پولیس کے لیے جمہوری نظام کی تلاش
موجودہ صورتحال میں پولیس کے لیے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس کارکردگی کا مظاہرہ کرے
KARACHI:
احسان صادق پولیس کے ایک آزمودہ کار سینئر افسر ہیں۔ انھوں نے ''پاکستان میں پولیس ریفارم کی سیاست'' کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے، جسے پاکستان فورم فار ڈیموکریٹک پولیسنگ کی طرف سے روزن نے شایع کیا ہے، وہ لکھتے ہیں۔ ایک جمہوری معاشرے میں پولیس کو جس اصل چیلنج کا سامنا ہے وہ امن و امان کا اس طرح قائم رکھنا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق پر زد نہ آنے پائے۔
موجودہ صورتحال میں پولیس کے لیے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس کارکردگی کا مظاہرہ کرے جس کی عوام اس سے توقع رکھتے ہیں۔ پولیس کے لیے شخصی آزادی اور تحفظ عامہ کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک ایسا چیلنج ہے جسے نبھانا آسان نہیں چنانچہ وہ ہمہ وقت اس توازن کو قائم رکھنے میں لگی رہتی ہے۔ اسی طرح عوام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو پولیس کی طرف سے طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال سے خائف رہتے ہیں اور اسے قبول کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف وہ اپنی حفاظت کے لیے پولیس کی زیادہ سے زیادہ مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔
پولیس کو لوگوں کو گرفتار کرنے، حوالات میں بند کرنے، روکنے اور تلاشی لینے کے اختیارات حاصل ہیں۔ ان اختیارات کے بغیر پولیس کے لیے اپنے فرائض انجام دینا ممکن نہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اختیارات کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جمہوری معاشروں میں مسلسل یہ کوشش کی جاتی ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق پامال نہ ہونے پائیں اور امن و امان بھی برقرار رہے۔
اس مقصد کے لیے چیک اور بیلنس یعنی نگرانی کا ایک ایسا نظام قائم کرنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں جن سے یہ مقصد حاصل ہو جائے۔ پولیس کی زیادتی اور اختیارات کے بے جا استعمال کا معاملہ پاکستان تک محدود نہیں۔ پوری دنیا میں کسی نہ کسی درجے میں یہ شکایت موجود ہے۔ پاکستان میں جو مسئلہ ہے اس کی سنگینی اس وجہ سے زیادہ ہے کہ پولیس سے جواب دہی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔
پھر یہ بھی ایک افسوس ناک صورتحال ہے کہ حکومت کی پولیس کو سدھارنے کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ گورننس کے ایجنڈے کی ترجیحات میں سرے سے یہ مسئلہ شامل ہی نہیں۔ حالانکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس پر سب سے پہلے توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ احسان صادق لکھتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، طبقاتی تقسیم، بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ، افراط زر میں مسلسل اضافہ، مستقل بے روزگاری، شہری آبادی کا بے ترتیب پھیلاؤ، غربت میں اضافہ اور اندرون ملک نقل مکانی، ان سب چیزوں نے مل کر پولیس کے پورے نظام کو متاثر کیا ہے۔
ملک میں فتنہ و فساد کا کوئی معاملہ ہو، ریل کے ڈبوں کو آگ لگائی جائے، بجلی کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج ہو، غربت اور بے روزگاری کے باعث جرائم ہوں یہ سب معاملات پولیس کی تحویل میں چلے جاتے ہیں۔اس صورتحال کے ازالے کے لیے تدبیریں بھی ہوتی ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان میں مختلف تجاویز پیش ہوئیں ان پر کچھ عمل بھی ہوا پھر 2002ء میں ایک نیا قانون پولیس آرڈر کے عنوان سے نافذ ہوا جس کا مقصد پولیس کے بنیادی قانونی، انتظامی اور تنظیمی ڈھانچے کو تبدیل کرنا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی اصلاحی قدم اٹھائے گئے۔
اب یہ سوال بحث طلب ہے کہ ان اقدام سے حالات میں بہتری پیدا ہوئی یا نہیں اور پولیس کا نظام درست ہوا اور اس کے بارے میں عوام کے تصورات میں کوئی تبدیلی آئی یا ہنوز حسب سابق ہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پولیس کے بارے میں عوام کا منفی تصور اور رویہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں پولیس کے مسئلے کا کھل کر تجزیہ کیا جائے، ان اسباب پر غور کیا جائے جو اس بحران کے ذمے دار ہیں۔ اس میں پولیس کو ان بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے میں مملکت کی ناکامی بھی شامل ہے جس کے باعث پولیس اپنے فرائض صحیح طرح ادا نہیں کرسکی اور اس کا احتساب ممکن نہ ہو سکا۔احسان صادق کے تحقیقی مقالے کا مقصد پاکستان میں پولیس ریفارم کے اہم مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔
انھوں نے اپنے جائزے کی ابتدا برصغیر میں انگریزوں کے برسر اقتدار آنے کے وقت سے کی ہے اور بہ طور خاص 1861ء کے پولیس ایکٹ کے تحت پولیس کے نظام میں کی جانے والی اصلاحات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے مقالے کے چار حصے ہیں۔ پہلے حصے میں انھوں نے ان اصلاحات کا ذکر کیا ہے جو برطانوی حکمرانی کے ابتدائی دور میں کی گئیں۔ دوسرے حصے میں انھوں نے 1861ء کے پولیس ایکٹ اور اس کے تحت قائم ہونے والے نظام پر نظر ڈالی ہے۔ تیسرے حصے میں پرانے قانون کی جگہ نئے قانون کا جائزہ لیا ہے اور چوتھے حصے میں وہ اس پر بحث کرتے ہیں کہ پولیس کے نظام کو نئی شکل دینے کے لیے ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔
احسان بتاتے ہیں کہ انگریزوں کی حکمرانی کے پہلے سو سال میں جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو سزا دینے کے نظام میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ جہاں غلطیاں ہوئیں، وہاں نظام پولیس میں اصلاح کرکے انھیں ٹھیک کردیا گیا۔ 1857ء میں جنگ آزادی کے بعد زیادہ وسیع پیمانے پر تبدیلیاں محسوس کی گئیں کیونکہ اب حالات یکسر بدل گئے تھے اس مقصد کے لیے ایک پولیس کمیشن قائم کیا گیا اور اس کی سفارشات کی روشنی میں 1861ء کا پولیس کا قانون نافذ ہوا اور پولیس کا کنٹرول حکومت کے عہدیداروں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
پھر جب پاکستان وجود میں آیا تو یہی قانون یہاں نافذ العمل ہوا۔ احسان صادق کہتے ہیں کہ 1861ء کے قانون کے تحت پولیس کا جو نظام قائم ہوا وہ کسی بھی طرح بے نقص نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے کہ اس قانون کے نافذ ہوتے ہی اس میں اصلاح کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔ آزادی کے بعد پاکستان میں پولیس کے نظام میں پہلی تبدیلی سندھ میں ہوئی جب اسمبلی نے ایک قانون منظور کر کے کراچی میں بمبئی کے نمونے پر میٹرو پولیٹن پولیس بنانے کا فیصلہ کیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس قانون پر اس لیے عمل نہیں ہو سکا کہ اس قانون میں ٹائپ کی ایک غلطی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 1951ء سے 2001ء تک مختلف کمیشن، کمیٹیاں اور ایکسپرٹ گروپ قائم ہوئے اور ان کی رپورٹیں تیار ہوئیں۔ بالآخر 2002ء میں ایک پولیس آرڈر کے نفاذ سے پولیس کے نظام میں بنیادی اور دور رس اصلاحات کی کوشش کی گئی۔
احسان صادق لکھتے ہیں۔ اس آرڈر کے ذریعے یہ طے کر دیا گیا کہ پولیس آئین اور قانون اور عوام کی امنگوں کے مطابق کام کرے گی، پیشہ ورانہ مہارت اور خدمت کے جذبے سے اپنے فرائض انجام دے گی اور عوام کو جوابدہ ہو گی۔ یہ عام لوگوں کے ساتھ شرافت اور اخلاق سے پیش آئے گی، امن کی محافظ ہو گی اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرے گی۔ پولیس تلاشی، گرفتاری اور تفتیش جیسے اختیارات کے استعمال میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گی۔ اس مقصد کے لیے پولیس کے افسروں کو ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا جائے گا۔ 2002ء کے پولیس آرڈر کے تحت کئی نئے ادارے بھی قائم کیے گئے، جن کا مقصد پولیس کے معاملات پر نظر رکھنا، اس کی جوابدہی اور طریقہ کار کو ایک ضابطے میں لانا تھا۔
یہ نیا آرڈر کس حد تک موثر ہوا، اس کے بارے میں احسان لکھتے ہیں۔ ''اس آرڈر پر کس طرح عمل ہوا اور یہ کتنا موثر ثابت ہوا اس کا کوئی باقاعدہ اور جامع جائزہ تو نہیں لیا گیا ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ اس آرڈر کے تحت جو نئے ادارے قائم کیے گئے تھے وہ اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام رہے۔
احسان صادق پولیس کے ایک آزمودہ کار سینئر افسر ہیں۔ انھوں نے ''پاکستان میں پولیس ریفارم کی سیاست'' کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا ہے، جسے پاکستان فورم فار ڈیموکریٹک پولیسنگ کی طرف سے روزن نے شایع کیا ہے، وہ لکھتے ہیں۔ ایک جمہوری معاشرے میں پولیس کو جس اصل چیلنج کا سامنا ہے وہ امن و امان کا اس طرح قائم رکھنا ہے کہ بنیادی انسانی حقوق پر زد نہ آنے پائے۔
موجودہ صورتحال میں پولیس کے لیے یہ بڑا مشکل ہوتا ہے کہ وہ اس کارکردگی کا مظاہرہ کرے جس کی عوام اس سے توقع رکھتے ہیں۔ پولیس کے لیے شخصی آزادی اور تحفظ عامہ کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک ایسا چیلنج ہے جسے نبھانا آسان نہیں چنانچہ وہ ہمہ وقت اس توازن کو قائم رکھنے میں لگی رہتی ہے۔ اسی طرح عوام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو پولیس کی طرف سے طاقت اور اختیارات کے غلط استعمال سے خائف رہتے ہیں اور اسے قبول کرنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف وہ اپنی حفاظت کے لیے پولیس کی زیادہ سے زیادہ مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔
پولیس کو لوگوں کو گرفتار کرنے، حوالات میں بند کرنے، روکنے اور تلاشی لینے کے اختیارات حاصل ہیں۔ ان اختیارات کے بغیر پولیس کے لیے اپنے فرائض انجام دینا ممکن نہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان اختیارات کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جمہوری معاشروں میں مسلسل یہ کوشش کی جاتی ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق پامال نہ ہونے پائیں اور امن و امان بھی برقرار رہے۔
اس مقصد کے لیے چیک اور بیلنس یعنی نگرانی کا ایک ایسا نظام قائم کرنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں جن سے یہ مقصد حاصل ہو جائے۔ پولیس کی زیادتی اور اختیارات کے بے جا استعمال کا معاملہ پاکستان تک محدود نہیں۔ پوری دنیا میں کسی نہ کسی درجے میں یہ شکایت موجود ہے۔ پاکستان میں جو مسئلہ ہے اس کی سنگینی اس وجہ سے زیادہ ہے کہ پولیس سے جواب دہی کا کوئی موثر نظام موجود نہیں ہے۔
پھر یہ بھی ایک افسوس ناک صورتحال ہے کہ حکومت کی پولیس کو سدھارنے کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ گورننس کے ایجنڈے کی ترجیحات میں سرے سے یہ مسئلہ شامل ہی نہیں۔ حالانکہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس پر سب سے پہلے توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ احسان صادق لکھتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، طبقاتی تقسیم، بڑھتی ہوئی آبادی کا دباؤ، افراط زر میں مسلسل اضافہ، مستقل بے روزگاری، شہری آبادی کا بے ترتیب پھیلاؤ، غربت میں اضافہ اور اندرون ملک نقل مکانی، ان سب چیزوں نے مل کر پولیس کے پورے نظام کو متاثر کیا ہے۔
ملک میں فتنہ و فساد کا کوئی معاملہ ہو، ریل کے ڈبوں کو آگ لگائی جائے، بجلی کی لوڈشیڈنگ پر احتجاج ہو، غربت اور بے روزگاری کے باعث جرائم ہوں یہ سب معاملات پولیس کی تحویل میں چلے جاتے ہیں۔اس صورتحال کے ازالے کے لیے تدبیریں بھی ہوتی ہیں۔ آزادی کے بعد پاکستان میں مختلف تجاویز پیش ہوئیں ان پر کچھ عمل بھی ہوا پھر 2002ء میں ایک نیا قانون پولیس آرڈر کے عنوان سے نافذ ہوا جس کا مقصد پولیس کے بنیادی قانونی، انتظامی اور تنظیمی ڈھانچے کو تبدیل کرنا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی اصلاحی قدم اٹھائے گئے۔
اب یہ سوال بحث طلب ہے کہ ان اقدام سے حالات میں بہتری پیدا ہوئی یا نہیں اور پولیس کا نظام درست ہوا اور اس کے بارے میں عوام کے تصورات میں کوئی تبدیلی آئی یا ہنوز حسب سابق ہیں۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پولیس کے بارے میں عوام کا منفی تصور اور رویہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں پولیس کے مسئلے کا کھل کر تجزیہ کیا جائے، ان اسباب پر غور کیا جائے جو اس بحران کے ذمے دار ہیں۔ اس میں پولیس کو ان بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے میں مملکت کی ناکامی بھی شامل ہے جس کے باعث پولیس اپنے فرائض صحیح طرح ادا نہیں کرسکی اور اس کا احتساب ممکن نہ ہو سکا۔احسان صادق کے تحقیقی مقالے کا مقصد پاکستان میں پولیس ریفارم کے اہم مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینا ہے۔
انھوں نے اپنے جائزے کی ابتدا برصغیر میں انگریزوں کے برسر اقتدار آنے کے وقت سے کی ہے اور بہ طور خاص 1861ء کے پولیس ایکٹ کے تحت پولیس کے نظام میں کی جانے والی اصلاحات کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے مقالے کے چار حصے ہیں۔ پہلے حصے میں انھوں نے ان اصلاحات کا ذکر کیا ہے جو برطانوی حکمرانی کے ابتدائی دور میں کی گئیں۔ دوسرے حصے میں انھوں نے 1861ء کے پولیس ایکٹ اور اس کے تحت قائم ہونے والے نظام پر نظر ڈالی ہے۔ تیسرے حصے میں پرانے قانون کی جگہ نئے قانون کا جائزہ لیا ہے اور چوتھے حصے میں وہ اس پر بحث کرتے ہیں کہ پولیس کے نظام کو نئی شکل دینے کے لیے ایجنڈا کیا ہونا چاہیے۔
احسان بتاتے ہیں کہ انگریزوں کی حکمرانی کے پہلے سو سال میں جرائم کی روک تھام اور مجرموں کو سزا دینے کے نظام میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ جہاں غلطیاں ہوئیں، وہاں نظام پولیس میں اصلاح کرکے انھیں ٹھیک کردیا گیا۔ 1857ء میں جنگ آزادی کے بعد زیادہ وسیع پیمانے پر تبدیلیاں محسوس کی گئیں کیونکہ اب حالات یکسر بدل گئے تھے اس مقصد کے لیے ایک پولیس کمیشن قائم کیا گیا اور اس کی سفارشات کی روشنی میں 1861ء کا پولیس کا قانون نافذ ہوا اور پولیس کا کنٹرول حکومت کے عہدیداروں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
پھر جب پاکستان وجود میں آیا تو یہی قانون یہاں نافذ العمل ہوا۔ احسان صادق کہتے ہیں کہ 1861ء کے قانون کے تحت پولیس کا جو نظام قائم ہوا وہ کسی بھی طرح بے نقص نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت تو یہی ہے کہ اس قانون کے نافذ ہوتے ہی اس میں اصلاح کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں۔ آزادی کے بعد پاکستان میں پولیس کے نظام میں پہلی تبدیلی سندھ میں ہوئی جب اسمبلی نے ایک قانون منظور کر کے کراچی میں بمبئی کے نمونے پر میٹرو پولیٹن پولیس بنانے کا فیصلہ کیا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس قانون پر اس لیے عمل نہیں ہو سکا کہ اس قانون میں ٹائپ کی ایک غلطی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 1951ء سے 2001ء تک مختلف کمیشن، کمیٹیاں اور ایکسپرٹ گروپ قائم ہوئے اور ان کی رپورٹیں تیار ہوئیں۔ بالآخر 2002ء میں ایک پولیس آرڈر کے نفاذ سے پولیس کے نظام میں بنیادی اور دور رس اصلاحات کی کوشش کی گئی۔
احسان صادق لکھتے ہیں۔ اس آرڈر کے ذریعے یہ طے کر دیا گیا کہ پولیس آئین اور قانون اور عوام کی امنگوں کے مطابق کام کرے گی، پیشہ ورانہ مہارت اور خدمت کے جذبے سے اپنے فرائض انجام دے گی اور عوام کو جوابدہ ہو گی۔ یہ عام لوگوں کے ساتھ شرافت اور اخلاق سے پیش آئے گی، امن کی محافظ ہو گی اور لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرے گی۔ پولیس تلاشی، گرفتاری اور تفتیش جیسے اختیارات کے استعمال میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گی۔ اس مقصد کے لیے پولیس کے افسروں کو ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا جائے گا۔ 2002ء کے پولیس آرڈر کے تحت کئی نئے ادارے بھی قائم کیے گئے، جن کا مقصد پولیس کے معاملات پر نظر رکھنا، اس کی جوابدہی اور طریقہ کار کو ایک ضابطے میں لانا تھا۔
یہ نیا آرڈر کس حد تک موثر ہوا، اس کے بارے میں احسان لکھتے ہیں۔ ''اس آرڈر پر کس طرح عمل ہوا اور یہ کتنا موثر ثابت ہوا اس کا کوئی باقاعدہ اور جامع جائزہ تو نہیں لیا گیا ہے لیکن عام تاثر یہ ہے کہ اس آرڈر کے تحت جو نئے ادارے قائم کیے گئے تھے وہ اپنا مقصد پورا کرنے میں ناکام رہے۔