ن لیگ تنہا ہوگئی
شیرشاہ سوری انتہائی ذہین اور چالباز تھا جس نے اپنی چالوں سے مخالفین کو زیر کیا
شیرشاہ سوری انتہائی ذہین اور چالباز تھا جس نے اپنی چالوں سے مخالفین کو زیر کیا۔ روہتاس جیسے مضبوط قلعہ کو فتح کرنے کے لیے بھی انوکھی چال چلی۔ اس نے راجہ ہرکشن کو بتایا کہ وہ جنگ کی وجہ سے اپنے عزیزوں اور دولت کو اس کے پاس چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ اس نے بہت سارے تحفے تحائف کے ساتھ یہ پیغام بھیجا کہ میں اپنے خزانے کے ساتھ اپنی خواتین کو ڈولیوں میں بھیجوں گا۔
پہلی چند ڈولیوں میں بوڑھی عورتیں اور باقی میں دو دو سپاہی بٹھا دیے۔شاہی دربانوں نے پہلی ڈولیوں کو چیک کرکے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور باقیوں ڈولیوں کو بغیر چیک کیے اندر بھیجا توان میں موجود سپاہیوں نے باہر نکل کر حملہ کر دیا۔
راجہ نے قلعے کے پچھلے دروازے سے بھاگ کر جان بچائی۔ بادشاہ ہمایوں کو بھی اس نے ایسی ہی جنگی چالوں سے شکست دی۔ کئی حکمرانوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر ان کی قربت حاصل کی اور پھر انھی سے حکومت چھین لی۔ یہی چالیں اور عیاری آج کل کی سیاست کا بھی حصہ ہے، اسی لیے سیاستدان کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، آج کے پاکستانی حکمران بھی ایسی ہی چالاکیوں کی وجہ سے حکومت کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں جب سے سابق صدر آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف طبل جنگ بجایا ہے' ہر طرف زرداری صاحب کے ہی چرچے ہیں، ان کے یکے بعد دیگرے بیانات و تقریروں نے تو انھیں سوشل میڈیا کا ''ہیرو'' بنا دیا ہے۔۔۔ ان کی جانب سے سندھ رینجرز و عسکری اداروں پر تنقید کے بعد ملکی سیاست ایک نیا رخ اختیار کرچکی ہے۔ حکومت، فوج اور سیاسی جماعتیں حیران ہیں کہ مفاہمت کے بادشاہ نے طبل جنگ کیسے بجا دیا۔
آصف علی زرداری نے سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ''ہمیں مت چھیڑو، چھیڑوگے تو چھوڑیں گے نہیں۔ آپ نے تین سال اور ہم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ ہماری کردار کشی بند نہ ہوئی تو سب کا کچا چٹھا کھول دوں گااور تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادوں گا''۔ آصف علی زرداری کے لب و لہجے کو تقریباََ سبھی سیاستدانوں نے نامناسب قرار دیا۔
اور یہی وجہ بنی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جو پہلے ہی شاید اکیلے پرواز کرنا چاہ رہی تھی ایک قدم پیچھے ہٹ گئی، جس سے کسی اور کو نہیں اسٹیبلشمنٹ کو خاصا فائدہ پہنچااور ن لیگ بجائے اس کے کہ زرداری صاحب کے بیان کی تائید کرتی اس نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے میں ہی عافیت جانی، جس کی وجہ سے ''مفاہمت'' کے بادشاہ زرداری نے بھی پیار و محبت کو ترک کر کے ن لیگ کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرڈالی یعنی دونوں جماعتوں میں خاصی دوریاں پیدا ہو گئیں بقول اعزاز احمد آذر
کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا
انا پرست تھے دونوں ، مفاہمت نہ ہوئی...!!
زرداری صاحب کے حالیہ بیانات اور ''یوٹرن'' سے پیپلز پارٹی کو جو نقصان ہوا سو ہوا اس سے اسٹیبلشمنٹ کئی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہی یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا جائے،، پیپلز پارٹی جنگ کا اعلان کرے تاکہ وہ بھی ان کے خلاف ثبوت ''مارکیٹ'' میں لے آئے وغیرہ۔ اب جب کہ پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں تو ایسی صورت میں فائدہ غیر جمہوری طاقتوں کو ہونے والا ہے۔
یقیناً اب قومی سیاست نیا ٹرن لینے والی ہے جس میں اصل آزمائش حکمران مسلم لیگ (ن) کی ہوگی۔ وزیراعظم نوازشریف زرداری سے فاصلہ بڑھانے کے بجائے تدبر سے کام لے کر پیپلزپارٹی کا فوج کے ساتھ پیدا ہونے والا فاصلہ مٹانے کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔
کیوں کہ سیاست میں مفادات کا عنصر سب سے پہلے ہوتا ہے اس لیے ن لیگ کے ماضی قریب کے اقدامات پر غور کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے بھی میاں نواز شریف کے قریب ہونے یا انھیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے انھوں نے بڑی بے رخی سے اسے دھتکار دیا۔ آپ غور کریں! اکثر ایشوز پر میاں نواز شریف اور عمران خان کا موقف تقریباً یکساں ہے، دونوں ہی انقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن پھر بھی تحریک انصاف کو اپنے ساتھ ملانے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تو کیوں؟ جماعت اسلامی جو کبھی نواز لیگ کی اہم اتحادی ہوا کرتی تھی جتنی یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب تھیں آج ان میں اتنی ہی زیادہ دوریاں نظر آرہی ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران نے میاں صاحب کی قربت حاصل کرنے کے لیے کئی مرتبہ سنجیدہ کوششیں کیں مگر انھیں بھی ہر بار منہ کی کھانا پڑی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی کئی مرتبہ یہ اشارے دیے کہ وہ پیپلزپارٹی سے مطمئن نہیں ہے،ن لیگ نے اس کی بھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی یا یوں کہیے کہ اسے بھی لفٹ نہیں کرائی۔ اس پورے ماحول میں نواز شریف اکیلے ہی چل رہے ہیں، جن صوبوں یا علاقوں میں ن لیگ مضبوط نہیں ہے جیسے سندھ و بلوچستان، وہاں بھی ن لیگ نے کسی پارٹی سے اتحاد کے بجائے شخصیات پر انحصار کرنے کو ترجیح دی اور اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے انفرادی طور پر ملاقاتیں کیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے تنہا پرواز کرنے کی وجہ کیا ہے؟ بعض مبصرین اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ نواز شریف آیندہ انتخابات میں کلین سویپ کے خواب دیکھ رہے ہیں اور انھیں اپنا مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ن لیگی قائد دیگر سیاسی جماعتوں کی بلیک میلنگ میں آنے اور ان کا بوجھ اٹھانے سے کترا رہے ہیں۔ میاں برادران کو اگلا دور اپنا نظر آرہا ہے اور موجودہ حالات میں انھیں اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں کی ایسی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں کہ وہ انھیں اپنے ساتھ ملاکر خود کو آزادانہ قوت فیصلہ سے محروم کریں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ن لیگ عوامی ہمدردیوں کا فائدہ اکیلے ہی اٹھانا چاہتی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے نواز لیگ ہی واحد پارٹی ہے جو عوام سے مخلص ہے اور ملک و قوم کو بحرانوں کے بھنور سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
حکومت کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ تنہا ہوگئی تو برے وقت کا پتا نہیں۔۔۔ ماضی گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ صرف سیاسی پارٹیوں کو مہروں کی طرح استعمال کرتی ہے اگر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر ملک کو 90 کی دہائی کی سیاست میں دھکیلنے کی کوشش کی تو کیا یہ کسی طالع آزما کو خود دعوت اقتدار دینے اور اپنے پائوں پر کلہاڑے چلانے کے مترادف نہیں؟
زرداری صاحب کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ سیکیورٹی ادارے غیر آئینی اقدامات کی روک تھام کے لیے مکمل اختیارات رکھتے ہیں۔ اگر سندھ حکومت میں کالی بھیڑیں موجود ہیں تو پیپلز پارٹی کو اس کا پشتی بان نہیں بننا چاہیے۔ ورنہ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ چوروں، لٹیروں کی باقاعدہ سرکاری سرپرستی کی جارہی ہے۔ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو قومی دفاعی اداروں کے خلاف محاذ جنگ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ورنہ اس کا بھیانک نتیجہ سامنے آ سکتا۔
اور سندھ حکومت میں تو کالی بھیڑوں کی کوئی کمی نہیں ہے وہاں کے بعض ایم این اے و ایم پی اے علی الاعلان ٹھیکوں میں کمیشنز لیتے اور بھتوں میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں،انھی کی دیکھا دیکھی اب پنجاب کے ایم این اے، ایم پی اے بھی ٹھیکیداروں سے زائد کمیشن وصول کر رہے ہیں۔ ذرایع کے مطابق پہلے یہ کمیشن 20فیصد تھی جب کہ اب یہ اس سے بھی تجاوز کر گئی ہے کیوں کہ یہ لوگ سندھ اور بلوچستان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی مثالیں دیتے ہیں۔
زرداری صاحب نے سیاست کے جس کھیل کی شروعات کی ہیں' اس پر سیاسی اور مقتدر حلقوں سمیت کسی کے لیے بھی کھل کر کھیلنا آسان نظر نہیں آتا۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں شیر شاہ سوری کون کون ہے اور وہ کونسی چالیں چل کر اقتدار پر براجمان رہے ہیں۔۔۔!!! ن لیگ تنہا ہو گئی یا نہیں ضرورت ہماری سیاسی جماعتوں کے قبلہ درست کرنے کی ہے نہ کہ اسٹیبلشمنٹ کو دعوتِ اقتدار دینے کی۔۔۔!!!بقول شاعر
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
پہلی چند ڈولیوں میں بوڑھی عورتیں اور باقی میں دو دو سپاہی بٹھا دیے۔شاہی دربانوں نے پہلی ڈولیوں کو چیک کرکے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور باقیوں ڈولیوں کو بغیر چیک کیے اندر بھیجا توان میں موجود سپاہیوں نے باہر نکل کر حملہ کر دیا۔
راجہ نے قلعے کے پچھلے دروازے سے بھاگ کر جان بچائی۔ بادشاہ ہمایوں کو بھی اس نے ایسی ہی جنگی چالوں سے شکست دی۔ کئی حکمرانوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر ان کی قربت حاصل کی اور پھر انھی سے حکومت چھین لی۔ یہی چالیں اور عیاری آج کل کی سیاست کا بھی حصہ ہے، اسی لیے سیاستدان کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی، آج کے پاکستانی حکمران بھی ایسی ہی چالاکیوں کی وجہ سے حکومت کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں جب سے سابق صدر آصف علی زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف طبل جنگ بجایا ہے' ہر طرف زرداری صاحب کے ہی چرچے ہیں، ان کے یکے بعد دیگرے بیانات و تقریروں نے تو انھیں سوشل میڈیا کا ''ہیرو'' بنا دیا ہے۔۔۔ ان کی جانب سے سندھ رینجرز و عسکری اداروں پر تنقید کے بعد ملکی سیاست ایک نیا رخ اختیار کرچکی ہے۔ حکومت، فوج اور سیاسی جماعتیں حیران ہیں کہ مفاہمت کے بادشاہ نے طبل جنگ کیسے بجا دیا۔
آصف علی زرداری نے سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ''ہمیں مت چھیڑو، چھیڑوگے تو چھوڑیں گے نہیں۔ آپ نے تین سال اور ہم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ ہماری کردار کشی بند نہ ہوئی تو سب کا کچا چٹھا کھول دوں گااور تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادوں گا''۔ آصف علی زرداری کے لب و لہجے کو تقریباََ سبھی سیاستدانوں نے نامناسب قرار دیا۔
اور یہی وجہ بنی کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) جو پہلے ہی شاید اکیلے پرواز کرنا چاہ رہی تھی ایک قدم پیچھے ہٹ گئی، جس سے کسی اور کو نہیں اسٹیبلشمنٹ کو خاصا فائدہ پہنچااور ن لیگ بجائے اس کے کہ زرداری صاحب کے بیان کی تائید کرتی اس نے اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دینے میں ہی عافیت جانی، جس کی وجہ سے ''مفاہمت'' کے بادشاہ زرداری نے بھی پیار و محبت کو ترک کر کے ن لیگ کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرڈالی یعنی دونوں جماعتوں میں خاصی دوریاں پیدا ہو گئیں بقول اعزاز احمد آذر
کوئی بھی پہل نہ کرنے کی ٹھان بیٹھا تھا
انا پرست تھے دونوں ، مفاہمت نہ ہوئی...!!
زرداری صاحب کے حالیہ بیانات اور ''یوٹرن'' سے پیپلز پارٹی کو جو نقصان ہوا سو ہوا اس سے اسٹیبلشمنٹ کئی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی، اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہی یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو سندھ تک محدود کر دیا جائے،، پیپلز پارٹی جنگ کا اعلان کرے تاکہ وہ بھی ان کے خلاف ثبوت ''مارکیٹ'' میں لے آئے وغیرہ۔ اب جب کہ پیپلز پارٹی اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں تو ایسی صورت میں فائدہ غیر جمہوری طاقتوں کو ہونے والا ہے۔
یقیناً اب قومی سیاست نیا ٹرن لینے والی ہے جس میں اصل آزمائش حکمران مسلم لیگ (ن) کی ہوگی۔ وزیراعظم نوازشریف زرداری سے فاصلہ بڑھانے کے بجائے تدبر سے کام لے کر پیپلزپارٹی کا فوج کے ساتھ پیدا ہونے والا فاصلہ مٹانے کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔
کیوں کہ سیاست میں مفادات کا عنصر سب سے پہلے ہوتا ہے اس لیے ن لیگ کے ماضی قریب کے اقدامات پر غور کریں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس سیاسی جماعت نے بھی میاں نواز شریف کے قریب ہونے یا انھیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے انھوں نے بڑی بے رخی سے اسے دھتکار دیا۔ آپ غور کریں! اکثر ایشوز پر میاں نواز شریف اور عمران خان کا موقف تقریباً یکساں ہے، دونوں ہی انقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن پھر بھی تحریک انصاف کو اپنے ساتھ ملانے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تو کیوں؟ جماعت اسلامی جو کبھی نواز لیگ کی اہم اتحادی ہوا کرتی تھی جتنی یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے قریب تھیں آج ان میں اتنی ہی زیادہ دوریاں نظر آرہی ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران نے میاں صاحب کی قربت حاصل کرنے کے لیے کئی مرتبہ سنجیدہ کوششیں کیں مگر انھیں بھی ہر بار منہ کی کھانا پڑی۔ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی کئی مرتبہ یہ اشارے دیے کہ وہ پیپلزپارٹی سے مطمئن نہیں ہے،ن لیگ نے اس کی بھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی یا یوں کہیے کہ اسے بھی لفٹ نہیں کرائی۔ اس پورے ماحول میں نواز شریف اکیلے ہی چل رہے ہیں، جن صوبوں یا علاقوں میں ن لیگ مضبوط نہیں ہے جیسے سندھ و بلوچستان، وہاں بھی ن لیگ نے کسی پارٹی سے اتحاد کے بجائے شخصیات پر انحصار کرنے کو ترجیح دی اور اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لیے انفرادی طور پر ملاقاتیں کیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے تنہا پرواز کرنے کی وجہ کیا ہے؟ بعض مبصرین اس کا جواب یوں دیتے ہیں کہ نواز شریف آیندہ انتخابات میں کلین سویپ کے خواب دیکھ رہے ہیں اور انھیں اپنا مستقبل روشن نظر آرہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ن لیگی قائد دیگر سیاسی جماعتوں کی بلیک میلنگ میں آنے اور ان کا بوجھ اٹھانے سے کترا رہے ہیں۔ میاں برادران کو اگلا دور اپنا نظر آرہا ہے اور موجودہ حالات میں انھیں اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں کی ایسی کوئی خاص ضرورت بھی نہیں کہ وہ انھیں اپنے ساتھ ملاکر خود کو آزادانہ قوت فیصلہ سے محروم کریں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ن لیگ عوامی ہمدردیوں کا فائدہ اکیلے ہی اٹھانا چاہتی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے نواز لیگ ہی واحد پارٹی ہے جو عوام سے مخلص ہے اور ملک و قوم کو بحرانوں کے بھنور سے نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
حکومت کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر وہ تنہا ہوگئی تو برے وقت کا پتا نہیں۔۔۔ ماضی گواہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ صرف سیاسی پارٹیوں کو مہروں کی طرح استعمال کرتی ہے اگر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے ایک بار پھر ملک کو 90 کی دہائی کی سیاست میں دھکیلنے کی کوشش کی تو کیا یہ کسی طالع آزما کو خود دعوت اقتدار دینے اور اپنے پائوں پر کلہاڑے چلانے کے مترادف نہیں؟
زرداری صاحب کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ سیکیورٹی ادارے غیر آئینی اقدامات کی روک تھام کے لیے مکمل اختیارات رکھتے ہیں۔ اگر سندھ حکومت میں کالی بھیڑیں موجود ہیں تو پیپلز پارٹی کو اس کا پشتی بان نہیں بننا چاہیے۔ ورنہ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوگا کہ چوروں، لٹیروں کی باقاعدہ سرکاری سرپرستی کی جارہی ہے۔ آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو قومی دفاعی اداروں کے خلاف محاذ جنگ بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ ورنہ اس کا بھیانک نتیجہ سامنے آ سکتا۔
اور سندھ حکومت میں تو کالی بھیڑوں کی کوئی کمی نہیں ہے وہاں کے بعض ایم این اے و ایم پی اے علی الاعلان ٹھیکوں میں کمیشنز لیتے اور بھتوں میں اپنا حصہ وصول کرتے ہیں،انھی کی دیکھا دیکھی اب پنجاب کے ایم این اے، ایم پی اے بھی ٹھیکیداروں سے زائد کمیشن وصول کر رہے ہیں۔ ذرایع کے مطابق پہلے یہ کمیشن 20فیصد تھی جب کہ اب یہ اس سے بھی تجاوز کر گئی ہے کیوں کہ یہ لوگ سندھ اور بلوچستان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی مثالیں دیتے ہیں۔
زرداری صاحب نے سیاست کے جس کھیل کی شروعات کی ہیں' اس پر سیاسی اور مقتدر حلقوں سمیت کسی کے لیے بھی کھل کر کھیلنا آسان نظر نہیں آتا۔ عوام خوب جانتے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں شیر شاہ سوری کون کون ہے اور وہ کونسی چالیں چل کر اقتدار پر براجمان رہے ہیں۔۔۔!!! ن لیگ تنہا ہو گئی یا نہیں ضرورت ہماری سیاسی جماعتوں کے قبلہ درست کرنے کی ہے نہ کہ اسٹیبلشمنٹ کو دعوتِ اقتدار دینے کی۔۔۔!!!بقول شاعر
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا