹ پر حملہ کھلی دہشت گردی ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔
اس طرح کے متواتر حملے طالبان نے پاکستان میں بھی کیے ہیں ۔جن میں ہزاروں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے ۔ طالبان کی حکومت افغانستان پر رہی ہے، جب کہ افغانستان دنیا بھر سے کٹا ہوا ایک ملک تھا ، جس کے کسی کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں تھے، لیکن طالبان کی قبضہ کرنے کی علت اورگولی کی زبان میں بات کرنے کا چلن مسئلے کی اصل جڑہے،جب تک طالبان اپنے مائنڈسیٹ کو تبدیل نہیں کریں گے وہ زمانے کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل سکتے،البتہ ان کی شناخت صرف ایک دہشت اور شدت پسند گروہ کی ہے جو اپنے نظریات دوسرے پر بزورطاقت لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال پاکستان اور افغانستان مشترکہ سوچ کا محوردہشتگردی کا خاتمہ ہے اوروہ اس عفریت سے نبرد آزما ہیں ۔
جس جرات مندی اور بہادری سے افغان سیکیورٹی فورسز نے حملے کو نہ صرف روکا بلکہ جوابی کارروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں کا ہلاک کیا وہ سراہے جانے کے قابل ہے ۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ملکر دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑنے کے عزم پرکاربند ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اس مشترکہ جدوجہد میں افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
پاکستان کی حکومت دہشتگردی کی تمام صورتوں اور شکلوں کی مذمت کا اعادہ کرتی ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بہت سا جانی ومالی نقصان ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستانی اور افغان قوم کے حوصلے ،عزم اور جرات اور جذبہ قربانی میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے ۔ یہی سوچ دہشتگردوں کے حوصلے پست کرنے اور ان کی شکست کا سبب بنے گی ۔( انشااللہ)