بیروت کے باسیوں نے جان پر کھیل کر اپنی تاریخ بچائی

لبنانی اتنے مہمان نواز ہیں کہ جنگیں اور سیاسی بحران بھی یہاں آکر بس جاتے ہیں


عشروں سے مصائب کے شکار لبنان کے سفر کا دل چسپ تذکرہ ۔ فوٹو : فائل

شاید ہرعہد اور ثقافت کی دہلیز پر کسی انارکلی کا گزرہوتا ہے۔ کبھی دشمن شہنشاہ ہند اور اس کا گھمنڈ، اور کبھی عداوت اہل شہر سے۔ نفرت چاہے معاشرتی اقدار سے جنم لے یا مذہبی انتہا پسندی سے، محبت کو کچل دینا اپنا اولین فریضہ سمجھتی ہے۔ شہر بیروت کی انار کلی کسی محل میں کنیز تو نہ تھی مگر اس عجآئب گھر میں مسکن پزیر تھی جو کہ لبنانی خانہ جنگی کی سرحد عداوت ٹھہرا۔ جب سرحد کے دونوں پار خون کے بیوپاری اور ہوس کے پجاری توپوں کے منہ اپنے ہی بہن اور بھائیوں کی جانب کر کے روحانی سکون محسوس کرتے نہ تھکتے، تو ایسے میں بیروت کی انار کلی خطرے میں تھی۔

ان دنوں موریس شہاب عجائب گھر کے ناظم اعلیٰ تھے۔ ان کی رفاقت شہزادہ سلیم کی محبت سے زیادھ گہری تھی۔ موریس نے اپنی جان پرکھیل کر بیروت کی انارکلیوں کو دیوار میں چنوا دیا۔ یہ دیوار، داستان ہند کے برعکس، انارکلی کی موت کی نہیں بل کہ اس کی زندگی کی ضمانت تھی۔ اس دیوار نے گولیوں سے اپنا دامن تو چھلنی کروا لیا، مگر اپنے اندر کے خزانے کو آنچ نہ آنے دی۔ 90 کی دہائی میں انارکلی کو دوام ثانی ملا اور دنیا اس کے حسن سے ایک بار پھر متعارف ہوئی مگر انارکلی کو بچانے والے موریس شہاب خود منوں مٹی کے نیچے گولیوں اور توپوں کی گھن گرج سے بہت دور ہوچکے تھے۔



بیروت کے بارے میں بچپن سے جو کچھ سن اور پڑھ رکھا تھا، سبھی تقریباً منفی تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ٹی وی پر ایک ہی چینل ہوا کرتا تھا اور آئے دن بیروت میں عام شہریوں کے قتل عام اور گرتی ہوئی عمارتوں کی خبریں نشر ہوا کرتی تھیں۔ اپنی کم عقلی اور محدود علم کا احساس بیرون ملک جاکر ہوا، جہاں بہت سے لبنانی دوستوں اور مہربانوں سے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔

یہ اس سال کے ابتدا ایام کی بات ہے کہ بیروت کی مشہور اور منفرد درس گاہ جامعہ امریکا بیروت (American University of Beirut ) کے ایک مدرس نے مجھے بیروت آنے کی دعوت دی۔ کچھ سوچ بچار کے بعد میں نے ہامی بھرلی۔



گھر والوں سے ذکر کیا تو فیصلہ یہ سنایا گیا کہ چوں کہ دعوت فروری کے وسط کی ہے اور انہی دنوں میں بچوں کی تعطیلات بھی ہیں لہٰذا سبھی ساتھ چلیں گے۔ رخت سفر فروری کے وسط میں باندھا جب بوسٹن اپنی سیکڑوں سالہ تاریخ کے بدترین برفانی طوفان کی لپیٹ میں تھا۔ سفیدی کی چادر اوڑھے گل و گل زار اور شاہراہیں گویا ہمارے قافلے کو حسد کی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔

کام کی نوعیت سے سفر کچھ اس طرح سے طے پایا کے فلائٹ براستہ لندن پہلے بیروت جائے گی، وہاں کچھ گھنٹے قیام یعنی ٹرانزٹ (transit) کے بعد ابوظبی، جہاں چند روز کے لیے کچھ کام تھا اور پھر واپس بیروت۔ لندن کے راستے بیروت ایئرپورٹ پر اترے تو سیکیوریٹی حکام کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ آخر یہاں کوئی کیوںکر ٹرانزٹ کرے گا؟ بہت سمجھایا مگر ہم قائل کرنے سے قاصر رہے۔ اب ہمارا سامان ایئر پورٹ سے باہر اور ہم اندر۔ کسی نے صلاح دی کے ایئرپورٹ کے ٹرانزٹ ڈسک پر چلے جائیے۔



معلوم کیا کہ کدھر ہے تو ایک خاتون سیکیوریٹی گارڈ جھلا کر بولیں کہ میاں زیادہ چالاکی مت دکھائیے، آپ کے سامنے ہی ہے۔ میں نے بدحواس ہوکر اِدھر اُدھر دیکھا، مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ بس ایک خستہ سی لوہے کی الماری جس پر زنگ لگے بھی عرصہ گزر چکا تھا۔ اچھے دنوں کی راہ تکتے تکتے یہ الماری اب جہان فانی سے کوچ کی تیاریاں کر رہی تھی۔ اس اداس الماری کے اوپر اس سے بھی اداس تختی آدھی لٹک اور آدھی ڈھلک رہی تھی۔ کسی زمانے میں اس تختی پرtransit lounge لکھا تھا مگر اب بہ مشکل ہی پڑھا جا سکتا تھا۔ تختی کیا تھی، کسی آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر کے امتحان کا حصہ تھی، کہ جو پڑھ لے، اس کی قوت بینائی گویا 20/20۔

میری بے چینی اور چہل قدمی دیکھ کر ایک اور صاحب نے صلاح دی کے آپ لوگ اوپر روانگی کے ٹرمینل پر چلے جائیں اور سامان؟، میں نے پوچھا۔ 'امید ہے کہ آ ہی جائے گا'، حضرت بولے۔ ان کی امید ہمارا توکل بنی اور ہم لوہے کے ایک دروازے سے، جو شاید کسی زمانے میں سیکیوریٹی کا کام دیتا تھا، اور اب آثار قدیمہ کی نوادرات کا اعلیٰ نمونہ تھا، گزر کر اوپر پہنچ گئے۔ سامان تو کہیں بھی نظر نہ آیا، ہم کو ہمارے ٹکٹ واپس مل گئے، جن پر سامان کی مہر ثبت تھی۔ اسی پر صبر شکر کیا۔



ابوظبی میں گو کام تھا مگر دو دن بڑی مشکل سے کٹے۔ صحرا میں غیرقدرتی بلند و بالا عمارتیں، سطحی شان و شوکت، برصغیر سے آنے والے محنت کشوں سے بد سلوکی، مصنوعی نخلستان اور بڑھتی ہوئی سرمایہ پروری سے دل دو دن اداس اور بو جھل رہا۔ بدھ کے روز صبح کی پرواز سے ایک بار پھر بیروت پہنچے۔ زنگ زدہ الماری کو ایک آنکھ ماری، اور جلدی سے امیگریشن کی لائن میں لگ گئے۔

شاید بوڑھی الماری کی نظر لگ گئی۔ امیگریشن کی لائن میں عجیب عالم تھا۔ لائن یوں چل رہی تھی جیسے لاہور سے چلنے والی تیز گام، گویا چلنے سے عاری! جب ہماری باری آئی تو کاؤنٹر پر موجود افسر نے ہم سے یوں آنکھیں پھیر لیں گویا ہم نے بچپن میں اس کا کوئی قیمتی کھلونا توڑ ڈالا تھا، سوچا کہ بتا دوں کہ میاں وہ ہم نہیں! مگر سیاں روٹھے ہی رہے! بڑی بیزاری سے بولا کہ برابر کی کھڑکی پر چلے جاؤ، گویا ہماری تمہاری پکی کُٹی! دوسرے کاؤنٹر کے صاحب کا رویہ بھی مختلف نہ تھا، مگر بالآخر انہوں نے ہمارے پاسپورٹوں پر مہر ثبت کر کے ہم کو فارغ کر دیا۔

ابوظبی کے بعد بیروت قدرے خنک تھا۔ ایئرپورٹ سے باہر آئے تو ہوا کی نمی اور پانی سے بھرے گڑھے ماضی قریب کی بارش کی گواہی دے رہے تھے۔ ایئرپورٹ کے باہر ڈرائیور ہمارے نام کی تختی لیے ہمارا منتظر تھا۔ انگریزی سے جناب ناواقف، فرانسیسی سے ہم نابلد، گویا زبانِ یار من ترکی، و من ترکی نمی دانم! فارسی سے تو خیر ہم دونوں عاری!

شہر کی جانب ہماری گاڑی بڑھنا شروع ہوئی تو ایک نئی دنیا نظر آئی۔ عمارتیں اور گھر ابھی تک گولیوں کے داغ کا سنگھار کیے ہمارا استقبال کر رہے تھے۔ میرے لیے یہ تجربہ بالکل نیا تھا۔ غربت سے میرا تعارف نیا تو نہ تھا، مگر چھلنی بدن عمارتوں سے میں ہرگز روشناس نہ تھا۔ ابھی میں باقی صدیقی کی غزل ، داغ دل ہم کو۔۔۔ گنگنا ہی رہا تھا کہ ڈرائیور ہم کو اندرون بیروت کی بھول بھلیوں سے گزارتا ہوا ہم کو ہمارے ہوٹل لے آیا۔

ہوٹل کا عملہ محبت سے سرشار تھا۔ دو کمرے ہمارے لیے مختص تھے۔ ہوٹل میں داخل ہوتے ہی میرے اندر کا باغی سیاح بیدار ہوچکا تھا۔ سامان چھوڑ کر میں ہوٹل سے باہر آ گیا۔ ہوٹل ساحل سے کچھ فاصلے پر تھا، مگر سمندری ہوا کا مخصوص عطر قریبی موجوں کا ضمانت دے رہا تھا۔ ہوٹل کے برابر ایک کتب خانہ تھا، جہاں ایک بزرگ کتب بینی میں مصروف تھے۔ چوراہے پر کھانے کی کچھ دکانیں تھیں اور ایک تندور۔ تندور سے ایک پیزا خریدا، چند سکوں کے عوض لذت کے خزانے کا یہ پہلا سودا تھا۔ میں سڑک کے ساتھ تھوڑی دور تک چلا مگر ابھی زیادہ دور جانے کا وقت نہ تھا۔ شام کو میزبانوں سے ملاقات طے تھی۔

ہمارے میزبان ڈاکٹر زاہر دعوی مقررہ وقت، ٹھیک ساڑھے پانچ بجے، ہمارے ہوٹل کی لابی میں ہمارے منتظر تھے۔ مجھے ان سے پہلے ملنے کا شرف حاصل نہ تھا، مگر اس قدر محبت سے ملے جیسے ہم نے عمر کا ایک طویل حصہ ساتھ گزارا ہو۔ باقی خاندان سے بھی اسی حلاوت سے ملے۔ ہم ان کے ساتھ ہوٹل سے باہر آ گئے۔ ڈاکٹر صاحب ہم کو جامعہ کا مختصر دورہ کروانا چاہتے تھے۔

بلس اسٹریٹ، جس پر جامعہ امریکا واقع ہے، شام کو رونق کا گہوارہ ہوتی ہے۔ ابھی کیفے اور دکانیں بیدار ہو رہی تھیں۔ ہلکی، ہلکی بارش سے ہوا میں تازگی بھی تھی اور خنکی بھی۔ ڈاکٹر زاھر دعوی نے جامعہ کی تاریخ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی، اور ایک طائرانہ دورہ کرایا۔ بہت سے سوال ابھی باقی تھے، مگر وقت مختصر تھا اور ہم کو ہوٹل واپس آنا تھا کیوںکہ عشائیہ کے لئے ہم سب لوگ ایک اور ساتھی محقق ڈاکٹر رحاب نصر کے ہاں مدعو تھے۔



ٹھیک ساڑھے سات بجے، ڈاکٹر رحاب نصر اپنی گاڑی لیے ہمارے ہوٹل پہنچ گئیں۔ رحاب کے کام کے بارے میں سن رکھا تھا مگر ملاقات ابھی تک نہ ہوئی تھی۔ جب رحاب کو خبر ہوئی کہ میں بمعہ اہل خانہ آ رہا ہوں تو گھر بلانے پر مصر ہوگئیں۔ اس قدر محبت سے ملیں کہ اپنے بھی کیا ملتے۔ گھر پر ان کے شوہر اور تین صاحب زادیاں یاسمینہ، یارا اور سما ہمارے منتظر تھیں۔ رحاب کا دسترخوان کسی شاہانہ دعوت کا غماز تھا۔ خصوصاً ہمیں جب یہ معلوم ہوا کہ رحاب اور ان کے شوہر دونوں گوشت سے پرہیز کرتے ہیں اور مرغ اور دیگر اشیا لحم ہمارے لیے خصوصاً تیار کی گئی ہیں تو شرمندگی بھی ہوئی اور مہمان نوازی پر رشک بھی آیا۔

رحاب کی بڑی صاحب زادی، یاسمینہ ذہنی قوت، تمیز اور قابلیت کا ایک غیرمعمولی امتزاج ہیں۔ انگریزی، عربی اور فرانسیسی پر دسترس رکھتی ہیں اور ہسپانوی اور اطالوی زبان سیکھنے کی خواہش مند۔ ریاضی اور حیاتیات میں مہارت اور موسیقی کی رسیا۔ پیانو پر شوپین کی طرز سنا کر یاسمینہ نے ہماری شام رنگین کردی۔ رحاب اور ان کے شوہر سے گفتگو کرتے ہوئے ہمیں دو چیزوں کا علم ہوا۔

اول تو یہ کہ لبنان معاشی طور پر ایک مرتبہ پھر مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ ماضی قریب میں اسرائیل کی جارحیت اور حال میں شام کی سنگین صورت حال اور داعش کے عذاب سے لبنان کی سب سے بڑی صنعت، یعنی سیاحت بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ لبنان کے عوام کے دلوں میں لبنان کے لیے جو محبت اور مقام ہے وہ حب الوطنی کے اعلیٰ ترین مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ جتنے لبنانی ملک میں ہیں اس سے چار گنا زیادہ ملک سے باہر ہیں اور انہی بیرون ملک لبنانیوں کی بدولت پورے ملک کی معیشت برقرار ہے۔

کھانے کے بعد رحاب نے ہم کو حمرا، جہاں جامعہ امریکا واقع ہے، کا مختصر دورہ کرایا۔ حسب معمول، میں نے سیاست، ثقافت اور سیاحت کے موضوع پر غیرضروری سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ رحاب نے مسکرا کر کہا کہ ان کی ہمشیرہ وزارت سیاحت میں کام کرتی ہیں، رحاب ان سے ملاقات کا انتظام کردیں گی، اور میں فی الحال اپنے سوال اپنے پاس ہی رکھوں!

اگلے روز شفق رنگ سویرے کے بیدار ہونے سے پہلے میں شہر کے دورے پر نکل گیا۔ بیروت شہر ابھی بیدار نہیں ہوا تھا۔ حمرا کی مخصوص سرخ چھتیں نیم سیاہی میں بے حد حسین لگ رہی تھیں۔ ابھی سڑکوں پر نہ تو گاڑیاں تھیں اور نہ ہی فٹ پاتھ پر بھیک مانگتے شامی پناہ گزین۔

صبح کو میرا لیکچر تھا۔ ہال بھرا ہوا تھا۔ ساڑھے تین گھنٹے کے مسلسل لیکچر کے بعد میں تو بہت تھک گیا تھا مگر سامعین جن میں طلبہ، طالبات اور اساتذہ شامل تھے، نہیں تھکے تھے۔ لیکچر میں طلبہ، طالبات اور اساتذہ سبھی ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، نہ سوال کرنے میں کوئی عار، نہ مہذبانہ اختلاف میں۔ دلائل ہمیشہ حقائق پر مبنی اور گفتگو ہمیشہ تمیز کے دائرے میں۔ اس انداز سے مجھے یقین ہو گیا کہ جامعہ میں توجہ تعلیم پر ہے، سطحی رواداری پر نہیں۔

دوپہر کا کھانا ڈاکٹر ندین کے ساتھ کھایا۔ ڈاکٹر صاحبہ سے گفتگو میں لبنان کی تاریخ اور ثقافت کا ایک اور منفرد پہلو سامنے آیا۔ انہوں نے بتایا کہ لبنانی کسی طور پر قدامت پسند نہیں بل کہ شاید ضرورت سے زیادہ جدت پسند ہیں، سبھی کو اپنے اندر سمیٹ لیتے ہیں۔ اتنے مہمان نواز ہیں کہ جنگیں اور سیاسی بحران بھی یہاں آ کر بس جاتے ہیں، لبنان سبھی کو تو سمیٹ لیتا ہے! ندین کی ذاتی کہانی لبنان کی بہت سے دیگر پیشہ ور مردوخواتین سے مختلف نہیں۔ ابتدائی تعلیم لبنان میں حاصل کی، پھر جب اہل لبنان نے70 اور 80کی دہائی میں خون کی ہولی کھیلی تو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا چلی گئیں مگر جب وطن کو ضرورت پڑی اور حالات قدرے بہتر ہوئے تو لبیک کہا اور تدریس سے منسلک ہوگئیں۔ ندین نے بتایا کہ جامعہ امریکا خانہ جنگی، لوٹ مار اور یہاں تک کہ اکابرین علم و فضل کے قتل کے باوجود بدستور اپنا کام کرتی رہی اور کھلی رہی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لبنانی قوم کے دلوں میں جامعہ امریکا کے لیے خاص مقام ہے۔

شام کو زاہر کے ساتھ کھانے کی غرض سے اندرونِ شہر جو گئے تو موسم قدرے سرد تھا۔ پہلے بارش اور پھر اولوں سے سردی بڑھ رہی تھی۔ شہر کی کچھ پرانی عمارتیں دیکھیں۔ ہلکی ہلکی بارش میں قدیم بیروت کی مساجد بے حد حسین لگ رہی تھیں۔ رات کے کھانے پر کانفرنس پر مدعو دیگر مہمان محققین، جو کہ کوریا، ہنگری اور بیلجیئم سے تھے، سے ملاقات ہوئی۔ تعلیم اور تحقیق بھی کیا عجب شے ہے، ہم میں سے ایک بھی اپنے آبائی وطن میں کام نہیں کر رہا تھا۔ میں امریکا میں، کورین قطر میں، بیلجیئم والے حضرت اسپین میں اور ہنگری والے موصوف سوئزرلینڈ میں!

اگلے روز جمعہ تھا۔ بیروت کی دو اہم مساجد ہیں۔ بارہویں صدی کی تعمیر کردہ العمری مسجد اور اس کے قریب ہی جدید دور کی محمد الامین المعروف حریری مسجد۔ تاریخ سے لگاؤ کی وجہ سے ہم نے العمری مسجد کا رخ کیا۔ بارش آج بہت تیز تھی اور مسجد کے باہر گراں قدر سیکیوریٹی تعینات تھی۔ گو حال ہی میں پاکستان ، عراق، لبنان وغیرہ میں جمعے کی نماز دہشت گردی کا نشانہ بنی تھی، اور ہمارے صاحبزادے جو کو کہ سیاسی بصیرت بھی رکھتے ہیں اور غیرمعمولی فکر مندی بھی، مسجد جانے کے حق میں نہ تھے۔ بہرکیف، اﷲ پر توکل کرکے مسجد گئے اور تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر نماز ادا کی۔

بیروت جہاں تاریخی نوادرات سے مالامال ہے، وہاں خداوند کریم نے اس کے شہریوں کو کتب بینی کے شغف سے بھی نوازا ہے۔ جگہ جگہ کتب خانے موجود ہیں۔ مسجد سے قریب ہی ایک کتب خانے سے کچھ کتابیں خریدیں۔ ہماری اگلی منزل بیروت کا مشہور اور تاریخی میوزیم تھا۔ کتب بینی کے باوجود عربی اور فرانسیسی سے زیادہ فیض حاصل نہ ہوا اور بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی والے کو اپنی منزل پر لے جانے کے لیے رضامند کیا۔

ٹیکسی جو چلی تو اس کی کھڑکی سے پہلی بار قدیم شہر نظروں سے گزرا۔ شاہ راہ کی دونوں طرف داغ دار عمارتیں ہمیں انسانی درندگی کی داستانیں سنا رہی تھیں۔ بندوق کی نال سے نکلنے والے شعلوں کی حدت سے نہ صرف عمارتیں جلیں بل کہ صدیوں پرانے روابط بھی جل کر خاک ہوگئے۔ رحاب نے دوستی اور میزبانی کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے، اور یہ جانتے ہوئے کہ ہم میوزیم دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں، اپنی بہن دانا سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ ہم کو عجائب گھر کا دورہ کرائے۔

ہماری ٹیکسی وقت سے کچھ پہلے میوزیم پہنچ گئی۔ ابھی میں اردگرد کے مکانات کے زخمی ظاہر و باطن کے زخموں پر روشن مستقبل کا مرہم ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکی کی کھلکھلاتی آواز آئی ڈاکٹر زمان؟ میں نے مڑ کر دیکھا تو رحاب سے ملتی جلتی مگر اچھلتی کودتی ہنستی مسکراتی لڑکی کو اپنے سامنے پایا۔ دانا سے رسمی علیک سلیک کے بعد میوزیم میں داخل ہوئے تو اس کے حسن سے دنگ رہ گئے۔ گو میوزیم اور عمارت دونوں حسن کا شاہ کار ہیں مگر اصلی قیمتی شے تو اہل بیروت کا جذبہ حب الوطنی ہے۔ بیروت کے اس میوزیم میں میری ملاقات گھناؤنی تاریخ، خونیں سفر اور بے لوث خدمت سے ایک ساتھ ہوئی۔

تاریخ کے بیش بہا نوادرات زمانہ قدیم سے لبنانی سرزمین کی میراث رہے ہیں۔ چاہے وہ فونیشی ہوں یا پھر مصری، یونانی ہوں یا کہ رومی، سبھی نے لبنان کی تزئین میں اضافہ کیا۔ 1920 کی دہائی میں لبنان کے قومی میوزیم کی داغ بیل ڈالی گئی اور وقت کے ساتھ اس کے حسن میں گراں قدر اضافہ ہوا، مگر جب 70کی دہائی میں اہل بیروت نے خون کے سرخ رنگ کا لبادہ پہنا تو اپنوں کو بہت سے نئے زخم داغ دیے۔ جب ظلم کی بدبو سے معطر آندھیاں چلتی ہیں اور جب لوگ اپنے ہی بچوں کے گلستانوں میں بارودی سرنگوں کے وحشیانہ جھولے لگاتے ہیں تو ملک اور قوم کے اثاثے بچانے کے لیے موریس شہاب جیسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

موریس عجائب گھر کے ناظم اعلی تھے۔ ان کو لبنان اور اہل عالم کے بیش قیمت تاریخی ورثے سے شدید لگاؤ تھا۔ جب خانہ جنگی اپنے عروج پر پہنچی تو وہ ہری لکیر (green line) ، کہ جس کے ایک طرف مشرقی بیروت کی توپیں اور دوسری طرف مغربی بیروت کے ٹینک موت کی نوید دینے کے لیے کوشاں تھے، میوزیم کے عین درمیان سے گزرتی تھی۔

عجائب گھر کے نوادرات کو خون کی اس ہولی سے شدید خطرہ تھا۔ آئے دن گولیوں کی بارش کُل عالم کے اثاثوں کو ہمیشہ کے لیے تباہ کردینے کے لیے قریب سے قریب تر ہوتی چلی جارہی تھی۔ ایسے میں موریس ان کی اہلیہ اولگا اور دیگر دلیرانِ بیروت نے جان پر کھیل کر میوزیم کے قیمتی ترین نوادرات کو کنکریٹ کی دیواروں میں یوں چن دیا کہ وہ گولیوں اور لٹیروں دونوں سے محفوظ ہوگئے۔ جنگ کے عین درمیان، کسی حکومت کی سرپرستی کے بغیر اور محدود وسائل کے ساتھ یہ کام کرنا شدید مشکل اور خطرناک تھا، مگر ان لوگوں کا جذبہ بلند اور ہمت خوںخوار ٹینکوں سے زیادہ مضبوط تھی۔ اس میوزیم میں میرا اور میرے جیسے لاکھوں لوگوں کا تجربہ موریس، اولگا اور بہت سے دیگر دلیروں کی مرہون منت تھا۔ تاریخ سے میرا ایک نیا رشتہ بیروت میوزیم نے جوڑ دیا اور صدیوں پرانے نوادرات نے مجھے اپنے ماضی سے قریب تر کردیا۔ شکریہ موریس، اولگا اور زندہ دلان بیروت!

میوزیم کے نوادرات واقعی قابل تحسین تھے۔ دنیا کے بہت سے میوزیم دیکھے مگر لبنان کا قومی میوزیم جس نفاست سے ہزاروں برس پرانی تہذیب کی کڑیاں حال سے جوڑتا ہے، وہ منفرد انداز کہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔ عجائب گھر سے نکلتے ہوئے میں نے دانا اور میوزیم کے اہل کاروں سے دریافت کیا کہ آیا کوئی صندوق ہے جس میں حسب استطاعت کچھ مالی معاونت کر سکوں؟ میری خواہش کسی تختی پر نام لکھوانا نہ تھی، بل کہ دل کی تسلی تھی کہ اس عظیم میوزیم کی بقا کے لیے کچھ ہم جیسے ادنیٰ سیاح بھی کر سکیں۔ میرا سوال سن کر سبھی حیران ہو گئے۔ دانا نے کہا کہ یہاں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں، ہاں اگر کسی کو ہماری کوئی امداد کرنی ہے تو اپنے دوستوں اور رفقا سے کہ دیجیے کہ لبنان اب بھی زندہ ہے اور ہم سب لوگ تاریخ کے شائقین کی آمد کے لئے بیتاب ہیں۔

سہ پہر ہو چکی تھی، شام کو ہم سب ایک نہیں بلکہ دو جگہ مدعو تھے، مگر دانا کی صلاحیتیں، محبت اور جذبہ دیکھ کر جی چاہتا تھا کہ طویل عرصے تک اس کے ساتھ رہیں اور تاریخ کے ان نایاب ہیروں سے اپنے ذہن کو مزین کرتے رہیں۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ دانا کے ساتھ اندرون شہر کا ایک طائرانہ دورہ لازم ہے! دانا کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ ہر بات ذہن پر نقش ہو جاتی تھی۔ بیروت کے اندرون شہر کی دو باتیں خصوصی طور پر نمایاں تھیں۔

اول تو صدیوں پرانی مساوات اور رواداری جس میں کلیسا اور مسجد، سنی اور شیعہ مسجد، شانہ بشانہ اور دست بدست یوں کھڑی کہ نہ کسی کو کسے پر قابض ہونے کی ضرورت، نہ ہی کوئی دوسرے کو گوشہ ارض سے غائب کرنے کی لگن میں مبتلا۔ دوسری خاصیت بیروت کی تاریخ کی وہ تہیں تھیں جو کہ آج تک مورخین، ماہرین ثقافت اور اہل بیروت کو حیران کر رہی ہیں۔ جب خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد اہل بیروت نے اپنی غفلت سے منہ موڑا اور شہر کو دوبارہ تعمیر کرنے کا سوچا تو ان کی اپنی حیرانی کی انتہا نہ رہی۔

ملبے ، شکستہ اور زمیں بوس عمارتوں کے نیچے صدیوں پرانی ثقافتیں اور ہزاروں برس پرانی عمارتیں دریافت ہوئیں۔ جوں جوں ماہرین شہر کی تہوں کو علیحدہ کرتے گئے توں توں ان کو اپنے ماضی کے وہ ستون نظر آئے جن پر عرصہ دراز سے وہ خود براجمان تھے۔ فونیشیوں، یونانیوں، رومیوں اور مسلمانوں کی تہیں اس طرح ہیں جیسے پیاز، کہ ایک کھولئے تو دوسری سامنے آ جا تی ہے۔ مگر پیاز کی تہوں کے بر عکس یہ تہیں کھوکھلی نہیں بل کہ ان سے ہمارا اور آپ کا ماضی وابستہ ہے!

کہتے ہیں کہ محبت اور شفقت سے وقت میں برکت آ جاتی ہے۔ دانا نے ہمیں گھنٹے بھر میں وہ سب کچھ دکھا ڈالا جو ہم خود شاید مہینے بھر میں بھی نہ دیکھ پاتے۔ دانا کو الوداع کہہ کر واپس ہوٹل کی طر گام زن ہوئے۔ آج شام دو دعوتیں تھیں، پہلے ایک ساتھی محقق ڈاکٹر انورالحسن سے ملنا تھا، اور بعد میں زاہر نے کانفرنس کے دیگر مہمانوں کے ساتھ ایک عشائے پر مدعو کیا ہوا تھا۔ انور صاحب سے میری ملاقات بوسٹن میں ہو چکی تھی اور کچھ عرصہ بوسٹن میں کام کرنے کے بعد سال بھر قبل وہ بیروت کی جامعہ امریکا سے منسلک ہوگئے تھے۔

جہاں تک میرا علم تھا، حضرت بنگلادیش سے تعلق رکھتے تھے، مگر گاڑی میں بیٹھتے ہی جب گفتگو شروع ہوئی تو موصوف کی صاف اور شائستہ اردو نے ہم سب کو حیران کر دیا۔ معلوم ہوا کہ انور کے جد امجد ہندوستان کے صوبے بہار سے تھے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد وہیں مقیم ہو گئے۔ گھر پہنچے تو انور اور ان کی اہلیہ شازیہ نے بہت خلوص سے استقبال کیا، گو کہ کہنے کو یہ شام کی چائے تھی مگر دسترخوان کسی شاہانہ ضیافت کے شایان شان تھا۔ شازیہ اور انور سے بہت سی باتیں ہوئیں 71کے درد دل نے پھر آن گھیرا کہ جب سبھی اپنے یکایک اجنبی ہو گئے۔ جانے اپنوں کے لگائے زخم کتنی برساتوں کے بعد دُھلیں گے؟

خلوص، محبت اور پر تکلف میزبانی کی اس شام کو انور کا فلیٹ، جہاں سے بحیرۂ روم کا پانی صاف نظر آ رہا تھا اور حسین بنا رہا تھا۔ جی چاہتا تھا کے گھنٹوں بیٹھیں اور لہروں کے ساتھ دل لگی کریں مگر ہم کو اگلی دعوت کے لئے اک ریستوران میں جانا تھا۔

زاہر نے ریستوران کے دسترخوان پر بحیرہ روم کی ساری سوغات اکٹھی کردی تھی اور پر تکلف ضیافت کے بھی ریکارڈ پاش پاش کردیے تھے۔ روایتی لبنانی میزہ اور پھر ہر سائز کی مچھلی، کچھ تندوری اور کچھ تلی ہوئی، خوب کھایا، اور پھر مزید اور، اور پھر کچھ اور! سانس لینے کی جگہ بھی بہ مشکل بچی! اس دعوت میں ہماری ملاقات زاہر کی اہلیہ ثنا سے بھی ہوئی جو مقامی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کی پروفیسر ہیں۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ زاہر گھر میں ہر کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں میں ان کی بھرپور طور پر معاونت کرتے ہیں۔

اگلے روز کانفرنس کا آخری دن تھا، اور میرا کلیدی لیکچر کانفرنس کی اختتامی تقریب کا حصہ تھا۔ لیکچر سننے کے لیے لبنان بھر سے اساتذہ، محققین، طلبہ اور طالبات آ رہے تھے۔ بحیرہ روم کا کنارہ، بیروت کی تازہ صبح، جی چاہا کہ کسی شاعر یا مصور کی صحبت میں وقت گزاروں مگر مجبوری تھی، اپنی چھوٹی موٹی تحقیق پر بات کر کے اکتفا کیا۔ میرا لیکچر توقعات سے بڑھ کر پسند کیا گیا۔ بعد میں ساتھی محققین، طلبہ اور طالبات کا تانتا بندھ گیا اور بڑی دیر تک ان سے گفتگو ہوتی رہی۔

دوپہر کو زاہر نے مہمانان کانفرنس کے لیے گاڑی کا بندوبست کر رکھا تھا کہ ہم لبنان کے تاریخی شہر بیبلوس کی سیاحت کریں گے۔ بیبلوس کا عربی نام جبیل ہے، اور بیروت سے تقریباً ایک گھٹے کی مسافت پر ہے۔ جبیل لبنان کا قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور تاریخ کی ان شاہراہوں میں سے ہے جہاں سے ہر تہذیب نے گزرنا اپنے لیے قابل فخر جانا۔ یہاں کے آثار قدیمہ تقریباً سات ہزار سال پرانے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ موجودہ حروف تہجی کی ابتدا بھی جبیل ہی سے ہوئی۔ انجیل کے وہ اولین نسخے جو بائبل کہلائے، اسی شہر کی نسبت کہلائے۔ کہا جاتا ہے کہ چوںکہ بیبلوس ایک اہم تجارتی مرکز تھا اور یہاں پر کسی زمانے میں کاغذ کی تجارت عروج پر تھی، اسی لیے یونانیوں نے اس شہر کا نام بیبلوس رکھا، جس کے معنی کتاب کے ہیں۔ اسی سے لفظ بائبل ماخوذ ہے۔



جبیل کی آبادی زمانہ قدیم سے اب تک مسلسل برقرار ہے، کبھی فونیشی تو کبھی یونانی، کبھی مصری تو کبھی رومی رہا کرتے تھے۔ اب یہاں اکثریت مارونائٹ عیسائیوں کی ہے۔ سمندر کے پہلو میں واقع یہاں کے آثار قدیمہ حقیقتاً تاریخ کا عظیم شاہ کار ہیں۔ ایک مخصوص دائرہ نما انداز، جس کے مرکز میں قدیم ترین تہذیب، دائرے کے اگلے حصار میں اس کے بعد آنے والی قوم، اور پھر اگلا حصار اور اگلی تہذیب۔ برابر میں بارہویں صدی کا قلعہ بھی ہے۔

جس کی چھت سے شہر بھر کا حسین منظر کچھ لوگ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر رہے تھے، اور کچھ مجھ جیسے دل کی آنکھ میں۔ کسی زمانے میں یہ قلعہ مکینوں کو دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھتا تھا، مگر اب تاریخ کی پناہ گاہ ہے۔ قلعے کے برابر رومی تھیٹر جوں کا توں موجود ہے اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا کلیسا سیکڑوں برس سے روحانیت کے متلاشیوں کے لیے اپنے دروازے کھولے ہوئے ہے۔ نہ کوئی تصویر اور نہ کوئی مجسمہ، بس دو موم بتیاں اور دو بینچ صدیوں سے اس کلیسا کا سامان ہیں۔

قلعے سے باہر نکل کر ہم پرانے شہر کی طرف آ گئے جہاں سیاحوں کا ہجوم تھا۔ ایک جگہ کافی پینے کے لیے رکے تو وہاں کام کرنے والے اپنے ہی پنجابی بھائی نکلے۔ رسمی علیک سلیک ہوئی، لبنان آنے کی وجہ پوچھی تو ہم وطن دوست نے بتایا کے روزگار کی تلاش میں وہ اور ان کے دو دوست سال بھر پہلے بلاد شام گئے مگر جب وہاں حالات اچانک بگڑ گئے تو اچانک سب کچھ چھوڑ کر نکلنا پڑا، اور غیرقانونی طریقے سے پیدل لبنان آگئے، اب ان کے پاس نہ ہی کاغذات ہیں اور نہ ہی پاسپورٹ اور جانے کب وطن جانا نصیب ہو گا۔ جبیل جیسی حسین جگہ ہی کیوں نہ ہو، گھر کے بیاباں کی یاد بہت ظالم ہوتی ہے!

جبیل سے واپسی پر عصر کا وقت ہوچلا تھا۔ راستے میں زاہر نے سوچا کہ ہمیں قریبی پہاڑ پر واقع میرونائٹ کلیسا بھی دکھایا جائے۔ میرونائٹ عیسائوں کے قدیم ترین گروہوں میں سے ایک ہے اور یہ لوگ ابھی تک اپنی عبادتیں ایرامیک (aramaic) اور سیریک (syriac) جیسی قدیم زبانوں میں ادا کرتے ہیں۔ چیئرلفٹ کے ذریعے ہم کلیسا کے پہاڑ پر پہنچے جہاں ایک کلیسا اور ایک بلند وبالا مینار تھا۔ میں مینار پر چڑھ گیا اور یہاں سے بیروت کو دیکھنے لگا۔

یہاں پر سبھی کچھ تو موجود تھا، قدرت کی رنگینی، پہاڑ اور سمندر، دنیوی رونق اور روحانی آسائش، پھر اس وطن کے باسی خون کے پیاسے کیوںکر ٹھیرے؟ سورج غروب ہونے کو تھا، اور مجھے اس کی آخری کرنوں میں لاکھوں بے گناہوں کا شفق رنگ لہو نظر آنے لگا۔ آج، اس مینار پر، لبنان کی سرزمین نے مجھ سے اپنا دکھڑا بیان کیا،''کیا کچھ نہیں ہے میرے پاس؟ نفرت کسی سرزمین میں نہیں، ہمارے اپنے وجود میں ہوتی ہے۔'' اپنے وطن کی حالت دیکھ کر میں انکار نہ کر سکا۔

بھوک سے بد حال جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو زاہر نے اعلان کیا کہ قریبی واقع ایک ریستوراں میں ہمارا انتظام ہے۔ ریستوراں کا نام بابل تھا، اور یہ جگہ اپنے حجم سے بابل کے باغات کے زمانے کی ہی ایک شاہانہ عمارت معلوم ہو رہی تھی۔ زاہر نے بتایا کہ کل مچھلی کی باری تھی، اور آج باری گوشت کی ہے۔ گو ہم آج تجربہ کار تھے مگر جب کھانا آیا تو ہم سے پھر رہا نہ گیا۔ گرما گرم لبنانی روٹیاں، طرح طرح کے کباب، مگر سب سے منفرد چیز کچے قیمے اور منفرد مصالحوں کی سوغات، جسے ''کبہ نیہئہ'' کہتے ہیں، اس قدر لذیذ تھی کہ ہم جیسے بد ذوق، اور ڈر پوک بھی ہاتھ نہ روک سکے۔



رات کو زاہر نے ہمیں ہمارے ہوٹل پر چھوڑا اور الوداع کہا۔ مجھے ذاتی طور پر الوداعی ملاقاتیں سخت ناپسند ہیں۔ ایک خلش چھوڑ جاتی ہیں کہ جانے کب اس فرشتہ سیرت کی سیرت سے مستفید ہونے کا موقع ملے؟ بہرحال یہ تو سفر کا نا گزیر حصہ ہوتی ہیں۔ ہم لوگ خدا حافظ کہ کر اپنے کمرے میں چلے آئے۔

میں اگلے روز فجر سے قبل بیدار ہوا اور حسب معمول، کیفے سے کافی خریدتا ہوا ساحل پر آنکلا۔ آج میں سمندر کے بالکل برابر چلنے کا خواہش مند تھا۔ ابھی سورج کی پہلی کرن بھی بیدار نہیں ہوئی تھی، مگر سمندر بیدار تھا،سیر کرتے کرتے میں جانے کہاں نکل گیا، مگر لمحے بھر کے لیے بھی یہ احساس نہ ہوا کہ میں کہیں کھو جاؤں گا، بل کہ یوں لگا کہ سبھی راستے تو اپنے جانے پہچانے ہیں۔ پھر بھی واپسی کا سفر مشکل تھا، مگر سفر کا اختتام میرے جذبات کے تابع نہ تھا۔

ٹیکسی اس ایئرپورٹ کی طرف دوڑ رہی تھی، جو جانے کتنی بار تباہ اور کتنی بار پھر تعمیر ہوا۔ ایئرپورٹ کی لمبی لائنوں اور امیگریشن کے تھکا دینے والے تجربے کے بعد ہم اب جہاز میں بیٹھ چکے تھے۔ میں نے تھکن سے آنکھیں بند کرلیں، ایک لمحے کے لیے زاہر، رحاب، دانا، انور، اور اپنے میزبانوں کی لگن، محبت، اور جذبہ آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا۔ میں نے آنکھ کھولی اور کھڑکی سے باہر دیکھا۔ رات کی تاریکی جاچکی تھی، لبنان کی ایک نئی صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں