اندھیر نگری چوپٹ راج
کراچی میں تاریخ کی بدترین گرمی، درجہ حرارت 46 تک جا پہنچا، لوگ بے حال ہو گئے
کراچی میں تاریخ کی بدترین گرمی، درجہ حرارت 46 تک جا پہنچا، لوگ بے حال ہو گئے خاص طور پر ماہ رمضان میں روزہ دار اس انتہا کی گرمی میں شدید ترین پریشان۔ کراچی میں کچھ عرصہ پہلے سے پانی کی قلت کا ایشو بھی ہے اور بہت سارے کراچی کے علاقوں میں کئی کئی روز تک پانی نایاب ہے پھر ایک دم سے درجہ حرارت 46 تک جا پہنچے تو K-Electric کیسے پیچھے رہے؟ انتہا کی گرمی میں جب سورج سر پہ اپنے جلال کے ساتھ آگ برسا رہا ہو اور کئی کئی گھنٹوں کے لیے بجلی غائب ہو جائے تو کیا کیجیے؟ گرم ترین دن، گرم ترین ہوائیں۔
نہ پانی، نہ بجلی کیا ہم اور آپ یقین کر لیں کہ 2015ء میں کراچی جیسے ماڈرن شہر میں اس اچانک گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے تقریباً ڈیڑھ ہزار لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ظلم اور تاریکی کی انتہا دیکھیے کہ جہاں لوگ مر رہے ہیں وہیں سندھ کے وزیر اعلیٰ نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور Cool House میں افطار ڈنر تمام ارکان کے لیے اعلان کرتے ہیں۔
جہالت اور کرپشن کی یہ انتہا 2015ء جیسے ترقی یافتہ دور میں جب اسمارٹ فون ہر ایک کی پہنچ میں ہو دنیا کے کسی بھی کونے میں آپ ہوں صرف چند سیکنڈز میں آپ کا کنکشن جہاں آپ چاہیں اس 4G-5G کے دور میں ایک بہت بڑے شہر میں لوگ بجلی کی کمیابی سے جانوروں کی طرح مر جائیں اور حد تو یہ ہے کہ پورے شہر میں مردوں کو رکھنے کی جگہیں کم ہو جائیں۔ قبرستانوں میں لوگوں کو دفنانے کے لیے قبر نہ ملے، ایمبولینسیں اتنی کم ہو جائیں کہ لوگ Pickup اور ٹرکوں میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں اس بے حسی کو کیا کہا جائے؟
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ میرے دور حکمرانی میں اگر ایک کتا بھی بھوکا پیاسا مر جائے تو عمرؓ اس کا جوابدہ ہو گا، کرسیوں پر لوٹنے کھانے کے لیے براجمان لوگ کیا پڑھنے لکھنے سے بالکل قاصر ہیں۔ جب ایک عام آدمی ان احادیث کو، نبیوں اور خلفا کی باتوں کو، ان کے طور طریقوں اور ان کے نظام حکمرانی کو پڑھتا ہے، سمجھتا ہے تو یہ لوگ ان تمام سے عاری کیوں؟ کیا ناکارہ لوگ ہی حکمرانی کے اہل ہیں؟
اہل کراچی قدم قدم پر بے بسی کی تصویر نظر آ رہے ہیں، بڑے بڑے ٹریفک کے لیے برج اور انڈر پاسز کا افتتاح ہو رہا ہے، مفت کے دسترخوانوں کے اشتہارات ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں، بڑے بڑے عالی شان رہائشی اور کمرشل پلازہ زیر تعمیر ہیں۔
اس لوٹ مار کے کراچی میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً پندرہ سو لوگ مر جائیں۔ حیرت اور دکھ کا اندازہ نہیں ہو سکتا جب ارکان اسمبلی ایک دوسرے پر الزامات رکھیں جیسے یہ کوئی کھیل تماشا ہو، ان اموات میں کوئی ''را'' شامل نہیں کوئی بھی بیرونی ہاتھ شامل نہیں، صاف صاف گورنمنٹ کی نالائقی اور بے حسی نظر آ رہی ہے۔ ''گڈ'' سے بدتر یہ آج کا انسان، سمجھ اور عقل سے باہر ہے کہ دولت اور عیاشیوں کا گراف اتنا زیادہ اونچا ہو گیا ہے کہ پیچھے دیکھنے پر اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔
بے تحاشا کرپشن پکڑے جا رہے ہیں، بڑے بڑے نام دن رات ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ کہانیاں نظر آتی ہیں، بتائی جاتی ہیں مگر رزلٹ کیا؟ کیا ان لوگوں کو پکڑا جائے گا؟ کیا ان لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا؟ اگر صرف کہانیاں ہی بتانی ہیں تو یہ کون سی ڈھکی چھپی باتیں ہیں پوری دنیا جانتی ہے کہ کیسے کیسے نام، کیسے کیسے کرتب دکھا رہے ہیں، خاص طور پر ہمارے پاکستان میں ''صدر'' جیسے بڑے عہدوں پرکیسے کیسے لوگ بٹھائے جاتے ہیں یہ ایسا سنگین مذاق ہے جس کا خمیازہ تمام قوم کو بھرنا پڑتا ہے۔
دکھ اور تکلیف اس قدر زیادہ ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ پندرہ سو زندہ لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے ناپید ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں مبتلا ہوئے، گرمی کی شدت اپنی جگہ لیکن سارا دھمال لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہوا۔ آگ کی طرح تپتے ہوئے گھر، نہ ہوا، نہ پانی کوئی کیسے جیے، مرنے والوں کے لواحقین بھی بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ بڑی عمر کے بزرگ، بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، بہت سارے لوگ Heat Stroke کی وجہ سے ابھی تک اسپتالوں میں لائے جا رہے ہیں۔ پورے ملک میں ہی یہ شدید گرمی کی لہر جاری ہے، مگر جو حال کراچی میں ہوا ہے۔ وہ کم از کم لمحہ فکریہ ہے کہ اس بڑے شہر میں یہ حال ہے تو آپ سوچیے اندرون سندھ کیا کیا حال ہو گا، حکومت کس اسکیل پہ کھڑی ہے۔
کئی سو شہریوں کی ہلاکت کو وزیر اعظم کو ہلا دینا چاہیے تھا اور وہ فوراً اپنی مصروفیات ترک کرکے کراچی پہنچے تا کہ ان کی موجودگی حالات کو بگڑنے سے بچاتی۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ سیکڑوں لوگ بجلی کی کمیابی سے مر جائیں اور سیکڑوں ابھی تک اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ تمام ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ کو اپنی اپنی مصروفیات کو کم کر کے اس بڑے شہر کے شہریوں کے ساتھ یکجہتی دکھانی چاہیے تھی۔ رینجرز نے اپنے کیمپ عائشہ باوانی کے پاس لگائے ہیں مگر وہ بہار کیمپوں کی جو الیکشن میں نظر آتی ہے وہ بالکل نہیں ہے بلکہ خاموشی نظر آتی ہے۔
دکھ کی بات ہے کہ یہ لوگ اپنا پروٹوکول لے کر ''عیادت'' کرنے بھی ایک ایک ہفتے کے بعد آتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنی گرمی میں کون اپنے ایئرکنڈیشنڈ کمروں سے نکلنا پسند کرتا ہے۔ اور عوام تو ہوتے ہی مرنے کے لیے ہیں کبھی گولی سے کبھی بھوک سے۔
وقت مگر بہت ظالم ہوتا ہے یہ اپنا حساب کتاب پورا کرتا ہے تو عوام کو بھی اپنی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ان ظالم لوگوں کے انجام کے لیے صبر کرنا ہو گا۔ ملک جمہوریت اور جمہوری ارکان اسمبلی کی جمہوری حرکتوں کے ساتھ ساتھ مارشل لا کی طرف جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب لوگ پانی کی پائپ لائنوں میں اپنی اپنی ضرورت کے تحت سوراخ کرنے لگے ہیں۔ ان سوراخوں میں سے جب پانی فوارے کی طرح باہر آتا ہے تو لوگ خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں بارشیں تو ہو نہیں رہیں مگر یہ بارشوں کے مزے لینے کے لیے اپنے اپنے گھروں سے باہر ان پانی کی پائپ لائنوں کے پاس ہیں کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے مگر یہ ضرورتیں اتنی دیر دیر سے کیوں عوام کو سمجھ آ رہی ہیں۔
حضرت علیؓ کا قول مبارک ہے کہ ''ظلم سہنے والا اور ظلم کرنے والا دونوں ظالموں میں سے ہیں۔'' اور ہمیں حکمران تو ظالم اور عیاش نظر آ رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ عوام بھی ظالم نظر آتے ہیں کہ وہ کیوں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرتے؟ کیوں یہ لوگ ان فرعونوں کی چکر بازیوں کا شکار ہو رہے ہیں، ہر ایک اپنی کہانی الاپتا ہے اور وقت گزار کر لوٹ مار کر کے واپس چلا جاتا ہے۔ بہت سے ٹیکس عوام پر لگائے جا رہے ہیں، کہاں کے رمضان شریف اور کہاں کی عید۔ ان ظالم لوگوں نے عوام سے ان کی خوشیاں تک چھین لینے کی ٹھانی ہوئی ہے، مگر اللہ کا انصاف بھی عالی شان ہے اس کی ذات کی طرح۔ عجیب عجیب بیماریاں ان کو لاحق ہو جاتی ہیں اور یہ لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ عبرت ہی بن جاتے ہیں۔
اس ترقی کے دور میں جہاں علم و ہنر کے جھنڈے گاڑھے جا رہے ہیں وہیں کراچی میں سیکڑوں لوگوں کی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکت لمحہ فکریہ ہے اور دکھ ہوتا ہے جب یہ لوگ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ بجلی و پانی کی منسٹری ہی جوابدہ ہے اس حالات میں ظاہر ہے وزیر داخلہ سے تو پوچھا نہیں جائے گا کہ جناب کراچی میں بجلی کیوں نہیں؟ وزیر اعظم ان تمام حالات کا سخت نوٹس لیں اور اپنے آپ کو عوام کے ساتھ کھڑا کریں اور جن لوگوں کی کوتاہی ہے ان پر فوراً ایکشن لیں۔
یہی وجہ ہے کہ عوام پاکستان آ رمی اور رینجرز کے آپریشن کے حق میں ہیں اور چاہتے ہیں جن لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے۔ جو کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں ان کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ پاکستان آرمی ایک بہت ہی معتبر ادارہ ہے اور دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کی پوری طرح صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر یہ ادارے کرپشن کو بے نقاب کرتے ہیں، ملک دشمنوں کو بے نقاب کرتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کی عظیم کہانیوں کو بے نقاب کرتے ہیں تو یہ سب کچھ کرنے والوں کو عوام کے بیچ و بیچ عبرت ناک انجام کو پہنچائیں۔
ہم اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو اسی طرح دوبارہ آزاد اور زندگی دے سکتے ہیں جب عدل و انصاف اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی تمام لوگوں کے لیے یکساں فراہم ہو۔
نہ پانی، نہ بجلی کیا ہم اور آپ یقین کر لیں کہ 2015ء میں کراچی جیسے ماڈرن شہر میں اس اچانک گرمی اور لوڈ شیڈنگ سے تقریباً ڈیڑھ ہزار لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ظلم اور تاریکی کی انتہا دیکھیے کہ جہاں لوگ مر رہے ہیں وہیں سندھ کے وزیر اعلیٰ نیند سے بیدار ہوتے ہیں اور Cool House میں افطار ڈنر تمام ارکان کے لیے اعلان کرتے ہیں۔
جہالت اور کرپشن کی یہ انتہا 2015ء جیسے ترقی یافتہ دور میں جب اسمارٹ فون ہر ایک کی پہنچ میں ہو دنیا کے کسی بھی کونے میں آپ ہوں صرف چند سیکنڈز میں آپ کا کنکشن جہاں آپ چاہیں اس 4G-5G کے دور میں ایک بہت بڑے شہر میں لوگ بجلی کی کمیابی سے جانوروں کی طرح مر جائیں اور حد تو یہ ہے کہ پورے شہر میں مردوں کو رکھنے کی جگہیں کم ہو جائیں۔ قبرستانوں میں لوگوں کو دفنانے کے لیے قبر نہ ملے، ایمبولینسیں اتنی کم ہو جائیں کہ لوگ Pickup اور ٹرکوں میں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھائیں اس بے حسی کو کیا کہا جائے؟
حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ میرے دور حکمرانی میں اگر ایک کتا بھی بھوکا پیاسا مر جائے تو عمرؓ اس کا جوابدہ ہو گا، کرسیوں پر لوٹنے کھانے کے لیے براجمان لوگ کیا پڑھنے لکھنے سے بالکل قاصر ہیں۔ جب ایک عام آدمی ان احادیث کو، نبیوں اور خلفا کی باتوں کو، ان کے طور طریقوں اور ان کے نظام حکمرانی کو پڑھتا ہے، سمجھتا ہے تو یہ لوگ ان تمام سے عاری کیوں؟ کیا ناکارہ لوگ ہی حکمرانی کے اہل ہیں؟
اہل کراچی قدم قدم پر بے بسی کی تصویر نظر آ رہے ہیں، بڑے بڑے ٹریفک کے لیے برج اور انڈر پاسز کا افتتاح ہو رہا ہے، مفت کے دسترخوانوں کے اشتہارات ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں، بڑے بڑے عالی شان رہائشی اور کمرشل پلازہ زیر تعمیر ہیں۔
اس لوٹ مار کے کراچی میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے تقریباً پندرہ سو لوگ مر جائیں۔ حیرت اور دکھ کا اندازہ نہیں ہو سکتا جب ارکان اسمبلی ایک دوسرے پر الزامات رکھیں جیسے یہ کوئی کھیل تماشا ہو، ان اموات میں کوئی ''را'' شامل نہیں کوئی بھی بیرونی ہاتھ شامل نہیں، صاف صاف گورنمنٹ کی نالائقی اور بے حسی نظر آ رہی ہے۔ ''گڈ'' سے بدتر یہ آج کا انسان، سمجھ اور عقل سے باہر ہے کہ دولت اور عیاشیوں کا گراف اتنا زیادہ اونچا ہو گیا ہے کہ پیچھے دیکھنے پر اندھیرا ہی اندھیرا نظر آ رہا ہے۔
بے تحاشا کرپشن پکڑے جا رہے ہیں، بڑے بڑے نام دن رات ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں۔ کہانیاں نظر آتی ہیں، بتائی جاتی ہیں مگر رزلٹ کیا؟ کیا ان لوگوں کو پکڑا جائے گا؟ کیا ان لوگوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا؟ اگر صرف کہانیاں ہی بتانی ہیں تو یہ کون سی ڈھکی چھپی باتیں ہیں پوری دنیا جانتی ہے کہ کیسے کیسے نام، کیسے کیسے کرتب دکھا رہے ہیں، خاص طور پر ہمارے پاکستان میں ''صدر'' جیسے بڑے عہدوں پرکیسے کیسے لوگ بٹھائے جاتے ہیں یہ ایسا سنگین مذاق ہے جس کا خمیازہ تمام قوم کو بھرنا پڑتا ہے۔
دکھ اور تکلیف اس قدر زیادہ ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ پندرہ سو زندہ لوگ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے ناپید ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں مبتلا ہوئے، گرمی کی شدت اپنی جگہ لیکن سارا دھمال لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ہوا۔ آگ کی طرح تپتے ہوئے گھر، نہ ہوا، نہ پانی کوئی کیسے جیے، مرنے والوں کے لواحقین بھی بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ بڑی عمر کے بزرگ، بچے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، بہت سارے لوگ Heat Stroke کی وجہ سے ابھی تک اسپتالوں میں لائے جا رہے ہیں۔ پورے ملک میں ہی یہ شدید گرمی کی لہر جاری ہے، مگر جو حال کراچی میں ہوا ہے۔ وہ کم از کم لمحہ فکریہ ہے کہ اس بڑے شہر میں یہ حال ہے تو آپ سوچیے اندرون سندھ کیا کیا حال ہو گا، حکومت کس اسکیل پہ کھڑی ہے۔
کئی سو شہریوں کی ہلاکت کو وزیر اعظم کو ہلا دینا چاہیے تھا اور وہ فوراً اپنی مصروفیات ترک کرکے کراچی پہنچے تا کہ ان کی موجودگی حالات کو بگڑنے سے بچاتی۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ سیکڑوں لوگ بجلی کی کمیابی سے مر جائیں اور سیکڑوں ابھی تک اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ تمام ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ کو اپنی اپنی مصروفیات کو کم کر کے اس بڑے شہر کے شہریوں کے ساتھ یکجہتی دکھانی چاہیے تھی۔ رینجرز نے اپنے کیمپ عائشہ باوانی کے پاس لگائے ہیں مگر وہ بہار کیمپوں کی جو الیکشن میں نظر آتی ہے وہ بالکل نہیں ہے بلکہ خاموشی نظر آتی ہے۔
دکھ کی بات ہے کہ یہ لوگ اپنا پروٹوکول لے کر ''عیادت'' کرنے بھی ایک ایک ہفتے کے بعد آتے ہیں۔ ظاہر ہے اتنی گرمی میں کون اپنے ایئرکنڈیشنڈ کمروں سے نکلنا پسند کرتا ہے۔ اور عوام تو ہوتے ہی مرنے کے لیے ہیں کبھی گولی سے کبھی بھوک سے۔
وقت مگر بہت ظالم ہوتا ہے یہ اپنا حساب کتاب پورا کرتا ہے تو عوام کو بھی اپنی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ان ظالم لوگوں کے انجام کے لیے صبر کرنا ہو گا۔ ملک جمہوریت اور جمہوری ارکان اسمبلی کی جمہوری حرکتوں کے ساتھ ساتھ مارشل لا کی طرف جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب لوگ پانی کی پائپ لائنوں میں اپنی اپنی ضرورت کے تحت سوراخ کرنے لگے ہیں۔ ان سوراخوں میں سے جب پانی فوارے کی طرح باہر آتا ہے تو لوگ خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں بارشیں تو ہو نہیں رہیں مگر یہ بارشوں کے مزے لینے کے لیے اپنے اپنے گھروں سے باہر ان پانی کی پائپ لائنوں کے پاس ہیں کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے مگر یہ ضرورتیں اتنی دیر دیر سے کیوں عوام کو سمجھ آ رہی ہیں۔
حضرت علیؓ کا قول مبارک ہے کہ ''ظلم سہنے والا اور ظلم کرنے والا دونوں ظالموں میں سے ہیں۔'' اور ہمیں حکمران تو ظالم اور عیاش نظر آ رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ عوام بھی ظالم نظر آتے ہیں کہ وہ کیوں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کرتے؟ کیوں یہ لوگ ان فرعونوں کی چکر بازیوں کا شکار ہو رہے ہیں، ہر ایک اپنی کہانی الاپتا ہے اور وقت گزار کر لوٹ مار کر کے واپس چلا جاتا ہے۔ بہت سے ٹیکس عوام پر لگائے جا رہے ہیں، کہاں کے رمضان شریف اور کہاں کی عید۔ ان ظالم لوگوں نے عوام سے ان کی خوشیاں تک چھین لینے کی ٹھانی ہوئی ہے، مگر اللہ کا انصاف بھی عالی شان ہے اس کی ذات کی طرح۔ عجیب عجیب بیماریاں ان کو لاحق ہو جاتی ہیں اور یہ لوٹی ہوئی دولت کے ساتھ عبرت ہی بن جاتے ہیں۔
اس ترقی کے دور میں جہاں علم و ہنر کے جھنڈے گاڑھے جا رہے ہیں وہیں کراچی میں سیکڑوں لوگوں کی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاکت لمحہ فکریہ ہے اور دکھ ہوتا ہے جب یہ لوگ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ بجلی و پانی کی منسٹری ہی جوابدہ ہے اس حالات میں ظاہر ہے وزیر داخلہ سے تو پوچھا نہیں جائے گا کہ جناب کراچی میں بجلی کیوں نہیں؟ وزیر اعظم ان تمام حالات کا سخت نوٹس لیں اور اپنے آپ کو عوام کے ساتھ کھڑا کریں اور جن لوگوں کی کوتاہی ہے ان پر فوراً ایکشن لیں۔
یہی وجہ ہے کہ عوام پاکستان آ رمی اور رینجرز کے آپریشن کے حق میں ہیں اور چاہتے ہیں جن لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے۔ جو کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں ان کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ پاکستان آرمی ایک بہت ہی معتبر ادارہ ہے اور دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے کی پوری طرح صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر یہ ادارے کرپشن کو بے نقاب کرتے ہیں، ملک دشمنوں کو بے نقاب کرتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کی عظیم کہانیوں کو بے نقاب کرتے ہیں تو یہ سب کچھ کرنے والوں کو عوام کے بیچ و بیچ عبرت ناک انجام کو پہنچائیں۔
ہم اپنے آپ کو اور اپنے معاشرے کو اسی طرح دوبارہ آزاد اور زندگی دے سکتے ہیں جب عدل و انصاف اور بنیادی ضرورتوں کی فراہمی تمام لوگوں کے لیے یکساں فراہم ہو۔