منشیات اِک لعنت پھر بھی استعمال میں اضافہ کیوں

منشیات کے استعمال کے خلاف مہم میں انٹرنیٹ، موبائل فونز، ریڈیو اور ٹیلی وژن کا موثر استعمال لینا چاہئے۔


ملک میں بطورِ منشیات سب سے زیادہ استعمال بھنگ، حشیش، چرس، ہیروئن اور شراب کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ فوٹو:فائل

26 جون کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے دنیا بھر میں منشیات کے استعمال اور اسکی غیر قانونی اسمگلنگ کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں کام کرنے والی سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں نشے کی مختلف اقسام، انکے نقصانات اور ان سے بچاؤ کے حوالے سے سیمینار منعقد کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 20 کروڑ افراد منشیات کے عادی ہیں۔ منشیات کا استعمال سب سے زیادہ براعظم امریکا میں کیا جاتا ہے۔ ہیروئن کے استعمال میں تعداد کے حوالے سے ایشیا سرفہرست ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں منشیات کی سب سے زیادہ مانگ یورپ میں ہے۔ جہاں تقریباً 75 فیصد لوگ ذہنی دباو اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔



وطنِ عزیز کی بات کی جائے تو یہاں نشے کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ مارچ 2014 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 42 لاکھ پاکستانی نشے کی عادت کا شکار ہیں، جن میں اکثریت 15 سے 64 سال تک کی عمر کی ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق مارچ 2013 سے مارچ 2014 تک ایک سال میں تقریباً 67 لاکھ بالغ افراد نے نشے کا استعمال کیا۔ پاکستان میں 2 ملین کے قریب لوگ صرف ہیروئن کے نشے کے عادی ہیں۔ پاکستان میں منشیات کے استعمال کے حوالے سے ہونے والے سروے کے مطابق ملک میں بطورِ منشیات سب سے زیادہ استعمال بھنگ، حشیش، چرس، ہیروئن اور شراب کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ ہیروئن استعمال کرنے والے 77 فیصد اور حشییش اور چرس کےعادی 41 فیصد اِس کا روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ شراب کا نشہ کرنے والے 76 فیصد ہفتے میں 2 سے 3 دن جبکہ 10 فیصد ہفتے میں 5 دن استعمال کرتے ہیں۔

https://twitter.com/LiburdDash/status/521334421526306817

پاکستان میں نشہ آور افراد کی مختلف اقسام ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ کی طرح اس میں بھی مختلف کیٹگریز ہیں جو مختلف نشہ استعمال کرتے ہیں۔ سڑک کنارے پڑے شخص کا نشہ اگر انجکشن ہے تو بڑی کوٹھی میں موجود امیر زادے کا نشہ شیشے سے شروع ہو کر شراب، آکسی شاٹس، برانڈڈ شراب اور امپورٹڈ افیم ہیں۔ راقم اس بات کا گواہ ہے کہ لاہور شہر میں کسی بھی برانڈ کی شراب بآسانی دستیاب ہوسکتی ہے بس جیب میں آٹھ دس ہزار روپے ہونے چاہیں۔

شہروں میں موجود ہوسٹلز (خواہ لڑکوں کے ہوں یا لڑکیوں کے) نشہ استعمال کرنے کے بڑے ٹھکانے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ گاؤں سےاعلیٰ تعلیم کے لیے آنے والے طالب علم نشے جیسی لعنت کا شکار ہوکر خود بھی رسوا ہوتے ہیں اور والدین کے لیے بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ کبھی کتابوں کے نام پر تو کبھی فیس کے لیے پیسے منگوا کر دوستوں کی محفل کی نظر کرجاتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت اس راہ پر چل کر اپنا مستقبل تباہ کر لیتی ہے اور اقلیت کو جب ہوش آتا ہے تو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ شغل شغل میں ایک سیگرٹ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ شراب، چرس سے ہوتا ہوا جدید قسم کے نشوں کی منزل پر رکتا ہے جہاں یہ زندگی کا ایک حصّہ بن جاتا ہے اور انسان اِس کو حاصل کرنے کے لیے ہر طریقہ اختیار کرتا ہے پھر چاہے وہ جائز ہو یا ناجائز اور اپنے نقصان کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

منشیات سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے ایک بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ انسدادِ نارکوٹیکس پالیسی کے تحت تمام نوجوان پاکستانیوں کو اُس کے غلط استعمال و مضر اثرات کی تعلیم دے اور اسکولوں، کالجوں میں سوشل ٹریننگ، علاج کے پروگرامز متعارف کرائے۔ ڈرگ ٹریفیکنگ کو موثر طریقے سے روکے۔ جو لوگ منشیات کے عادی ہوچکے ہیں اُنہیں مجرم سمجھنے کے بجائے اُن کی زندگی کی نارمل صلاحیت کی بحالی میں مدد کی جائے۔ منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کو گرفتار کرکے قانون کے مطابق سزا دلوائی جائے۔ تمام لیبر یونین اور سیاسی جماعتوں کو منشیات کے خلاف موثر کردار ادا کرنا چاہئے۔ منشیات کے استعمال کے خلاف مہم میں انٹرنیٹ، موبائل فونز، ریڈیو اور ٹیلی وژن کا موثر استعمال لینا چاہئے۔ وزارت نارکوٹیکس کنٹرول کو وزارت مذہبی امور کے تعاون سے ایسے پروگرام تیار کروانا چاہئے جو منشیات کی لعنت اور اس کے مضر اثرات سے طلباء، اساتذہ، خاص کر مدرسہ کو معلومات فراہم کرسکے

امتناعِ منشیات آرڈینینس 1979 میں پاکستان میں بنایا گیا۔ اب تو اس قانون کو بعض ترمیم کے بعد مزید سخت کردیا ہے اور اِس میں موت اور عمر قید تک کی سزائیں موجود ہیں۔ لیکن اِس کے باوجود اِن جرائم میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت میں اسی وقت صحیح طور پر کمی آسکے گی جب لوگ از خود اس کی برائیوں کو سمجھیں اور ایک ذمے دار شہری ہونے کا فرض ادا کرتے ہوئے اس سے اپنے اور اپنے دیگر دوست واحباب کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کریں ورنہ انتظامیہ ہر شخص کا ہاتھ تھام کر اسے ایسا کرنے سے نہیں روک سکتی۔ یہ ممکن ہی نہیں.

[poll id="505"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اوراس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں