یہ شاہی تاج اور قبا
مردہ خانے بھرچکے اور میتوں کو زمین پر لٹا دیا جاتا ہے مگر ان خوشحال اور بڑے لوگوں کواپنے بھائیوں کی کوئی خبر نہیں ہوتی
لاہور:
تاریخ 23 جون 2015ء 5 رمضان المبارک 1436ھ ملک پاکستان اور اس کا سابقہ دارالحکومت کراچی جہاں اس دن قیامت کا دن تھا۔ جان لیوا گرمی کا زور تھا۔ گرمی کا زور تو پورے ملک میں تھا لیکن کراچی میں گرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہتھیار موجود نہیں تھے جو بجلی سے چلتے ہیں۔
کراچی میں جب گرمی سے وفات پانے والوں کی تعداد حیران کن حد تک پانچ سو کے قریب پہنچنے لگی تو کسی نے سرکار سائیں کو غنودگی سے جگانے کی کوشش کی۔ سرکار ضرورت سے زیادہ آرام کرتے رہنے کی وجہ سے تھک گئے تھے اس عمر میں نہ کام کاج آرام دیتا ہے اور نہ آرام سے چین ملتا ہے اور نتیجہ ایک مسلسل اونگھ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے لیکن بعض ضروری کام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اونگھ بھی گوارا نہیں کی جا سکتی۔
بہر کیف کسی سرکاری اہلکار نے ڈھیروں اموات کی خبر سن کر مجبوراً سرکار کو جگا دیا اور انھیں بتایا کہ کراچی شہر میں کوئی پانچ سو کے قریب شہری گرمی کو پیارے ہو چکے ہیں، یہ اطلاعاً عرض ہے ویسے گرمی کا سب سے بڑا علاج تو بجلی ہے جو صوبوں کے پاس نہیں ہے مرکز کے پاس ہے اور آپ ہی وفاقی حکومت سے بات کر سکتے ہیں۔ عالم غنودگی میں قدرے افاقے کے بعد یہ بات سن لی گئی اور فوراً ہی کہا گیا کہ یہ لوگ اے سی کیوں نہیں چلاتے تا کہ گرمی سے بچ رہیں۔
فرانس کی ملکہ کی طرح جس نے محل کے باہر بھوکوں کا ہجوم دیکھ کر فوراً کہا تھا کہ روٹی نہیں تو یہ لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے۔ فرانس کے نفیس مزاج لوگ جن کی آسائش پر پورے افریقہ کی دولت صرف کی گئی تھی اپنی بھوک کی وجہ سے شاید کچھ زیادہ بے حال ہو گئے تھے کہ انھوں نے ملکہ معظمہ وغیرہ کو محل سے باہر نکال کر گلوٹین (پھانسی) پر چڑھا دیا۔
ہمارے بادشاہ نے بھی اپنے عوام کو صحیح مشورہ دیا ہے کہ گرمی زیادہ ہے تو اے سی چلائیں جو گرمی کو ٹھنڈ میں بدل دے گا اور وہ موت سے بچ جائیں گے لیکن یہ قیمتی مشورہ عوام تک یوں نہ پہنچ سکا کہ ان کے پاس اے سی نہیں تھا اگر ہوتا بھی تو اے سی والی طاقت ور بجلی کہاں سے آتی اس طرح سرکار سائیں کا مشورہ بے کار گیا اور دوبارہ غنودگی کے حصول میں خاصی زحمت کرنی پڑی اور ہمارا شاعر حکمرانوں کو یہ مشورہ دیتا رہ گیا کہ اے کاش!
ایسا جملہ کسی حاکم کی زباں سے نکلے
ہم نے مدت سے یہی آس لگا رکھی ہے
مطمئن مجھ سے نہیں ہے جو رعیت میری
یہ مرا تاج رکھا ہے' یہ قبا رکھی ہے
لیکن ایسے انور مسعود جیسے کئی شاعر آئے اور گزر گئے تاآنکہ حکمرانوں کے سر سے تاج اور شاہی جسم سے قبا ان کی شاعرانہ بدعائوں اور ناراض رعیت نے خود ہی اتار دی اور انھیں کسی عبرت کدے کے مردہ خانے میں گرمی سے مری ہوئی رعایا کے ساتھ پھینک دیا۔
یہ کیا بات ہوئی کہ اسی شہر کراچی میں کچھ لوگ سیاسی محلوں میں رہتے ہیں جن کی دیواریں بھی گرمیوں میں یخ ہوتی ہیں اور ان کے نوکر چاکر اور ماڈل بھی زندہ انسانوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں مگر محل کی فصیل سے باہر کی زندگی پر زندگی کا صرف الزام ہوتا ہے اور ایک دو دنوں میں کوئی پانچ سو کے قریب عام آدمی مر جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اے سی نہیں ہوتے اور وہ غنودگی زدہ حکمران کے صائب مشورے پر عمل نہیں کر پاتے جب کہ ان کا حکمران اپنے اسی مشورے پر آرام کی زندگی بسر کرتا ہے۔
جون کے یہ دن پورے ملک میں قاتل بنے ہوئے ہیں۔ کہیں کم اور کہیں زیادہ انسان ان کے شکار ہو رہے ہیں۔ بجلی کا مسئلہ کچھ پہلے ایک بار زندہ ہوا تھا کیونکہ دو رشوت خوروں میں ان بن ہو گئی تھی اور بات باہر نکل گئی تھی۔ بجلی کی درآمد اور اس کے پیداواری کارناموں میں جب ان کے مالکان کی صلح ہو گئی تو بجلی کچھ نہ کچھ عوام کو بھی ملنے لگی۔ اس میں اطمینان کی بات یہ تھی کہ ایک وزیر اعظم بھی اس نفع بخش کام میں ملوث تھا اور اس کی وجہ سے یہ مسئلہ جلد ہی حل ہو گیا اور وزیر اعظم سمیت سب کی آمدنی شروع ہو گئی۔
یہ وزیر اعظم اب بھی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے سابق باس کے آس پاس مودبانہ دکھائی دیتا ہے ان کی موجودگی بڑے صاحب کی بدنامی کی باعث بن جاتی ہے جو ان دنوں اپنے سامنے کئی بھیانک خطرات کو دیکھ رہے ہیں اور بلبلا رہے ہیں۔ عربوں کی ایک مثل ہے کہ اونٹوں نے اپنے سامنے بار دیکھ کر ہی بلبلانا شروع کر دیا۔ دیکھئے کیا عجیب اتفاق کی بات ہے کہ بڑے صاحب کا قبائلی پیشہ بھی شتر بانی ہے۔
کراچی اور سندھ کے عوام پر گرمی کے ذریعے جو بیت رہی ہے اس کا سن کر میں یہاں لاہور میں بیٹھا اپنے پاکستانی بھائیوں کے لیے پریشان ہوں لیکن جو لوگ خود کراچی جیسے آفت زدہ شہر میں موجود ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ اس شہر کے مردہ خانے بھر چکے ہیں اور میتوں کو زمین پر لٹا دیا جاتا ہے مگر ان خوشحال اور بڑے لوگوں کو جیسے اپنے بھائیوں کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
اگر کسی انسان کی حکومت ہوتی تو آج کراچی کے گرمی سے مرنے والوں کے قتل پر کئی لوگوں پر مقدمہ چل رہا ہوتا۔ قتل کے جتنے بھی طریقے رائج ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے جس میں انسان زندہ نہ رہ سکے۔ عوام کی زندگیوں کے قاتلوں کو حکمران ہی پکڑ سکتے ہیں۔ جنگوں میں استعمال کے لیے ایک ایسا بم ایجاد کیا گیا ہے جس سے انسانی زندگی کے لیے خطرناک جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور ایسی ایسی زہریں پھیل جاتی ہیں جو زندگی کو موت میں بدل دیتی ہیں۔ یہ سب انسانوں کے لیے قاتلانہ حربے ہیں اور قابل تعزیر مگر یہ سب اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ کوئی حکمران یہ نہیں کہہ دیتا کہ
ع یہ تاج رکھا ہے یہ قبا رکھی ہے