چوری کا ہار اور بہت کچھ
علماء دین نے بتایا تو یہ تھا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں شیطان بند کر دیے جاتے ہیں
ISLAMABAD:
علماء دین نے بتایا تو یہ تھا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں شیطان بند کر دیے جاتے ہیں لیکن رواں ماہ رمضان میں چالاک شیطانوں نے اپنا متبادل تلاش کر لیا ہے اور اپنی قید و بند کے عرصہ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے شیطانوں نے انسانوں کا ایک شیطان صفت گروہ تیار کر لیا ہے اور اسے ان انسانوں کے درمیان چھوڑ دیا ہے جن کو شیطان سے بچانا مقصود تھا۔ اب انسانوں کا یہ شیطانی گروہ روزوں میں عام دنوں سے زیادہ سرگرم ہے اور ٹی وی اور اخبارات اس کی سرگرمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔
ایسے ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ ان کے بے نقاب ہونے پر حیرت ہوتی ہے۔ سب سے بڑا واقعہ تو ترک خاتون اول کا وہ ہار ہے جو اس نے پاکستان کی آفت زدہ بچیوں کے لیے اپنے گلے سے اتار کر دے دیا تھا اس خواہش کے ساتھ کہ اسے بیچ کر بچیوں کی شادیاں کر دی جائیں۔
جب اس خاتون محترم سے کہا گیا کہ ہار کی قیمت بھجوا دیتے ہیں ہار بھی بچ جائے گا اور مقصد بھی حل ہو جائے گا لیکن اس خاتون نے جواب میں کہا کہ ہم نے جو تعلیم پائی ہے اس میں ایک کتاب میں خلافت عثمانیہ کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے ایثار کا ذکر بھی ملتا ہے جب خواتین نے زیور اتار کر دیے تھے کہ اس طرح اظہار محبت زیادہ بہتر انداز میں ہوتا ہے اور زیوروں کے ساتھ ساتھ ہماری محبت اور خلافت سے عقیدت بھی ترکی پہنچ جاتی ہے۔ مجھے یہ سب یاد تھا اس لیے میں نے یہ ہار گلے سے اتار کر پاکستان بھجوا دیا جب کہ یہ ہار مجھے میرے شوہر نے تحفہ میں دیا تھا اور مجھے عزیز تھا۔
ایک طرف تو یہ ترک خاتون تھی اور دوسری طرف ایک وزیر اعظم پاکستان تھے جن کے خواب و خیال میں بھی خلافت عثمانیہ کا تصور نہیں تھا۔ انھوں نے یہ ہار اپنے اختیارات کے زور پر اپنے پاس رکھ لیا یعنی چوری کر لیا اور چوری کا یہ مال برسوں بعد ایک سرکاری دھمکی کے بعد واپس کیا گیا کہ اگر اسے تین دن کے اندر اندر واپس نہ کیا گیا تو چور کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ چور کے پاؤں نہیں ہوتے۔ سابق وزیر اعظم جناب گیلانی صاحب بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچے اور یہ ہار حکومت کے مختلف اداروں کو پیش کرتے رہے جو اس کی وصولی سے انکاری تھے۔ بالآخر نادرا نے اسے قبول کر لیا اور چوری کے اس مال کی رسید بھی لکھ دی۔
ہمارے ایک خالص دیہاتی بزرگ فرماتے تھے کہ دو طبقوں پر روپے پیسے کا اعتبار مت کرو۔ ان میں سے ایک پیروں اور سجادہ نشینوں کا طبقہ تھا۔ دوسرا طبقہ اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے اسے چھوڑیئے۔ ویسے میں نے ان کا دودھ پیا ہوا ہے اور مجھے اپنی رضاعی ماں کی محبت کبھی نہیں بھولے گی۔ بہر کیف سجادہ نشینوں کے طبقہ کا تازہ ترین واقعہ میرے سامنے ہے اور بے شرمی کی ہر حد پار کر لی گئی ہے کہ ایک دوست ملک کا تحفہ ہم نے مال غنیمت سمجھ کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔
ترکوں کو جب یہ سب معلوم ہوا ہو گا تو وہ ہم پر تھوک رہے ہوں گے کہ کن خودغرض لوگوں پر ہم نے محبت نچھاور کی ہے۔ اس انتہا کی خودغرضی کا علاج تو معافی بھی نہیں ہو سکتی۔ کم از کم ازالہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ چور کو پکڑا جائے اور اسے وہی سزا دی جائے جو ایک چور کی ہو سکتی ہے۔ اس طرح شاید ہمارے ترک بھائی قدرے نرمی برت کر ہمیں معاف کر دیں۔
ہمارے شاہ صاحب جناب گیلانی ملتانی نے اپنی طرف سے ایک بڑی واردات کی تھی اور ہار اپنا بنا لیا تھا۔ ہم پاکستانیوں نے ٹی وی پر وہ ہار دیکھا ہے جسے ایک خاتون فنکارہ ہاتھ میں لیے ہوئے تھی اور بار بار گلے کی طرف لے جاتی تھی۔ زیور عورت کی بڑی کمزوری ہوتی ہے اور شاہی قسم کا زیور تو جان دے کر بھی مہنگا نہیں ہوتا۔ اخباروں میں بھی اس ہار کی تصویریں چھپی ہیں۔ اخبار والوں اور ٹی وی والوں نے بھی بہت بڑی رعایت کی کہ ہمارے سابق وزیر اعظم کو اس ہار کی ملکیت کے اعزاز سے محروم رکھا ہے اور ان کی عزت اگر اب بھی کچھ باقی رہ گئی ہے تو اسے بچا لیا ہے۔ اس تاریخی ہار پر گفتگو جاری رہے گی کیونکہ ایسے ہار فراموش نہیں کیے جا سکتے۔
کراچی میں گرمی سے انسانوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے اور اس سلسلے سے تنگ آ کر وزیر اعظم نے ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا ہے۔ کمیشن کے ارکان یہ معلوم کریں گے کہ یہ اموات کیسے ہوئی ہیں۔
ویسے اگر اجازت ہو تو اس کمیشن کے رکن ہوئے بغیر ہم بھی کچھ عرض کر سکتے ہیں کہ اتنے انسان اسی بے کسی اور بے بسی کے عالم میں کیسے مر گئے ہیں۔ آپ گزشتہ چند دنوں کے اخبارات دیکھ لیں ہر روز موت کے اسباب کا بھی ذکر کیا جاتا ہے اور کمیشن کے فاضل ارکان کو سب کچھ معلوم ہو سکتا ہے۔
ویسے ایک عرض ہے کہ مسلمانوں کے ہاں عوام کے تحفظ کی ایک روایت چلی آ رہی ہے اور اب تو یہ ایک ضرب المثل بن گئی ہے کہ اگر دور دراز فرات دریا کے کنارے بھی کوئی جاندار بھوک سے مر جائے تو اس کی ذمے داری اس حاکم پر ہے جو دارالحکومت میں بیٹھا ہوا حکمرانی کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے ایک حکمران نے اپنے بارے میں یعنی اپنی ذمے داریوں کے بارے میں خود ہی یہ بات کہہ دی ہے۔
علماء دین نے بتایا تو یہ تھا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں شیطان بند کر دیے جاتے ہیں لیکن رواں ماہ رمضان میں چالاک شیطانوں نے اپنا متبادل تلاش کر لیا ہے اور اپنی قید و بند کے عرصہ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے شیطانوں نے انسانوں کا ایک شیطان صفت گروہ تیار کر لیا ہے اور اسے ان انسانوں کے درمیان چھوڑ دیا ہے جن کو شیطان سے بچانا مقصود تھا۔ اب انسانوں کا یہ شیطانی گروہ روزوں میں عام دنوں سے زیادہ سرگرم ہے اور ٹی وی اور اخبارات اس کی سرگرمیوں سے بھرے پڑے ہیں۔
ایسے ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں کہ ان کے بے نقاب ہونے پر حیرت ہوتی ہے۔ سب سے بڑا واقعہ تو ترک خاتون اول کا وہ ہار ہے جو اس نے پاکستان کی آفت زدہ بچیوں کے لیے اپنے گلے سے اتار کر دے دیا تھا اس خواہش کے ساتھ کہ اسے بیچ کر بچیوں کی شادیاں کر دی جائیں۔
جب اس خاتون محترم سے کہا گیا کہ ہار کی قیمت بھجوا دیتے ہیں ہار بھی بچ جائے گا اور مقصد بھی حل ہو جائے گا لیکن اس خاتون نے جواب میں کہا کہ ہم نے جو تعلیم پائی ہے اس میں ایک کتاب میں خلافت عثمانیہ کے لیے برصغیر کے مسلمانوں کے ایثار کا ذکر بھی ملتا ہے جب خواتین نے زیور اتار کر دیے تھے کہ اس طرح اظہار محبت زیادہ بہتر انداز میں ہوتا ہے اور زیوروں کے ساتھ ساتھ ہماری محبت اور خلافت سے عقیدت بھی ترکی پہنچ جاتی ہے۔ مجھے یہ سب یاد تھا اس لیے میں نے یہ ہار گلے سے اتار کر پاکستان بھجوا دیا جب کہ یہ ہار مجھے میرے شوہر نے تحفہ میں دیا تھا اور مجھے عزیز تھا۔
ایک طرف تو یہ ترک خاتون تھی اور دوسری طرف ایک وزیر اعظم پاکستان تھے جن کے خواب و خیال میں بھی خلافت عثمانیہ کا تصور نہیں تھا۔ انھوں نے یہ ہار اپنے اختیارات کے زور پر اپنے پاس رکھ لیا یعنی چوری کر لیا اور چوری کا یہ مال برسوں بعد ایک سرکاری دھمکی کے بعد واپس کیا گیا کہ اگر اسے تین دن کے اندر اندر واپس نہ کیا گیا تو چور کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ چور کے پاؤں نہیں ہوتے۔ سابق وزیر اعظم جناب گیلانی صاحب بھاگم بھاگ اسلام آباد پہنچے اور یہ ہار حکومت کے مختلف اداروں کو پیش کرتے رہے جو اس کی وصولی سے انکاری تھے۔ بالآخر نادرا نے اسے قبول کر لیا اور چوری کے اس مال کی رسید بھی لکھ دی۔
ہمارے ایک خالص دیہاتی بزرگ فرماتے تھے کہ دو طبقوں پر روپے پیسے کا اعتبار مت کرو۔ ان میں سے ایک پیروں اور سجادہ نشینوں کا طبقہ تھا۔ دوسرا طبقہ اب رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے اسے چھوڑیئے۔ ویسے میں نے ان کا دودھ پیا ہوا ہے اور مجھے اپنی رضاعی ماں کی محبت کبھی نہیں بھولے گی۔ بہر کیف سجادہ نشینوں کے طبقہ کا تازہ ترین واقعہ میرے سامنے ہے اور بے شرمی کی ہر حد پار کر لی گئی ہے کہ ایک دوست ملک کا تحفہ ہم نے مال غنیمت سمجھ کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔
ترکوں کو جب یہ سب معلوم ہوا ہو گا تو وہ ہم پر تھوک رہے ہوں گے کہ کن خودغرض لوگوں پر ہم نے محبت نچھاور کی ہے۔ اس انتہا کی خودغرضی کا علاج تو معافی بھی نہیں ہو سکتی۔ کم از کم ازالہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ چور کو پکڑا جائے اور اسے وہی سزا دی جائے جو ایک چور کی ہو سکتی ہے۔ اس طرح شاید ہمارے ترک بھائی قدرے نرمی برت کر ہمیں معاف کر دیں۔
ہمارے شاہ صاحب جناب گیلانی ملتانی نے اپنی طرف سے ایک بڑی واردات کی تھی اور ہار اپنا بنا لیا تھا۔ ہم پاکستانیوں نے ٹی وی پر وہ ہار دیکھا ہے جسے ایک خاتون فنکارہ ہاتھ میں لیے ہوئے تھی اور بار بار گلے کی طرف لے جاتی تھی۔ زیور عورت کی بڑی کمزوری ہوتی ہے اور شاہی قسم کا زیور تو جان دے کر بھی مہنگا نہیں ہوتا۔ اخباروں میں بھی اس ہار کی تصویریں چھپی ہیں۔ اخبار والوں اور ٹی وی والوں نے بھی بہت بڑی رعایت کی کہ ہمارے سابق وزیر اعظم کو اس ہار کی ملکیت کے اعزاز سے محروم رکھا ہے اور ان کی عزت اگر اب بھی کچھ باقی رہ گئی ہے تو اسے بچا لیا ہے۔ اس تاریخی ہار پر گفتگو جاری رہے گی کیونکہ ایسے ہار فراموش نہیں کیے جا سکتے۔
کراچی میں گرمی سے انسانوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے اور اس سلسلے سے تنگ آ کر وزیر اعظم نے ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا ہے۔ کمیشن کے ارکان یہ معلوم کریں گے کہ یہ اموات کیسے ہوئی ہیں۔
ویسے اگر اجازت ہو تو اس کمیشن کے رکن ہوئے بغیر ہم بھی کچھ عرض کر سکتے ہیں کہ اتنے انسان اسی بے کسی اور بے بسی کے عالم میں کیسے مر گئے ہیں۔ آپ گزشتہ چند دنوں کے اخبارات دیکھ لیں ہر روز موت کے اسباب کا بھی ذکر کیا جاتا ہے اور کمیشن کے فاضل ارکان کو سب کچھ معلوم ہو سکتا ہے۔
ویسے ایک عرض ہے کہ مسلمانوں کے ہاں عوام کے تحفظ کی ایک روایت چلی آ رہی ہے اور اب تو یہ ایک ضرب المثل بن گئی ہے کہ اگر دور دراز فرات دریا کے کنارے بھی کوئی جاندار بھوک سے مر جائے تو اس کی ذمے داری اس حاکم پر ہے جو دارالحکومت میں بیٹھا ہوا حکمرانی کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے ایک حکمران نے اپنے بارے میں یعنی اپنی ذمے داریوں کے بارے میں خود ہی یہ بات کہہ دی ہے۔