بلوچستان میں پرامن مفاہمتی پالیسی

بلوچستان میں شورش کے خاتمہ کے لیے عام معافی کے اعلانات پہلے بھی کیے گئے مگر ان پر بوجوہ عمل نہیں ہوا


Editorial June 28, 2015
عمران فاروق قتل کیس کی تحقیقات کیلیے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم پیر کو پاکستان پہنچے گی، فوٹو : ایکسپریس /نسیم جیمس

وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی زیر صدارت ایپکس کمیٹی کا اجلاس جمعہ کو منعقد ہوا جس میں بلوچستان میں ہتھیار ڈالنے والوں کو عام معافی دینے کا فیصلہ کیا گیا، حکومت مسلح کارروائیاں ترک کرنیوالوں کی بحالی کے لیے مالی مدد بھی کریگی، اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی، کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ، چیف سیکریٹری سیف اللہ چٹھہ، جنرل کمانڈنگ آفیسرز، آئی جی ایف سی، سیکریٹری داخلہ، آئی جی پولیس، کمشنر کوئٹہ سمیت دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لیا گیا اور دہشت گردوں اور شر پسندوں کے خلاف موثر کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بلوچستان میں شورش کے خاتمہ کے لیے عام معافی کے اعلانات پہلے بھی کیے گئے مگر ان پر بوجوہ عمل نہیں ہوا اور بیرون ملک مقیم ناراض بلوچ رہنماوں نے بھی اپنی مزاحمت ختم کر کے واپسی یا حکومت سے بات چیت پر کوئی عندیہ نہیں دیا، اب تک ہزاروں صفحات پر مشتمل ملکی اور غیر ملکی میڈیا اور تنظیموں کی رپورٹس کے انبار لگ چکے ہیں.

آغاز حقوق بلوچستان پیکیج پیش کیا گیا، انٹرنیشنل کرائسز گروپ نے 14 ستمبر 2006 ء کو بلوچستانی شورش اور بحران پر تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی تاہم کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہو سکی، دو سابق صدور جنرل پرویز مشرف اور آصف زرداری نے بات چیت کی پیشکش اور عام معافی کا اعلان بھی کیا، رحمن ملک ان دنوں کافی بیانات دیتے رہے۔ اصل میں بلوچستان کا مسئلہ تاریخ کی جڑوں سے لپٹا ہوا ہے، جسے شعلۂ جوالہ بننے سے روکنے کی کوشش میں کسی قسم کی سیاسی و انتظامی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کیا گیا، یوں بلوچستان رفتہ رفتہ اسٹیبلشمنٹ، صوبائی حکومتوں، بلوچ سیاست دانوں اور سرداروں کی جنگ میں دھنستا چلا گیا۔

8 دسمبر 2008 ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلوچستان کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا گیا، اس وقت چوہدری نثار علی قومی اسمبلی میں قائد حزب اخلاف تھے، انھوں نے کہا تھا کہ حقوق پیکیج دل کے مریض کو فلو کی دوائی دینے کے برابر ہے۔ تاہم موجودہ حکومت کی طرف سے عام معافی کا اعلان خوش آئند ہے، جب کہ حقیقت میں متعلقہ اداروں کے باہمی اشتراک سے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات سے عوام میں احساس تحفظ پیدا ہوا ہے اور جرائم پیشہ، ناپسندیدہ عناصر اور شر پسندوں کے خلاف جاری کاروائیوں کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آ ر ہے ہیں.

اور یہ تاثر بھی خوش فہمی نہیں کہ شورش اور بد امنی کا زور کچھ ٹوٹا ہے، بعض اہم کمانڈروں اور سرمچاروں نے سرکاری حکام کے سامنے سرنڈر کیا ہے، داخلی دراڑ بڑھ چکی ہے، بلوچستان میں مذہبی کشیدگی کا نوٹس بھی لیا جانا چاہیے، دینی مدارس کی تنظیم نو اور رجسٹریشن، افغان مہاجرین سے متعلق صوبائی حکومت کے موقف اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہونے والے فنڈز کی تحقیقات سے متعلق امور، ایف آئی اے، کسٹم، نیب اور پولیس کے ذریعے دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہونے والے وسائل اور فنڈنگ کی تحقیقات سمیت دہشتگرد مذہبی کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کو مزید موثر بنانے پر اتفاق کو نتیجہ عملی صورت دی جائے۔

سیکریٹری داخلہ بلوچستان اکبر حسین درانی نے کہا کہ ایپکس کمیٹی نے ہتھیار ڈالنے والوں کو پانچ سے پندرہ لاکھ روپے فی کس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پیشکش کا رد عمل کیا آتا ہے، حکومت بات چیت اور سیاسی حل کا راستہ کھلا رکھے۔ بلوچستان کے عوام اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ انہیں بھی امن، ترقی اور آسودگی کے قومی ثمرات ملیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں