پاکستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور آئین معطّل کرنے کی تجویز

پچھلے رمضان المبارک میں واپڈا ٹاؤن کے آڈیٹوریم میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی ۔

لاہور:
چند سال پہلے جب میں گوجرانوالہ ڈویژن میں پولیس کا سربراہ تھا ایک روز انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری بورڈ کے نیک نام چیئرمین میرے پاس آئے ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے انھوں نے کہا میں نے آپ سے علیحدہ بات کرنی ہے۔

میں انھیں ساتھ والے کمرے میں لے گیا اور پوچھا خیریت تو ہے ! کہنے لگے" آپ جانتے ہیں بیرون ممالک میں اب ہماری تعلیمی ڈگریوں کو نہیں مانا جاتا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا امتحانی سسٹم شفاف نہیں رہا۔ کرپشن اور بدعنوانی نے پورے نظام کو تباہ کردیا ہے۔ میری یہ کوشش تھی گوجرانوالہ بورڈ کی اسطرح صفائی ہو کہ ہر شخص کو امتحانی نتائج پر اعتبار ہو اور اس کی ڈگری کی ساکھ اور کریڈیبیلیٹی قائم ہوجائے"۔

میں نے کہا "یہ تو بہت اچھی بات ہے آپ کا جذبہ قابلِ ستائش ہے اس سلسلے میں اگر کبھی ہماری مدد کی ضرورت ہو توضرور بتائیں ہم آپکے ساتھ ہیں" فوراً بولے کہ" اسی لیے تو آپ کے پاس آیا ہوں۔ میں نے بورڈ کے کچھ بدنام آدمیوں کے خلاف کاروائی شروع کی ہے تو بورڈ کا کرپٹ مافیا حرکت میں آگیا ہے، میرے دفتر آکر انھوں نے دھمکیاں دی ہیں وہ تو مجھے جان سے مار دینے پر تُلے ہوئے ہیں"۔

میں نے ان لوگوں کے بارے میں مزید دریافت کیا تو کہنے لگے کچھ بورڈ کے ملازم ہیں اور کچھ بیرونی عناصرہیں جنکا فلاں فلاں بااثر شخصیّت سے تعلّق ہے میںنے متعلقہ ایس پی کو بلاکر ہدایات دے دیں۔ چیئرمین کی تحریری درخواست پر پولیس نے اسی رات سخت آپریشن کیا اور بدقماش عناصر کو پکڑ کر حوالات میں بند کردیا گیا۔

چند روز بعد چیئرمین صاحب سے ملاقات ہوئی توبہت خوش تھے کہنے لگے بڑی اچھی صفائی ہوئی ہے اب ہم اس بورڈ کی کارکردگی کو اتنا بہتر بنائینگے کہ یہ دوسروں کے لیے رول ماڈل بنے گا۔ میں نے ان کے جذبے اور کوششوں کو سراہا اور پولیس کی طرف سے بھرپور تعاون کا اعادہ کیا۔ چند مہینوں کے بعدچیئر مین صاحب پھر تشریف لائے اور کہنے لگے کہ بورڈ میں نمایاں پوزیشنیں لینے والے طلباء و طالبات کو انعامات دینے کی تقریب منعقد ہورہی ہے ہم سب چاہتے ہیں کہ نوجوان آپ کے ہاتھوں سے انعام لیں ہمارے طلباء بھی آپ سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔ میں نے ان کی دعوت قبول کرلی۔

تقریب میںمیڈل اور انعامات وصول کرنے والے طلباء کو شاباش دینے کے علاوہ میں اُنکے بیک گراونڈ کے بارے میں بھی پوچھتا رہا۔ ایک طالب علم سلیم سے جس نے ایف ایس سی میںاتنے نمبر لیے تھے کہ وہ آسانی سے کسی اچھے میڈیکل کالج میں داخل ہوسکتا تھا، جب میں نے پوچھا کہ" آپ ڈاکٹر بنیں گے یا ڈاکٹر بنکر سی ایس ایس کا امتحان دیں گے؟"تونوجوان پریشان سا ہوگیاکہنے لگا "سر! ارادہ توڈاکٹر بننے کا تھا مگر میرے والدین افورڈ نہیں کر سکتے... میں کہیں چھوٹی موٹی نوکری ڈھونڈونگا تاکہ بوڑھے والدین اور بہن بھائیوں کا گزارہ ہوسکے"۔

سلیم کی بات سن کر سخت صدمہ ہوا۔ تقریب سے دل گرفتہ واپس آیامگر ذہن پر بہت بڑا بوجھ تھا کہ ہمارے ملک کا ایک ذہین اور قابل نوجوان اس لیے اپنے حق سے یعنی اچھے کیریئر سے محروم رہیگا کہ اس کے والد کے پاس فیس دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔میں نے اپنے قریبی عزیزوں سے بات کی، سب نے بخوشی حصّہ ڈالا اور سلیم میڈیکل کالج میں داخل ہوگیا اور اس کی فیسیں ادا ہونے لگیں۔

اس کے کچھ ہفتوں بعد شہر میں غریبوںاور ناداروں کے لیے شہریوں نے ایک سستا ہوٹل قائم کیاتو مجھے اس کے افتتاح کے لیے بلایا گیا دس بارہ روپے میں کھانے کا معیار بہت اچھا تھا ہوٹل کے ویٹر نے سالن کا ڈونگا ہماری میز پر رکھا تو مجھے اس کی آنکھوں میں غیر معمولی ذہانت نظر آئی۔ میں نے بچے سے اس کی تعلیم کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا "جی ! میٹرک کیا ہے۔میں میٹرک میں اپنے اسکول میں سیکنڈ آیا تھا"۔

اب کس کالج میں داخلہ لوگے؟ میری بات سنکر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہنے لگا "سر تعلیم کا شوق تو بہت ہے مگر وسائل نہیں ہیں، والد صاحب فوت ہوچکے ہیں والدہ بیمار ہیں اور ہم چھ بہن بھائی ہیں۔ میںبڑا ہوں اس لیے میں کماؤنگا تو گھر کا خرچہ چلے گا"۔ ایک بار پھر دل پر چوٹ لگی۔۔ اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے والے کچھ نیک نام لوگوں سے کہا تو ہوٹل میں ویٹری کرنے والا راشد بھی کالج میں داخل ہوگیا۔۔ مگر یہ کوئی مستقل حل تو نہ ہوا۔

ہمارے ہر شہرہر گاؤںاور ہر گلی محّلے میں اسطرح کے کتنے ہی قابل اور ذہین بچے ہیں جنکا ٹیلنٹ ضایع ہورہا ہے بیشمارقابل نوجوان وسائل کی کمی کے باعث پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس سلسلے میں کوئی فلاحی ادارہ قائم ہو جو ہونہار مگر غریب طلباء کے تعلیمی اخراجات برداشت کرے۔

پھراس سلسلے میں انسانی فلاح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والے کچھ دوستوں سے تبادلۂ خیال ہوا۔ ملک ظہیرالحق، شیخ محمود، مستنصرساہی، حاجی محمد انور، اخلاق بٹ، ملک طاہر، چوہدری اسلم گھمن ،اقبال محمود دھاریوال، عبدالرؤف مغل گوجرانوالہ کی وہ شخصیات ہیں جو اﷲ کے دیے ہوئے پیسے کو اس کی خوشنودی کے لیے خرچ بھی کرتے ہیں، ان تمام حضرات نے کسی مستقل ادارے کے قیام پر اتفاق کیا اور ساتھ ہی اصرار کیا کہ میں خوداس ادارے کے ساتھ مستقل طور پر وابستہ رہوں میں نے اس کارِخیر میں بھرپور حصہ لینے کی حامی بھرلی۔


چند میٹنگز کے بعد پاکستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آگیا۔مستحقین کا تعیّن کرنے کا فارمولا اور تحقیق و تصدیق کرنے کا طریقہء کار طے کر لیاگیااس سلسلے میں پرفیسر سلیم منصور اور پروفیسر محمد شریف نے بھرپور معاونت کا وعدہ کیا اور وہ کربھی رہے ہیں۔ میٹنگ کے تمام شرکاء نے خود contributeکیا اور اﷲکا نام لے کر اس کارِخیر کا آغاز کردیا گیا۔ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے قیام کو ابھی صرف تین سال ہوئے ہیں اور الحمدُﷲاس نے سیکڑوں نوجوانوں کو جہالت اور جرائم کے اندھیروں میں غرق ہونے سے بچالیا ہے۔ اس کی مالی امداد سے سیکڑوں نوجوان مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ِتعلیم حاصل کررہے ہیں۔

پچھلے رمضان المبارک میں واپڈا ٹاؤن کے آڈیٹوریم میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی ۔ فاؤنڈیشن کے جنرل سیکریٹری مستنصرساہی نے شُرکاء کے سامنے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ الحمدُاﷲ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی مالی امداد سے اسوقت پینتالیس نوجوان میڈیکل کالجوں میں پڑھ رہے ہیں اور قریباً اتنے ہی انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ فاؤنڈیشن تین سو سے زیادہ طلباء و طالبات کو مالی امداد فراہم کررہی ہے۔ان کے نام اور وظائف کی تفصیل بتائی گئی ۔ اُسی تقریب میں کئی دیگر معززّین کے علاوہ گوجرانوالہ کے نیک نام کمشنرز عبدالجبّار شاہین (سابق) اور خواجہ شمائل (موجودہ) نے بھی اپنی تنخواہوں میں سے ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو عطیات پیش کیے۔

اس کے بعد ایک نوجوان مائیک کے سامنے آیا اور حاضرین سے یوں مخاطب ہوا:۔

" میں ایجوکیشن فاؤنڈیشن کاشکرگزار ہوں کہ وہ میرے تعلیمی اخراجات برداشت کررہی ہے کیونکہ میرے والدین کے اتنے وسائل نہیں تھے۔ مگر میں اسے مالی امداد نہیں بلکہ قرضِ حسنہ سمجھتا ہوں۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں میرا تیسرا سال ہے انشااﷲ دو سال تک میں اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاؤنگا، اسوقت میں نہ صرف یہ قرضِ حسنہ فاؤنڈیشن کوواپس کردونگا بلکہ میں اپنی طرح کے مستحق طلباء کے تعلیمی اخراجات کے لیے contribute بھی کرونگا۔ انشااﷲوہ وقت جلد آئیگاجب میں لینے والوں کے بجائے دینے والوں کی صف میں کھڑا ہونگا"۔ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔

اِسوقت پاکستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا دا ئرۂ کار محدود ہے، فی الحال اس کی طرف سے چند سو طلباء وطالبات کو تعلیمی وظائف دیے جارہے ہیں، مگر اس کی خواہش ہے کہ یہ مالی امداد ہزاروں طلباء وطالبات تک پہنچے۔ اس کے علاوہ فاؤنڈیشن نوجوانوں کو Technical Skillsسکھانے کے لیے بہت اعلی معیار کا ادارہ بنانا چاہتی ہے۔ جسکے لیے یقیناً بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہے، میرے قارئین بھی گاہے بہ گاہے مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں کہ وہ Charity کے کاموں میں کسطرح حصّہ لے سکتے ہیں۔

ملک ظہیرالحق اور مستنصر ساہی کردار اور اعتبار کے لحاظ سے جانے پہچانے نام ہیںوہ پاکستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اہم عہدیدار ہیں ان کے فون نمبر درج کررہا ہوں 03008647878--03008646392 جو صاحبان ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے اس کارِخیر میں حصّہ ڈالنا چاہیں وہ ان نمبروں پر رابطہ کرلیں۔ وہ طریقۂ کار اور اکاؤنٹ نمبربتادیں گے۔ خالقِ کائنات نے اپنی برحق کتاب میں اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے پر بہت زور دیا ہے۔ انسانوں کی فلاح کے لیے پیسہ خرچ کرنے کی بڑی فضیلت ہے اور اگر یہ پیسہ مستحقین کو تعلیم دلانے پر خرچ ہو تو اس کی فضیلت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

آئین معطّل کرنے کی تجویز

پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اسوقت سندھ میں کرپشن اور بدترین گورننس کا راج ہے، کاش پی پی پی کا کوئی راہنما ہمت کرکے زرداری صاحب سے کہہ ہی دے کہ حضور!لوٹ ما رکی وجہ سے ہماری قومی پارٹی اندرونِ سندھ تک سمٹ گئی ہے خدا کے لیے اب تو لوٹ مار بند کردیں ورنہ رینجرز تو کیا ہمیں پولیس والے بھی گالیاںدیں گے اور باقی صوبوں کی طرح سندھ کے عوام بھی ہمیں فارغ کردیں گے۔ مگر اسکو جواز بناکر کوئی غیر آئینی اقدام نہیں ہوناچاہیے احتساب کے اداروںکو سی بی آئی کیطرح آزاد اور مضبوط بنانا ہی اصل حل ہے۔اس قومی پارٹی کا سکڑ جانا اچھّا شگون نہیں ہے۔ قومی سطح کی تمام پارٹیوں کو چاروں صوبوں میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔

ملک پہلے ہی حالتِ جنگ میں ہے۔ بھارتی حکمران امریکا کی مداخلت پر کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئے ہیں مگر اُنکے جارحانہ اور مکروہ عزائم سے ہمیں بے خبر نہیں رہنا چاہیے۔ مودی ٹولہ اگر پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑتا ہے تو اس کا غرور خاک میں ملانے کے لیے ہماری قوم اور ہماری ا فواج کے لیے یہ آئیڈیل حالات ہیں کیونکہ صوبوں اور مرکز میں منتحب حکومتیںقائم ہیں اور فوج ریاست کے باغیوں کے خلاف برسرِپیکار ہونے کے باعث قوم کی آنکھ کا تارہ ہے۔

جنگ مسلّط کی گئی تو دشمن کے خلاف ایک مقبول فوج کے ساتھ ایک متحدّ اور پُرجوش قوم کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوگی۔۔ اِن حالات میں فوج کوکسی غیر آئینی مہم جوئی پر اُکسانے کا مطلب فوج اور آرمی چیف کو مقبولیت سے محروم کرکے انھیںمتنازعہ بنادینا ، قوم کو تقسیم کردینا اور چھوٹے صوبوں کو بغاوت پر آمادہ کردینے کے مترادف ہوگا۔ یہی تو بھارت چاہتا ہے اور یہی بلوچستان کے باغی چاہتے ہیں (کیونکہ اِسوقت ان کا کیس انتہائی کمزور ہے جب کہ مارشل لاء میں ان کا کیس مضبوط ہو جائیگا ) ان حالات میں اسطرح کی کسی غیر آئینی مہم جوئی کے بارے میں سوچنا بھی ملک اور فوج کے لیے خطرناک ہوگا۔

تجویز کنندہ ایک صاحبِ علم ودانش بزرگ ہیں ان سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ آمرّیت کے نیچے دبا ہوا ترکی ہر قسم کے جرائم کا گڑھ اور مردِ بیمار تھا، مگر ایک منتخب قیادت نے اسی تُرکی کو ترقّی اور خوشحالی کی حیرت انگیز بلندیوں تک پہنچا دیا ہے۔اس موضوع پر تفصیل سے لکھوں گا۔
Load Next Story