ڈیپارٹمنٹ کرکٹ متعارف کروا کے ڈومیسٹک کرکٹ تباہ کر دی گئی ماجد خان
ایک بندے نے کلب کھڑی کردی۔نہ پیسہ ہے۔نہ گراؤنڈ ہے،بس اس نے کلب پراپنا تسلط قائم کرلیا ہے
پستی کا حد سے گزرنا کسی نے دیکھنا ہوتوپاکستان کرکٹ پر نظر ڈال لے۔اس کھیل کے معاملات جن لوگوں کے ہاتھ میں ہیں،انھیں ادراک ہی نہیں کہ بگاڑ کوسنوارنا کیسے ہے ۔ بنگلہ دیش سے پاکستان ٹیم کے ہارنے کی وجوہات کا جائزہ لینے چیئرمین پی سی بی شہریار خان وہاں بنفس نفیس پہنچے۔اس بھلے مانس آدمی کا کوئی دانا مشیر ہوتا، تو عرض کرتاکہ حضور! ناکامی کی وجوہات توان معاملات میں مستور ہیں، جوآپ کی ناک کے نیچے چل رہے ہیں۔
ماضی میں پاکستان کو ورلڈ کلاس کھلاڑی میسرآتے رہے(جس میں بقول عمران خان، سسٹم کا عمل دخل نہیں تھا)،اس لیے ٹیم کسی نہ کسی طورقائم رہی اورکئی اہم فتوحات اس کے حصے میں آئیں۔ مگر اب ایسی صورتحال نہیں،اس لیے نمائشی اقدامات سے بات بنے گی نہیں،اورپورے سسٹم کوبدلنا ہوگا، اور یہ کام بورڈ کے ساتھ برسوں سے چمٹے افراد کے ساتھ ممکن نہیں بلکہ اسی صورت میں ہوگا جب وژنری اور زرخیر ذہن رکھنے والے امورِکرکٹ کو دیکھیں، بصورت دیگربنگلہ دیش ٹیم بھی آگے لگاتی رہے گی۔
سیدھی سی بات ہے کہ قومی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کی مضبوطی سے مشروط ہے،جوکہ جتنا اوپرجائے گا،اس حساب سے قومی ٹیم کی کامیابیوں کا گراف بلند ہو گااور نظام کے نشیب میں جانے سے بین الاقوامی کرکٹ میں ہماری سبکی ہوگی۔پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ افراد کوجیسے یہ نہیں معلوم کہ نظام کوصحیح خطوط پرکیسے استوارکرنا ہے، بالکل اسی طرح کرکٹ کورپورٹ اور تجزیہ کرنے والے حضرات کی اکثریت بھی اس طریقہ کارسے نابلد ہے،جس سے نظام ٹھیک ہوسکے ، اس لیے بات شخصیات پر لعن طعن سے آگے نہیں بڑھتی۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ مصلحتوں کو تیاگ کر ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات جلد از جلد اہل لوگوں کے ہاتھ میں دیں، وگرنہ ہمارا کرکٹ میں حشرہاکی سے بھی برا ہوگا۔
کسی بھی مسئلے کا ٹھوس اورکارگرحل پیش کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے مطالعہ،گہری سوچ بچاراورپھروہ سسٹم جس میں آپ تبدیلی لانا چاہتے ہیں،اس کے ماضی وحال سے واقفیت ضروری ہے، اور اب اتنا کشٹ کون اٹھائے۔تنقید کے لیے توبس زبان ہلانی پڑتی ہے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹروں کی اکثریت کی تنقید پرسے لوگوں کا اعتبار اس واسطے بھی اٹھ گیا ہے کہ وہ بسلسلہ روزگارہوتی ہے، اوربورڈ کا تنخواہ داربنتے ہی ناخوب ، خوب میں ،بدل جاتاہے اورانقلابی گرج چمک ختم۔ سابق ٹیسٹ کرکٹروں کی بھیڑ میں ماجد خان اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ میڈیا سے دوررہنے میں عافیت جانتے ہیں، اوراگرکبھی اپنی رائے ظاہربھی کریں، تواس کے پیچھے ان کا مطالعہ اوردنیا بھرمیں کرکٹ، کھیل کر، اوردیکھ کر،حاصل ہونے والا تجربہ جھلکتا ہے۔
نامور اینکر طلعت حسین نے اپنی ایک تحریر میں ان کے بارے میں بجا طورسے لکھا ''ماجد خان کی قدر و منزلت کی وجہ ان کی ذہانت اوروہ طرح داری ہے جوہرکسی میں نہیں ہوتی۔۔مشہورہونے کے بعد کھلاڑی اور شوبز کے نمائندگان خود کوہمیشہ اہم ثابت کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلتے ہیں وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں۔۔ماجد خان جیسے لوگ بہت کم ہیں جن کو خودداری اوروضع داری کی اہمیت کا احساس ہر وقت ہوتاہے،جبھی تو وہ خود کودرخت پر آویزاں حکیم کی دوائی کے اس اشتہار میں تبدیل نہیں کرتاجوگلا پھاڑپھاڑ کرہرکسی کواپنی افادیت کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔''
ماجد خان پاکستان کرکٹ کی خرابیوں پرکڑھتے ہی نہیں بلکہ معاملات میں بہتری کے لیے حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ ان کا تجویزکردہ نسخہ اس لیے اہم ہے کہ دنیا بھرکے کرکٹ نظاموں پران کی گہری نظرہے۔
وسیع المطالعہ آدمی ہیں، زندگی بھرپڑھنے سے عشق رہا،جس نے گفتگو میں ٹھہرائو، بصیرت اور گہرائی پیدا کر دی۔ ماجد خان کومیڈیا سے گلہ ہے کہ وہ چٹ پٹی خبروں کے پیچھے لگارہتا ہے اوراصل حقائق کا کھوج لگانے کا تردد کم ہی کرتا ہے۔ ماجد خان مایہ نازکرکٹرہیں ۔بین الاقوامی سطح پر ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے۔
اس کے بارے میں جاننے کے لیے ہماری دانست میں ماجد خان سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی دوسری موجود نہیں، اس لیے، ان کے خیالات جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ان سے بات چیت میں ڈومیسٹک کرکٹ کے بارے میں ان کے تصورکی وضاحت ہوئی۔ اس نظام میں خرابی کی وجوہات کا پتا چلا۔ماجد خان کی گفتگوکا مرکزگوکہ ڈومیسٹک کرکٹ تھی لیکن ایک اسکالر جب کسی خاص موضوع پربات کرتا ہے تووہ اس تک محدود نہیں رہتا اوراس کے پہلو بہ پہلوکئی دوسرے امورپربھی اپنی رائے کا اظہارکرتا ہے، ایسا ہی کچھ اس گفتگوکے سلسلے میں ہوا۔
فرسٹ کلاس کرکٹ کی خرابیوں کو دور کیسے کیاجاسکتا ہے؟
اس سوال کامفصل جواب، ماجد خان کے لفظوں میں کچھ یوں ہے '' میرے ذہن میں ڈومیسٹک کرکٹ کا جو ڈھانچہ ہے، اس میں گیارہ فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیمیں ہوں گی۔ہرٹیم اکتوبرسے مارچ تک کے سیزن میں دس چارروزہ میچ کھیلے گی ۔ ڈویژنل ٹیم چارڈسٹرکٹس سے منتخب کردہ کھلاڑیوں پرمشتمل ہو گی۔ فی میچ کھلاڑی کامعاوضہ چالیس ہزارہوگا ،جواگربورڈ کے پاس پیسے زیادہ ہوں توبڑھایابھی جاسکتا ہے۔
دس میچوں سے کھلاڑی چارلاکھ کی معقول رقم کماسکے گا۔ اکتوبرسے مارچ کے دوران لیگ ٹورنامنٹ ہوگا،جس میں ہروہ چارڈسٹرکٹس ،جن سے مل کرایک ڈویژنل ٹیم بنے گی، آپس میں چوبیس میچ کھیلیں۔ بارہ اپنے ڈسٹرکٹ میں ۔بارہ باہرجاکر۔یہ میچ تین دن کے ہوں گے۔ ابتدائی طورپرمعاوضہ پانچ ہزارہو،اگربورڈ کے پاس پیسہ زیادہ ہے اوراسپانسرز ہیں تومعاوضہ بڑھایا جا سکتا ہے۔
ہرڈسٹرکٹ کا الگ سے کوچ اوردوامپائرہوں گے۔ہرڈویژن کی ٹیم، تین سلیکٹر ڈسٹرکٹ میچزدیکھ کرمنتخب کریں گے۔ڈویژن کی ٹیم نے چھ ماہ میں دس میچ کھیلنے ہوں گے،دوڈھائی ہفتے کے بعد میچ آئے گا،بیچ میں جووقفہ آئے گا،اس دوران کھلاڑی ڈسٹرکٹ کی طرف سے بھی کھیل سکتے ہیں۔ہرڈویژن کا چیف ایگزیکٹو فرسٹ کلاس کرکٹریاانٹرنیشنل کرکٹرہوگا،جولکھنا پڑھنا جانتا ہو تاکہ میچ منعقد کرانے کے لیے خط و کتابت کرسکے۔
میرے تجویزکردہ نظام میں گیارہ نان فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیمیں بھی ہوں گی۔ہرکوئی تین دن کے دس میچ کھیلے گی۔انٹرڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ الگ سے ہوگا جس میں ہرٹیم چوبیس میچ کھیلے گی،جن کا دورانیہ دو دن کا ہوگا۔فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیموں میں سے آخری پوزیشن پرآنے والی ٹیم،نان فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیموں میںچلی جائے گی اورنان فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیموں میں پہلے نمبرپرآنے والی ٹیم ،فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیموں میں شامل ہوجائے گی ۔
سب کھلاڑیوں کومعقول معاوضہ ملے گا۔ امپائرز، کوچز، سلیکٹر،اسکورر،گرائونڈزمین سب تنخواہ دارہوں گے،ان کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹرہونا شرط ہوگی۔فرسٹ کلاس کرکٹ کے تجربے کا معیاررکھنا ہوگا، یہ نہیں کہ جس نے ایک میچ کھیل لیا وہ امپائریا کوچ بن جائے،بلکہ اس کوفرسٹ کلاس کرکٹ کا خاطرخواہ تجربہ ہونا چاہیے۔گرائونڈز مین اور اسکورر اس معیار سے مستثنیٰ ہوں گے ۔
انھوں نے اگرایک بھی میچ کھیلا ہوتوانھیں ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہی گیند استعمال ہوگا جوٹیسٹ میں ہوتا ہے،تاکہ بیٹسمین گیندکوکنٹرول کرنا سیکھیں اورجب بین الاقوامی کرکٹ میں آئیں توان کونئی قسم کے گیند سے ایڈجسٹمنٹ میں دشواری نہ ہو۔ڈسٹرکٹ کے کھلاڑیوں کے لیے ون اسٹارہوٹل کا انتظام کرلیں ، ڈویژن کی ٹیم تھری اسٹارمیں ٹھہرجائے۔خرچہ فرض کریں چارکروڑ ہوتا ہے۔دوکروڑ بورڈ دے، باقی دوکروڑ اسپانسرز سے اکٹھا کر لیں۔
ڈویژن کی باڈی کا صدراسپانسرزکاtreasureبن جائے۔چیف ایگزیکٹوبورڈ کا ممبربن جائے۔ایک ڈویژن کے خرچہ کا تخمینہ لگالیں باقی دس کا بھی اندازہ ہوجائے گا۔نان فرسٹ کلاس گیارہ ٹیموں کا خرچہ اس سے آدھا کردیں۔گیارہ ڈویژنل ٹیموں کی ایگزیکٹوباڈی بنے ،اسے ووٹنگ کا حق ہو۔یہ سال میں چاربار میٹینگ کریں ۔نان فرسٹ کلاس گیارہ ڈویژنل ٹیموں کی جنرل باڈی بنے اوریہ سال میں ا یک بارملیں ۔جوٹیم نیچے سے اوپرآئے گی اسے ووٹنگ کا حق ملے گا جواوپرسے نیچے جائے گی۔
اس کا حق چھن جائے گا۔اس نظام میں پول آف پلیئربڑھ جائے گا۔مثلاً،چارڈسٹرکٹ ہیں توآٹھ اوپنرہوں گے۔سولہ مڈل آرڈربیٹسمین۔بارہ تیزبولر۔چاراسپنرز۔وکٹ کیپر۔ان سب کی کوشش ہوگی کہ بہترپرفارم کرکے ڈویژن کی طرف سے کھیلیں۔چارڈسٹرکٹس کے چوالیس پلیئر۔آٹھ امپائر۔ چار کوچز۔ چاراسکورر۔ہرڈویژن کے تین سلیکٹر۔اب ڈویژنل ٹیموں اورڈسٹرکٹ ٹیموں سے وابستہ کھلاڑیوں اور دیگرآفیشل کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی،جس سے روزگارپیدا ہوگا،اوران میں سے آپ کو کھلاڑی ہی نہیں، اچھے امپائر ، ایڈمنسٹریٹرز،کوچز، اسکورر،گرائونڈزمین بھی ملیں گے۔
ڈویژنل ٹیموں کے درمیان میچ فرسٹ کلاس گرائونڈزپرہوں، میچوں میں دوہفتے کا وقفہ ہوگا، پچزکی تیاری میں وقت ملے گا توان کا معیار بہتر ہو گا، پچز بہتر ہونے سے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں نکھارآئے گا۔ڈسٹرکٹ کی سطح پرکرکٹ میں چوبیس میچ ہونے سے سفارشی کھلاڑیوں کے فرسٹ کلاس کرکٹ میں آنے کا رستہ بند ہوگا۔ڈسٹرکٹ کے آفیشل ہرمیچ میں ایک دوسفارشی کھلائیں گے لیکن وہ دوچارسے زیادہ میچ تواسے کھلا نہیں سکیں گے، سفارشی کی جگہ وہ اگلے میچوں میں کسی دوسرے سفارشی کوموقع بھی دیں گے توآٹھ نومیرٹ والے کھلاڑی کھیلتے رہیں گے۔چوبیس میچوں میں آخرکب تک سفارشی خود کوچھپاسکے گا۔ڈسٹرکٹ کی ٹیم ڈسٹرکٹ والے خود بنائیں گے۔
ڈویژنل ٹیم تین سلیکٹر منتخب کریں گے، ڈسٹرکٹ ٹیموں کے میچ دیکھنے کے بعد۔ڈویژنل ٹیم میں ناقص کارکردگی دکھانے پرکھلاڑی ڈسٹرکٹ ٹیم میں واپس آجائے گا اور اگر یہاں بھی وہ کچھ نہیں کرتا توباہرہوجائے گا۔فرسٹ کلاس کرکٹ کے معیارکوبہتربنائے بغیراچھی ٹیم نہیں بن سکتی۔ہمارے ہاں فرسٹ کلاس کرکٹ اورانٹرنیشنل کرکٹ میں بہت فر ق ہے۔ آسٹریلیا میں یہ فرق کم ہے، اس لیے وہاں کھلاڑی ذہنی اعتبار سے مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ انھوں نے مسابقتی ماحول میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی ہوتی ہے۔
اس طرح یونیورسٹی کرکٹ کے احیاء کی ضرورت ہے۔ جتنی یونیورسٹیاں ہیں، ان کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیں۔ علاقائی اعتبار سے ان کواکٹھا کر دیں۔ گیارہ ٹیمیں ایک گروپ میں،گیارہ دوسرے گروپ میں۔ہرٹیم میں چارپانچ یونیورسٹیوں کے لڑکے ہوں۔ اکتوبرسے مارچ تک وہ تین دن کے دس میچ کھیلیں۔ جمعہ۔ ہفتہ۔ اتوار۔ ٹاپ دوٹیمیں فائنل کھیلیں گی۔ یونیورسٹی لیول پر لڑکے پرفارم کریں گے تو فرسٹ کلاس کرکٹ میں جگہ ملے گی اوروہاں بھی پڑھے لکھے لوگوں کا ایک پول بن جائے گا۔ یونیورسٹی کرکٹ سے لیڈرشپ جنم لے گی۔اب مصباح الحق پڑھا لکھا ہے،تواس میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں، اوراس نے ٹیم کوسنبھال رکھا ہے۔
قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا انتخاب ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پرہو۔سلیکٹرزمیچ دیکھ کرٹیم سلیکٹ کریں اورصرف اعدادوشمار پر بھروسہ نہ کریں۔قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لینا لازمی ہونا چاہیے،اس سے معیارمیں بہتری آئے گی،اوراسٹارز کے ساتھ کھیل کرنئے لڑکے بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔
نظام میں بگاڑ کا ذمہ دار کون؟
جب یہ جان لیا کہ آخر وہ کون سا پروگرام ہے، جس کے ذریعے سے معاملاتِ کرکٹ بہتری کی جانب رواں دواں ہوسکتے ہیں توپھر ہم نے جاننا چاہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کی بربادی کا اصل ذمہ دارکون ہے؟اس پرماجد خان بولے '' ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام میں باربارکی تبدیلی سے خرابی پیدا ہوئی۔کوئی بھی نظام ہو،اس کی کامیابی کے لیے تسلسل ضروری ہوتا ہے۔
انگلینڈ میں 125برس قبل انٹرکائونٹی چیمپئن شپ شروع ہوئی، اس کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی وہی ہے۔آسٹریلیا میں سوبرس سے زائد عرصہ سے انٹراسٹیٹ کرکٹ چل رہی ہے۔اس طرح جنوبی افریقہ ،ویسٹ انڈیزاورنیوزی لینڈ میں بھی ڈومیسٹک کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے میں سالہا سال سے تبدیلی نہیں آئی۔ ہندوستان میں رانجی ٹرافی 1934ء سے جاری ہے۔
پاکستان میں1952-53ء میںسب سے پہلے قائداعظم ٹرافی صوبائی بنیادوں پرشروع ہوئی ۔اس میں ناک آئوٹ سسٹم تھا۔ساٹھ میں اسے ڈویژنل بنیادوں پرشروع کردیا گیا،کیونکہ سرحد اوربلوچستان کے پاس ایسے وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ پنجاب اورسندھ کی ٹیموں کا مقابلہ کر سکیں اوران دونوں صوبوں میں بھی زیادہ ترکھلاڑی کراچی اورلاہورسے ہوتے۔1960ء کی دہائی میں قائداعظم ٹرافی کے ساتھ ایوب ٹرافی شروع کی گئی،جوبعد میں پیٹرن ٹرافی کہلائی،اس میں بھی ڈویژنل ٹیمیں ناک آئوٹ کی بنیاد پرشریک ہوتیں ،جس میں وہ ٹیمیں جوقائد اعظم ٹرافی کھیلتی تھیں، وہ ،اورساتھ میں کچھ مزید ٹیمیں شریک ہوتیں۔ ستر میں عبدالحفیظ کاردار ڈیپارٹمنٹ کرکٹ لے آیااوردوبارہ سے صوبائی بنیادوں پرسسٹم چلا گیا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ نے ڈومیسٹک کرکٹ تباہ کردی۔
ڈیپارٹمنٹس کی بنیاد ہی نہیں تھی۔اچھے کھلاڑی ایسوسی ایشن والے نکالتے اورلے جاتے ڈیپارٹمنٹ والے، اور پھر ان کی وجہ سے ٹرافیاں جیت جاتے۔ مطلب یہ کہ لڑکے نکال رہے ہیں، ایسوسی ایشن والے اوران سے فائدہ کوئی اور اٹھارہا ہے۔ ایسوسی ایشن صرف پلیئرپیدا کرنے کےلیے رہ گئی۔حالانکہ نہ ان کے پاس پیسہ ہے اورنہ ہی سوچ لیکن پھربھی وہ اچھے نتائج دیتے رہے ہیں۔
ڈومیسٹک کرکٹ کی خرابی کی بات ہو توایسوسی ایشنوں کوسب گالیاں دیتے ہیں،ڈیپارٹمنٹس کی کوئی بات نہیں کرتا،جنھوں نے کبھی کوئی پلیئرپیدا نہیں کیا۔ کارداراگرعقل مندی کا مظاہرہ کرتا تو ڈیپارٹمنٹس سے اسپانسرز کراتا کیونکہ ادارے حکومتی قبضے میں تھے اور وہ حکومت کا حصہ تھا۔ کئی بارسسٹم آپ نے بنایا اوراسے توڑا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ سے مقابلے کی فضا بن نہیں سکتی،لوگوں کو ڈیپارٹمنٹس کے درمیان میچ میں کیا دلچسپی ہوگی، دوشہروں کی ٹیموں کے درمیان میچ تولوگ شوق سے دیکھیں گے۔ اس طرح ڈویژنل ٹیموں کے درمیان میچ میں بھی لوگوں کی دلچسپی ہوگی۔
اس خرابے میں کاردارکا کردار
ماجد خان کا خیال ہے کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی حیثیت میں عبدالحفیظ کاردارنے کرکٹ کوبہت نقصان پہنچایا۔وہ سمجھتے ہیں کہ قومی کرکٹ اور ڈومیسٹک کرکٹ دونوں ہی کو انھوں نے کمزورکیا۔ان کے بقول'' عبدالحفیظ کاردارنے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر پاکستان کرکٹ کوخراب کیا ۔فرسٹ کلاس کرکٹ کا بیڑاغرق کیا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کومتعارف کرایا،جس نے ڈومیسٹک کرکٹ کوتباہ کردیا۔چیئرمین بورڈ ہوکرانھوں نے خود ہی ڈومسیٹک کرکٹ کے نظام کوعزت نہیں دی۔اس کی میں مثال دیتا ہوں۔
پاکستان کی سیریزہوتی تو کھلاڑی کائونٹی کرکٹ چھوڑ کر کھیلنے آتے اورواپس لوٹ جاتے۔کاردارنے کبھی ان پرڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے پرزورنہیں دیا۔وہ اگران سے کہتا کہ تم کائونٹی کرکٹ ضرورکھیلو لیکن ساتھ میںڈومیسٹک کرکٹ میںبھی حصہ لواوراگرایسا نہیں کرو گے توقومی ٹیم میں نہیں کھیلو گے۔اس پرکھلاڑی ضرورڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے کیونکہ کائونٹی میں وہ جوکچھ بھی کریں، اصل اہمیت توپاکستان کی طرف سے کھیلنے کی تھی، اسی کی وجہ سے وہ دنیا بھرمیں جانے جاتے۔
کھلاڑیوں کے ذہن میں یہ بات کہ وہ ناگزیرہیں،خود کاردارنے بٹھائی۔ کاردارچاہتا ہی نہیں تھا کہ پاکستان ٹیم سیٹل ڈائون ہو۔اس لیے وہ باربارکپتان بدلتا۔اپنے دورمیں چھ سات باراس نے کپتان بدلا۔سترکی دہائی میں ہماری ٹیم اتنی مضبوط تھی کہ ہم باہرجاکربھی ٹیموں کوہراسکتے تھے لیکن اسے ڈرتھا کہ اس سے اس کا نام پاکستان کرکٹ میں بہت پیچھے چلا جائے گا اوراس کا جو اسکیپرکا امیج بنا ہے وہ ختم ہوجائے گا،زیادہ بہترہوتا کہ وہ ایڈمنسٹریٹر کے طورپراچھا کام کرتا تولوگ کہتے کہ کپتان بھی بہت اچھا تھا اور ایڈمنسٹریٹر بھی،اس طرح عزت میں زیادہ اضافہ ہوتا۔
کلب کرکٹ کا بنیادی تصورہی غلط ہے
ماجد خان کا کہنا ہے کہ انگریزنے برصغیرمیں جواچھے کام کئے،ان کوہم نے آگے چلایانہیں لیکن یہاں رہ کرجوخرابیاں وہ پیداکرگیا،انھیں ہم نے جوں کا توں رہنے دیا۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں انگریزدورمیں کلب کرکٹ کوغلط بنیاد پراستوارکیا گیا،جس میں انگریز کا اپنا مفاد تھا لیکن اس کے چلے جانے کے بعد اس کا متعارف کرایا گیا نظام چلتا رہا،جس کی خرابیوں کی طرف ماجد خان یوں توجہ دلاتے ہیں'' انگریزنے لاہورجم خانہ کلب بنایا۔کیا یہ لاہورکی نمائندگی کرتا ہے؟یہ اس نے سول اورفوجی افسرشاہی کے لیے بنایا۔اس طرح اس نے پنجاب کلب بنایا،کاروباری کمیونٹی کے لیے، جوکہ باقی سارے پنجاب کی نمائندگی نہیں کرتا۔
اس طرز پر کراچی میں جم خانہ کلب اورسندھ کلب بنے۔ یہ کلب اشرافیہ کے لیے قائم ہوئے۔اسپورٹس میں کلب کا تصورمحلے یا بستی سے وابستہ ہوتا ہے۔انگریزوں کے ہاں کرکٹ ، فٹ بال اورہاکی کے جتنے بھی کلب ہیں وہ محلے یا بستی پربنیاد رکھتے ہیں اوران کے نام سے علاقائی نسبت ظاہر ہوتی ہے۔ہمارے ہاں اس نے ایسا اس لیے نہیں ہونا دیاکہ کہیں عوام میںcohesionنہ ہوجائے کیونکہ اسپورٹس لوگوں کوجوڑتی بھی ہے،محلے کی بنیاد پرکلب ہوتے توہرطرح کا بندہ اس کا ممبربن سکتا تھا،جم خانہ کا ممبرتوگنے چنے بندے ہی بن سکتے ہیں۔
اس لیے انگریزدورسے ہمارے ہاں کلب کا جونظام چل رہا ہے وہ بغیرمنصوبہ بندی کے اورشہرمیں موجودہ علاقوں کی بنیاد پرنہیں ہے۔ایک بندے نے کلب کھڑی کردی۔نہ پیسہ ہے۔نہ گراؤنڈ ہے،بس اس نے کلب پراپنا تسلط قائم کرلیا ہے اب ساری عمروہ کلب کا کرتا دھرتا بنا رہے گا، اس کا نہ وژن ہے اورنہ کرکٹ کی سوجھ بوجھ اسے ہے۔وہ کلب ٹورنامنٹ کھیلے گا،اورایسوسی ایشن کوووٹ دے گا۔ان کلبوں کے میچوں میں لوگوں کی دلچسپی ہونہیں سکتی کیونکہ یہ کسی خاص علاقے کی نمائندگی نہیں کرتے۔کلب پریکٹس سیمنٹ وکٹوں پرکرتے ہیں،میچ ان کے سیمنٹ وکٹوں پرہوتے ہیں،بڑی کرکٹ میں جب بیٹسمین ٹرف وکٹ پرکھیلتے ہیں، تومشکلات کا شکارہوجاتے ہیں۔
یہ ایک اوربڑا مسئلہ ہے۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ گرائونڈزکی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوا اورپہلے سے موجود بہت سے گرائونڈزختم ہوگئے۔ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ اسپورٹس کتنی بڑی انڈسٹری ہے، اس کے چلنے سے کتنے دوسرے شعبے چل پڑتے ہیں۔''
دس ازناٹ کرکٹ
ماجد خان کے والد ڈاکٹرجہانگیر خان معروف ٹیسٹ کرکٹر تھے۔ ان کی شخصیت کا دوسرا پہلوماہرتعلیم ہونا ہے۔ماجد خان کی بھی نظام تعلیم پرگہری نظرہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاںیہ عجب ہے کہ تعلیم میں بہتری کی بات ہوتوہائیرایجوکیشن پرزیادہ زوردیا جاتا ہے، جبکہ اصل بات پرائمری ایجوکیشن کوصحیح کرنا ہے،جب بنیاد ہی ٹھیک نہیں ہوگی توپھرآگے بات کیسے بڑھے گی ۔ نظام تعلیم میں گراوٹ کا رونا روتے ہیں اوراس زمانے کویاد کرتے ہیں، جب استاد ، صحیح معنوں میں استاد ہوتا تھا۔''سینٹ انتھونی میں جن کرسچین اساتذہ سے پڑھا بہت اچھے تھے، استاد ہی نہیں انسان بھی بہت بھلے تھے۔ جمشید برکی سینٹ میری میں تھے تووہاں کے استاد فادر ٹائی سن طالب علموں سے کہتے 'آپ یہاں تعلیم نہیں، بلکہ اپنے کردار کی تعمیر (Character Building) کے لیے آئے ہیں۔'
ان استادوں کا کرداربنانے پربڑا زور رہتا۔ چھوٹا بھائی اسدجہانگیر کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھا، اس نے بتایا کہ وہاں ایک بار انٹرہائوس کرکٹ میچ میں انگریز پرنسپل امپائرنگ کر رہاتھا ،میچ کے آخری مراحل میں جب مخالف ٹیم کوپانچ چھ رنز چاہیے تھے، بولرنے نان اسٹرائیکراینڈ پرکھڑے بیٹسمین کوجب وہ گیند کرانے سے پہلے کریزسے نکلاتورن آئوٹ کردیا،قانون کے مطابق پرنسپل نے آئوٹ دے دیا۔میچ کے ختم ہونے کے بعد لڑکے کوآفس بلایا اور اس کی بڑی سرزنش کی،اورکہا کہ قانون کے مطابق میںناٹ آئوٹ نہیں دے سکتاتھا لیکن دس ازناٹ کرکٹ۔''
بے لوث کردار
ماجد خان کا کہنا ہے کہ ابتدائی سطح پرکرکٹ کی گراوٹ کا ایک بڑا سبب ان بے لوث کرداروں کا ختم ہوجانا ہے،جنھوں نے بغیرکسی لالچ کے اپنی زندگی کو کرکٹ کے لیے وقف کیا ہوتا تھا۔ماضی میں لاہور میں ایسے نمایاں کرداروں میںوہ نقی شمسی، آغاتراب علی، خواجہ عبدالرب، کیو،ڈی بٹ اور محمد جاویدکا نام لیتے ہیں۔ ان کے بقول، یہ افراد لڑکوں کوگھروں سے لے کرآتے اورکرکٹ پرشوق سے اپنے پلے سے خرچ کرتے۔ کرکٹ کا انھیں جنون تھا، افسوس! اب ایسے کردارنہ ہونے کے برابر ہیں۔
آسٹریلین ٹیم تگڑی کیوں ہے؟
آسٹریلیا کی ٹیم ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کی مضبوطی کے باعث تگڑی ہے،اس لیے وہ تھوڑا کمزورپڑیں توجلد ہی سنبھل جاتے ہیں۔ ان کی اسٹیٹ ٹیم مین سٹی سے نکلتی ہے۔نیوسائوتھ ویلز کی ٹیم سڈنی سے بنتی ہے۔وکٹوریا کی ٹیم میلبورن سے۔کوئنزلینڈ کی برسبن سے۔ویسٹرن آسٹریلیاکی پرتھ سے۔سائوتھ آسٹریلیا کی ٹیم ایڈیلیڈ سے۔ان کی کلب ٹیم محلے پربنیاد رکھتی ہے۔
ہر محلے میں کلب کے چار درجے ہیں۔ اے، بی، سی اور ڈی۔سولہ برس وہاں اسکول کی لازمی تعلیم ہے۔اس کے بعد آپ محلے کی کلب ٹیم میں جائیں گے۔ڈی سے آغازکریں گے، پھرپرفارمنس کی بنیاد پرسی،بی، اور پھراے ٹیم سے آپ اسٹیٹ کی ٹیم کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ ہم نے فرسٹ کلاس کرکٹ کو گریڈ کرکٹ کہہ دیا، وہاں کلب کرکٹ کوگریڈ کرکٹ کہا جاتا ہے۔چھ اسٹیٹس ہیں،ہرٹیم پانچ میچ اپنی اسٹیٹ میں،پانچ باہر جا کر کھیلتی ہے۔ قومی ٹیم کا کپتان وہ اسے بناتے ہیں، جواسٹیٹ کا کپتان رہا ہو۔
وہاں کپتانی کوبہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔کپتان کوتیارکیا جاتا ہے۔ آپ کی تاریخ میں دوکپتان کاردار اور عمران ہی ہیرو ہیں۔ آسٹریلیا کے کئی کپتان ان کے ہیرو ہیں۔عمران کے بعد پاکستان میں سولہ سترہ لوگوں کوکپتانی ملی،اس عرصے میں آسٹریلیا میں پانچ کپتان آئے۔یہ بات طے ہے کہ جتنی ایڈمنسٹریشن مضبوط ہوگی اتنی ہی کرکٹ اچھی ہوگی۔آسٹریلیا میں ہرکھلاڑی کا متبادل ہوتا ہے،اس لیے وہاں پلیئرپاوربھی نہیں۔ہمارے ہاں متبادل کھلاڑی نہیں ہوتے اس لیے پلیئرپاوربھی بہت ہے۔
ماضی میں پاکستان کو ورلڈ کلاس کھلاڑی میسرآتے رہے(جس میں بقول عمران خان، سسٹم کا عمل دخل نہیں تھا)،اس لیے ٹیم کسی نہ کسی طورقائم رہی اورکئی اہم فتوحات اس کے حصے میں آئیں۔ مگر اب ایسی صورتحال نہیں،اس لیے نمائشی اقدامات سے بات بنے گی نہیں،اورپورے سسٹم کوبدلنا ہوگا، اور یہ کام بورڈ کے ساتھ برسوں سے چمٹے افراد کے ساتھ ممکن نہیں بلکہ اسی صورت میں ہوگا جب وژنری اور زرخیر ذہن رکھنے والے امورِکرکٹ کو دیکھیں، بصورت دیگربنگلہ دیش ٹیم بھی آگے لگاتی رہے گی۔
سیدھی سی بات ہے کہ قومی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کی مضبوطی سے مشروط ہے،جوکہ جتنا اوپرجائے گا،اس حساب سے قومی ٹیم کی کامیابیوں کا گراف بلند ہو گااور نظام کے نشیب میں جانے سے بین الاقوامی کرکٹ میں ہماری سبکی ہوگی۔پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ افراد کوجیسے یہ نہیں معلوم کہ نظام کوصحیح خطوط پرکیسے استوارکرنا ہے، بالکل اسی طرح کرکٹ کورپورٹ اور تجزیہ کرنے والے حضرات کی اکثریت بھی اس طریقہ کارسے نابلد ہے،جس سے نظام ٹھیک ہوسکے ، اس لیے بات شخصیات پر لعن طعن سے آگے نہیں بڑھتی۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ وہ مصلحتوں کو تیاگ کر ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات جلد از جلد اہل لوگوں کے ہاتھ میں دیں، وگرنہ ہمارا کرکٹ میں حشرہاکی سے بھی برا ہوگا۔
کسی بھی مسئلے کا ٹھوس اورکارگرحل پیش کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے مطالعہ،گہری سوچ بچاراورپھروہ سسٹم جس میں آپ تبدیلی لانا چاہتے ہیں،اس کے ماضی وحال سے واقفیت ضروری ہے، اور اب اتنا کشٹ کون اٹھائے۔تنقید کے لیے توبس زبان ہلانی پڑتی ہے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹروں کی اکثریت کی تنقید پرسے لوگوں کا اعتبار اس واسطے بھی اٹھ گیا ہے کہ وہ بسلسلہ روزگارہوتی ہے، اوربورڈ کا تنخواہ داربنتے ہی ناخوب ، خوب میں ،بدل جاتاہے اورانقلابی گرج چمک ختم۔ سابق ٹیسٹ کرکٹروں کی بھیڑ میں ماجد خان اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ میڈیا سے دوررہنے میں عافیت جانتے ہیں، اوراگرکبھی اپنی رائے ظاہربھی کریں، تواس کے پیچھے ان کا مطالعہ اوردنیا بھرمیں کرکٹ، کھیل کر، اوردیکھ کر،حاصل ہونے والا تجربہ جھلکتا ہے۔
نامور اینکر طلعت حسین نے اپنی ایک تحریر میں ان کے بارے میں بجا طورسے لکھا ''ماجد خان کی قدر و منزلت کی وجہ ان کی ذہانت اوروہ طرح داری ہے جوہرکسی میں نہیں ہوتی۔۔مشہورہونے کے بعد کھلاڑی اور شوبز کے نمائندگان خود کوہمیشہ اہم ثابت کرنے کے لیے جو پاپڑ بیلتے ہیں وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں۔۔ماجد خان جیسے لوگ بہت کم ہیں جن کو خودداری اوروضع داری کی اہمیت کا احساس ہر وقت ہوتاہے،جبھی تو وہ خود کودرخت پر آویزاں حکیم کی دوائی کے اس اشتہار میں تبدیل نہیں کرتاجوگلا پھاڑپھاڑ کرہرکسی کواپنی افادیت کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔''
ماجد خان پاکستان کرکٹ کی خرابیوں پرکڑھتے ہی نہیں بلکہ معاملات میں بہتری کے لیے حل بھی تجویز کرتے ہیں۔ ان کا تجویزکردہ نسخہ اس لیے اہم ہے کہ دنیا بھرکے کرکٹ نظاموں پران کی گہری نظرہے۔
وسیع المطالعہ آدمی ہیں، زندگی بھرپڑھنے سے عشق رہا،جس نے گفتگو میں ٹھہرائو، بصیرت اور گہرائی پیدا کر دی۔ ماجد خان کومیڈیا سے گلہ ہے کہ وہ چٹ پٹی خبروں کے پیچھے لگارہتا ہے اوراصل حقائق کا کھوج لگانے کا تردد کم ہی کرتا ہے۔ ماجد خان مایہ نازکرکٹرہیں ۔بین الاقوامی سطح پر ان کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔پاکستان میں ڈومیسٹک کرکٹ کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے۔
اس کے بارے میں جاننے کے لیے ہماری دانست میں ماجد خان سے زیادہ موزوں شخصیت کوئی دوسری موجود نہیں، اس لیے، ان کے خیالات جاننے کے لیے رابطہ کیا۔ ان سے بات چیت میں ڈومیسٹک کرکٹ کے بارے میں ان کے تصورکی وضاحت ہوئی۔ اس نظام میں خرابی کی وجوہات کا پتا چلا۔ماجد خان کی گفتگوکا مرکزگوکہ ڈومیسٹک کرکٹ تھی لیکن ایک اسکالر جب کسی خاص موضوع پربات کرتا ہے تووہ اس تک محدود نہیں رہتا اوراس کے پہلو بہ پہلوکئی دوسرے امورپربھی اپنی رائے کا اظہارکرتا ہے، ایسا ہی کچھ اس گفتگوکے سلسلے میں ہوا۔
فرسٹ کلاس کرکٹ کی خرابیوں کو دور کیسے کیاجاسکتا ہے؟
اس سوال کامفصل جواب، ماجد خان کے لفظوں میں کچھ یوں ہے '' میرے ذہن میں ڈومیسٹک کرکٹ کا جو ڈھانچہ ہے، اس میں گیارہ فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیمیں ہوں گی۔ہرٹیم اکتوبرسے مارچ تک کے سیزن میں دس چارروزہ میچ کھیلے گی ۔ ڈویژنل ٹیم چارڈسٹرکٹس سے منتخب کردہ کھلاڑیوں پرمشتمل ہو گی۔ فی میچ کھلاڑی کامعاوضہ چالیس ہزارہوگا ،جواگربورڈ کے پاس پیسے زیادہ ہوں توبڑھایابھی جاسکتا ہے۔
دس میچوں سے کھلاڑی چارلاکھ کی معقول رقم کماسکے گا۔ اکتوبرسے مارچ کے دوران لیگ ٹورنامنٹ ہوگا،جس میں ہروہ چارڈسٹرکٹس ،جن سے مل کرایک ڈویژنل ٹیم بنے گی، آپس میں چوبیس میچ کھیلیں۔ بارہ اپنے ڈسٹرکٹ میں ۔بارہ باہرجاکر۔یہ میچ تین دن کے ہوں گے۔ ابتدائی طورپرمعاوضہ پانچ ہزارہو،اگربورڈ کے پاس پیسہ زیادہ ہے اوراسپانسرز ہیں تومعاوضہ بڑھایا جا سکتا ہے۔
ہرڈسٹرکٹ کا الگ سے کوچ اوردوامپائرہوں گے۔ہرڈویژن کی ٹیم، تین سلیکٹر ڈسٹرکٹ میچزدیکھ کرمنتخب کریں گے۔ڈویژن کی ٹیم نے چھ ماہ میں دس میچ کھیلنے ہوں گے،دوڈھائی ہفتے کے بعد میچ آئے گا،بیچ میں جووقفہ آئے گا،اس دوران کھلاڑی ڈسٹرکٹ کی طرف سے بھی کھیل سکتے ہیں۔ہرڈویژن کا چیف ایگزیکٹو فرسٹ کلاس کرکٹریاانٹرنیشنل کرکٹرہوگا،جولکھنا پڑھنا جانتا ہو تاکہ میچ منعقد کرانے کے لیے خط و کتابت کرسکے۔
میرے تجویزکردہ نظام میں گیارہ نان فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیمیں بھی ہوں گی۔ہرکوئی تین دن کے دس میچ کھیلے گی۔انٹرڈسٹرکٹ ٹورنامنٹ الگ سے ہوگا جس میں ہرٹیم چوبیس میچ کھیلے گی،جن کا دورانیہ دو دن کا ہوگا۔فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیموں میں سے آخری پوزیشن پرآنے والی ٹیم،نان فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیموں میںچلی جائے گی اورنان فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیموں میں پہلے نمبرپرآنے والی ٹیم ،فرسٹ کلاس ڈویژنل ٹیموں میں شامل ہوجائے گی ۔
سب کھلاڑیوں کومعقول معاوضہ ملے گا۔ امپائرز، کوچز، سلیکٹر،اسکورر،گرائونڈزمین سب تنخواہ دارہوں گے،ان کے لیے فرسٹ کلاس کرکٹرہونا شرط ہوگی۔فرسٹ کلاس کرکٹ کے تجربے کا معیاررکھنا ہوگا، یہ نہیں کہ جس نے ایک میچ کھیل لیا وہ امپائریا کوچ بن جائے،بلکہ اس کوفرسٹ کلاس کرکٹ کا خاطرخواہ تجربہ ہونا چاہیے۔گرائونڈز مین اور اسکورر اس معیار سے مستثنیٰ ہوں گے ۔
انھوں نے اگرایک بھی میچ کھیلا ہوتوانھیں ذمہ داری سونپی جاسکتی ہے۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہی گیند استعمال ہوگا جوٹیسٹ میں ہوتا ہے،تاکہ بیٹسمین گیندکوکنٹرول کرنا سیکھیں اورجب بین الاقوامی کرکٹ میں آئیں توان کونئی قسم کے گیند سے ایڈجسٹمنٹ میں دشواری نہ ہو۔ڈسٹرکٹ کے کھلاڑیوں کے لیے ون اسٹارہوٹل کا انتظام کرلیں ، ڈویژن کی ٹیم تھری اسٹارمیں ٹھہرجائے۔خرچہ فرض کریں چارکروڑ ہوتا ہے۔دوکروڑ بورڈ دے، باقی دوکروڑ اسپانسرز سے اکٹھا کر لیں۔
ڈویژن کی باڈی کا صدراسپانسرزکاtreasureبن جائے۔چیف ایگزیکٹوبورڈ کا ممبربن جائے۔ایک ڈویژن کے خرچہ کا تخمینہ لگالیں باقی دس کا بھی اندازہ ہوجائے گا۔نان فرسٹ کلاس گیارہ ٹیموں کا خرچہ اس سے آدھا کردیں۔گیارہ ڈویژنل ٹیموں کی ایگزیکٹوباڈی بنے ،اسے ووٹنگ کا حق ہو۔یہ سال میں چاربار میٹینگ کریں ۔نان فرسٹ کلاس گیارہ ڈویژنل ٹیموں کی جنرل باڈی بنے اوریہ سال میں ا یک بارملیں ۔جوٹیم نیچے سے اوپرآئے گی اسے ووٹنگ کا حق ملے گا جواوپرسے نیچے جائے گی۔
اس کا حق چھن جائے گا۔اس نظام میں پول آف پلیئربڑھ جائے گا۔مثلاً،چارڈسٹرکٹ ہیں توآٹھ اوپنرہوں گے۔سولہ مڈل آرڈربیٹسمین۔بارہ تیزبولر۔چاراسپنرز۔وکٹ کیپر۔ان سب کی کوشش ہوگی کہ بہترپرفارم کرکے ڈویژن کی طرف سے کھیلیں۔چارڈسٹرکٹس کے چوالیس پلیئر۔آٹھ امپائر۔ چار کوچز۔ چاراسکورر۔ہرڈویژن کے تین سلیکٹر۔اب ڈویژنل ٹیموں اورڈسٹرکٹ ٹیموں سے وابستہ کھلاڑیوں اور دیگرآفیشل کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی،جس سے روزگارپیدا ہوگا،اوران میں سے آپ کو کھلاڑی ہی نہیں، اچھے امپائر ، ایڈمنسٹریٹرز،کوچز، اسکورر،گرائونڈزمین بھی ملیں گے۔
ڈویژنل ٹیموں کے درمیان میچ فرسٹ کلاس گرائونڈزپرہوں، میچوں میں دوہفتے کا وقفہ ہوگا، پچزکی تیاری میں وقت ملے گا توان کا معیار بہتر ہو گا، پچز بہتر ہونے سے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں نکھارآئے گا۔ڈسٹرکٹ کی سطح پرکرکٹ میں چوبیس میچ ہونے سے سفارشی کھلاڑیوں کے فرسٹ کلاس کرکٹ میں آنے کا رستہ بند ہوگا۔ڈسٹرکٹ کے آفیشل ہرمیچ میں ایک دوسفارشی کھلائیں گے لیکن وہ دوچارسے زیادہ میچ تواسے کھلا نہیں سکیں گے، سفارشی کی جگہ وہ اگلے میچوں میں کسی دوسرے سفارشی کوموقع بھی دیں گے توآٹھ نومیرٹ والے کھلاڑی کھیلتے رہیں گے۔چوبیس میچوں میں آخرکب تک سفارشی خود کوچھپاسکے گا۔ڈسٹرکٹ کی ٹیم ڈسٹرکٹ والے خود بنائیں گے۔
ڈویژنل ٹیم تین سلیکٹر منتخب کریں گے، ڈسٹرکٹ ٹیموں کے میچ دیکھنے کے بعد۔ڈویژنل ٹیم میں ناقص کارکردگی دکھانے پرکھلاڑی ڈسٹرکٹ ٹیم میں واپس آجائے گا اور اگر یہاں بھی وہ کچھ نہیں کرتا توباہرہوجائے گا۔فرسٹ کلاس کرکٹ کے معیارکوبہتربنائے بغیراچھی ٹیم نہیں بن سکتی۔ہمارے ہاں فرسٹ کلاس کرکٹ اورانٹرنیشنل کرکٹ میں بہت فر ق ہے۔ آسٹریلیا میں یہ فرق کم ہے، اس لیے وہاں کھلاڑی ذہنی اعتبار سے مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ انھوں نے مسابقتی ماحول میں ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی ہوتی ہے۔
اس طرح یونیورسٹی کرکٹ کے احیاء کی ضرورت ہے۔ جتنی یونیورسٹیاں ہیں، ان کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیں۔ علاقائی اعتبار سے ان کواکٹھا کر دیں۔ گیارہ ٹیمیں ایک گروپ میں،گیارہ دوسرے گروپ میں۔ہرٹیم میں چارپانچ یونیورسٹیوں کے لڑکے ہوں۔ اکتوبرسے مارچ تک وہ تین دن کے دس میچ کھیلیں۔ جمعہ۔ ہفتہ۔ اتوار۔ ٹاپ دوٹیمیں فائنل کھیلیں گی۔ یونیورسٹی لیول پر لڑکے پرفارم کریں گے تو فرسٹ کلاس کرکٹ میں جگہ ملے گی اوروہاں بھی پڑھے لکھے لوگوں کا ایک پول بن جائے گا۔ یونیورسٹی کرکٹ سے لیڈرشپ جنم لے گی۔اب مصباح الحق پڑھا لکھا ہے،تواس میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں، اوراس نے ٹیم کوسنبھال رکھا ہے۔
قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کا انتخاب ڈومیسٹک کرکٹ میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پرہو۔سلیکٹرزمیچ دیکھ کرٹیم سلیکٹ کریں اورصرف اعدادوشمار پر بھروسہ نہ کریں۔قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے لیے ڈومیسٹک کرکٹ میں حصہ لینا لازمی ہونا چاہیے،اس سے معیارمیں بہتری آئے گی،اوراسٹارز کے ساتھ کھیل کرنئے لڑکے بہت کچھ سیکھ سکیں گے۔
نظام میں بگاڑ کا ذمہ دار کون؟
جب یہ جان لیا کہ آخر وہ کون سا پروگرام ہے، جس کے ذریعے سے معاملاتِ کرکٹ بہتری کی جانب رواں دواں ہوسکتے ہیں توپھر ہم نے جاننا چاہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کی بربادی کا اصل ذمہ دارکون ہے؟اس پرماجد خان بولے '' ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام میں باربارکی تبدیلی سے خرابی پیدا ہوئی۔کوئی بھی نظام ہو،اس کی کامیابی کے لیے تسلسل ضروری ہوتا ہے۔
انگلینڈ میں 125برس قبل انٹرکائونٹی چیمپئن شپ شروع ہوئی، اس کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی وہی ہے۔آسٹریلیا میں سوبرس سے زائد عرصہ سے انٹراسٹیٹ کرکٹ چل رہی ہے۔اس طرح جنوبی افریقہ ،ویسٹ انڈیزاورنیوزی لینڈ میں بھی ڈومیسٹک کرکٹ کے بنیادی ڈھانچے میں سالہا سال سے تبدیلی نہیں آئی۔ ہندوستان میں رانجی ٹرافی 1934ء سے جاری ہے۔
پاکستان میں1952-53ء میںسب سے پہلے قائداعظم ٹرافی صوبائی بنیادوں پرشروع ہوئی ۔اس میں ناک آئوٹ سسٹم تھا۔ساٹھ میں اسے ڈویژنل بنیادوں پرشروع کردیا گیا،کیونکہ سرحد اوربلوچستان کے پاس ایسے وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ پنجاب اورسندھ کی ٹیموں کا مقابلہ کر سکیں اوران دونوں صوبوں میں بھی زیادہ ترکھلاڑی کراچی اورلاہورسے ہوتے۔1960ء کی دہائی میں قائداعظم ٹرافی کے ساتھ ایوب ٹرافی شروع کی گئی،جوبعد میں پیٹرن ٹرافی کہلائی،اس میں بھی ڈویژنل ٹیمیں ناک آئوٹ کی بنیاد پرشریک ہوتیں ،جس میں وہ ٹیمیں جوقائد اعظم ٹرافی کھیلتی تھیں، وہ ،اورساتھ میں کچھ مزید ٹیمیں شریک ہوتیں۔ ستر میں عبدالحفیظ کاردار ڈیپارٹمنٹ کرکٹ لے آیااوردوبارہ سے صوبائی بنیادوں پرسسٹم چلا گیا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ نے ڈومیسٹک کرکٹ تباہ کردی۔
ڈیپارٹمنٹس کی بنیاد ہی نہیں تھی۔اچھے کھلاڑی ایسوسی ایشن والے نکالتے اورلے جاتے ڈیپارٹمنٹ والے، اور پھر ان کی وجہ سے ٹرافیاں جیت جاتے۔ مطلب یہ کہ لڑکے نکال رہے ہیں، ایسوسی ایشن والے اوران سے فائدہ کوئی اور اٹھارہا ہے۔ ایسوسی ایشن صرف پلیئرپیدا کرنے کےلیے رہ گئی۔حالانکہ نہ ان کے پاس پیسہ ہے اورنہ ہی سوچ لیکن پھربھی وہ اچھے نتائج دیتے رہے ہیں۔
ڈومیسٹک کرکٹ کی خرابی کی بات ہو توایسوسی ایشنوں کوسب گالیاں دیتے ہیں،ڈیپارٹمنٹس کی کوئی بات نہیں کرتا،جنھوں نے کبھی کوئی پلیئرپیدا نہیں کیا۔ کارداراگرعقل مندی کا مظاہرہ کرتا تو ڈیپارٹمنٹس سے اسپانسرز کراتا کیونکہ ادارے حکومتی قبضے میں تھے اور وہ حکومت کا حصہ تھا۔ کئی بارسسٹم آپ نے بنایا اوراسے توڑا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ سے مقابلے کی فضا بن نہیں سکتی،لوگوں کو ڈیپارٹمنٹس کے درمیان میچ میں کیا دلچسپی ہوگی، دوشہروں کی ٹیموں کے درمیان میچ تولوگ شوق سے دیکھیں گے۔ اس طرح ڈویژنل ٹیموں کے درمیان میچ میں بھی لوگوں کی دلچسپی ہوگی۔
اس خرابے میں کاردارکا کردار
ماجد خان کا خیال ہے کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ کی حیثیت میں عبدالحفیظ کاردارنے کرکٹ کوبہت نقصان پہنچایا۔وہ سمجھتے ہیں کہ قومی کرکٹ اور ڈومیسٹک کرکٹ دونوں ہی کو انھوں نے کمزورکیا۔ان کے بقول'' عبدالحفیظ کاردارنے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر پاکستان کرکٹ کوخراب کیا ۔فرسٹ کلاس کرکٹ کا بیڑاغرق کیا۔ ڈیپارٹمنٹ کرکٹ کومتعارف کرایا،جس نے ڈومیسٹک کرکٹ کوتباہ کردیا۔چیئرمین بورڈ ہوکرانھوں نے خود ہی ڈومسیٹک کرکٹ کے نظام کوعزت نہیں دی۔اس کی میں مثال دیتا ہوں۔
پاکستان کی سیریزہوتی تو کھلاڑی کائونٹی کرکٹ چھوڑ کر کھیلنے آتے اورواپس لوٹ جاتے۔کاردارنے کبھی ان پرڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے پرزورنہیں دیا۔وہ اگران سے کہتا کہ تم کائونٹی کرکٹ ضرورکھیلو لیکن ساتھ میںڈومیسٹک کرکٹ میںبھی حصہ لواوراگرایسا نہیں کرو گے توقومی ٹیم میں نہیں کھیلو گے۔اس پرکھلاڑی ضرورڈومیسٹک کرکٹ کھیلتے کیونکہ کائونٹی میں وہ جوکچھ بھی کریں، اصل اہمیت توپاکستان کی طرف سے کھیلنے کی تھی، اسی کی وجہ سے وہ دنیا بھرمیں جانے جاتے۔
کھلاڑیوں کے ذہن میں یہ بات کہ وہ ناگزیرہیں،خود کاردارنے بٹھائی۔ کاردارچاہتا ہی نہیں تھا کہ پاکستان ٹیم سیٹل ڈائون ہو۔اس لیے وہ باربارکپتان بدلتا۔اپنے دورمیں چھ سات باراس نے کپتان بدلا۔سترکی دہائی میں ہماری ٹیم اتنی مضبوط تھی کہ ہم باہرجاکربھی ٹیموں کوہراسکتے تھے لیکن اسے ڈرتھا کہ اس سے اس کا نام پاکستان کرکٹ میں بہت پیچھے چلا جائے گا اوراس کا جو اسکیپرکا امیج بنا ہے وہ ختم ہوجائے گا،زیادہ بہترہوتا کہ وہ ایڈمنسٹریٹر کے طورپراچھا کام کرتا تولوگ کہتے کہ کپتان بھی بہت اچھا تھا اور ایڈمنسٹریٹر بھی،اس طرح عزت میں زیادہ اضافہ ہوتا۔
کلب کرکٹ کا بنیادی تصورہی غلط ہے
ماجد خان کا کہنا ہے کہ انگریزنے برصغیرمیں جواچھے کام کئے،ان کوہم نے آگے چلایانہیں لیکن یہاں رہ کرجوخرابیاں وہ پیداکرگیا،انھیں ہم نے جوں کا توں رہنے دیا۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں انگریزدورمیں کلب کرکٹ کوغلط بنیاد پراستوارکیا گیا،جس میں انگریز کا اپنا مفاد تھا لیکن اس کے چلے جانے کے بعد اس کا متعارف کرایا گیا نظام چلتا رہا،جس کی خرابیوں کی طرف ماجد خان یوں توجہ دلاتے ہیں'' انگریزنے لاہورجم خانہ کلب بنایا۔کیا یہ لاہورکی نمائندگی کرتا ہے؟یہ اس نے سول اورفوجی افسرشاہی کے لیے بنایا۔اس طرح اس نے پنجاب کلب بنایا،کاروباری کمیونٹی کے لیے، جوکہ باقی سارے پنجاب کی نمائندگی نہیں کرتا۔
اس طرز پر کراچی میں جم خانہ کلب اورسندھ کلب بنے۔ یہ کلب اشرافیہ کے لیے قائم ہوئے۔اسپورٹس میں کلب کا تصورمحلے یا بستی سے وابستہ ہوتا ہے۔انگریزوں کے ہاں کرکٹ ، فٹ بال اورہاکی کے جتنے بھی کلب ہیں وہ محلے یا بستی پربنیاد رکھتے ہیں اوران کے نام سے علاقائی نسبت ظاہر ہوتی ہے۔ہمارے ہاں اس نے ایسا اس لیے نہیں ہونا دیاکہ کہیں عوام میںcohesionنہ ہوجائے کیونکہ اسپورٹس لوگوں کوجوڑتی بھی ہے،محلے کی بنیاد پرکلب ہوتے توہرطرح کا بندہ اس کا ممبربن سکتا تھا،جم خانہ کا ممبرتوگنے چنے بندے ہی بن سکتے ہیں۔
اس لیے انگریزدورسے ہمارے ہاں کلب کا جونظام چل رہا ہے وہ بغیرمنصوبہ بندی کے اورشہرمیں موجودہ علاقوں کی بنیاد پرنہیں ہے۔ایک بندے نے کلب کھڑی کردی۔نہ پیسہ ہے۔نہ گراؤنڈ ہے،بس اس نے کلب پراپنا تسلط قائم کرلیا ہے اب ساری عمروہ کلب کا کرتا دھرتا بنا رہے گا، اس کا نہ وژن ہے اورنہ کرکٹ کی سوجھ بوجھ اسے ہے۔وہ کلب ٹورنامنٹ کھیلے گا،اورایسوسی ایشن کوووٹ دے گا۔ان کلبوں کے میچوں میں لوگوں کی دلچسپی ہونہیں سکتی کیونکہ یہ کسی خاص علاقے کی نمائندگی نہیں کرتے۔کلب پریکٹس سیمنٹ وکٹوں پرکرتے ہیں،میچ ان کے سیمنٹ وکٹوں پرہوتے ہیں،بڑی کرکٹ میں جب بیٹسمین ٹرف وکٹ پرکھیلتے ہیں، تومشکلات کا شکارہوجاتے ہیں۔
یہ ایک اوربڑا مسئلہ ہے۔آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ گرائونڈزکی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے ہاں اس کے الٹ ہوا اورپہلے سے موجود بہت سے گرائونڈزختم ہوگئے۔ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ اسپورٹس کتنی بڑی انڈسٹری ہے، اس کے چلنے سے کتنے دوسرے شعبے چل پڑتے ہیں۔''
دس ازناٹ کرکٹ
ماجد خان کے والد ڈاکٹرجہانگیر خان معروف ٹیسٹ کرکٹر تھے۔ ان کی شخصیت کا دوسرا پہلوماہرتعلیم ہونا ہے۔ماجد خان کی بھی نظام تعلیم پرگہری نظرہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاںیہ عجب ہے کہ تعلیم میں بہتری کی بات ہوتوہائیرایجوکیشن پرزیادہ زوردیا جاتا ہے، جبکہ اصل بات پرائمری ایجوکیشن کوصحیح کرنا ہے،جب بنیاد ہی ٹھیک نہیں ہوگی توپھرآگے بات کیسے بڑھے گی ۔ نظام تعلیم میں گراوٹ کا رونا روتے ہیں اوراس زمانے کویاد کرتے ہیں، جب استاد ، صحیح معنوں میں استاد ہوتا تھا۔''سینٹ انتھونی میں جن کرسچین اساتذہ سے پڑھا بہت اچھے تھے، استاد ہی نہیں انسان بھی بہت بھلے تھے۔ جمشید برکی سینٹ میری میں تھے تووہاں کے استاد فادر ٹائی سن طالب علموں سے کہتے 'آپ یہاں تعلیم نہیں، بلکہ اپنے کردار کی تعمیر (Character Building) کے لیے آئے ہیں۔'
ان استادوں کا کرداربنانے پربڑا زور رہتا۔ چھوٹا بھائی اسدجہانگیر کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھا، اس نے بتایا کہ وہاں ایک بار انٹرہائوس کرکٹ میچ میں انگریز پرنسپل امپائرنگ کر رہاتھا ،میچ کے آخری مراحل میں جب مخالف ٹیم کوپانچ چھ رنز چاہیے تھے، بولرنے نان اسٹرائیکراینڈ پرکھڑے بیٹسمین کوجب وہ گیند کرانے سے پہلے کریزسے نکلاتورن آئوٹ کردیا،قانون کے مطابق پرنسپل نے آئوٹ دے دیا۔میچ کے ختم ہونے کے بعد لڑکے کوآفس بلایا اور اس کی بڑی سرزنش کی،اورکہا کہ قانون کے مطابق میںناٹ آئوٹ نہیں دے سکتاتھا لیکن دس ازناٹ کرکٹ۔''
بے لوث کردار
ماجد خان کا کہنا ہے کہ ابتدائی سطح پرکرکٹ کی گراوٹ کا ایک بڑا سبب ان بے لوث کرداروں کا ختم ہوجانا ہے،جنھوں نے بغیرکسی لالچ کے اپنی زندگی کو کرکٹ کے لیے وقف کیا ہوتا تھا۔ماضی میں لاہور میں ایسے نمایاں کرداروں میںوہ نقی شمسی، آغاتراب علی، خواجہ عبدالرب، کیو،ڈی بٹ اور محمد جاویدکا نام لیتے ہیں۔ ان کے بقول، یہ افراد لڑکوں کوگھروں سے لے کرآتے اورکرکٹ پرشوق سے اپنے پلے سے خرچ کرتے۔ کرکٹ کا انھیں جنون تھا، افسوس! اب ایسے کردارنہ ہونے کے برابر ہیں۔
آسٹریلین ٹیم تگڑی کیوں ہے؟
آسٹریلیا کی ٹیم ڈومیسٹک کرکٹ کے نظام کی مضبوطی کے باعث تگڑی ہے،اس لیے وہ تھوڑا کمزورپڑیں توجلد ہی سنبھل جاتے ہیں۔ ان کی اسٹیٹ ٹیم مین سٹی سے نکلتی ہے۔نیوسائوتھ ویلز کی ٹیم سڈنی سے بنتی ہے۔وکٹوریا کی ٹیم میلبورن سے۔کوئنزلینڈ کی برسبن سے۔ویسٹرن آسٹریلیاکی پرتھ سے۔سائوتھ آسٹریلیا کی ٹیم ایڈیلیڈ سے۔ان کی کلب ٹیم محلے پربنیاد رکھتی ہے۔
ہر محلے میں کلب کے چار درجے ہیں۔ اے، بی، سی اور ڈی۔سولہ برس وہاں اسکول کی لازمی تعلیم ہے۔اس کے بعد آپ محلے کی کلب ٹیم میں جائیں گے۔ڈی سے آغازکریں گے، پھرپرفارمنس کی بنیاد پرسی،بی، اور پھراے ٹیم سے آپ اسٹیٹ کی ٹیم کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ ہم نے فرسٹ کلاس کرکٹ کو گریڈ کرکٹ کہہ دیا، وہاں کلب کرکٹ کوگریڈ کرکٹ کہا جاتا ہے۔چھ اسٹیٹس ہیں،ہرٹیم پانچ میچ اپنی اسٹیٹ میں،پانچ باہر جا کر کھیلتی ہے۔ قومی ٹیم کا کپتان وہ اسے بناتے ہیں، جواسٹیٹ کا کپتان رہا ہو۔
وہاں کپتانی کوبہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔کپتان کوتیارکیا جاتا ہے۔ آپ کی تاریخ میں دوکپتان کاردار اور عمران ہی ہیرو ہیں۔ آسٹریلیا کے کئی کپتان ان کے ہیرو ہیں۔عمران کے بعد پاکستان میں سولہ سترہ لوگوں کوکپتانی ملی،اس عرصے میں آسٹریلیا میں پانچ کپتان آئے۔یہ بات طے ہے کہ جتنی ایڈمنسٹریشن مضبوط ہوگی اتنی ہی کرکٹ اچھی ہوگی۔آسٹریلیا میں ہرکھلاڑی کا متبادل ہوتا ہے،اس لیے وہاں پلیئرپاوربھی نہیں۔ہمارے ہاں متبادل کھلاڑی نہیں ہوتے اس لیے پلیئرپاوربھی بہت ہے۔