’’وہ تاریک رات‘‘

مگر اب کی بار آواز نے مجھے جھٹکے سے کھڑا کردیا تھا۔ وہ آواز اب کمرے کے اندر سے آرہی تھی۔

میں کشمکش میں تھا۔ کچھ ہلکا خوف بھی تھا اور پریشانی بھی تھی کہ باقی رات کیا ہوگا۔ فوٹو:فائل


رات کی تاریکی میں جب یہاں رہنے والے چند انسان بھی اپنے کمروں میں غائب ہوجاتے ہیں تو جھینگروں کی پُراسرار ٹرٹراہٹ اور درختوں، جھاڑیوں اور اونچے نیچے ٹیلوں کے درمیان جلتے اِکا دکا بلب ماحول کو پراسرار بنائے رکھتے ہیں۔ جو بظاہر تاریکی کا سینہ چیرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں مگر ہوا کے ساتھ ہلتے درخت اور جھڑتے پتے ماحول میں عجیب سی آوازیں پیدا کرتے ہیں۔ برگد کے بوڑھے درختوں کی بیلیں جب ہوا کے ساتھ جھولتی ہیں تو تاریکی میں ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نہ دیدہ مخلوق کے بچے جھولا لے رہے ہوں۔


جب میں ادھر آیا تو مجھے بتایا گیا کہ یہاں بھیڑیے، سور، سانپ اور دوسرے حشرات الارض بکثرت ہوتے ہیں۔ خیر اِس جگہ انھیں دیکھنے کی تو حسرت ہی رہی۔ مگر ماحول اتنا پُراسرار ضرور ہے کہ مضبوط اعصاب کے مالک کو بھی غیر مرئی مخلوق کی موجودگی کا گمان رہتا ہے۔ حالانکہ ان چیزوں سے بہت زیادہ خوف محسوس نہیں ہوتا۔ پہلے پہل تو رات میں کمرے سے باہر نکلنے میں گھبراہٹ ہوتی تھی اور اگر کام سے باہر نکلنا بھی پڑے تو اس قدر چوکنا رہتا تھا جیسے ابھی پیچھےسے کوئی کاندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھے گا ''کدھر چلے میاں؟''



آہستہ آہستہ عادت ہوگئی۔ رات میں نسبتاً روشن جگہوں پر ٹہلنے لگا۔ جب میں اکیلا ہوتا ہوں تو رات 11 بجے تک بھی باہر ٹہلتا رہتا ہوں۔ موسم خوشگوار ہو تو آسمان پرتارے گننے میں بھی مزہ آتا ہے۔ اُس رات جب میں 11 بجے کمرے میں آیا تو نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں نے کمرے کی لائٹ آف کی (عادت ہوگئی ہے، ورنہ اکیلا ہوتا تھا رات میں لائٹ آف نہیں کرتا تھا) اور بستر پر نیم دراز ہوکر چشمہ ساتھ ٹیبل پر رکھا اورموبائل پر ڈاؤن لوڈ کی گئی کتاب کا مطالعہ کرنے لگا۔ کھڑکی کے باہر کا ماحول بد استور پُراسرار تھا۔ کمرے میں پنکھے کی ہلکی ہلکی آواز تھی اور رفتار پاکستانی فلموں میں چلنے والے پنکھوں جیسی۔!


کچھ دیر گزری، لگ بھگ پونے بارہ بجے کا وقت تھا۔ اچانک دروازے کے پاس مجھے عجیب سے آواز سنائی دی۔ جیسے کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلائی گئی ہو۔ میں پہلے سمجھا کہ باہر کوئی چوکیدار چکر لگاتا آیا ہوگا یا درختوں کے پتے تیز ہوا کی وجہ سے دروازے سے ٹکرائے ہوں۔ کچھ دیر اِسی طرح گزر گئی اور میں میں مسلسل ٹالنے کی کوشش کرتا رہا۔ آواز پھر یک دم تیز ہوگئی، خوف کا ہلکا سا احساس ہوا۔ میں نے سوچا کہ اگر کمرے کے باہر کوئی مسئلہ بھی ہے تو 'بھاڑ' میں ڈالو۔ صبح دیکھا جائے گا کیوں کہ کمرا تول اک ہے۔ میں نے موبائل بند کیا، کمبل سر تک تانا اور لیٹ گیا۔



مگر اب کی بار آواز نے مجھے جھٹکے سے کھڑا کردیا تھا۔ وہ آواز اب کمرے کے اندر سے آرہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے میں ساکت ہوگیا۔ پھر اضطراری کیفیت میں اپنے بیڈ پر ہی کھڑا ہوگیا۔ کمرے میں پہلے ہی اندھیرا تھا اور چشمہ میں نے لگایا نہیں تھا جس کی وجہ سے مجھے واضح کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ دروازے کے پاس میری نظر پڑی کوئی چیز ہوا میں ہچکولے لے رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا کروں، پہلے وہ جو کچھ بھی تھا کمرے کے باہر تھا اور اب مجسم صورت میں میرے سامنے۔ ویسے بھی چلانے کی صورت میں مدد کے لیے کسی کو آنا نہیں تھا۔ سنسنی اور خوف کی ایک لہر میری ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ غیر مرئی چیزوں سے کبھی ڈرایا نہیں گیا اس کے باوجود ایسے ماحول میں خوفزدہ ہونا یقینی تھا۔


میں نے خود پر قابو پایا، بیڈ سے نیچے اُترا اور دھیرے دھیرے اس کے پاس پہنچا تو اندازہ ہوا کہ یہ ایک شاپر ہے جو کہ ہوا میں اچھل کر واپس زمین تک آتا ہے۔ میں کشمکش میں تھا۔ کچھ ہلکا خوف بھی تھا اور پریشانی بھی تھی کہ باقی رات کیا ہوگا۔ اُلٹے ہاتھ سے میں نے جلدی سے اوپر نیچے اچھلتی تھیلی کو پکڑ لیا۔ کرکٹ کھیلنے کا ایک یہ فائدہ مجھے بہت ہوا۔ کسی بھی چیز پر 'ہاتھ' ڈالتے ہوئے نہیں گھبراتا، چاہے وہ چھپکلی ہی ہو۔ ہاں بس ہاتھ پر شاپر چڑھا لیتا ہوں۔ خیر تھیلی میری ہاتھ میں تھی۔اور بغیر یہ دیکھےکہ تھیلی میں کیا ہے،میرا قہقہہ بلند ہوا۔اطمینان سے لائٹ کھولی اور زیرِ لب بڑبڑایا۔'بیٹا اتنی محنت کرائی ہے تو شکل دکھا کے جاـــ!'، کمرے کا دروازہ کھولا اسے تھیلی سمیت باہر اچھال دیا۔۔ اس تھیلی میں تھا کیا؟


صرف ایک 'مینڈک' جس نے اچھے خاصے معقول بندے کو واہمے میں مبتلہ کردیا۔



نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

Load Next Story