باغباں بھی خوش رہے‘ راضی رہے صیاد بھی
آج کل پاکستان کا سیاسی موسم جون کے گرم ترین دنوں کو مات دے رہا ہے۔
PESHAWAR/
KARACHI:
آج کل پاکستان کا سیاسی موسم جون کے گرم ترین دنوں کو مات دے رہا ہے۔ زنجیر کی کڑیاں باوجود ایک دوسرے سے جڑے رہنے کے مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے کچھ ایسی ناپسندیدہ آوازیں پیدا کر رہی ہیں، جو کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہیں، انتباہ بھی ہوسکتی ہیں لیکن عوام کے لیے کسی طور پر بھی کسی ''خوش خبری'' کی وجہ نہیں بن سکتیں۔ کیونکہ کوئی بھی ایک حلقۂ زنجیر سے الگ ہونا نہیں چاہتا۔ کسی خیرکی امید کسی بھی طرف سے اب ناممکن ہے۔
کہ ڈالروں سے بھری لانچ کس نے بھیجی؟ اور وہ اب کس کے قبضے میں ہے؟ گیدڑ اچانک شیر بن کر کیوں دھاڑنے لگا؟ اور پھر راز کھل جانے پر دوبارہ اپنی کھال میں واپس آکر کیوں درودیوار سے منہ رگڑنے لگا؟ بہت کچھ حکایتیں اورکہانیاں آج کل نجی محفلوں کے علاوہ ٹی وی چینلز پہ بھی بیان ہو رہی ہیں (شاباش ہے ان کی جرأت اور ہمت پر) لیکن مجھے خدا جانے کیوں موجودہ سیاسی صورت حال پہ کچھ محاورے، کہاوتیں، ضرب المثل اشعار اور کچھ مکالمے بہت یاد آنے لگے ہیں۔ کیوں نہ آپ بھی ان کا مزہ لیں۔ اور بتائیں کہ کیا ان کی بلاغت سے انکار کیا جاسکتا ہے؟ ترک وزیر اعظم کی اہلیہ کی جانب سے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے دیا جانے والا قیمتی ہار اچانک اسی طرح موضوع سخن بن گیا جیسے فلم بدنام کا یہ مکالمہ حسب ضرورت کہیں بھی نہایت معنی آفرین بن جاتا ہے۔
''کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے؟ کس نے دیے ہیں یہ جھمکے؟ کیوں لیے ہیں یہ جھمکے؟'' مقتدر قوتوں کی طرف سے وہ ہار جو یقینا کسی کے گلے کی زینت ہوگا، اچانک سابق وزیر اعظم کے گلے پڑ گیا۔ لیکن زنجیر کی کڑیوں کی مضبوطی کبھی اجازت دے گی کہ وہ ہار واقعی میں دستیاب ہو۔ عام بازاری زبان میں ایسی باتوں کو ''تڑی لگانا'' کہتے ہیں۔ اور محاورتاً اسے ''گیدڑ بھبکی'' بھی کہہ سکتے ہیں۔
سابق صدر نے جو کہا سو کہا۔ لیکن کہیں کسی نے دھیرے سے، چپکے سے یونیفارم زیب تن کرتے ہوئے ان کے کان میں کہا ''تم ڈال ڈال تو ہم پات پات'' لیکن یہ بھی محض محب وطن شہریوں کی خوش فہمی ہی ثابت ہوگی۔ کیونکہ ایسے موقعوں پر پڑھے لکھے سنجیدہ افراد اس ضرب المثل کو زیادہ قرین قیاس قرار دیتے ہیں۔ ہماری مراد ''گرگِ باراں دیدہ'' سے ہے۔ بدقسمتی سے اردو کے ایک استاد نے اس ضرب المثل کا ترجمہ۔ بارہ آنکھوں والا بھیڑیا، کیا تھا اور ہم نے اپنا سر پیٹ لیا تھا کہ جعلی ڈگریوں، رشوت اور سیاسی جوڑ توڑ کی بنا پر اب ایسے پروفیسر عام دستیاب ہیں جن کے نام کے لاحقوں میں بیشترکے ''ڈاکٹر'' بھی لگا ہوا ہے۔
اب یہ بات راز نہیں رہی کہ ہیروں کے ہار، جواہرات اور سونے کے نیکلس کہاں سے آئے، کہاں گئے، اور کیسے گئے؟ دیگر مال اسباب الگ۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ:
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل' وہ دکان اپنی بڑھا گئے
بے چاری ایان علی جس کی عدالت میں حاضری نہیں بلکہ فیشن شو میں کیٹ واک ہوتی تھی۔ اس کی ایک دن کی پیشی۔ (اوہ میں پھر غلط کہہ گئی) نمائش پر ایک لاکھ 69 ہزار پاکستانی روپے خرچ ہوتے تھے۔ جو بہت اونچی ہواؤں میں محو پرواز تھی کہ پاکستان کے عدالتی نظام کے سقم ''سیاں'' کے ''کوتوال شہر'' سے قریبی روابط اور ڈالروں کی خوشبو اسے چٹکی بجاتے پھر کسی خواب ناک ماحول کے پرکشش کمرے میں پہنچا دے گی۔ لیکن یہ کیا ہوا؟ بقول استاد قمر جلالوی:
ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو
کہاں وہ چٹکی بجاتے ہی دوبارہ نئے عزم اور نئی پیکیج ڈیل کے ساتھ مزید کئی سو غیر ملکی دورے، برج خلیفہ کے فلیٹ میں شب باشی، ہانگ کانگ، سنگاپور اور دبئی کی چکا چوند روشنیوں میں نہا کر نئے سرے سے اور نئے ''ساز و سامان'' سے لیس میدان میں اترنے کی تیاری۔ اور کہاں یہ کہ سب رنگ غائب؟
وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا
تنہائی' اداسی اور فرسٹریشن نے اسے ایک مصرعہ یاد دلادیا کہ:
ہم تو ڈوبے ہیں صنم' تم کو بھی لے ڈوبیں گے
پھر کسی شاطر ذہن نے اسے ایک ترکیب بتائی کہ وہ اپنی یادداشتیں قلم بند کروائے۔ جس طرح ہمارے بیشتر بے ایمان سیاست دان، بیوروکریٹ اور اعلی قیادتیں ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سارا ''سچ'' اگل دیتی ہیں جسے وہ سروس کے دوران ''نظریۂ ضرورت'' کے تحت نہیں سامنے لاسکتے۔ لیکن جب مزید ایکسٹینشن ملنے کی تمام کوششیں دم توڑ دیتی ہیں تو اچانک ان کا سروس کے دوران سویا ہوا ضمیر ایک زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا کر باہر نکل آتا ہے اور پھر تمام نجی ٹی وی چینلز پہ وہ خود اپنے انکشافات سے بھرپور انٹرویوکا انتظام و اہتمام بھی کرتے ہیں اور وقت بھی خریدتے ہیں اور وہی محاورہ پورا اترتا ہے کہ ''......بھی سوا لاکھ کا''(خالی جگہ بھرنے کی ضرورت نہیں)۔ یہ نسخۂ کیمیا تو بڑے کام کا نکلا۔ اور بس کتاب کے 70 سے زائد صفحات بھی سنا ہے کہ مکمل ہوگئے ہیں۔ اورکیوں نہ ہوں۔ یہ کون سا مشکل کام ہے۔ جب ہمارا ہی ایک صحافی بھائی ایک سابق وزیر اعظم کی جیون کتھا لکھ کر اپنا ''حق دوستی'' وصول کرسکتا ہے۔
تو بھلا وہ تتلی کیوں نہیں؟ جس کے پروں پہ پڑنے والے پانی نے سب کے اصلی چہرے دکھلا دیے۔ کہنے کو تو سیانے یہ بھی کہتے سنے گئے کہ موصوف کا سارا غصہ اسی بات پر تھا کہ تتلی آزاد نہیں ہوئی۔ جیل میں اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ لیکن آج نہیں تو کل وہ تو آزاد ہو ہی جائے گی۔ پاکستان کی اب تک کی تاریخ میں کیا کسی بااثر شخص کو یا اس سے وابستہ کسی بھی بدکردار، بے ایمان اور بے ضمیر شخص کو سزا ہوئی ہے؟ اگر یاد نہیں آرہا تو متذکرہ بالا ضرب المثل پھر یاد کر لیجیے یعنی ''گرگِ باراں دیدہ''۔ یا پھر ''عذرِ گناہ بدتر از گناہ''
سیانے مسلسل یہ راگ آلاپ رہے ہیں کہ ''بہت کچھ ہونے والا ہے''۔ بڑی مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے خصوصی جال تیار کیے گئے ہیں۔ لیکن یہ بھی تو ایک تلخ سچائی ہے کہ N.R.Oکی کشتی بھی مگرمچھوں کو آزاد کرنے اور انھیں انڈے بچے دینے کے لیے تیار کی گئی تھی؟ اب بھی یہی ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے پاس بڑی مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے جال ہے نہ تربیت یافتہ ماہی گیر۔ سب کچھ ہے لیکن ہوس اقتدار اور دولت کا بدذات دیو جب ان بڑی مچھلیوں کو جال میں قید کرلیتا ہے۔ تو اچانک اس کی ازلی فطرت بیدار ہوجاتی ہے۔
اور وہ یہ سوچتا ہے کہ ان نایاب مچھلیوں سے تو وہ اپنی کئی نسلوں تک کو نہایت اعلیٰ قسم کا بریک فاسٹ، لنچ، ڈنر اور درآمد شدہ مشروب فراہم کرسکتا ہے۔ پھر وہ ان مچھلیوں کو دوبارہ کرپشن کے سمندر میں تیرنے اور نسلیں بڑھانے کے لیے آزاد کردیتا ہے۔ یہی اس ملک کی تقدیر ہے۔ سارے چور اکٹھے ہوگئے ہیں۔ جو اپنی دولت سے اسمبلی تک کو خرید سکتے ہیں۔ کسی کے ناجائز ذرایع آمدنی کے بارے میں کوئی بھی کسی سے سوال نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ بھی انھی کے قبیلے کے لوگ ہیں۔ کراچی میں بجلی اور پانی نہ ہونے سے گرمی سے 1200 سے زائد لوگ مرگئے۔ لیکن حکمراں میٹرو بس اور میٹرو ٹرین کی داد وصول کرتے نہیں تھکتے۔ واللہ گڈ گورننس اسی کو تو کہتے ہیں یعنی:
من ترا حاجی بگوئم' تو مرا حاجی بگو۔۔۔۔کاروبار حیات اسی طرح چلتا ہے۔