رمضان اور اصلاح احوال کی ضرورت

دنیا بھر کے مسلمان سال بھر رمضان المبارک کا انتظار کرتے ہیں اس کی نعمتیں اور برکتیں سمیٹنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

advo786@yahoo.com

دنیا بھر کے مسلمان سال بھر رمضان المبارک کا انتظار کرتے ہیں اس کی نعمتیں اور برکتیں سمیٹنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ نبی کریمؐ نے رمضان کو بڑی عظمت اور برکت والا مہینہ قرار دیا ہے، اس میں عام نیکیوں کا اجر 70 گنا تک ملتا ہے جب کہ روزے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ میرے لیے ہے اس کی جزا میں ہی دوں گا۔

قرآن پاک بھی اسی مہینے میں نازل ہوا۔ روزہ تقویٰ و تزکیہ نفس کا نام ہے، نیکی کی جستجو، انسانیت سے محبت اور خدمت اور خدا کی نافرمانی اور نفس کی تابعداری سے بچنا ہی روزے کی اصل روح ہے۔ جس میں آنکھ، کان، زبان، نیت غرض ہر چیز اللہ کے حکم کے تابع بنا کر نیکی و اجر کی جستجو کی جاتی ہے۔ اس مقصد کے لیے نماز تراویح، قرآن پاک کی تلاوت، نوافل، راتوں کا قیام، اعتکاف و زکوٰۃ جیسی عبادات کی جاتی ہیں۔ لیکن گزشتہ چند سال سے پاکستان میں ایک نیا کلچر پروان چڑھایا جا رہا ہے۔

جس پر محسوس یہ ہوتا ہے کہ کسی کی بھی نظر ہے نہ اس کی خبر ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا اس کلچر کی مخالفت کرنیوالوں کو تارک الدنیا، قدامت پرست، روایت پسند جیسے ناموں سے پکارا جاسکتا ہے شاید اسی لیے اس اہم موضوع پر کوئی لب کشائی، قلم کشائی اور انگشت نمائی کرنا ضروری نہیں سمجھتا ہے۔ یہ نیا کلچر ٹی وی چینلز پر پیش کیے جانے والے رمضان المبارک کے پروگرامز ہیں۔رمضان کے دنوں میں ہم قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہیں تو بارہا ہماری نظروں سے گزرتا ہے کہ دنیا کی زندگی لہوو لعب، کھیل اور تماشا ہے اچھا گھر آخرت کا ہے۔

دنیا کے ناکام و نامراد لوگوں کی نشانی بھی یہی بتائی گئی ہے کہ انھوں نے دنیا کے کھیل تماشے کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ بار بار تکرار کر رہا ہے کہ ''یہ لوگ غور کیوں نہیں کرتے ۔'' لیکن ہم اس پر ذرا غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں سب کچھ پس پشت ڈال کر نفس پرستانہ زندگی گزارنے کے راستوں کی تلاش میں مگن نظر آتے ہیں۔ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ''اگر اللہ لوگوں کو ان کے اعمال پر پکڑنے لگتا تو روئے زمین پر ایک چلنے پھرنیوالے کو نہ چھوڑتا۔'' یہ تو محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں کسی بڑے رسوا کن اور عبرتناک عذاب سے محفوظ رکھا ہے۔

آج ہم جتنے مصائب و مسائل سے نبرد آزما ہیں ہمیں انھیں اپنے اعمال کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ بیش بہا دریاؤں، نہروں اور پانی کے باوجود ہم پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں پانی کے کنویں اور بورنگ تک خشک ہو رہی ہیں، بارش کی بوندوں تک کو ترس گئے ہیں گرمی کی شدت سے جاں بہ لب ہوچکے ہیں، مگر نماز کسوف اور اجتماعی استغفار کی طرف نہ ہمارا دھیان ہے نہ میڈیا پر موجود مولوی اور طویل ترین رمضان ٹرانسمیشن میں لوگوں کو اس کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔


بجلی و پانی سے محروم عوام، حکمران اور ادارے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کر رہے ہیں۔ جن کی برداشت سے باہر ہوجاتا ہے وہ سڑک پر آکر جلاؤ گھیراؤ اور دوسرے محروم لوگوں اور ان کی گاڑیوں پر پتھراؤ شروع کردیتے ہیں، گرمی کی شدت سے چند ہزار افراد کے اسپتالوں تک پہنچنے اور پانچ دنوں میں گرمی سے ہلاک ہونیوالے ایک ہزار افراد کی لاشوں نے سارے نظام کا پول کھول کے رکھ دیا کہ شہر کے کسی بھی اسپتال میں نہ مریضوں کو بیڈ مل رہے تھے نہ سرد خانوں میں چند سو لاشیں رکھنے کی سہولت تھی، قبرستانوں میں قبریں، گورکن اور مزدور نہیں مل رہے تھے یا منہ مانگے دام وصول کر رہے تھے۔

اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر خدانخواستہ شہر میں کوئی قدرتی آفت آجاتی ہے تو صورتحال کیا ہوگی۔ حکمران ارباب اقتدار و اختیار الزامات، اعلانات اور ہمدردانہ بیانات دے کر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوگئے۔ قومی اسمبلی میں مرنیوالوں کی ایک کے بجائے دو مرتبہ غائبانہ نماز جنازہ ادا کرکے جمعہ کو یوم سوگ کا اعلان کردیا گیا۔

مصیبت زدہ کو تکلیف سے نکالنے اور حفاظت و تلافی کے لیے کچھ اقدامات نہیں کیے گئے، سندھ کے وزیر اعلیٰ نے وزرا اور ارکان اسمبلی کے ساتھ اسمبلی بلڈنگ کے باہر روڈ پر کراچی الیکٹرک کے خلاف دس منٹ کا دھرنا دیا، وفاقی حکومت اور وزیر بجلی و پانی کے خلاف نعرے بازی ان کے مستعفی ہونے اور مرنیوالوں کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کرکے اجلاس سوگ میں ملتوی کردیا گیا۔ وفاقی وزیر نے ہلاکتوں کا ذمے دار کے ای کو قرار دیا تو وزیر اعلیٰ نے صاف کہہ دیا کہ کے ای انھیں لفٹ نہیں کراتی ۔ وفاقی حکومت نے لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے سحر و افطار کے اوقات میں صنعتوں کو بجلی کی فراہمی بند کرنے اور وزیر اعلیٰ سندھ نے لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے کے لیے مارکیٹیں 9 بجے بند کرنے کے احکامات صادر فرما دیے۔

دوسری جانب ڈی جی پورٹ اینڈ شپنگ نے مصنوعی بارش برسانے کے لیے محکمہ موسمیات، بلدیہ، تاجروں اور دیگر حکام کا اجلاس طلب کرلیا، کئی دن گزر جانے کے بعد بھی اس کی کوئی کارروائی و کارکردگی سامنے نہ آسکی۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ ڈنگ ٹپاؤ اقدامات اور اعلانات سے عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے۔

بیوقوف، شعور سے عاری اور اللہ سے غافل قوم کا یہی حال ہوتا ہے۔ ہمارا اربوں روپوں کا پانی سمندر میں کیوں ضایع ہوتا ہے، ہم بجلی و پانی سے محروم کیوں رہتے ہیں، ہم عصبیت، غربت، خوف اور محرومیوں کا شکار کیوں ہیں؟ ہمارے حکمراں ہمارے ساتھ ناانصافیاں کیوں کرتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہم اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔

وہ کہتا ہے کہ اپنی امانتیں اہل و دیانتداروں کے سپرد کرو، ہماری ترجیحات ذات، برادری، مذہب، مسلک یا ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ اللہ ایسے لوگوں کو جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے ظالم، کافر، اور فاسق قرار دے رہا ہے وہ فرماتا ہے کہ تمہاری دوستی اور دشمنی صرف اللہ کے لیے ہونی چاہیے لیکن ہمارے تمام اعمال اس کے برعکس ہیں جن کی وجہ سے ہر عہدہ اور منصب پر نااہل و مکار افراد براجمان ہوجاتے ہیں اور اپنی نااہلی اور مکاری سے ملک و عوام دونوں کا استحصال و بیڑا غرق کرتے ہیں۔ اس کا جواب ہم سے بھی طلب کیا جائے گا۔ کاش ہم رمضان کے اس بابرکت مہینے میں اپنی اصلاح و احوال کرسکیں۔
Load Next Story