کراچیگلوبل وارمنگ کا پہلا شکار

کے ای سی ایچ ایس، گلشن اقبال اور گلستان جوہر، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد آباد ہوتے رہے۔


Anis Baqar June 26, 2015
[email protected]

کراچی کو ورثے میں دارالسلطنت، اعلیٰ اقسام کی گورنمنٹ عمارات، ہائی کورٹ، سٹی کورٹ، گورنر جنرل ہاؤس، میونسپل کارپوریشن اور دیگر عمارتیں ملیں۔ وہاں اس وقت کے شہر کے وسط میں گاندھی گارڈن نامی چڑیا گھر بڑے بڑے سایہ دار درختوں والا باغ جس میں خاص طور سے دیسی درخت ملے۔ املی، برگد، جامن، جنگل، جلیبی، گوندنی، نیم وغیرہ۔ بعض درخت چل بسے، بعض ابھی بھی موجود ہیں۔

ٹاور سے لے کر بندر روڈ یعنی ایم اے جناح روڈ پر دونوں جانب برگد، بڑ، پیپل کے درخت، ایسے ہی شہر میں سول لائنز پر درخت موجود تھے۔ آبادی کے ساتھ پلے گراؤنڈ اور پارک۔ 8 لاکھ کے شہر کے لیے بس، ٹرانسپورٹ، گھوڑا گاڑی، ٹرام وے، ٹیکسی، صبح تڑکے بندر روڈ کی دھلائی، جانوروں کے پانی پینے کی ہودیاں۔ 1964ء تک شہر کا حسن۔ صدر اور بندر روڈ پر دکانیں۔ اچھے ریسٹورنٹ۔ غرض ہر چیز بمعہ سکون کے موجود تھی۔ قانون کی حکمرانی اشیا کی ارزانی۔ گو کہ راج دھانی اسلام آباد چلی گئی مگر مجموعی کارکردگی کے ڈی اے KDA اور کے ایم سی (KMC) کی، خاطر خواہ رہی۔ عوام کے لیے نئی بستیاں آباد کی جاتی رہیں۔

کے ای سی ایچ ایس، گلشن اقبال اور گلستان جوہر، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد آباد ہوتے رہے۔ آسان اقساط پر زمینیں پلاٹ، کم از کم 120 گز سے ہزار گز تک کے پلاٹ۔ مگر گزشتہ 24/23 برسوں سے کوئی ہاؤسنگ اسکیم نہیں بلکہ رفتہ رفتہ بلڈر مافیا نے اپنے پاؤں پھیلا لیے۔ ان کے ڈانڈے افسران بالا سے ملتے ہیں اور وہاں اپنی پسند کے افسران تعینات کرایے جاتے ہیں ان ہی افسران بالا کے شہر میں، ریلوے لائنوں پر کئی کئی منزلہ مکان تعمیر ہو چکے ہیں اور سرکلر ریلوے کے منصوبے خاک میں مل چکے ہیں۔ اسی لیے ملازمین کو اپنے آفس جانے کے لیے فیکٹری مزدوروں کو بسوں کی چھتوں پر دھوپ میں بیٹھ کر سفر کرنا پڑتا ہے، پھر کام کیا ہو گا، صحت کا کیا ہو گا۔

1970ء سے شجرکاری ہوتی رہی سڑکوں کے درمیان میں ایک شجرکاری کی جگہ ہوتی تھی گزشتہ 20 برسوں میں کھیل کے میدان بھی محفوظ نہ رہے پارک بھی محفوظ نہ رہے ایک ایسا کلچر پروان چڑھا جو درختوں کا دشمن تھا۔ جو درخت گزشتہ 30 برسوں میں لگے وہ سفیدے کے تھے جن پر نہ چڑیاں بسیرا کر سکتی تھیں اور نہ ہی ان کا کوئی پھل جس کو پرندے کھا سکیں اور نہ گھنی چھاؤں اور بڑے پتوں والے پیپل کے یا برگد کے درخت اور نہ ہی بیری کے درخت جن کو نہ زیادہ پانی درکار ہے اور نہ ہی مڈ آئی لینڈ (Mid Island) دو سڑکوں کے درمیان کچا درختوں کا حصہ جہاں مدار(Swallow-Wort) کے درخت موسم کے اعتبار سے لگائے جا سکتے ہیں۔

مدار کا ایک پیڑ ہندو جیم خانہ مقابل آرٹس کونسل میں موجود ہے اس درخت کی کیمیائی خصوصیت حیرت انگیز ہے اگر سلفیورک ایسڈ (H2so4) گندھک کے تیزاب کے ایک لیٹر تیزاب میں مدار کا ایک پتہ ڈال دیا جائے تو اس کو یہ کیچڑ کی طرح بے اثر بنا دے گا اگر اس کو لگایا جائے تو یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار جذب کر لے گا اور ہوائی کثافت کو بے اثر کر دے گا۔ اس کا پھول بنفشی رنگ کا ہوتا ہے جو معدے کی تیزابیت کو ختم کر دیتا ہے اور یہ ایک جنگلی پیڑ ہے جو کسی دیکھ بھال کے بغیر بڑھتا رہتا ہے۔

اس کی ڈال توڑی جائے تو دودھ نکلتا ہے اگر اس دودھ کو جمع کیا جائے تو یہ پرندوں کا دشمن ہے، صیاد اس کو پرندے پکڑنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، چڑیا کے پروں پر لگا تو پھر چڑیا اڑ نہیں سکتی مگر ہمارے (Horticulturist) ملک کے ماہرین باغبانی بیرونی درختوں کو امپورٹ کرتے ہیں جس سے فضا کو خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہوتے، کراچی میں جب پہلی نسل جو ہجرت کر کے آئی اس نے آم، جامن اور املی کے درخت لگائے۔

اس کے علاوہ ڈھاکا سے کراچی کی آمد و رفت اور بنگالیوں نے ناریل کے باغات لگائے جو حب کے علاقے میں کافی دور تک، اور کراچی کے شہریوں نے اپنے گھروں میں یہ درخت لگائے خصوصاً پی ای سی ایچ ایس اور شمالی ناظم آباد میں۔ 70ء کی دہائی میں تقریباً ہر گھر میں لگائے گئے مگر 1990ء میں جب نئی نسل بڑی ہونے لگی اور نئی ہاؤسنگ اسکیم نہ شروع کی گئیں تو پھر 400، چھ سو اور آٹھ سو گز کے مکانات پر مزید تعمیرات ہونے لگیں اور اندرون خانہ درخت کٹنے لگے۔ اور جب درمیان میں نعمت اللہ خان شہر کراچی کے میئر بنے تو انھوں نے کھجور کے درختوں کو اسلامی درخت سمجھ کر امپورٹ کیا اور جگہ جگہ درخت لگائے یہ وہ درخت ہیں جنھیں کم پانی چاہیے اور جولائی کے خاتمے اور اگست کے شروع میں کھجور پکنے کے بعد پانی درکار ہوتا ہے۔

لہٰذا کراچی سے بارش نے منہ موڑ لیا کیونکہ بادلوں سے درختوں کا ایک خفیہ ناتہ ہے۔ مگر یہاں بے سوچے سمجھے پروگرام بنتے ہیں، پروگراموں میں یا تو ذاتی منفعت ہوتی ہے یا ذاتی پسند نا پسند۔ جب کہ برصغیر کا درخت پیپل اور برگد ایسے درخت ہیں جن کو موقع ملے تو ان کا تنا کئی فٹ کا ہوتا ہے اور گھنا درخت اور پانی کم اور پکی جگہ ہو تو گھر کی چھت پر ٹنکی پر چند فٹ اور آدھے انچ کے قطر کا تنا لے کر یہ قناعت کرتے ہیں مگر گھر کی جڑوں کو نقصان نہیں پہنچاتے ایک اور بڑے پتوں والا درخت ہے جس کو عرف عام میں بادام کا پیڑ کہتے ہیں جو نہایت ترتیب میں بڑا ہوتا ہے اور اگر خوبصورتی کو بھی مد نظر رکھنا ہے تو شمشاد اور املتاس کے پیڑ ہیں۔

املتاس پیلے لمبے ہار اور شمشاد آمد بہار پر شعلہ رو پھول موٹے پتے سرخ گلاب جیسی پتیاں طوطے اس کے عاشق ہیں اور بوسہ لیتے ہیں اور کھاتے ہیں۔ اس درخت کی خصوصیت یہ ہے کہ اس درخت کی 7/6 فٹ کی شاخیں بھی لگ جاتی ہیں سیدھا جاتا ہے اور اگر طبی نقطہ نظر سے دیکھنا ہے تو نیم کے پیڑ کا کیا کہنا۔ ملیر کینٹ میں خصوصیت کے ساتھ یہ درخت موجود ہیں اور اس علاقے کے رہائشی فوجیوں کے گھر والوں کے قریبی قبرستان میں نیم کے درخت قطار در قطار مچھروں کو دفع کرتے ہیں۔

موسم بہار میں بہت ہی معطر کر دینے والی مسحور کن پھولوں کی مہک ہوتی ہے یہ پورے کا پورا درخت صحت کا خزانہ ہے۔ اس کو میڈیسنل ٹری (Medicinal Tree) بھی کہتے ہیں بھارت اس کے تیل، صابن اور ادویات سے لاکھوں ڈالر سالانہ کماتا ہے۔ مگر اس ملک میں کم علمی کی بنیاد پر ایک وبا پھیلی ہے کہ نیم کا پیڑ مکان کی جڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور لوگ اسی وہم میں ہیں جب کہ نیم کے درخت والے گھر بہت سے بیکٹریل اور وائرل (Bacterial & Viral) حملے سے محفوظ رہتے ہیں مگر ملک میں یہ درخت بھی بے وقعت ہے۔

ایک تو پورے شہر سے درختوں کی کٹائی، چھانٹی، دویم پانی کا غائب ہونا باغبانی کی جائے یا خود نہائیں۔ عام کلرک حضرات کی تنخواہ دس ہزار اور ایک ٹینکر پانی کم ازکم 5000 فی ٹینکر، کیا پانی سے نہائے گا۔ اور جو لوگ 50 ہزار روپے بھی آج کل کماتے ہیں اپنا گھر نہیں کرائے پر رہتے ہیں۔ بجلی کا بل 6000/7000 ہزار ماہانہ ، 25000 کرایہ، وہ بھی آسانی سے ہر ماہ 2 ٹینکر استعمال نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں ٹینکر مافیا کا قبضہ یہاں تک کہ ڈی ایچ اے میں بھی اپنا پانی دینے کا انتظام تھا وہ بھی ناکافی ہے۔

ہفتے میں ایک دو روز ناکافی پانی آتا ہے مگر صاحب ثروت حضرات زندگی کسی نہ کسی طرح گزار رہے ہیں۔ پر غریبوں کا کوئی دیکھنے والا نہیں یہ شہر جو کبھی 80 لاکھ کی آبادی کا شہر تھا اگر اب اس کی اصل مردم شماری کی جائے تو ممکن ہے ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہو گئی ہے مگر اس شہر کی بدقسمتی یہ کہ پانی، بجلی اور دیگر سہولیات یا ترقیاتی کاموں میں اضافہ نہ ہوا۔

ایسے علاقے بھی ہیں جہاں 12x14 کے کمروں میں چھ چھ افراد رہتے ہیں۔ جولائی کی 20 تاریخ کو جو گرمی نے رنگ دکھایا تو پارہ 45/40 ڈگری سینٹی گریڈ چلا گیا ایسا لگا کہ گلوبل وارمنگ میں براہ راست کراچی زد پر ہے یا ایسا لگتا ہے کہ ساحل سے 100 کلومیٹر پرکوئی سمندری طوفان بننے والا تھا جو بن نہ سکا۔ اس کا موجب ان درختوں کی کٹائی پانی اور بجلی کی عدم دستیابی بنا اور ہزاروں اموات شہری سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہوئیں ۔ سورج کی تپش ایسی جیسے سبی اور جیکب آباد میں بھی نہ ہو گی ایسی گرمی کو میر انیس نے یوں بیان کیا ہے:

گردوں کو تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے

لہٰذا اگر ماحولیاتی آلودگی کو درختوں سے نہ روکا گیا اور شہری آسائش کو بحال نہ کیا گیا تو ہزاروں کا ہندسہ لاکھوں کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ ویسے بھی عالمی سائنس دانوں نے کراچی شہر کو 4015ء میں غرق ہونے کی پیش گوئی کی ہے اگر ہم نے کوشش کی تو شہر کی زندگی کو مزید 8 ہزار سال کی زندگی دے سکتے ہیں مگر تجارتی شہر کے لوگ منافعے کی زبان سمجھتے ہیں کیونکہ علمی ادبی حلقے ماند پڑتے جا رہے ہیں اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو کراچی گلوبل وارمنگ کا شکار ہوتا رہے گا۔ ہر گھر ہر علاقے کو درختوں کا جال بچھانا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں