60برس میں کچھ بھی نہیں بدلا
آپ خود ہی سوچیں کہ برصغیر میں گدھے سے زیادہ بے زبان اور مسکین بھلا دوسرا کون سا ذی روح پایا جاتا ہے
چند دن پہلے کرشن چندر کا طنزیہ ناول ''ایک گدھے کی سرگزشت'' ہاتھ لگا۔ اب لگ بھگ 60 برس کا عرصہ گزرنے کے بعد اسے پھر سے پڑھا تو معلوم ہوا کہ اس طنزیہ ناول کا ہر صفحہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنے سماج کا عکس دیکھ سکتے ہیں۔
کرشن چندر کے زرخیز ذہن نے اپنے سماج پر چوٹ کرنے کے لیے ایک ایسے ''ہیرو'' کا انتخاب کیا جس کی طرف کسی کا ذہن نہیں جاسکتا تھا۔ وہ اگر کسی مزدور کی زبان سے اپنے طبقے کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کو بیان کرتے تو وہ اتنا پُراثر نہ ہوتا جتنا ایک گدھے کی زبان سے سنایا جانے والا قصہ۔
آپ خود ہی سوچیں کہ برصغیر میں گدھے سے زیادہ بے زبان اور مسکین بھلا دوسرا کون سا ذی روح پایا جاتا ہے۔ دوسروں کی خدمت جس کی زندگی کا مقصد اور اس کے باوجود مار کھانا جس کا مقدر ہے۔ یوں سمجھیں کہ ہمارے برصغیر کے غریب مزدور کی بے بسی اور لاچاری کو کرشن چندر نے اپنے لفظوں سے زندہ کردیا ہے۔
ہندوستان کے ایک قصبے بارہ بنکی میں ایک پڑھے لکھے گھرانے کا گھر بن رہا ہے اور ہمارا یہ گدھا وہاں اینٹیں ڈھونے پر مامور ہے۔ وہاں آتے جاتے وہ پڑھنا لکھنا سیکھ جاتا ہے اور اخباروں کتابوں کو دیکھ کر انھیں پڑھنے کے لیے بے قرار ہوجاتا ہے۔ اس کا مالک جب اس کے یہ 'لچھن' دیکھتا ہے تو اسے فوراً فارغ کردیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح آج کسی مزدور یا اس کے بچے کے پڑھنے کا شوق اس کے مالک کو برافروختہ کردیتا ہے۔
گدھا بارہ بنکی سے دلی پہنچتا ہے، وہاں رامو دھوبی کی خدمت گزاری میں مصروف ہوجاتا ہے، جمنا جی کے کنارے کپڑے دھوتے ہوئے رامو دھوبی ایک مگرمچھ کا نوالہ بن جاتا ہے۔ہمارے گدھے سے رامو کی بیوہ اور اس کے بچوں کی حالت زار دیکھی نہیں جاتی۔ وہ ان لوگوں کے لیے وظیفہ جاری کرانے کی خاطر میونسپل کارپوریشن جاپہنچتا ہے اور یہاں سے کرشن چندر کا قلم طنز کے دریا میں تیر جاتا ہے اور تمام سرکاری محکموں میں ہمارے گدھے پر جو کچھ گزرتی ہے اسے تحریر کرتا جاتا ہے۔
ہمارا یہ گدھا انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے کس قدر ذہین اور زیرک ہوچکا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سرکاری دفتروں میں پہنچ کر کلرکوں سے افسروں تک سب ہی سے انگریزی میں کلام کرتا ہے، چنانچہ ہر شخص ہمہ تن گوش ہو کر اس کی سنتا ہے۔ میونسپلٹی کا چیئرمین انگریزی میں لکھی ہوئی رامو دھوبی کی بیوہ کی داستانِ غم پڑھ کر اسے محکمہ نو آبادکاری کے دفتر بھیج دیتا ہے۔
وہاں سے اسے ڈپارٹمنٹ آف لیبر اینڈ انڈسٹریز بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ چونکہ رامو دھوبی ایک مگر مچھ کے ہاتھوں ہلاک ہوا ہے، اس لیے رامو کی بیوہ اور بچوں کی مدد فشریز کا محکمہ کرسکتا ہے۔
ہمارے یہاں غریبوں کی زندگی جس کسمپرسی میں گزرتی ہے اس کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں اور اگر وہ ختم ہوجائیں تو ان کے گھر والوں کا جو حشر ہوتا ہے اس سے لوگ آنکھیں چرانا ہی بہتر سمجھتے ہیں لیکن ہمارے کرشن چندر کا ہیرو کمر کس کر رامو دھوبی کی بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کے لیے کہاں کہاں کے دھکے نہیں کھاتا۔ رامو کی بیوہ کی عرضی سے فائل کھولنے کا نسخہ بتاتے ہوئے ایک ڈپٹی سیکریٹری یہ سوال اٹھاتا ہے کہ دھوبی 'مزدور' کی صف میں آتاہے یا نہیں؟ اور یہاں سے کرشن چندر کا قلم زقند بھرتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ دھوبی مزدور ہے تو موچی مزدور کیوں نہیں، کمہار مزدور کیوں نہیں؟ اگر ایک رامو کو ہرجانہ ملے گا تو لاکھوں راموؤں کے لیے ریزرو بینک ہرجانہ کہاں سے لائے گا؟ اس کے لیے فنانس ڈیپارٹمنٹ سے بھی پوچھنا پڑے گا۔ ممکن ہے فنانس ڈیپارٹمنٹ اس بنیادی سوال کو وزیراعظم کے سامنے رکھے اور وزیراعظم پارلیمنٹ میں اس سوال کو رکھیں۔ ممکن ہے اسی وجہ سے ہمارے دستور کی کسی دفعہ میں کوئی تبدیلی بھی ہوجائے۔'' وہ گدھے سے کہتا ہے کہ میرے خیال میں تم اگر دس سال کے بعد آؤ تو اس فائل کا ضرور کوئی نہ کوئی فیصلہ ہوجائے گا۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے جگدیش چندرودھاون کہتے ہیں: ''یہ واقعہ ہمارے دفتری نظام پر زبردست چوٹ ہے، جس کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے۔ ایک بے حقیقت کلرک سے لے کر بااقتدار افسرانِ اعلیٰ تک آوے کا آوا ہی بگڑ ا ہوا ہے۔ افسر شاہی اور سرخ فیتہ شاہی نے سرکاری نظام کو اپنی بے عملی سے مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔ فرض شناسی، صدق دلی، خلوص نیت، درد مندی، جو سرکاری نظام کے بنیادی خصائص ہونے چاہئیں، سرے سے ناپید ہیں، اور عوام اپنے مسائل لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔''
ناول کا کلائمکس وہ مرحلہ ہے جہاں رامو کا گدھا پہریداروں کو جُل دے کر ہندوستانی وزیراعظم پنڈت جواہرلال نہرو کی کوٹھی میں داخل ہوجاتا ہے اور ان سے انٹرویو کا خواستگار ہوتا ہے۔ اس کی بات سن کر پنڈت جی ہنس کر کہتے ہیں ''میرے پاس انٹرویو کے لیے ایک سے ایک بڑا گدھا آتا ہے، ایک گدھا اور سہی، کیا فرق پڑتا ہے''۔ وہ انھیں رامو دھوبی کے گھرانے پر ٹوٹنے والی قیامت سناتا ہے۔ پنڈت جی اس گھرانے سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس کو سو روپے کا نوٹ دیتے ہیں۔
گدھا اس خواہش کا اظہا کرتا ہے کہ وہ اس پر بیٹھ کر تصویر بنوالیں۔ اس پر سواری کرتے ہوئے پنڈت جی کی ایک تصویر بن جاتی ہے۔ اب وہ دنیا کا مشہور ترین گدھا ہے اور عالمی شہرت رکھنے والے اخباروں کے نمایندے اس کے سیاسی خیالات اور نظریات جاننے کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ اس پریس کانفرنس سے چھوٹتا ہے تو ہندوستان کے ایک نامی گرامی سیٹھ اسے گھیر گھار کر اپنی کوٹھی پر لے جاتے ہیں۔
وہاں گفتگو کے دوران سیٹھ برجوٹیا کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ پنڈت جی نے اس گدھے کو پچیس کروڑ کا ٹھیکا دینے کی بات کی ہے۔ گدھا باربار یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ سیٹھ صاحب کی غلط فہمی ہے لیکن وہ اس کی ایک نہیں سنتے اور اسے اپنے کاروبار میں نصف کا شراکت دار بنانے کی پیشکش کردیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی رامو کی بیوہ اور اس کے بچوں کو بھی کام دینے پر رضامند ہوجاتے ہیں۔
کہانی آگے بڑھتی ہے اور ہمارے ہیرو کو فلموں میں کام کرنے کی آفر ملنے لگتی ہے۔ کالج کی لڑکیاں اس کے آٹوگراف لینے کے لیے ہجوم کرتی ہیں۔ دہلی میونسپلٹی اسے استقبالیہ دیتی ہے۔ اس کا جلوس نکلتا ہے جو چاندنی چوک سے گزرتا ہے اور دلی کی عورتیں اس پر پھول برساتی ہیں۔ میونسپلٹی ہال میں وہ تقریر کرتا ہے اور اپنے سامنے بیٹھے ہوئے دانشوروں، سیاستدانوں اور ادیبوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:
''میں آج بے زبان گدھا ہوتے ہوئے بھی انسانوں کی زبان میں آپ لوگوں سے کہنے آیا ہوں کہ اے انسان، اے برادر محترم، آج تیری وجہ سے ہر جاندار شے کوخطرہ ہے، جنگل کے شیر سے لے کر جھیل میں کھلتے ہوئے کنول تک، ہر جاندار شے خطرے میں ہے۔ ہم تیرے بھائی ہیں، ارتقا کے رشتے سے تجھ سے بہت دور ہیں۔ لیکن زندگی کے رشتے میں تجھ سے بہت قریب ہیں۔ اپنے تعصب اور خود غرضی کی بنا پر شاید تجھے یہ حق تو پہنچتا ہے کہ تو اپنے دشمن کو ہلاک کردے، لیکن تجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ تو اس کرۂ ارض پر ایٹمی موت سے ساری زندگی کو ختم کر ڈالے۔''
وہ ساہتیہ اکیڈمی کے جلسے سے خطاب کرتا ہے، ماں باپ اور پرانے مالک کو پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔ اس کی شادی ایک حسینہ سے طے ہوجاتی ہے کیونکہ اس کے سیٹھ باپ کو 25 کروڑ کے ٹھیکے میں گدھے کے ساتھ شراکت داری کا یقین ہے۔
وہ مقابلہ حسن کا صدر بنتا ہے اور وہاں اشتراکی خیالات پر مشتمل ایک ایسی تقریر کرتا ہے جسے سن کر سب ہی اس پر پل پڑتے ہیں۔ وہ وہاں سے بھاگتا ہے۔ تھکا دینے والی بھاگ دوڑ کے بعد وہ سیٹھ سکھن لال کے گھر پہنچتا ہے جس نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے طے کردی ہے لیکن جب اسے معلوم ہوتاہے کہ وزیراعظم نے اس سے 25 کروڑ کے کسی کنٹریکٹ کا وعدہ نہیں کیا ہے تو وہ غصے سے لال پیلا ہوجاتا ہے اور پھر سیٹھ، اس کی بیٹی، اس کے ملازم سب ہی ڈنڈے لے کر ہمارے ہیرو پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اسے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملتا۔
جگدیش چندر کے مطابق اس ناول میں حقیقت کا رنگ بہت گہرا اور طنز کی دھار بہت تیز ہے، جو بے اختیار قلب و جگر کو چھولیتی ہے۔ اس ناول میں ہمیں گدھے کے توسط سے ادب، آرٹ، سیاسیات اور سماج کے بارے میں کرشن چندر کے نظریات اور اعتقادات کو بہت وضاحت اور صراحت کے ساتھ سمجھنے، تولنے اور پرکھنے کا موقع ملتا ہے۔
60برس بعد آج بھی کسی دھوبی کی حادثاتی ہلاکت کے بعد کوئی شخص غربت کے مارے گھرانے کے لیے حکومت سے مدد مانگنے نکلے تو کیا اسے اسی طرح کی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؟
واقعی ہمارے برصغیر میں 60 برس بعد بھی کچھ نہیں بدلا