روزے میں لوڈشیڈنگ کے فوائد
تاریخ بتاتی ہے کہ شدید گرمی میں حضور نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ نے کفارِ مکہ کے خلاف دو دو ہاتھ کیے۔
ISLAMABAD:
کہتے ہیں کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہوتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی مساعی جمیلہ کی بدولت رمضان المبارک کے اس گزرتے ہوئے عشرے کو یوں مزید بارحمت بنا دیا گیا ہے کہ بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ نے ہمارے ظاہری اور باطنی وجود کو صبر کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا ہے۔ یہ رمضان المبارک ہی کا مہینہ تھا جب اللہ کے آخری رسولؐ نے مشرکینِ مکہ کے خلاف جنگِ بدر لڑی اور انھیں شکستِ فاش دی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ شدید گرمی میں حضور نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ نے کفارِ مکہ کے خلاف دو دو ہاتھ کیے۔ جاری گرم رمضان میں ہمارے حکمران مطلوبہ مقدار میں بجلی فراہم نہ کر کے دراصل ہمیں یہ زریں موقع دے رہے ہیں کہ ہم اسلام کے بے مثل اور ہمیشہ تابندہ و زندہ رہنے والے نفوسِ قدسیہ کو یاد کریں کہ اگر وہ روزے کی حالت میں اور تڑپا دینے والی گرمی میں جنگ تک کر سکتے تھے تو ہم دن کے چوبیس گھنٹوں میں اٹھارہ بیس گھنٹے بغیر بجلی کے کیوں نہیں گزار سکتے؟ اس پس منظر میں بجلی کی عدم فراہمی پر ہمارا واویلا دراصل ناشکری اور ناشکیبی کے مترادف ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ملک بھر میں شدید گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے جو سیکڑوں افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں، یہ فی الحقیقت بزدل ہی تھے۔ وہ دہکتے ہوئے رمضان شریف کے پہلے عشرے کی رحمتوں سے لطف اندوز نہ ہو سکے۔ روزے میں لوڈ شیڈنگ کے فوائد میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ عوام اپنے حکمرانوں کو مسلسل یاد کرتے رہیں۔
اسی وجہ سے آج کل ملک بھر کے سوشل میڈیا میں انھیں ''نہایت اچھے'' القابات و آداب سے یاد کیا جا رہا ہے۔ ہم سب ان خوبصورت دنوں کو یاد کر رہے ہیں جب مرکز کے '' سابق ظالم'' حکمرانوں کے خلاف ہمارے بعض صوبائی حکمران لوڈ شیڈنگ کے خلاف ایک مینار کے سائے تلے بطورِ احتجاج دستی پنکھے ہلایا چلایا کرتے تھے اور اعلان فرماتے تھے کہ ہم مرکز میں حکمران بنے تو چھ مہینے ہی میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر دیں گے، نہ کیا تو ہمارا نام بدل دینا۔
ہمارے دیہی علاقے جہاں سرما کے مختصر موسم میں پندرہ پندرہ گھنٹے تک بجلی کا چہرہ دکھائی نہ دیتا تھا، اب یہ عذاب بیس بیس گھنٹوں پر محیط ہو گیا ہے۔ بجلی نہیں آتی تو بجلی سے چلنے والی موٹروں اور ٹیوب ویلوں کی سانسیں بھی بند ہو جاتی ہیں؛ چنانچہ سارے ملک کے سارے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس جاتے ہیں۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ بجلی فراہم نہ کر کے ہمارے حکمران دراصل عوام کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔
مَیں نے حیرت سے پوچھا کیسے؟ فرمایا: ''دیکھو بھئی، آپ جانتے ہیں کہ قومی اور بین الاقوامی ادارے ہمیں خبردار کر چکے ہیں کہ عنقریب پاکستان میں پانی کا کال پڑنے والا ہے۔ بجلی کم آئے گی تو پانی بھی کم استعمال ہو گا۔ اور یوں ہم سب کو حکمرانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ پانی کی بچت کرنے کے لیے دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں صرف دو چار گھنٹے کے لیے عوام کو بجلی فراہم کرتے ہیں۔''
عین ممکن ہے بجلی فراہم نہ کر کے ہمارے حکمران ہم عوام پر احسان ہی کر رہے ہوں اور ہمیں اس کا ادراک تک نہ ہو۔ تیسری دنیا کے ممالک کے حکمران نِت نئے طریقوں سے اپنے عوام پر احسان کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال ہمیں جنوبی افریقہ کے ہمسائے میں بسنے والے ایک ملک، موزمبیق، میں بھی ملتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل صدر سمورا یہاں کے حکمران تھے۔ انھوں نے اپنے سخت فیصلوں سے عوام کی زندگیاں اجیرن بنا دی تھیں۔
موزمبیق کی حکمران اشرافیہ مگر ڈالروں میں عیاشی اور خوشحالی کی زندگی گزار رہی تھی۔ ان کے بنگلے تو ہر وقت بجلی کے قمقموں سے روشن رہتے لیکن عوام کو چوبیس گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی۔ ملک میں اشیائے خور و نوش کی بھی کمی تھی؛ چنانچہ ملک بھر میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا: ایک موزمبیقی مچھیرے نے بڑی محنت کے ساتھ دریا سے دو مچھلیاں پکڑیں۔
وہ خوشی خوشی مچھلیاں دریا کنارے بنی اپنی جھونپڑی میں لایا اور بیوی سے کہا: لو بھئی، جلدی سے انھیں پکا دو۔ بیوی نے ترنت جواب دیا: مچھلیاں نہیں پک سکتیں۔ شوہر نے پوچھا، کیوں؟ بیوی بولی، اس لیے کہ گھر میں تیل ہے نہ گھی۔ شوہر بولا، اچھا تو پھر انھیں ابال ہی لو۔ بیوی بولی، ابالی بھی نہیں جاسکتیں۔ شوہر نے چِڑ کر کہا، کیوں؟ بیوی بولی، اس لیے کہ صاف پانی ہے نہ آگ جلانے کے لیے لکڑیاں، گھر میں ماچس ہے نہ بجلی۔ مایوسی اور غصے سے مغلوب ہوکر موزمبیقی شوہر نے دونوں مچھلیاں اٹھائیں اور پھر سے دریا میں پھینک دیں۔ مچھلیاں دریائی پانی میں خوشی سے اچھلیں اور نعرے مارنے لگیں: صدر سمورا زندہ باد، موزمبیق پایندہ باد۔
لوڈشیڈنگ کے لحاظ سے وسط ایشیائی ریاستوں کا حال بھی ہماری طرح ہے۔ یہ ریاستیں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد آزاد تو ہو گئیں لیکن ان کے کرپٹ حکمرانوں اور ملک کے بالا دست طبقات کی بدعنوانیوں کی وجہ سے عوام کے مالی اور سماجی حالات بہتر نہیں ہو سکے۔ حکمران، ان کی اولاد اور قریبی رشتہ دار تو پُرتعیش زندگیاں گزار رہے ہیں لیکن (پاکستان کی طرح) عوام تنگ دستی اور جہنم زار زندگی بِتانے پر مجبور ہیں۔
وہاں نہ بجلی ہے، نہ ملازمتیں ہیں اور نہ ہی ایندھن۔ چونکہ وہاں سال کے زیادہ دن سرد اور برفیلے رہتے ہیں، اس لیے لکڑی، ایندھن کے دوسرے ذرایع اور ہر وقت بجلی کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ گھروں اور پانی کو گرم کرنے میں آسانی رہے۔ کرغستان اور قزاقستان ان میں سرِفہرست ہیں جہاں بجلی کی بے پناہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور غسل کرنے کے لیے نیم گرم پانی تک نہیں ملتا۔
چنانچہ دونوں ممالک میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہے: ایک کرغز اپنے قزاخ دوست سے خاصے عرصہ بعد ملا۔ قزاخ نے اپنے دوست سے پوچھا، آپ لوگ سال میں کتنی مرتبہ نہاتے ہیں؟ کرغز دوست نے جواب دیا، سال میں دو مرتبہ۔ ایک بار اس وقت جب ہم موسمِ گرما میں پہاڑوں کی بلندیوں پر چڑھتے ہیں اور دوسری بار اس وقت جب موسمِ سرما آنے پر ہم بلندیوں سے نشیب میں اترتے ہیں۔۔۔ اور تم لوگ؟ دوست کا سوال سن کر قزاخ نے اپنے کرغز دوست کو جواب دیا، ہم بھی دو مرتبہ ہی غسل کرتے ہیں، زندگی میں صرف دو مرتبہ۔ بجلی کی کمیابی اور ایندھن کی شدید کمی کے سبب دو بار۔ ایک بار اس وقت جب ہم پیدا ہوتے ہیں اور دوسری بار اس وقت جب قبر میں اتارنے سے قبل ہمیں غسل دیا جاتا ہے۔
بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ کے سبب ہمیں بھی کرغستان اور قازقستان ایسے ممالک کے غریب عوام کی طرح زندگی میں صرف دو بار غسل کرنے کی تیاریاں کر لینی چاہییں۔ ہمیں حکمرانوں اور اپنے بالادست طبقات کی مجبوریاں سمجھنی چاہئیں۔ بجلی کے استعمال کی پرانی عادتوں اور بجلی کی باقاعدہ فراہمی کی بُری توقعات سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ ہم نے کنوئیں بھی بند کر دیے ہیں، بوکے ڈال کر پانی نکالنا ہم سب نے بھلا دیا ہے اور ہینڈ پمپ بھی کباڑیوں کو بیچ کر ان کا مرنڈا اور پتیسہ کھا لیا ہے۔ اب شہروں اور دیہاتوں کی مساجد میں، اذان کے فوراً بعد، بیٹری سے چلنے والے لائوڈ اسپیکروں میں یہ اعلان اکثر سنائی دیتا ہے: ''حضرات، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث مسجد ہذا میں پانی نہیں ہے۔
اس لیے نمازی حضرات سے گزارش ہے کہ اپنے اپنے گھر سے وضو اور طہارت کر کے تشریف لائیں۔ شکریہ۔'' بجلی نہ ہونے کی وجہ سے گھروں میں بھی تو پانی نہیں ہوتا؛ چنانچہ (مٹی سے) تیمم کرنے کی ہم سب کو عادت ڈالنی چاہیے۔ ہم سب مٹی سے بنے ہیں اور ہم سب کو آخر کار مٹی میں جا ملنا ہے، اس لیے ابھی سے مٹّیو مِٹی ہونے کی ٹریننگ حاصل کر لینی چاہیے تا کہ قبر میں لیٹ کر مٹی سے اجنبیت کا احساس نہ ہو سکے۔ لوڈشیڈنگ کر کے تیمم کی ٹریننگ کا ثواب بھی آخر کار ہمارے حکمرانوں کے کھاتے میں جائے گا۔ دونوں جہانوں میں ان کے تو مزے ہی مزے ہیں۔