کیا ہم تیار ہیں

آج اس کا تصور ممکن نہیں کہ21 ویں صدی جب اختتام کو پہنچے گی تو ہماری دنیا کیا سے کیا ہو چکی ہو گی۔


Zahida Hina June 28, 2015
[email protected]

ISLAMABAD: آج اس کا تصور ممکن نہیں کہ21 ویں صدی جب اختتام کو پہنچے گی تو ہماری دنیا کیا سے کیا ہو چکی ہو گی۔ اس حوالے سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن کوئی محقق حتمی طور پر آج سے 50 یا 75 سال بعد کی دنیا کے واضح خدوخال بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ایجادات اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا۔

تاہم، دنیا جس سمت بڑھ رہی ہے اس کی روشنی میں بعض اندازے ضرور لگائے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ طب کی دنیا بالکل بدل جائے گی۔ زیادہ تر بیماریوں کا علاج جینیاتی طور پر ہو گا، آپریشن کا طور طریقہ بھی آج جیسا نہیں ہو گا، دور کہیں بیٹھ کر سرجن کسی روبوٹ کے ذریعے آپریشن کیا کریں گے۔ اعضاء کی پیوند کاری کے بجائے جسم کے اندر مطلوبہ اعضاء پیدا کر دیے جائیں گے اور کسی بھی بیماری کا بہت پہلے با آسانی علم ہو جایا کرے گا۔

ان دنوں برطانیہ میں ایک ایسا آلہ آزمائش کے مرحلے میں ہے جو ایک طرح سے دل کا تھرمامیٹر ہو گا۔ کوئی بھی فرد اس کے ذریعے جان سکے گا کہ اسے امکانی طور پر دل کے دورے کا سامنا کب کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق چند برسوں میں یہ آلہ سستا ہو جائے گا اور سب کو دستیاب ہو گا تو کروڑوں افراد دل کے دورے کے باعث ہلاک ہونے سے بچ جائیں گے۔ اس ایجاد کا سب سے زیادہ فائدہ ایشیا اور افریقا کے غریب لوگوں کو ہو گا جن کے لیے اسپتال موجود نہیں اور جو انتہائی مہنگے ٹیسٹ کرانے کی حیثیت نہیں رکھتے۔

پیداواری عمل میں ٹیکنالوجی اور روبوٹ پر انحصار تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب کروڑوں کارکن صنعتی پیداوار کا حصہ نہیں ہونگے لیکن وہ بے روزگار بھی نہیں رہیں گے کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی روزگار کے نئے مواقعے بھی پیدا کرتی جائے گی۔ اب بہت جلد ایسے روبوٹ بھی کام کرتے نظر آئیں گے جو انسانوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھتے ہوں گے اور بہ وقت ضرورت اس کا اظہار بھی کریں گے۔ چند دنوں پہلے ایک زراف کا 3 ڈی پنسل سکیچ بنایا گیا جو حقیقت کے انتہائی قریب ہے۔ گویا یہ کہہ لیں کہ فنون لطیفہ کی پرانی جہتیں ختم ہونگی اور ان کی جگہ نئی جہتیں سامنے آئیں گی۔

اطلاعات کا انقلاب مسلسل جاری ہے۔ ایک چھوٹے سے موبائل کے ذریعے انسان، پوری دنیا سے جڑا ہوا ہے۔ انگلی کے ایک اشارے پر ہر قسم کی معلومات اس کے سامنے آ جاتی ہیں۔ دکان پر جا کر خریداری کا زمانہ ختم ہو رہا ہے۔ اپنے لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فون کے ذریعے آرڈر کریں سامان چند گھنٹوں میں گھر پہنچ جائے گا۔ جغرافیائی دوریاں جو ماضی میں ہجر اور وصل کے معاملات پیدا کیا کرتی تھیں اب اپنی معنویت کھوتی جا رہی ہیں۔ ایک ملک کے اندر سفر کی بات رہنے دیں.

جدید سپر سانک جہازوں کے ذریعے ایک براعظم سے دوسرے براعظم کا سفر چند گھنٹوں سے بھی کم کا رہ جائے گا۔ یہ صورتحال انسانی رشتوں، جذبات اور احساسات کو نئے مفہوم عطا کرے گی۔ بعض ایجادات تو ایسی ہیں جو سماج کی کایا ہی پلٹ دیں گی۔ کلوننگ کی مثال سامنے ہے۔ آپ کے جسم میں 4 ارب خلیے ہیں اور ہر خلیے سے آپ کا ایک ہم زاد پیدا کیا جا سکے گا ''ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا'' کا پورا مفہوم بدل کر کچھ یوں ہو جائے گا کہ ''کوئی ہم سا نہیں بلکہ ہم خود ہوں گے۔''

نئی صدی نے بہت سے پرانے مفروضوں کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ اب کوئی ایسا لگا بند ھا فارمولا یا نظریہ نہیں جس پر عمل کر کے راتوں رات سماج کے تمام مسائل کا خاتمہ کرنا ممکن ہو۔ ترقی یا تبدیلی کا کوئی مختصر راستہ یعنی شارٹ کٹ دستیاب نہیں۔ غربت، پسماندگی اور جہالت جیسے مسائل کا دیرپا اور پائیدار حل موجود ہے۔ اب یہ حکومتوں اور لوگوں کی دانش پر منحصر ہے کہ وہ ان مسائل کے حل کا قابل عمل طریقہ کب اور کتنے موثر انداز میں اختیار کرتے ہیں۔

دنیا میں اس سوال پر دو رائے نہیں پائی جاتی کہ لوگوں کو ناخواندہ نہیں رہنا چاہے۔ عالمی سطح پر نہ صرف یہ تسلیم کیا جا چکا ہے کہ تعلیم کا حصول ہر بچے کا حق ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک میں خواندگی کی شرح صد فیصد ہونے پر اصرا ر ہو رہا ہے۔ بچوں سے مشقت لینے کے خلاف بین الاقوامی قوانین بن چکے ہیں اور تمام ملکوں پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ ان پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ دواؤں تک عام لوگوں کی رسائی کا مسئلہ دوا تیار کرنے والی بڑی بڑی کمپنیوں کی اپنے بقاء کا مسئلہ بن گیا ہے۔ حکومتیں، صحت کے شعبے پر زیادہ سرمایہ خرچ کر رہی ہیں، کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ مسابقت کی اس جدید صدی میں صحت، تعلیم، مواصلات اور معاشی و سماجی انفرا سٹرکچر پر سرمایہ نہیں لگایا جائے گا تو ہر طرح کی سرمایہ کاری رک جائے گی اور معاشی بحران حکومتوں کو لے ڈوبیں گے۔

21 ویں صدی میں دنیا کے ممالک تیزی سے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہوتے جا رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے باعث پیداوار اور خدمات کا شعبہ غیر معمولی حد تک ترقی کر گیا ہے اور یہ ایک ختم نہ ہونے والا عمل ہے۔ یہ صورتحال دنیا کو ایک معاشی اکائی میں تبدیل کر رہی ہے۔ انسانی تاریخ میں اس طرح کی صورتحال پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ پہلے ہر ملک انفرادی طور پر ترقی کرتا تھا، ایک دوسرے پر انحصار بہت کم تھا لہٰذا ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا، جنگیں کرنا ایک معمول تھا۔

اب ملکوں کے معاشی اور تجارتی مفادات ایک دوسرے سے پیوست ہو رہے ہیں لہٰذا ماضی کی سیاسی محاذ آرائی کی جگہ مفاہمت اور تعاون کی فضا پر وان چڑھ رہی ہے۔ 20 ویں صدی کے تنازعات کو حل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ جن ملکوں کے درمیان ایسے تنازعات موجود ہیں جنھیں فوری طور پر حل نہیں کیا جا سکتا، انھیں ایک طرف رکھ کر معاشی تعاون کی نئی راہیں دریافت کی جا رہی ہیں۔ چین اور ہندوستان نے باہمی تعاون کے لیے یہی حکمت عملی اختیار کی ہے۔

سرحدی تنازعات اور ایک دوسرے کے علاقوں پر ملکیت کے دعوؤں کو ایک طرف رکھ دیا گیا ہے کیونکہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے طویل مدت درکار ہے۔ دونوں ملک معاشی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کی رفتار تیز کرتے جا رہے ہیں۔ باہمی تجارت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب دونوں کے درمیان تجارت 100 ارب ڈالر سالانہ کی حد بھی عبور کر جا ئے گی۔ کہا جا رہا ہے کہ جن ملکوں کے درمیان 100 ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے ان میں کبھی جنگ نہیں ہو سکتی۔ اس لیے یقین کر لینا چاہیے کہ اب چین اور ہندوستان کے درمیان جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے۔

دنیا کی اس یکجائی کے سبب بعض مسائل جو پہلے قومی ہوا کرتے تھے اب عالمی اور اجتماعی مسائل کی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، لوگوں کی بہتر صحت، خواتین کو سماج کے مرکزی دھارے میں لانا، منفی اور دیگر تمام امتیازات کا خاتمہ کرنا، چیچک، پولیو اور ٹی بی جیسی بہت سی بیماریوں سے دنیا کے تمام ملکوں کو پاک کرنا، دہشت گردی کا خاتمہ، امن و امان کا قیام، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا اور سب سے بڑھ کر لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا اور ان کی قوت خرید میں اضافہ کرنا اب دنیا کے تمام ملکوں کی مشترکہ ضرورت بن چکی ہے۔ یہ کام نہیں ہوں گے تو سب کا نقصان ہو گا کیونکہ اب الگ تھلگ رہنے کا زمانہ نہیں رہا بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر چلنے اور کاروبار کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

دنیا کے ترقی پذیر ممالک، 21 ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے خود کو تبدیل کر رہے ہیں اور 20 ویں صدی کی پالیسیاں تیزی سے ترک کی جا رہی ہیں۔ ایٹمی ہتھیار رکھنے والے تمام ملک یہ جانتے ہیں کہ ان کے اسلحہ خانوں میں رکھے ہوئے ایٹمی ہتھیار اب بے کار ہیں، ان کی نمائشی حیثیت بھی جلد ختم ہو جائے گی۔ ترقی یافتہ ملک ان ہتھیاروں کو استعمال کریں گے تو پوری دنیا کی معیشت تباہ ہو جائے گی جس کا سب سے زیادہ نقصان خود انھیں اٹھا نا پڑے گا۔ کم ترقی یافتہ ملکوں کو بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ خارجہ پالیسی میں نظریات کی جگہ معیشت لے رہی ہے۔ سفارتکاروں کے آرام کے دن گئے۔

اب انھیں اپنے ملکوں کے لیے سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنی ہو گی۔ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں پر اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ بادشاہتوں اور آمریتوں کے زمانے گئے، اب ہر ملک کو جمہوریت کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے۔ جنس، نسل، زبان، مذہب، مسلک، عقیدے اور رنگ کی بنیاد پر ا نسانوں سے امتیازی سلوک کرنے کا دور بھی رخصت ہو رہا ہے۔ ہر ملک کو امتیازی قوانین ختم کر کے اپنے شہریوں کو مساوی حقوق دینے ہوں گے۔ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ عورتوں کو مذہب کے نام پر تنہا سفر کرنے، گاڑی چلانے یا اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے سے روکا جا سکے۔

اس سارے پس منظر میں ہمارے لیے یہ غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان گزری ہوئی صدی کی روش ترک کر کے 21 ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے کتنا تیار ہے؟ اس تیاری پر ہی اس کے مستقبل کا انحصار ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں