رمضان ماہِ صیام و ماہِ قرآن
ماہِ صیام در حقیقت ماہِ قرآن ہے کیونکہ اس مہینے کا سب سے بڑا تحفہ قرآن مجید ہی ہے۔
یہ 1720 کی دہائی تھی کہ جب لوگوں کو علم ہوا کہ دلی کے مدرسہ رحیمیہ کا مہتمم سید قطب الدین قرآن کا فارسی زبان میں ترجمہ کر رہا ہے تو انہیں یہ بات قطعاً پسند نہ آئی۔ لوگوں نے اسے مذہب میں تحریف سے عبارت کیا اور سید قطب الدین کے خلاف ایک محاذ کھڑا کر لیا۔
یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا میں قرآن صرف عربی زبان میں ہی پڑھا جاتا تھا۔ لوگوں کے اذہان میں قرآن کا مفہوم صرف ایک مذہبی کتاب کا سا تھا۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو قرآن کو سمجھ کر پڑھتے تھے مگر انہیں قرآن سمجھنے سے پہلے عربی زبان سیکھنا پڑتی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ تمام مدرسوں میں قرآن کے ساتھ ساتھ عربی زبان بھی سکھائی جاتی تھی مگر اس کے باوجود قرآن کا فہم ایک مخصوص مذہبی طبقے تک محدود رہتا، باقی لوگ اسے صرف تلاوت کی غرض سے ہی پڑھا کرتے اور اسی پر اُمید ثواب باندھتے۔
ایسے میں سید قطب الدین جو کہ دلی کے ایک معتبر سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ قرآن صرف رٹنے یا رٹانے کی چیز نہیں بلکہ یہ سمجھنے، سمجھانے اور بالخصوص عمل کرنے کی چیز ہے۔ یہ محض ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ دنیا گزارنے کا ایک کلیہ ہے، یہ کامیابیوں کی کلید ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر انہوں نے 1719ء میں قرآن کا ہندوستان میں مروجہ فارسی زبان میں ترجمہ شروع کیا مگر انہیں کیا علم تھا کہ انہیں اس قدر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حتیٰ کہ اس ''جسارت'' پر ان پر قاتلانہ حملے بھی کئے گئے مگر ان کے قدم متزلزل نہ ہو سکے۔ وہ اپنے کام میں جتے رہے اور 19 برس کے ایک طویل و صبر آزما عرصے میں آخرِ کار انہوں نے اپنے اس پایہ کو تکمیل تک پہنچایا۔
مسلم امہ کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب قرآن کا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا گیا ہو۔ قرآن کا یہ پہلا ترجمہ فارسی زبان میں 1738ء میں سامنے آیا اور یہ ترجمہ کرنے والے سید قطب الدین دہلوی، ''شاہ ولی اللہ'' تھے جو بچپن میں ہی اپنے زہد کی وجہ سے اس نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ قرآن کا ترجمہ کرنے کی ریت یہاں سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ آپؒ کے بعد آپ کے صاحبزادوں نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور قرآن کا اردو میں لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کی۔ آج دنیا میں ڈھونڈے سے بھی ایسی زبان تلاش کرنا مشکل نظر آتا ہے کہ جس میں قرآن کا ترجمہ نہ ہو چکا ہو۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا قرآن کو مقامی زبان میں ترجمہ کرنے کا مطمح نظر محض یہ تھا کہ لوگ قرآن کو خود پڑھیں اور کسی واسطے کے بغیر خدا سے ہمکلام ہوں۔ یہی بات خود خدا بھی قرآن میں فرماتا ہے کہ
آج جب ہمیں ہر طرح کے اسباب بھی میسر ہیں پھر بھی ہم قرآن سے دور کھڑے ہیں۔ دین کے معاملے میں ہمارا رویہ سوتیلا سا ہے۔ ہم دین کو روز مرہ کے معاملات میں ایک ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو سولہ جماعتیں تو بخوشی پڑھا لیں گے مگر حدیث کی 6 کتابیں نہیں پڑھائیں گے۔ ہم غالب ؔو اقبالؔ، فیض ؔو فرازؔ کو تو پڑھ لیں گے مگر خدا کی کتاب طاق پر ہی دھری رہ جائے گی۔ اول تو ہم قرآن کو جزدان سے باہر ہی نہیں نکالتے اور اگر نکال کر قرآن پڑھتے بھی ہیں تو محض پڑھنے کیلئے، سمجھنے یا عمل کرنے کیلئے نہیں پڑھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس قرآن کے ذریعے خدا سے ہم کلام ہونے کا ہنر نہیں آتا۔
''قرآن کی فریاد'' لکھتے ہوئے ''ماہر القادری'' نے کیا خوب کہا تھا کہ
اب جبکہ خدا کی جانب سے ہم پر سایہ فگن یہ مغفرت کا ساماں، ماہ صیا م نہایت تیزی سے گزر رہا ہے، ہمیں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میری رحمتوں، میری برکتوں سے اپنا دامن بھرلو۔ ماہِ صیام در حقیقت ماہِ قرآن ہے کیونکہ اس مہینے کا سب سے بڑا تحفہ قرآن مجید ہی ہے۔ یہ وہ بے مثال کتاب ہے کہ جس کا موضوع ہی انسان ہے۔یہ چند سو صفحوں کی کتاب انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اب بھی ہم اگر اس کی رحمتوں کو اپنے دامن میں نہ سمیٹ سکیں تو ہماری اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ہمارے زوال و انحطاط کی وجہ اقبالؔ نے بھی یہی بتائی ہے کہ؎
اگر ہمیں خدا سے کلام کرنا ہے، دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہونا ہے تو پھر قرآن کے ساتھ ناطہ جوڑنا ہوگا۔ اگر ہمیں دین پر عمل کرنا ہے تو پھر قرآن کو اس کی روح کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔ ہماری ہر مشکل کی کنجی قرآن میں پنہاں ہے اور ہمیں قرآن میں غوطہ زن ہونا پڑے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا میں قرآن صرف عربی زبان میں ہی پڑھا جاتا تھا۔ لوگوں کے اذہان میں قرآن کا مفہوم صرف ایک مذہبی کتاب کا سا تھا۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو قرآن کو سمجھ کر پڑھتے تھے مگر انہیں قرآن سمجھنے سے پہلے عربی زبان سیکھنا پڑتی تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ تمام مدرسوں میں قرآن کے ساتھ ساتھ عربی زبان بھی سکھائی جاتی تھی مگر اس کے باوجود قرآن کا فہم ایک مخصوص مذہبی طبقے تک محدود رہتا، باقی لوگ اسے صرف تلاوت کی غرض سے ہی پڑھا کرتے اور اسی پر اُمید ثواب باندھتے۔
ایسے میں سید قطب الدین جو کہ دلی کے ایک معتبر سادات گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ قرآن صرف رٹنے یا رٹانے کی چیز نہیں بلکہ یہ سمجھنے، سمجھانے اور بالخصوص عمل کرنے کی چیز ہے۔ یہ محض ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ دنیا گزارنے کا ایک کلیہ ہے، یہ کامیابیوں کی کلید ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر انہوں نے 1719ء میں قرآن کا ہندوستان میں مروجہ فارسی زبان میں ترجمہ شروع کیا مگر انہیں کیا علم تھا کہ انہیں اس قدر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حتیٰ کہ اس ''جسارت'' پر ان پر قاتلانہ حملے بھی کئے گئے مگر ان کے قدم متزلزل نہ ہو سکے۔ وہ اپنے کام میں جتے رہے اور 19 برس کے ایک طویل و صبر آزما عرصے میں آخرِ کار انہوں نے اپنے اس پایہ کو تکمیل تک پہنچایا۔
مسلم امہ کی ایک ہزار سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب قرآن کا کسی اور زبان میں ترجمہ کیا گیا ہو۔ قرآن کا یہ پہلا ترجمہ فارسی زبان میں 1738ء میں سامنے آیا اور یہ ترجمہ کرنے والے سید قطب الدین دہلوی، ''شاہ ولی اللہ'' تھے جو بچپن میں ہی اپنے زہد کی وجہ سے اس نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ قرآن کا ترجمہ کرنے کی ریت یہاں سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ آپؒ کے بعد آپ کے صاحبزادوں نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور قرآن کا اردو میں لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کی۔ آج دنیا میں ڈھونڈے سے بھی ایسی زبان تلاش کرنا مشکل نظر آتا ہے کہ جس میں قرآن کا ترجمہ نہ ہو چکا ہو۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا قرآن کو مقامی زبان میں ترجمہ کرنے کا مطمح نظر محض یہ تھا کہ لوگ قرآن کو خود پڑھیں اور کسی واسطے کے بغیر خدا سے ہمکلام ہوں۔ یہی بات خود خدا بھی قرآن میں فرماتا ہے کہ
''ہم نے اس قرآن کو سمجھنے کے لئے آسان کر دیا تو کوئی ہے اسے سمجھنے والا؟''
آج جب ہمیں ہر طرح کے اسباب بھی میسر ہیں پھر بھی ہم قرآن سے دور کھڑے ہیں۔ دین کے معاملے میں ہمارا رویہ سوتیلا سا ہے۔ ہم دین کو روز مرہ کے معاملات میں ایک ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو سولہ جماعتیں تو بخوشی پڑھا لیں گے مگر حدیث کی 6 کتابیں نہیں پڑھائیں گے۔ ہم غالب ؔو اقبالؔ، فیض ؔو فرازؔ کو تو پڑھ لیں گے مگر خدا کی کتاب طاق پر ہی دھری رہ جائے گی۔ اول تو ہم قرآن کو جزدان سے باہر ہی نہیں نکالتے اور اگر نکال کر قرآن پڑھتے بھی ہیں تو محض پڑھنے کیلئے، سمجھنے یا عمل کرنے کیلئے نہیں پڑھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس قرآن کے ذریعے خدا سے ہم کلام ہونے کا ہنر نہیں آتا۔
''قرآن کی فریاد'' لکھتے ہوئے ''ماہر القادری'' نے کیا خوب کہا تھا کہ
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویز بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جزدان حریر و ریشم کے، پھول و ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح توتا مینا کو، کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اس طرح سکھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اک اک جلسے میں، پڑھ پڑھ کر سنایا جاتا ہوں
اب جبکہ خدا کی جانب سے ہم پر سایہ فگن یہ مغفرت کا ساماں، ماہ صیا م نہایت تیزی سے گزر رہا ہے، ہمیں پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ میری رحمتوں، میری برکتوں سے اپنا دامن بھرلو۔ ماہِ صیام در حقیقت ماہِ قرآن ہے کیونکہ اس مہینے کا سب سے بڑا تحفہ قرآن مجید ہی ہے۔ یہ وہ بے مثال کتاب ہے کہ جس کا موضوع ہی انسان ہے۔یہ چند سو صفحوں کی کتاب انسانیت کو درپیش تمام مسائل کا حل اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اب بھی ہم اگر اس کی رحمتوں کو اپنے دامن میں نہ سمیٹ سکیں تو ہماری اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ہمارے زوال و انحطاط کی وجہ اقبالؔ نے بھی یہی بتائی ہے کہ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اگر ہمیں خدا سے کلام کرنا ہے، دنیا و آخرت میں کامیاب و کامران ہونا ہے تو پھر قرآن کے ساتھ ناطہ جوڑنا ہوگا۔ اگر ہمیں دین پر عمل کرنا ہے تو پھر قرآن کو اس کی روح کے ساتھ سمجھنا ہوگا۔ ہماری ہر مشکل کی کنجی قرآن میں پنہاں ہے اور ہمیں قرآن میں غوطہ زن ہونا پڑے گا۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدتِ کردار
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔