نام پاکر بھی گمنام

آج میں دو ایسے گلوکاروں کا تذکرہ کروں گا، جنھیں میں خوب سنتا رہا ہوں اور ان سے میری ملاقاتیں بھی رہی ہیں


یونس ہمدم June 27, 2015
[email protected]

صدیوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں کہ انسانی زندگی میں اس کی قسمت کا بڑا دخل ہوتا ہے کسی کی قسمت اگر ساتھ دے تو وہ مٹی کو بھی چھوئے تو وہ سونا بن جاتی ہے اور قسمت یاوری نہ کرے تو سونا بھی مٹی بن جاتا ہے۔

آج میں دو ایسے گلوکاروں کا تذکرہ کروں گا، جنھیں میں خوب سنتا رہا ہوں اور ان سے میری ملاقاتیں بھی رہی ہیں، ان گلوکاروں نے اپنا پہلا پہلا فلمی گیت گایا جو سپرہٹ ہوا اور ان دونوں گلوکاروں کے ایک ایک گیت نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے پھر یوں ہوا کہ ان کے گیت مشہور ہونے کے بعد بھی یہ دونوں گلوکار آہستہ آہستہ گمنامی کے اندھیروں کی نذر ہوتے چلے گئے۔

ان گلوکاروں میں ایک گلوکار شرافت علی تھے اور دوسرے گلوکار کا نام ایس۔ بی جون ہے، یہ دونوں گلوکارگیت اور غزل کی گائیکی میں اپنا منفرد انداز رکھتے تھے اور دونوں نے اپنی گائیکی کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے کیا تھا، جن دنوں میں ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام بزم طلبا میں حصہ لیتا تھا، اسی دوران میری کئی ملاقاتیں گلوکار شرافت علی سے بھی ہوئی تھیں شرافت علی کی آواز میں ایک خاص کھرج تھی اور وہ غزلوں کے ساتھ ساتھ نیم کلاسیکل انداز کی گائیکی سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ ان ہی دنوں مشہور فلمساز و ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد نے اپنی فلم ''وعدہ'' کے لیے گلوکار شرافت علی کو پہلی بار موقع دیا اور موسیقار رشید عطرے نے ایک نیم کلاسیکل گیت شرافت علی اور کوثر پروین کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جس کے بول تھے:

بار بار برسیں مورے نین مورے نیناں
موہے کیسے ملے چین کیسے ملوں آہیں بھروں

یہ گیت دونوں ہی فنکاروں نے بہت ہی محبت سے گایا تھا اور سننے والوں میں یہ گیت بڑی توجہ کا حامل تھا اور نیم کلاسیکل ہوتے ہوئے بھی ہر ایک کا دل موہ لیتا تھا۔ یہ دلنشیں گیت صبیحہ خانم اور پاکستان کے پہلے سپر اسٹار سنتوش کمار پر عکس بند کیا گیا تھا ۔ اس فلم کے دوسرے گیت کے بول تھے:

تری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں
جب ترے شہر سے گزرتا ہوں

گلوکار شرافت علی نے کچھ اس ڈھب سے گایا تھا کہ دل میں اترتا چلا جاتا تھا، ان گیتوں کے شاعر نامور نغمہ نگار سیف الدین سیف تھے اور ان کے لکھے ہوئے ایک سولو گیت نے شرافت علی کو دیکھتے ہی دیکھتے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا حالانکہ شرافت علی نے کبھی ایسی شہرت کا تصور بھی نہیں کیا ہو گا۔لیکن اتنی بے پناہ شہرت کے بعد یہ کتنی عجیب بات تھی کہ شرافت علی کو پھر کسی بھی فلم میں گلوکاری کا موقع نہ مل سکا نہ کراچی کے کسی موسیقار نے اور نہ ہی لاہور کے کسی کمپوزر نے شرافت علی کی آواز سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور شرافت علی اپنے ایک ہی گیت کی شہرت اپنے دامن میں سمیٹ کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

اب میں آتا ہوں ایسے ہی ایک اور سپر ہٹ گیت کی طرف جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے اور جسے فلم ''سویرا'' کے لیے گلوکار ایس۔ بی جون نے گایا تھا۔ یہ گیت ممتاز نغمہ نگار فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا تھا اور اسے موسیقی کے حسن سے منظور اشرف نے سنوارا تھا گیت کے بول تھے:

تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے

منظور اشرف دو موسیقاروں اور دوستوں کی جوڑی تھی مگر فلم کی نمائش کے بعد دونوں دوست الگ الگ ہو گئے تھے اشرف نے اپنا نام ایم اشرف رکھ لیا اور سولو کمپوزر کام کیا اور پھر اپنی محنتوں اور صلاحیتوں کے طفیل ایم۔ اشرف نے فلمی دنیا میں اپنا ایک اچھا مقام بنا لیا تھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ ہر فلمساز صرف ایم۔ اشرف کا دیوانہ تھا۔ ایم۔ اشرف کے ساتھ میں نے بھی کئی گیت لکھے تھے۔

جس دور میں ایس۔ بی جون نے ''سویرا'' کا گیت گایا تھا اس گیت نے غیر معمولی کامیابی اور مقبولیت حاصل کی تھی اور یہ گیت ان دنوں پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن کے علاوہ ایران، زاہدان اور ریڈیو سیلون سے بھی مسلسل نشر ہوتا تھا اور اس ایک گیت کی وجہ سے کافی دنوں تک ایس۔بی جون کے نام کے خوب ڈنکے بجتے رہے پھر آہستہ آہستہ ایس۔ بی جون کے چاہنے والوں کا ایک حلقہ بھی بنتا چلا گیا تھا۔ غزل کی نجی محفلوں میں بھی ایس۔ بی جون سے زیادہ تر ان کے اس ایک گیت کی فرمائش ہوتی تھی پھر وقت بدلتا چلا گیا اور ان کے اس گیت کی بازگشت بھی معدوم ہوتی چلی گئی۔

جو کھیل قسمت نے گلوکار شرافت علی کے ساتھ کھیلا تھا ایسا ہی کھیل قسمت ایس۔ بی جون کے ساتھ بھی کھیل گئی اور کراچی کی کسی اور فلم میں ایس۔ بی جون کو کسی بھی موسیقار نے کوئی گیت نہیں گوایا اور نہ ہی لاہور کے کسی فلمساز نے ایس۔ بی جون کو گیت گانے کی آفر کی ہاں البتہ ایس۔ بی جون نے ہمت نہیں ہاری اور وہ گائیکی سے سدا جڑے رہے اور ریڈیو کے لیے مسلسل گاتے رہے۔

اب میں ایس۔ بی جون کی شخصیت کی طرف آتا ہوں۔ ایس۔ بی جون کا پورا نام سنی بنجمن جون ہے۔ ان کے والد کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا اور والدہ دہلی میں رہتی تھیں۔ ایس۔ بی جون نے اپنی عمر کا ابتدائی حصہ دہلی میں ہی گزارا تھا۔ اور ان کی گفتگو کا انداز بھی خالص اہل زبان ہی کی طرح تھا۔ اتنی ٹھسے دار اردو بولتے بولتے پھر جب وہ پنجابی بولتے تھے توکوئی اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ ابھی یہی شخص کرخنداری انداز میں اردو بول رہا تھا، موسیقار سہیل رعنا نے جب اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو بحیثیت کمپوزر EMI گراموفون کمپنی کے لیے ایس۔ بی جون کی آواز میں جو غزل ریکارڈ کی وہ ان کے اپنے والد اور مشہور شاعر رعنا اکبر آبادی کی لکھی ہوئی تھی۔

جسے بڑی شہرت حاصل ہوئی تھی ''اڑے ہوش اُس در پہ جانے سے پہلے'' ایس۔ بی جون نے اس کے بعد بھی EMI گراموفون کمپنی کے لیے کئی غزلیں ریکارڈ کرائیں مگر انھیں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ ہاں البتہ ان کے بڑے بیٹے روبن جون نے بحیثیت میوزیشن کراچی میں بڑا نام کمایا وہ بہترین کی بورڈ پلیئر بن کر موسیقی کی دنیا میں داخل ہوا۔ ابتدا میں موسیقار سہیل رعنا کے ساتھ کام کیا پھر وہ ڈھاکہ سے آئے ہوئے مشہور موسیقار کریم شہاب الدین کا معاون بن گیا اور اس کے ساتھ بے شمار گیت کمپوز کیے پھر جب نامور موسیقار نثار بزمی لاہور کی فلم انڈسٹری چھوڑ کر کراچی واپس آ گئے تو روبن جون نثار بزمی کا بھی چہیتا گٹارسٹ بن گیا تھا۔

کریم شہاب الدین اور نثار بزمی کے ساتھ روبن جون نے بہت کام کیا جس دوران میں کراچی میں بطور کمرشل پروڈیوسر کراچی کی مشہور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے لیے کام کرتا تھا تو میرے زیادہ تر کمرشل سانگ کا کمپوزر بھی روبن جون ہی ہوتا تھا۔ پھر میں پاکستان سے امریکا آ گیا اور ایک دن میری نیویارک میں پاکستان ڈے کی ایک تقریب میں روبن جون سے ملاقات ہو گئی۔

اس پروگرام میں روبن جون کا آرکسٹرا تھا اور وہ خود میوزیکل پروگرام میں کی بورڈ پلے کر رہا تھا اس دوران روبن جون سے بڑے عرصے کے بعد ایک خوشگوار ملاقات رہی تھی پھر نیویارک کے کئی میوزک پروگراموں میں ملاقاتیں ہوتی رہیں پھر ایک دن روبن نے مجھے فون کر کے بتایا کہ اب وہ نیویارک چھوڑ کر کیلی فورنیا آ گیا ہے۔ اور وہاں وہ کئی میوزک البم پر کام کر رہا ہے۔ میری گلوکار ایس۔ بی جون سے چند سال پہلے جب میں پاکستان گیا تھا تو کافی دنوں کے بعد ریڈیو پاکستان کی عمارت میں ایک مختصر سی ملاقات رہی تھی میں ریڈیو کے کچھ دوستوں سے مل کر جا رہا تھا اور وہ ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہو رہے تھے۔ میں نے سلام کیا جواب میں انھوں نے خالص دلی والے انداز میں کہا یونس میاں! جیتے رہو۔ وہ ملاقات آج بھی میرے دل کے دریچوں میں محفوظ ہے خدا انھیں سلامت رکھے۔ اور اپنے بچوں کا سکھ اور خوشیاں دکھائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔