شہر قائد میں سسکتی حیات

ڈیڑھ کروڑ آبادی پر مشتمل شہرکراچی کے مثبت پہلو تو بہت سے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی دردناک المیے بھی اپنی جگہ ہیں


محمد عارف شاہ June 26, 2015

ڈیڑھ کروڑ آبادی پر مشتمل شہرکراچی کے مثبت پہلو تو بہت سے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی دردناک المیے بھی اپنی جگہ ہیں۔ اہل کراچی کو انسانی جسموں کی نشانہ کشی (ٹارگٹ کلنگ) سے نجات ملی تو شہر قائد کو شدید گرمی اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے ایسا لپیٹ میں لیا کہ ڈیڑھ ہزار کے قریب شہریوں کی جان ہی لے لی۔

ہر روز کوئی نیا صدمہ، کوئی نیا سانحہ مفلوک الحال محنت کش عوام کی نفسیات پر نئے زخم داغ جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سکھ، چین، آرام، امن و امان، ہم سے روٹھ گیا ہے، ایک غم میں ہلکان دل کو ذرا تسلی ملتی نہیں کہ دوسرا غم زہر بجھے خنجر کی مانند سینے میں پیوست ہوجاتا ہے۔ ایسے المیے کہ ہزاروں ہاتھ بھی سینہ کوبی کے لیے کم پڑجائیں۔ عوام لاوارث، بھوکے ننگے مررہے ہیں مگر حکمران بے حسی کی چادر اوڑھے سورہے ہیں۔

کراچی میں قیامت خیزگرمی اور بدترین لوڈشیڈنگ نے ایسا قہر ڈھایا کہ ایک ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ شدید گرمی، لو چلنے اور حبس میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت نے شہریوں کا سانسیں لینا محال کردیا۔ اس وقت بھی ہیٹ اسٹروک اور ڈائریا کی وبا میں مبتلا سیکڑوں مریض مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جہاں ادویات کا فقدان ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ڈیڑھ کروڑ والی آبادی کے شہر کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں سرد خانے کی سہولت موجود نہیں، کراچی میں ناگہانی یا قدرتی آفت کے نتیجے میں لاشیں رکھنے کے لیے کوئی سرکاری انتظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی آفات کے آگے انسان بے بس ہیں مگر اس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ حکومت لوگوں کو بے موت مرنے کے لیے چھوڑ دے۔ شدید گرمی اور حبس کا توڑ حکومت کے پاس نہیں، مگر گرمی کے زور کو توڑنے اور اس سے محفوظ رکھنے والی بجلی کی فراہمی کو تو یقینی بنانا چاہیے نا؟ شہر قائد کے مکین حکومت کی غفلت و لاپرواہی کے سبب تکونی عذاب کا شکار ہوئے۔ اول، سورج سوا نیزے پر آگ برساتا رہا۔ دوئم، بجلی کی فراہمی منقطع ہوئی۔ سوئم، زندگی کا لازمی جز پانی بھی دستیاب نہیں۔ یہ وہ تکونی عذاب ہے جس میں پھنس کر 400سے زائد شہری موت کی وادی میں پہنچ چکے ہیں۔ ان بے گناہوں کے خون کا ذمے دار کون ہے؟ کون اہل اقتدار سے ان کے خون کا حساب لے گا؟

شہر زرنگار کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، جو ملک کے معاشی نظام کی مرکزی کلید ہے، ملک کے خزانوں کو سب سے زیادہ رقم اسی شہر سے حاصل ہوتی ہے، ملک بھر میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ لوگ بھی اسی شہر میں بستے ہیں۔ ملک کا کوئی قصبہ، گائوں یا شہر ایسا نہیں جس کا کوئی شخص اس شہر میں آباد نہ ہو، اس شہر بے مثال کی بانہیں سب کے لیے کھلی ہیں۔

سمندروں جیسی وسعت رکھنے والا یہ شہر اپنے اندر سب کو سمو لیتا ہے۔ اس شہر کی طرف آنیوالے راستے تو بہت ہیں مگر یہاں سے جانے کا راستہ کوئی نہیں ہے، جو اس شہر میں آگیا اسی کا ہوکر رہ گیا، یہ شہر بڑی کشادہ دلی سے سب کا استقبال کرتا ہے۔ قبیلہ، ذات پات، برادری یا حسب نسب کسی کے آڑے نہیں آتا، یہاں کوئی کسی سے کم تر نہیں، سب اپنی محنت سے کماتے اور کھاتے ہیں، سماجی اونچ نیچ یہاں کا مسئلہ نہیں، پروفیسر ہو یا خاکروب، ڈاکٹر ہو یا مزدور، بس میں برابر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں، ہوٹل میں ایک ہی میز کے گرد بیٹھ کر چائے پیتے ہیں، یہاں کوئی وڈیرہ، کوئی چوہدری، کوئی سردار نہیں ہے۔

یہ شہر سب کو سر اٹھاکر چلنے اور جینے کا یکساں حق دیتا ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی صلاحیت، ہنر اور مہارت کے مطابق آگے بڑھنے، ترقی کرنے اور معاشرے میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے آزاد ہے۔ یہاں ہرکسی کو ترقی کے مساوی مواقعے حاصل ہیں۔ یہاں ایدھی فائونڈیشن جیسے بڑے رفاحی ادارے بھی ہیں جو غریبوں کے لیے ایک بڑا آسرا ہیں، چھیپا اور سیلانی جیسے ادارے بھی ہیں، جن کے دسترخوان پر روزانہ ہزاروں افراد کھانا کھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔

کوئی ٹوکنے والا نہیں ہے کہ بھائی! تم تو برسر روزگار ہو، غریبوں اور ناداروں کا حق کیوں غصب کرتے ہو؟ یہ دسترخوان مستری، مزدور، بھکاری سب کے لیے حاضر ہیں۔ کہنے والے صحیح کہتے ہیں کراچی میں کوئی شخص بھوکا نہیں مرسکتا۔ اپنی زندگی سنوارنے اور قرینے سے بسر کرنے کی خواہش رکھنے والوں کے لیے یہ شہر ایک بہترین پناہ گاہ تھا اور آج بھی ہے۔ سندھی، بلوچ، پختون، سرائیکی، گجراتی، پنجابی، مہاجروں اور بنگالیوں کے اشتراک سے سماجی ترقی کا عمل اپنی فطری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مختلف تہذیبوں کے میل ملاپ سے کراچی میں ایک نیا معاشرہ وجود پا رہا ہے۔ نئی ثقافت جنم لے رہی ہے، نئی سماجی روایات قائم ہورہی ہیں، نئے آنیوالے شہری معاشرے کے طور طریقوں اور تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں کامیاب ہورہے ہیں اور غیر محسوس طریقے سے سما جانے کا عمل جاری ہے۔

ایک وقت تھا جب ہمارے دکھ درد بھی مشترک ہوا کرتے تھے مگر اب تو سب کی اپنی اپنی الگ دیوار گریہ ہے، انتشار و افتراق کا یہ عالم ہے کہ صف ماتم بھی جدا جدا ہے اور یہی نہیں بلکہ روگ اور سوگ کے پیمانے اور افسانے بھی یگانہ و منفرد ہیں۔ جب بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے تو سندھیوں کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی، جب تھر کے بچے بھوکے مرتے ہیں تو پختونوں کو پرواہ نہیں ہوتی اور جب کراچی میں پختون قتل ہوتے ہیں تو پنجاب سویا رہتا ہے، وزیرستان میں کیا ہورہا ہے؟ مہاجرین کس طرح دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی جاننا چاہتا ہے۔ ہمارے یہاں زندگی کی کوئی رمق ہے نہ انسانیت کی کوئی جھلک۔ یہی وجہ ہے کہ سینہ کوبی کرتے تمام مظلوموں کی اپنی دیوارگریہ ہے، اپنی صف ماتم ہے، سب مظلوم ہیں مگر ایک دوسرے کو کندھا دینے کو بھی تیار نہیں اور وہ جو ابھی ظلم سے محفوظ ہیں ان کا خیال ہے کہ ان کی باری کبھی نہیں آئے گی

جب کوئٹہ میں ہزارہ قتل ہوتے ہیں تو لاہور کے باسی چین سے سوتے ہیں کہ یہ تو ہزارہ کمیونٹی کے لوگ ہیں، گجر چوہدری یا میاں تو نہیں ہیں۔ جب فاٹا میں خون بہتا ہے تو کراچی کا مکین کہتا ہے کہ یہ تو پٹھان ہیں، میں ان کے لیے کیوں بولوں، میمن تو محفوظ ہیں۔ جب صحافیوں پر برا وقت آتا ہے تو وکلاء تماشا دیکھتے ہیں، عدلیہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو مقننہ خاموش رہتی ہے۔

انتظامیہ ظلم سہتی ہے تو عوام چپ رہتے ہیں اور عوام مارے مارے پھرتے ہیں تو حکام در خور اعتناء نہیں گردانتے۔ سب کا اپنا اپنا ماتم ہے، سب اپنے اپنے سوگ میں ہیں، سب کی اپنی اپنی دیوارگریہ ہے، سب کی اپنی اپنی صف ماتم ہے، سکھ تو سکھ، دکھ بھی سانجھے نہیں، مظلومیت کے پرچم جدا جدا ہیں۔

ملکی معیشت کے گہوارے، شہر قائد میں بدامنی کا جن تو قابو میں ہے مگر قدرتی آفت سے ہونے والی ہلاکتوں اور پھیلنے والی وباء سے شہر قائد کے مکین خوفزدہ ہیں، حکومت کو اس جانب خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اسپتالوں میں ادویات کی فراہمی یقینی بنائی جائے، ضرورت کے مطابق بجلی و پانی فراہم کیا جائے۔ یہ اہل کراچی کا حق ہے، پورا ملک شہر قائد کے مکینوں کے احسان تلے دبا ہوا ہے، یہ لوگ اگر 70فیصد ریونیو فراہم نہ کرے تو ملک کیسے چلے گا؟ حکومت سندھ کے ساتھ وفاق بھی اہل کراچی کے مسائل کا ادراک کرے اورمسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں