بجلیاں کیوں گراتے ہو

یاد رکھئے! روزِ محشر نہ آپ کوئی جھوٹ بول سکیں گے نہ کوئی پریس کانفرنس کر سکیں گے۔


محمد نعیم June 25, 2015
افسوس کہ یہ قیامت اُس وقت ٹوٹی جب عوامی ووٹ کی طاقت سے منتخب ہونے والے اقتدار کی اونچی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ فوتو: ایکسپریس

اگر کسی نے ''جھوٹ'' پر پی ایچ ڈی یا کوئی خاص تحقیق کرنی ہے تو اپنی ریسرچ کا آغاز پاکستان کے حکمرانوں سے کرے۔ جھوٹ بھی ایسے بولیں گے کہ دن میں سورج کے نہ ہونے کی نفی کریں گے۔ پاکستان کی بجلی و پانی غائب کرنے والے عابد شیر علی نے تو اپنی پریس کانفرنس کے دوران ڈھٹائی اور بے حسی میں تمام سیاست دانوں کے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے۔ پہلا جھوٹ تو انہوں نے یہ بولا کہ ملک میں غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی، دوسرے جھوٹ پر مبنی ان کا بیان یہ تھا کہ گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ دار حکومت نہیں۔ یہ جملہ سن کر تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ دل میں تو جانے کن کن جارحانہ عزائم نے سر اٹھایا لیکن بے بسی سے صرف مٹھی بھینچ کرہی رہ گئے۔



وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی کا یہ بیان تخت رائیونڈ کو لرزانے کے لیے کافی ہے۔ اگر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کراچی میں مرنے والوں کو مکھی مچھر کے برابر بھی اہمیت دیتے ہیں تو انہیں اس بیان کا فوری طور پر نوٹس لینا چاہیے۔ لیکن وہ کیوں لیں گے نوٹس کسی وزیر کی بات کا یا عوام کو ان کے کسی حق سے محروم کیے جانے کا۔

یہ کوئی الیکشن کا دور تو نہیں کہ سب مارے مارے پورے پاکستان میں جھولی پھیلائے ووٹ کی بھیک در در مانگ رہے ہوں۔ میں قسم اٹھانے کے لیے تیار ہوں، اگر گرمی کی یہ لہر، بجلی کا بحران، لوگوں کا پے درپے جان کی بازی ہارنا، الیکشن کے دور میں ہوتا تو نواز شریف، عابد شیر علی، سید قائم علی شاہ سمیت عوام کے ووٹوں پر عیاشیاں کرنے والے تمام سیاست دان کراچی کے گلی محلوں میں گھوم رہے ہوتے۔ کوئی کے الیکٹرک کا ٹرک لے کر بجلی کے ٹوٹے ہوئے تار ٹھیک کروا رہا ہوتا تو کوئی برف کے ڈپو پر کھڑے ہو کر کئی ٹن برف مفت تقسیم کر رہا ہوتا۔ کسی نے اپنے ڈیرے ہسپتال میں تو کسی نے قبرستان میں ڈالے ہوئے ہوتے۔ ہر مرنے والے کے لواحقین اور متاثرہ شخص کے لیے امداد کے اعلانات ہوتے۔ صوبائی و وفاقی مسندِ اقتدارکے خواہش مند سفید ٹوپیاں پہنے جنازوں کو کندھا بھی دے رہے ہوتے اور گٹر ابلتی گلیوں میں جا کر مرنے والوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھا کر اور ان کے سر پر دست شفقت رکھ کر تصاویر بھی بنوا رہے ہوتے۔

مگر افسوس صد افسوس کہ یہ قیامت اس وقت ٹوٹی ہے جب عوامی ووٹ کی طاقت سے منتخب ہونے والے اقتدار کی اونچی کرسیوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ یہ کرسیاں اتنی اونچی ہیں کہ ان پر بیٹھنے کے بعد ووٹ دینے والے کیٹرے مکوڑوں سے بھی زیادہ حقیر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کرسیوں پر بیٹھنے والوں کو یقین ہے کہ ابھی کچھ سال اُن کے اقتدار کے باقی ہیں۔ پھر جب الیکشن ہونا ہوگا تو سب اس ظلم و قہر کو بھول چکے ہوں گے۔ پھر سارے بہروپیے روٹی، کپڑا اور مکان۔ گیس، بجلی اور پانی کے نعرے لے کر عوام کو بے وقوف بنائیں گے اور آئندہ پانچ سالوں کے لیے ایک بار پھر عیاشی کا دور شروع ہوجائے گا۔



یہ پاکستان ہے۔ یہاں یہی ہوتا آ رہا ہے۔ یہاں عوام کو حقوق دیئے نہیں، غصب کیے جاتے ہیں، بلوں کی عدم ادائیگی پر عوام سزا کی مستحق قرار پاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ادارہ عوام کو ان کا جائز اور قانونی حق نہ دے تو ان کے لیے کوئی سزا نہیں۔ سزا تو دور کی بات کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر عوام بجلی کا بل نہ دیں تو اُن کے خلاف آپریشن برق ۔۔۔ جرمانہ ۔۔۔ جیل کی سلاخیں اور کنکشن منقطع جیسی سزائیں۔ لیکن اگر 'کے الیکٹراک' عوام کو بجلی دے نہ دے، اور پھر بھی بجلی کے بل زیادہ دے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ستم در ستم یہ ہے کہ جھوٹے اور مکار لوگوں نے اعلان کیے کہ ماہ رمضان میں لوڈ شیڈنگ کم ہوجائے گی۔ سحروافطار میں بجلی نہیں جائے گی۔ لیکن آغاز رمضان سے اب تک 'کے الیکٹرک' کی انتظامیہ نے اپنی اصلیت دکھا دی۔ نماز تراویح کے وقت بجلی غائب، رات کو جو چند گھنٹے آرام کے ملنے کے بعد لوگوں نے سحری کے لیے اٹھنا ہے اُس وقت بھی بجلی غائب اور سحری بھی آدھا شہر بغیر بجلی کے کرتا ہے۔ بجلی فراہم کرنے والے ادارے کی بات اس طرح دیکھی جائے تو بالکل صحیح ہے کہ لوڈ شیڈنگ فلاں اوقات میں نہیں ہوگی۔ بجلی ہوگی تو لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ لہٰذا نہ رہے بانس، نہ بجے بانسری۔

رمضان المبارک کا بابرکت اور عبادات والا مہینہ، جس کی آمد پر اور روزے داروں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے وہ ممالک جہاں مسلمانوں کی حکومتیں نہیں ہیں وہ بھی روزے داروں کو سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کرتی ہیں۔ اداروں میں کام کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے۔ کھانے پینے کی اجناس اور دیگر اشیاء ضروریہ پر عوام کو ریلیف دیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں تو رمضان کے مہینے کو نیکی و اجر و ثواب کی کمائی کے بجائے دولت کی کمائی کا مہینہ تصور کر لیا گیا ہے۔

ہر طرف بے پناہ ظلم ہو رہا ہے۔ کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں۔ اوپر سے ڈھٹائی اتنی کہ وفاقی وزیر کہ رہے کہ ہیں گرمی سے مرنے والوں کی حکومت ذمہ دار نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ میری بات نقار خانے میں طوطی کی آواز جیسی ہے مگر آخر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ گھر گھر جا کر لوگوں کی خبر گیری کرنے والا۔ راتوں کو اس لیے جاگنے والا کہ اس کی مملکت میں رہنے والے آرام و سکون سے سو سکیں۔ وہ عظیم حکمران اور خلیفۃ المسلمین عمر رضی اللہ عنہ اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مرجائے تو اس کا بھی سوال حکومت سے کیا جائے گا۔

تو آپ کیسے یہ کہ سکتے ہیں کہ عوام کے مرنے کے ذمہ دار ہم نہیں۔ یاد رکھیں دنیا میں اگر زیادہ سے زیادہ کوئی جی بھی لے تو ساٹھ ستر برس ہی زندہ رہے گا۔ اس کے بعد ایسی ذات کے سامنے پیش ہونا ہے کہ جس کے پاس ہر ایک کو انصاف ملے گا۔ پھر وہاں کروڑوں انصاف کے طلب گار ہوں گے اور آپ مجرموں کے کٹہرے میں ہوں گے۔ نہ اس وقت آپ کو کوئی جھوٹ کام آئے گا اور نہ ہی روز محشر آپ کوئی پریس کانفرنس کرسکیں گے۔ بس یہ یاد رکھیے گا۔

[poll id="502"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں