ظلم کے خلاف مزاحمت کا درس
ہمارا ملک اور معاشرہ سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ طبقات میں اس طرح بٹا ہوا ہے
رمضان کا مقدس مہینہ ہے، ہر مسلمان اس مہینے کا احترام کرتا ہے اور مقدور بھر کوشش کرتا ہے کہ اپنا وقت عبادات میں گزارے، اس مہینے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے وسائل کے مطابق اچھا کھانا کھائے، اچھے کپڑے پہنے، جس کے لیے مہینوں پہلے سے تیاریاں شروع کی جاتی ہیں، غیر مسلم ملکوں میں بھی اس مقدس مہینے کا اس قدر خیال رکھا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے خصوصی رعایت کے ساتھ اشیائے صرف کی فراہمی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
برطانیہ میں پچھلے دنوں یہ اعلان کیا گیا کہ لندن میں مقیم مسلمان شہریوں کو اس ماہ کی تقدیس اور مسلم کمیونٹی کی ضرورتوں کا خیال کرتے ہوئے اشیائے صَرف سستے داموں فراہم کی جائیں گی، ایسے ہی اقدامات دوسرے غیر مسلم ملکوں میں کیے جاتے ہیں، حتیٰ کہ ہندوستان جیسے ملک میں بھی اس ماہ مقدس کا احساس کرتے ہوئے رعایتی نرخوں پر مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے برخلاف ہمارے ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' میں اس ماہ کو کمائی کا مہینہ کہا جاتا ہے اور مہینوں پہلے سے ناجائز کمائی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
اس ماہ مبارک میں چونکہ خصوصی عبادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اس لیے مسجدیں نمازیوں سے بھری رہتی ہیں، مولوی حضرات اپنے خطاب اور خطبات میں اسلام کی عظمت اور سربلندی کے ساتھ ساتھ صبر، برداشت اور قناعت کی تلقین کرتے ہیں، یہ تلقین اگرچہ روایتی اور سادگی پر مبنی ہوتی ہے لیکن ملک کے تاجروں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا جب کہ غریب اور مجبور لوگ اس پر جلتے کڑتے رہتے ہیں کیونکہ اس کے سوا وہ کچھ نہیں کر سکتے۔
ہمارا ملک اور معاشرہ سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ طبقات میں اس طرح بٹا ہوا ہے کہ ایک طرف اٹھانوے فیصد سے زیادہ عوام ہیں جو دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں اور دوسری طرف وہ مٹھی بھر اشرافیہ ہے جو عوام کی محنت کی کمائی پر سانپ بن کر بیٹھی ہوئی ہے، ایک طرف اٹھانوے فیصد غریب عوام ہیں جو ملک کی 20 فیصد دولت میں بھوک، بیماری، بے روزگاری کے ساتھ زندگی کے عذاب بھگت رہے ہیں، دوسری طرف دو فی صد ایلیٹ ہے جو 80 فیصد قومی دولت پر قبضہ کر کے دنیا ہی میں جنت کے مزے لوٹ رہا ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس معاشی دہشت گردی کے خلاف عوام کو بیدار کر کے اس کی مزاحمت کے لیے تیار کیا جاتا لیکن ہو یہ رہا ہے کہ انھیں مسلسل تقسیم کیا جا رہا ہے۔
رمضان کے مہینے میں ہر سال مہنگائی کو جس طرح آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایلیٹ کلاس کے طبقاتی بھائی اس ایک مہینے میں اتنی ''جائز کمائی'' کر لیتے ہیں کہ سال بھر تک انھیں زیادہ بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑتی، اگرچہ اس استحصالی نظام میں ہر ماہ ہی رمضان کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس ماہ مکرم میں لوٹ مار کے دروازے اس طرح کھل جاتے ہیں کہ شیطان اپنے گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھ جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو وہ روکھی سوکھی پر گزارا کرتے تھے اور بعض وقت فاقوں کی نوبت آ جاتی تھی، پیغمبر اسلام نہ سرمایہ دار تھے نہ جاگیردار، پھر ہم یہ کیسے تسلیم کر لیں کہ اسلام لوٹ مار و طبقاتی استحصال کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ''جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں قیامت کے دن یہ سونا چاندی ان کے جسموں سے سانپوں، بچھوؤں کی طرح لپٹے رہیں گے اور ان سے نجات کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔''
سوال یہ ہے کہ سونا چاندی یعنی دولت جمع کرنے والے کون لوگ ہیں؟ ملک کے اٹھانوے فیصد غریب عوام جنھیں روٹی ہی میسر نہیں وہ تو سونا چاندی جمع کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے، جب مذہب میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں کو سانپوں، بچھوؤں سے ڈرایا گیا ہے تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ اسلام ارتکاز زر کا سخت مخالف ہے اور ارتکاز زر کا ہمارے ملک میں عالم یہ ہے کہ 80 فیصد دولت، 2 فیصد ایلیٹ کے ہاتھوں میں جمع ہو گئی ہے۔
اس ناجائز دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہو جانے کی وجہ سے ملک کے 90 فیصد عوام ایسی غربت کا شکار ہیں کہ اس کے ذہنوں میں حصول روٹی کے علاوہ کوئی اور خیال ہی نہیں آتا، اگر دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز ناانصافی ہے تو پھر اس ناانصافی کے خلاف جنگ کرنا عوام کی ذمے داری ہی نہیں بلکہ فرض بھی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ناانصافیوں کے خلاف جنگ کو صبر، شکر اور قناعت کے حوالوں سے روکا جا رہا ہے اور بھوک، افلاس، بیماری وغیرہ کو قسمت کا لکھا بتا کر عوام کے سوچنے سمجھنے اور بغاوت کرنے کے جذبے کو سرد کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے ہمارے غریب طبقات کو سب سے پہلے اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ غربت، بھوک، بیماری، بے روزگاری قسمت کی پیدا کردہ نہیں بلکہ اس نظام کی پیدا کردہ ہے جو ہم پر صدیوں سے مسلط ہے۔ اسلام ان ناانصافی کو آنکھ بند کر کے قبول کرنے کی ہدایت نہیں کرتا بلکہ ظلم و استحصال کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے۔
جہاد کا اصل مقصد بھی ظلم کے خلاف جنگ کرنا ہی ہے لیکن اس کی غلط تاویلیں کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عوام کے طبقاتی شعور کو کند کرنے کا کام غریب عوام کے مختلف طبقات ہی سے لیا جا رہا ہے۔ کیا علما کرام کا یہ فرض نہیں کہ وہ اپنے خطاب اور خطبات میں معاشی ناانصافیوں، ظلم و استحصال کے خلاف جنگ کرنے کی ترغیب فراہم کریں؟اور سرمایہ داری نظام کی مزاحمت کریں۔