روزہ رکھیے تندرست رہیے

آج مغرب میں بھی خورونوش میں زیادتی و بسیار خوری کو ناپسند کیا جا رہا ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میں فرماتے ہیں کہ ''سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے (رمضان المبارک) کو پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے۔'' (سورۃ البقرہ)

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ''اگر لوگوں کو روزے کی حقیقت معلوم ہو جائے تو میری امت یہ تمنا کرنے لگے کہ پورا سال ہی رمضان المبارک رہے۔'' نیز آپؐ نے فرمایا ''ہلاک ہوا وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔'' آپؐ نے فرمایا ''جو شخص رمضان المبارک کا ایک روزہ بغیر شرعی عذر کے نہ رکھے تو تمام عمر کے روزے رکھنا بھی اس کا بدل نہیں ہو سکتا، رمضان شریف صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔''

ہاں! البتہ شرعی اعتبار سے بعض امراض میں مبتلا کچھ ایسے مریض بھی ہوتے ہیں جو تمام تر خواہش کے باوجود روزہ رکھنے سے معذور ہوتے ہیں، جنھیں پھر اسلام نے بھی روزہ سے رخصت دی ہے موجودہ دور میں سائنسی ترقی اپنے عروج پر ہے، میڈیکل سائنس کی ترقی کی بدولت کئی عوامل سامنے آ چکے ہیں، جن کے باعث ہر قسم کی بیماری کو جزوی یا مکمل کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

لہٰذا ایسے تمام مریض جنھیں شریعت نے روزے سے چھوٹ دی ہو تاہم وہ اپنے مذہبی عقیدے اللہ کی خوشنودی اور رمضان شریف سے وابستہ نیکیوں کے حصول کے بھی خواہاں و آرزو مند ہوں ان کے لیے ان کے معالج کا مشورہ یقینا بہت اہمیت کا حامل ہے، ایسے مریضوں کو ماہرین سے مکمل مشاورت کے بعد ان کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے۔

عہد جدید میں انسانی جسم اور بالخصوص مختلف بیماریوں میں مبتلا انسانی جسم پر سائنسی و طبی نقطہ نظر سے انتہائی اہم اور توجہ طلب تحقیقی نتائج سامنے آئے ہیں، جن میں سے اکثر لاعلاج بیماریوں میں روزہ رکھنا ہی غنیمت ہے جب کہ بعض امراض میں روزہ نہ رکھنا ہی بہتر ہے۔ مثلاً ذیابیطس کے ایسے مریض جو انسولین استعمال کرتے ہیں انھیں روزے نہیں رکھنے چاہئیں کیونکہ ان کی ذیابیطس کو قابو میں رکھنا آسان کام نہیں، اسی طرح شدید ہائپر ٹینشن اور امراض قلب میں مبتلا مریضوں کو بھی روزہ نہیں رکھنا چاہیے، طبیبوں اور معالجین کی جانب سے مرگی کے مرض میں مبتلا افراد کو بھی روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

ایسے مریض جن کے گردوں کی کارکردگی سست پڑ گئی ہو اور روزہ رکھنے سے پانی کی کمی کا اندیشہ ہو یا جن مریضوں کے گردے ناکارہ ہونے کے سبب ان کا ڈائیلائیسس (Dialysis) ہو رہا ہو، ایسے افراد جو گردے کے درد اور معدے کے السر میں مبتلا ہوں، ایسے بوڑھے و ضعیف افراد جو دماغ کی رگوں کے مرض میں مبتلا ہوں اور حالت روزہ میں اشیا کی شناخت کی صلاحیت کھو بیٹھیں، شدید دمہ میں مبتلا افراد، حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کے لیے اطبا کے نزدیک روزہ رکھنا مناسب نہیں۔

اس کے برعکس انسولین نہ لینے والے مریض جو صرف خوراک سے ذیابیطس کنٹرول کر رہے ہوں، دمے کے وہ مریض جن کا مرض معمولی ہو اور وہ تکلیف کی صورت میں بغیر روزہ توڑے سانس کے ساتھ والی ادویہ (Inhaler) استعمال کر سکتے ہوں یا دیر پا اثر والی دوائیں افطار کے بعد اور سحری سے قبل لے سکتے ہوں، بلند فشار خون (High Blood Pressure) اور امراض قلب میں مبتلا ایسے مریض جو خون پتلا کرنے والی ادویہ استعمال کرتے ہوں اور ان کے لیے طویل الاثر دوا کفایت کر سکتی ہو، گردے کے ایسے مریض جن کا اب گردہ تبدیل (Transplant) ہو چکا ہو اور اس کا فعل وکارکردگی بھی درست ہو، ایسے افراد کو روزے سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا بلکہ روزے کی بدولت ان پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


عصر حاضر میں بعض لوگ بالکل تندرست ہونے کے باوجود روزے سے فرار چاہتے ہیں حالانکہ تندرست افراد کی جسمانی کارکردگی پر روزے کے حیرت انگیز بہترین طبی و سائنسی مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ Health and Ramadan کے موضوع پر جو پہلی انٹرنیشنل کانفرنس کاسابلانکا میں منعقد ہوئی اس میں 50 تحقیقی مقالات پیش کیے گئے ہیں جن میں روزے کی افادیت اور کرشمہ سازیوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔

آج مغرب میں بھی خورونوش میں زیادتی و بسیار خوری کو ناپسند کیا جا رہا ہے اور صحت انسانی کے لیے مضر گردانا جا رہا ہے، تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو کھانے کی صرف تھوڑی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے، صرف اتنی جو جسم میں توانائی پیدا کر سکے صرف اتنی توانائی جو انسانی زندگی کے لیے ضروری ہو، جس سے اس کی صحت اچھی رہ سکے اور وہ اپنی روز مرہ کی ذمے داریاں پوری کر سکے۔

بسیار خوری چربی بن کر انسان کا وزن بڑھاتی اور موٹا و فربہ کرتی ہے نیز انسانی جسم بہت سے امراض کا شکار ہوجاتا ہے بسیار خوری سے انسان کو لاحق ہونے والی مضرت تمام طریقہ لائے علاج میں مسلم ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کیے تا کہ گیارہ ماہ کے دوران خورونوش کی بے احتیاطی کے مضر اثرات کا ازالہ ہو سکے۔

رسول اللہؐ نے فرمایا ''روزے رکھو، تندرست ہو جاؤ گے۔'' مزید فرمایا ''ہر شے کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔' حافظ ابن قیمؒ کے مطابق ''روزے کا شمار روحانی اور طبعی دواؤں میں کیا جاتا ہے، اگر روزہ دار ان چیزوں کو ملحوظ رکھے جن کا طبعی اور شرعی طور پر رکھنا ضروری ہے تو اس سے قلب و بدن کو بے حد نفع حاصل ہو گا۔'' حکیم محمد سعید شہید لکھتے ہیں ''روزہ جسم میں پہلے سے موجود امراض و آلام کا علاج بھی ہے اور حفظ ماتقدم کی ایک تدبیر بھی۔ روزہ رکھنے والا صرف بیماریوں سے ہی نجات نہیں پاتا بلکہ ان کے لاحق ہونے کے ممکنہ خطرات سے بھی محفوظ ہو جاتا ہے، اس کا طبی سبب یہ ہے کہ روزے سے قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے۔''

روزے کی افادیت کے بیان میں مزید رقم طراز ہیں کہ ''آج جدید سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ روزہ کولیسٹرول کو ضایع کرتا ہے، یہ وہی خون کا کولیسٹرول ہے جو امراض قلب کا سب سے بڑا سبب ہے،آج کی دنیا میں اس سائنسی انکشاف کے لحاظ سے روزہ ایک برکت ہے جو بات آج سائنس دانوں کو معلوم ہوئی ہے اس کا ادراک ذات ختم الرسلؐ کو تھا اور ضرور تھا، اسی لیے آنحضرتؐ نے روزے کو جسم و روح کے لیے باعث خیر و برکت قرار دیا۔'' فارمسٹ محمد فاروق کمال لکھتے ہیں ''سائنسی تحقیق کے مطابق روزے کے دوران بھوک کی وجہ سے اور خون میں غذائیت کی کمی کے سبب ہڈیوں کے گودے خون بنانے کا عمل تیز کر دیتے ہیں، یوں خون بنانے کے سسٹم کی اوور ہالنگ ہو جاتی ہے۔''

ڈاکٹر محمد عالمگیر خان لکھتے ہیں کہ ''سحری و افطار کے وقت پانی عام مقدار سے زیادہ پیا جاتا ہے، جس سے صبح و شام گردوں کی دھلائی ہوتی رہتی ہے، اگر ریت کے ذرات گردوں میں اکٹھے ہو جائیں تو وہ بھی پیشاب کی زیادتی کی وجہ سے نکل جاتے ہیں، ماہرین نفسیات کے مطابق ''انسانی نفس میں الم و مصیبت برداشت کرنے بلکہ اس سے لطف اندوز ہونے کا مادہ ہوتا ہے لہٰذا انسان روزے کے دوران بھوک، پیاس یا ضعف بدن سے ایک خاص لذت محسوس کرتا اور خوف و حزن سے پیدا ہونے والے نیز دیگر نفسیاتی عوارض سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق روزے سے انسان کے نظام تولید اور نظام اعصاب پر بھی خوش آیند اثرات مرتب ہوتے ہیں، ڈاکٹر ہلوک نورباقی کے نزدیک روزے کا سب سے اہم اثر خلیوں اور ان کے اندرونی مادوں کے درمیان توازن کو قائم پذیر رکھنا ہے، ہمارے جسمانی اعضا شدید بے چینی سے ماہ رمضان کا انتظارکرتے ہیں تا کہ روزے کی برکت سے کچھ سستانے کا موقع حاصل کر سکیں اور مزید کام کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو جلا دے سکیں، ایلن کاٹ (Allan Cott)نے 1975ء میں تحقیق سے ثابت کیا کہ روزے سے نظام ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر محمد عالمگیر خان نے روزے کو ان گنت طبی فوائد کا سرچشمہ قرار دیا ہے،ترک اسکالر ڈاکٹر ہلوک نورباقی کے مطابق جیسے جیسے طبی علم نے ترقی کی اس حقیقت کا بہ تدریج علم حاصل ہوا کہ روزہ تو ایک طبی معجزہ ہے، وہ لکھتے ہیں کہ وہ دن بھی آئے گا جب ہر انسان روزہ رکھے گا، لہٰذا روزہ ہمیں صحت مند رکھنے، ہمارے امراض کو دفع کرنے اور مختلف بیماریوں کے خلاف ہماری قوت مدافعت بڑھانے میں انتہائی ممد و معاون ہے، لہٰذا جشن رمضان کا تقاضا یہی ہے کہ روزہ رکھیے اور پھر سارا سال صحت مند رہیے، سچ تو یہ ہے کہ جشن عید منانے کے بھی وہی حق دار ہیں جنھوں نے بلا کسی شرعی عذر کے روزہ نہ چھوڑا اور جشن رمضان کے انعقاد کا اہتمام و احترام کیا پھر اللہ نے ان ہی کے لیے جشن عید کا انتظام کیا۔
Load Next Story