دہشت گردوں کا نظریہ اور جوابی بیانیہ کی ضرورت

آپریشن کے دوران ، جو برسوں کی غیر یقینی کے بعد شروع کیا گیا تھا 2763 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا

آپریشن ضرب عضب کا ایک سال مکمل ہونے پر فوج کے تعلقات عامہ کے ادارےISPR کی طرف سے متاثرکن اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں۔ اس آپریشن کے دوران ، جو برسوں کی غیر یقینی کے بعد شروع کیا گیا تھا 2763 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جب کہ ہماری فوج کو 347 افسروں اور جوانوں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ دونوں طرف سے متعدد لوگ زخمی بھی ہوئے۔

اس قربانی کا نتیجہ یہ ہے کہ ''90% شمالی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک قرار دیا جا چکا ہے'' اور دہشتگردوں کے مواصلاتی نظام کے ساتھ ان کے سینٹرل کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے۔ باقی10% علاقے پر قابو پانا قدرے مشکل ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ایک ملین سے زیادہ افراد جو بے گھر ہوگئے تھے، محسوس کرتے ہیں کہ انھیں نظر اندازکر دیا گیا، تاہم وہ غیر یقینی حالات میں واپس اپنے گھروں کو جا رہے ہیں۔

سرکاری دعویٰ یہ ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی گئی ہے، جن میں تحریک ِ طالبان کا شہریار گروپ، منصورگروپ، سجنا گروپ، حقانی نیٹ ورک، گل بہادر گروپ ، پنجابی طالبان، ازبک طالبان، ترکستان اسلامی تحریک اور القاعدہ شامل ہیں۔

اگرچہ ملک میں اس بات پر اتفاق رائے تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے، جو55 ہزار سے زائد سول افراد اور تقریباً6000 فوجی اہل کاروں کی شہادت کے ذمے دار تھے ،صحافی سرکاری اعداد و شمار پر مشکل سے ہی یقین کرتے ہیں، کیونکہ بہت تھوڑے صحافیوں کو فاٹا کے جنگ زدہ علاقوں تک رسائی ملی ہے۔ حقوق انسانی کے لیے کام کرنیوالے کارکنوں کو تشویش ہے کہ ہزاروں فٹ کی بلندی سے کی جانیوالی بمباری بے گناہ لوگوں اور دہشت گردوں میں فرق نہیں کرتی۔ مگر جنگ میں یہ نقصان تو ہوتا ہی ہے۔

علاقائی اعتبار سے، پڑوسی ملکوں کو اس دعوے پر شبہ ہے کہ آپریشن کسی امتیاز کے بغیر ہو رہا ہے۔ افغان حکومت ابھی تک پاکستان پر حقانی گروپ کے دہشت گردوں اور افغان طالبان کو پناہ دینے کا الزام لگا رہی ہے۔ بھارتی حکومت خبردار کر رہی ہے کہ وہ سرحد پار سے دہشت گردی کو مزید برداشت نہیں کرے گی اور وہ لشکر ِ طیبہ ،جیش محمد اور صلاح الدین کی حزب المجاہدین کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ تک رسائی رکھنے والے دوست مجھے بتائیں کہ کیا سوچ میں بنیادی تبدیلی آ رہی ہے اور برفانی تودے سے بچنے کے لیےTitanic آہستہ آہستہ اپنی سمت تبدیل کرے گا۔ ایک حقیقی مشکل یہ ہو سکتی ہے کہ فوج ایک ہی وقت میں تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔ چونکہ بعض گروپ ملک کے اندر اسٹیبلشمنٹ کی رِٹ کو چیلنج نہیں کرتے اور انھیں ہماری انتقامی پالیسیوں کے کارآمد ٹولز سمجھا جاتا ہے، اس لیے فی الوقت ان کی در پردہ حمایت واپس لینے کی شاید ہی کوئی خواہش ہو ۔ مگر تیزی سے تبدیل ہوتا ہوا جغرافیائی و تزویراتی منظرنامہ غالباً عجلت کا تقاضا کر رہا ہے۔ یہ معاملہ بعد میں کسی علیحدہ سے تجزیے کا متقاضی ہے، کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی کامیابی ہماری تنگ نظر خارجہ پالیسی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔


بجا طور پر آرمی نے کہا کہ بس ، بہت ہوچکا اور آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا جب کہ ہچکچاہٹ کی شکار سویلین حکومت منہ دیکھتی رہی۔چھ ماہ بعد ایک اور صدمے نے ملک کو جھنجھوڑ دیا، جب دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر انتہائی وحشیانہ حملہ کر کے متعدد بچوں اور ٹیچرزکو شہید کردیا۔

سچی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے 20 نکاتی حکمت عملی، دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑا tactical آپریشن شروع کرنے کے چھ ماہ بعد وضع کی گئی۔ نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے ایک سرسری جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ تجویز کردہ زیادہ تر اقدامات پر بہت کم پیش رفت ہوئی ہے۔اس کی بڑی وجہ سیاسی حکومت کا غیر یقینی رویہ ہے۔ یہ لوگ جہادیوں کی اسٹریٹ پاور اور پروپیگنڈا کے خلاف کارروائی کرنے سے ڈرتے ہیں اور ابہام کا شکار ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں اس دہشت گرد نیٹ ورک کو ختم کرنے کے لیے جس کے کئی رُخ ہیں قبائلی علاقوں میںفوجی آپریشن ہی کافی ہے؟حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ریاست نے کئی دہائیوں تک اس مگرمچھ کی پرورش کی ہے ، کوئی مہذب اور باشعور اسٹیبلشمنٹ ایسا نہیں کرتی۔ فوجی آپریشن کی مدد کے لیے ایک زیادہ جامع حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔ دہشت گردوں کا مقابلہ فوجی، سیاسی اور سب سے بڑھ کر نظریاتی محاذ پرکرنا ہوگا۔

شہروں میں دہشت گرد حملے کم کرنے کے لیے صوبائی حکومتوں کو جنگی بنیاد پرکام کرنا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ شہروں میں اس کا صفایا کیا جائے اور مشتبہ دہشت گردوں اور اسلامی عسکری تنظیموں میں ان کے حامیوں کو پکڑا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ، پاکستان کو درپیش اس سب سے بڑے چیلنج پر توجہ مرکوزکرنی چاہیے اور طویل عرصے سے چلی آنیوالی دہشت گردی کی اس غیر روایتی جنگ کے لیے تیار رہنا چاہیے، جس کے مزید چند سال جاری رہنے کا امکان ہے۔

سیاسی طور پر، تمام پارٹیاں اپنے منتخب نمائندوں کو متحرک کرتے ہوئے انھیں واپس ان کے حلقوں میں بھیجیں تاکہ وہ اپنے حامیوں کو اس بات پر قائل کریں کہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی حمایت کی جائے۔ یہ بات سچ ہے کہ اسلامی عسکریت پسند عوام کو دہشت زدہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں اور ارکان ِ پارلیمان کو بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ جس سب سے بڑے سوال کا ہمیں جواب تلاش کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستانیوں پر آئین اور اس کے قوانین کی حکمرانی ہوگی یا وہ ان فتوے بازوں کے تابع ہوں گے جن کے پیچھے دہشت گردوں کی بندوق کی طاقت ہے۔

سب سے اہم کام جہادیوں کے بیانیہ کا جواب دینا ہے۔ ان کے پاس ایک ایسا نظریہ ہے جس کے بڑی تعداد میں فعال اور غیر فعال ہمدرد موجود ہیں۔2009 کی معلومات کی بنیاد پر ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں 104 عسکریت پسند گروپ اور230 مذہبی جماعتیں اور تنظیمیں ہیں۔ اپنے نظریے کے پرچار کے لیے جو القاعدہ کے نظریے سے زیادہ مختلف نہیں ہے، ان عسکریت پسندوں کے پاس بے پناہ وسائل ہیں۔ دوسری جانب ریاست کے پاس کوئی جوابی بیانیہ نہیں ہے ۔اس کے برعکس ریاستی ادارے اپنے خوشامدی میڈیاکے ذریعے انتہا پسندوں کو آگے لاتے ہیں اور جو ترقی پسند نظریے کو چیلنج کرتے ہیں انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

کالم نگارWhat's wrong with Pakistan? کا مصنف ہے۔ رسائی کے لیےayazbabar@gmail.com
Load Next Story