اپنے آپ کو کبھی سیریس نہیں لیتا انوپم کھیر
انسان کو اپنے بارے میں فیئر ہونا چاہیے آپ خود پر ملمع کاری مت کریں،اداکار
انوپم کھیر کا شمار انڈین فلم انڈسٹری کے وراسٹائل ایکٹرز میں ہوتا ہے، جنہوں نے کئی فلموں میں بے شمار یاد گار کردار کیے انہوں نے کئی فلموں میں مزاحیہ کرداروں کے ساتھ ساتھ منفی رول بھی کیے۔ 1982میں انوپم نے فلم آگامان میں کام کیا، لیکن اس فلم میں ان کا کسی نے نوٹس نہیں لیا۔ بعد ازاں 1984میں فلم سے انہیں پہچان ملی، جس میں انہوں نے تیس سال کی عمر میں ستر سال کے ایک بوڑھے کا رول کیا تھا۔ انہوں نے تھیٹر میں بھی کام کیا۔ ان کی یاد گار فلموں میں ڈیڈی ، کھل نائیک ، لمحے، رام لکھن، وغیرہ شامل ہیں۔ انہیں دیگر کئی ایوارڈز کے ساتھ دو بار نیشنل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ انہوں نے ٹی وی پر بھی شوز کیے جو خاصے مقبول رہے ایک انٹرویو میں انہوں کچھ منفرد باتیں کیں، جو قارئین کے لیے پیش ہے۔
٭آپ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ آپ ایک غیرسنجیدہ قسم کے شخص ہیں؟
انوپم کھیر: جی ہاں، کیوںکہ میں کبھی اپنے آپ کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو پھر شاید میرے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوجائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے اردگرد افراد موجود زندگی کے ہر چھو ٹے بڑے معاملے میں بہت سنجیدہ ہو جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ان کی سنجیدگی کا اثر ہر ایک چیز پر پڑرہا ہے۔ مثال کے طور پر بھوک اور ڈپریشن دو ایسی کیفیات ہیں جن سے آپ کو خود کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن آپ کی بھوک اور ڈپریشن سے کسی دوسرے پر کوئی اثر نہیں ہونے والا، تو پھر وقت اور توانائی ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اسی لیے میں مزاحیہ نظر آنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ دوسری بات، مجھے کسی کو متاثر یا امپریس کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں جیسا ہوں اسی میں خوش ہوں۔ دنیا کا سب سے مشکل اور سب سے آسان کام ہی خود کو جاننا ہے ۔
٭لیکن کیا فلم انڈسٹری میں رہ کر ایسا کرنا مشکل نہیں؟
انوپم کھیر: ایسا صرف فلم انڈسٹری ہی میں نہیں بل کہ کسی بھی فیلڈ میں ہوسکتا ہے۔ فلمی شخصیات اپنی کام یابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں بات کرتی ہیں یا انہیں کتاب کی صورت لکھتی بھی ہیں تو کہنے کا مطلب یہ کہ انسان کو اپنے بارے میں فیئر ہونا چاہیے آپ خود پر ملمع کاری مت کریں۔ آپ جو ہیں وہی نظر آئیں، کیوںکہ سچ کبھی چھپ نہیں سکتا۔
٭آپ نے ٹیلی ویژن کے لیے ایک ٹاک ''شو کچھ بھی ہو سکتا ہے'' بھی کیا، اس کے حوالے سے آپ کے کیا تجربات رہے؟
انوپم کھیر: بہت زبردست، میرے اس شو میں زندگی کے کسی بھی میدان میں کام یابی پانے والے ہر اس شخص نے شرکت کی، جس نے یہ راستہ بڑی مشکلات کے ساتھ طے کیا۔ مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں جان کر بے حد خوشی بھی ہوئی کہ لگن اور ارادہ سچا ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ میرے اس پروگرام کو جب لو گ کام یاب شو کہتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔
٭اس شو کے دوران آپ کو کئی نام ور شخصیات سے باتیں کرنے کا موقع ملا۔ کس کے حالات زندگی یا کام یابی کے سفر نے آپ کو زیادہ متاثر کیا؟
انوپم کھیر: میرے اس شو میں جس جس نے بھی اپنے حالات زندگی کے بارے میں گفتگو کی، وہ سب میرے لئے بہت فنٹاسٹک تھا، جو کوئی بھی اپنی زندگی کے گزرے دور کے بارے میں بتا تا رہا، سب اس کے تجربات تھے جو انہوں نے زندگی میں اپنے مثبت رویوں سے حاصل کیا میرے دادا ( جن کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے تقریباً اٹھارہ سال گزارے) اکثر کہا کرتے تھے کہ خوشیاں اور غم انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔
آپ ایسے لوگوں کو دیکھ کر خوشی حاصل کر سکتے ہیں جو انتہائی خراب اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دوسری طرف آپ دوسرے کی بہتر زندگی یا لائف اسٹائل کو دیکھ کر ڈپریشن کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ قسم کی سوچ رکھتے ہیں خوش یا ڈپریس رہنا آپ کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ جہاں تک متاثر کن اسٹوری یا شخصیت کا سوال ہے تو مجھے یووراج سنگھ کی کہانی نے امپریس کیا کہ کس طرح اس نے کینسر جیسے موذی مرض کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ میرے اپنے بھائی کو کینسر ہے تو میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس مرض میں سروائیوو کرنا کتنا مشکل ہے، لیکن جس طرح یووراج نے کم بیک کیا اور انڈیا کے لیے کھیلا یہ میرے لیے انتہائی دل چسپ تھا۔
٭آپ نے ایک کتاب بھی تحریر کی۔
انوپم کھیر: جی، لیکن میں کوئی پروفیشنل رائٹر نہیں، میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں کبھی 38فی صد سے زیادہ نمبر حاصل نہیں کیے، لیکن مجھے فخر ہے کہ میں نے کتاب لکھی اور اسے لوگوں نے پسند بھی کیا، کیوںکہ یہ کتاب زندگی کے بارے میں تھی۔ اس کے علاوہ اسے میں نے ہاتھوں سے لکھا کمپیوٹر پر نہیں۔
میں جہاں کہیں بھی ہوتا مثلاً کسی ہوٹل کی لابی میں، ایئر پورٹ پر یا پھر کسی فلم کے سیٹ پر میرے ہاتھ میں ڈائری ہوتی اور میں لکھنا شروع کر دیتا۔ جب آپ پبلشنگ کی پریشانی کے بغیر لکھتے ہیں تو اچھا ہی لکھا جاتا ہے (قہقہہ) زندگی کے ہر قدم پر کچھ نہ کچھ نیا دریافت ہوتا ہی رہتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ٹیچر ہر وقت کچھ نیا جاننے کی کھوج میں لگی رہتی ہے۔ میں اپنے طالب علموں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے پاس ڈائری رکھیں اور ہر روز ڈائری لکھنے کی عادت بنائیں۔ الیکٹرونک آلات جیسے کمپیوٹر، اسمارٹ فونز وغیرہ نے آج کی نسل کو انجوائے منٹ اور خوشیوں کو محسوس کرنے والے لمحات سے دور کردیا ہے۔ میں آج بھی باقاعدگی سے ڈائری لکھتا ہوں۔
٭لیکن آپ سوشل میڈیا کا استعمال بھی تو کرتے ہیں؟
انوپم کھیر: جی ہاں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میں ٹوئٹر کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں رہتا ہوں اور ایسا کرنا مجھے اچھا لگتا ہے، کیوںکہ لوگوں کے بارے میں جان کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ دوسری طرف میں اسے اپنی رائے کے اظہار کا بہترین ذریعہ بھی سمجھتا ہوں۔ میں اس پر کسی بھی قسم کے سیاسی یا دوسرے کسی ایشو پر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے نہیں ڈرتا۔
٭آپ نے اپنے شو میں جتنی بھی شخصیات کو مدعو کیا، ان میں زیادہ تر آپ کے دوست یا پھر وہ لوگ تھے جن کے ساتھ آپ کام کر چکے ہیں، تو کیا ان کے لیے آسان تھا کہ وہ آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنے حالات زندگی بیان کرتے؟
انوپم کھیر: ایسا کچھی بھی نہیں ہوتا تھا، کیوںکہ ہم سب ہی ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہوتے اس لیے بڑے آرام اور سکون سے وہ میرے سوالوں کے جواب دے دیا کرتے تھے۔ ویسے بھی لوگ فلمی شخصیات کے بارے میں تو چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جاننے کے شوقین ہوتے ہیں۔
٭آپ نے فلم انڈسٹری کے مختلف ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان میں سے کس کے ساتھ آپ کا سب سے اچھا تجربہ رہا ؟
انوپم کھیر: میں کرن جوہر، سبھاش گھئی اور یش چوپڑہ جیسے فلم میکرز کے ساتھ کام کر چکا ہوں۔ ان سب کے ساتھ ہی میری گریٹ کیمسٹری بنتی تھی۔ آج نیراج پانڈے جیسے ڈائریکٹرز جو فلموں میں روایت سے ہٹ کر تبدیلی لانے کے خواہش مند ہیں، ان کے ساتھ کام کرنا بھی میرے لیے اچھا تجربہ رہ۔ نیراج کے ساتھ میں پہلے فلم A Wednesdayکرچکا ہوں اور اب ان کے ساتھ فلم بے بی کی ہے۔
٭وہ کیا وجہ تھی جس کی بناء پر آپ نے فلم بے بی میں کام کیا ؟
انوپم کھیر: مجھے اچھے رول کرنا پسند ہیں اور اچھے لوگوں کے ساتھ کام کرنا بھی اچھا لگتا ہے۔ میں بہ حثیت اداکار اور انسان کبھی اپنے آپ کو سنجیدگی نہیں لیتا۔ بس آپ کو اپنا کام پوری ایمان داری کے ساتھ اچھا کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کسی دور میں یش راج فلمز میں اس لیے کام کرتا تھا کہ مجھے ان کہ لگائے ہوئے فلمی سیٹ بہت اچھے لگتے تھے۔ میں نے شاہ رخ کی کچھ فلموں میں گیسٹ اپیئرنس کا بور کام کیا، کیوںکہ میں شاہ رخ کو پسند کرتا ہوں میں نے فلم دبنگ میں اس لیے کام کیا کیوںکہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ کردار مجھے ضرور کرنا چاہیے۔ میں جذبہ فلم بھی کر رہا ہوں، حالاںکہ اس کا اسکرپٹ غیرمعمولی نہیں، لیکن کیوںکہ میں نے ایک لمبے عرصہ سے سنجے گپتا کے ساتھ کام نہیں کیا، اس لیے میں یہ فلم کر رہا ہوں اور پھر اس فلم میں ایشوریا بھی تو ہیں تو پھر میں یہ فلم کیوں نہ کروں۔
٭آپ کی ایک فلم دعوت عشق میں آپ کا رول بہت زبردست تھا، لیکن آپ کے نزدیک اس فلم کی ناکامی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
انوپم کھیر: مجھے نہیں پتا کہ دعوت عشق کیوں ناکام ہوگئی۔ اس بارے میں سمجھنا واقعی مشکل ہے کہ ہٹ اور فلاپ کا کوئی فارمولا نہیں ہوتا، لیکن اس فلم کی وجہ سے مجھے ادیتہ رائے کپور کی صورت میں بہترین دوست ضرور مل گیا۔
٭آپ ایک ایسے ایکٹر ہیں جو اپنی عمر سے دگنی عمر کے رول کرنے پر کبھی نہیں شرمائے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج کے اداکار اس چیز سے خوف زدہ ہیں؟
انوپم کھیر: میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ آج ایکٹر ز اولڈ رول کرنے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں نے اگر آج سے تیس سال پہلے فلم سراناش میں کام نہ کیا ہو تا تو آج یہاں نہ ہوتا کہ میں نے اپنی پہلی فلم میں ہی بوڑھے آدمی کا رول کیا تھا، کیوںکہ میرے پاس چوائس نہیں تھی۔ مجھے کام کی تلاش تھی نہ گھر تھا اور نہ ہی کھانے کو کچھ اس لیے یہ فلم کی لیکن مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک بہترین فلم میں کام کیا اور کیوںکہ میرا تعلق تھیٹر سے بھی تھا تو اس لیے بھی اس فلم کے حوالے سے میں بہت خوش تھا۔
٭آپ ایک طویل عرصہ سے فلم انڈسٹری سے وابستہ ہیں کوئی ایسا کردار جس نے آپ کو جسمانی یا دماغی طور پر چیلینج کیا ہو؟
میں کسی بھی کردار کو معمولی نہیں سمجھتا، کیوںکہ ایسا کروں گا تو بہترین کام کیسے کر پاؤں گا کرداروں کی درجہ بندی ان کے حسن کو ماند کر دیتی ہے۔ میں پریم رتن دھن پاؤ میں بھی کام کر رہا ہوں مجھے اس فلم کے ڈائریکٹر سورج برجاٹیہ کے ساتھ کام کرنا پسند ہے اور میں ان سے یہ ہی کہتا ہوں کہ سر آپ سین اپنی مرضی سے کرائیں کیوںکہ میں اپنے کام کو مشکل نہیں بنا نا چاہتا۔ البتہ میں جہاں سمجھتا ہوں اپنے ڈائریکٹرز کو اپنے تخلیقی خیالات سے ضرور آگاہ کرتا ہوں، جو ان کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں تو وہ ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔
٭کیا آپ اکشے کمار کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں جو انہوں نے فلم انڈسٹری میں بھائی چارے اور اتحاد کے خاتمے کے بارے میں کہی تھی؟
انوپم کھیر: جی میں اکشے کی اس بات سے سو فی صد متفق ہوں۔ مجھے خود بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر کوئی یہاں تنہا ہے۔ کسی ایک کا دوسرے سے کوئی تعلق یا رابطہ نہیں رہتا۔ ہالی وڈ میں اس کے برعکس ہے۔ اس کا ذمے دار کسی حد تک ٹیکنالوجی کو بھی ٹھیرایا جاسکتا ہے۔ اس نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی ختم کردیا ہے۔ اب دلیپ کمار اور دیو آنند یا امیتابھ بچن اور ونود کھنہ جیسی دوستی فلم انٖڈسٹری میں نظر نہیں آتی۔
٭آپ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ آپ ایک غیرسنجیدہ قسم کے شخص ہیں؟
انوپم کھیر: جی ہاں، کیوںکہ میں کبھی اپنے آپ کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو پھر شاید میرے لیے بہت سے مسائل پیدا ہوجائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے اردگرد افراد موجود زندگی کے ہر چھو ٹے بڑے معاملے میں بہت سنجیدہ ہو جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہو ا کہ ان کی سنجیدگی کا اثر ہر ایک چیز پر پڑرہا ہے۔ مثال کے طور پر بھوک اور ڈپریشن دو ایسی کیفیات ہیں جن سے آپ کو خود کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، لیکن آپ کی بھوک اور ڈپریشن سے کسی دوسرے پر کوئی اثر نہیں ہونے والا، تو پھر وقت اور توانائی ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اسی لیے میں مزاحیہ نظر آنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ دوسری بات، مجھے کسی کو متاثر یا امپریس کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں جیسا ہوں اسی میں خوش ہوں۔ دنیا کا سب سے مشکل اور سب سے آسان کام ہی خود کو جاننا ہے ۔
٭لیکن کیا فلم انڈسٹری میں رہ کر ایسا کرنا مشکل نہیں؟
انوپم کھیر: ایسا صرف فلم انڈسٹری ہی میں نہیں بل کہ کسی بھی فیلڈ میں ہوسکتا ہے۔ فلمی شخصیات اپنی کام یابیوں اور ناکامیوں کے بارے میں بات کرتی ہیں یا انہیں کتاب کی صورت لکھتی بھی ہیں تو کہنے کا مطلب یہ کہ انسان کو اپنے بارے میں فیئر ہونا چاہیے آپ خود پر ملمع کاری مت کریں۔ آپ جو ہیں وہی نظر آئیں، کیوںکہ سچ کبھی چھپ نہیں سکتا۔
٭آپ نے ٹیلی ویژن کے لیے ایک ٹاک ''شو کچھ بھی ہو سکتا ہے'' بھی کیا، اس کے حوالے سے آپ کے کیا تجربات رہے؟
انوپم کھیر: بہت زبردست، میرے اس شو میں زندگی کے کسی بھی میدان میں کام یابی پانے والے ہر اس شخص نے شرکت کی، جس نے یہ راستہ بڑی مشکلات کے ساتھ طے کیا۔ مجھے بہت سے لوگوں کے بارے میں جان کر بے حد خوشی بھی ہوئی کہ لگن اور ارادہ سچا ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے۔ میرے اس پروگرام کو جب لو گ کام یاب شو کہتے ہیں تو اچھا لگتا ہے۔
٭اس شو کے دوران آپ کو کئی نام ور شخصیات سے باتیں کرنے کا موقع ملا۔ کس کے حالات زندگی یا کام یابی کے سفر نے آپ کو زیادہ متاثر کیا؟
انوپم کھیر: میرے اس شو میں جس جس نے بھی اپنے حالات زندگی کے بارے میں گفتگو کی، وہ سب میرے لئے بہت فنٹاسٹک تھا، جو کوئی بھی اپنی زندگی کے گزرے دور کے بارے میں بتا تا رہا، سب اس کے تجربات تھے جو انہوں نے زندگی میں اپنے مثبت رویوں سے حاصل کیا میرے دادا ( جن کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے تقریباً اٹھارہ سال گزارے) اکثر کہا کرتے تھے کہ خوشیاں اور غم انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔
آپ ایسے لوگوں کو دیکھ کر خوشی حاصل کر سکتے ہیں جو انتہائی خراب اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دوسری طرف آپ دوسرے کی بہتر زندگی یا لائف اسٹائل کو دیکھ کر ڈپریشن کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ قسم کی سوچ رکھتے ہیں خوش یا ڈپریس رہنا آپ کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ جہاں تک متاثر کن اسٹوری یا شخصیت کا سوال ہے تو مجھے یووراج سنگھ کی کہانی نے امپریس کیا کہ کس طرح اس نے کینسر جیسے موذی مرض کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ میرے اپنے بھائی کو کینسر ہے تو میں سمجھ سکتا ہوں کہ اس مرض میں سروائیوو کرنا کتنا مشکل ہے، لیکن جس طرح یووراج نے کم بیک کیا اور انڈیا کے لیے کھیلا یہ میرے لیے انتہائی دل چسپ تھا۔
٭آپ نے ایک کتاب بھی تحریر کی۔
انوپم کھیر: جی، لیکن میں کوئی پروفیشنل رائٹر نہیں، میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی میں کبھی 38فی صد سے زیادہ نمبر حاصل نہیں کیے، لیکن مجھے فخر ہے کہ میں نے کتاب لکھی اور اسے لوگوں نے پسند بھی کیا، کیوںکہ یہ کتاب زندگی کے بارے میں تھی۔ اس کے علاوہ اسے میں نے ہاتھوں سے لکھا کمپیوٹر پر نہیں۔
میں جہاں کہیں بھی ہوتا مثلاً کسی ہوٹل کی لابی میں، ایئر پورٹ پر یا پھر کسی فلم کے سیٹ پر میرے ہاتھ میں ڈائری ہوتی اور میں لکھنا شروع کر دیتا۔ جب آپ پبلشنگ کی پریشانی کے بغیر لکھتے ہیں تو اچھا ہی لکھا جاتا ہے (قہقہہ) زندگی کے ہر قدم پر کچھ نہ کچھ نیا دریافت ہوتا ہی رہتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ٹیچر ہر وقت کچھ نیا جاننے کی کھوج میں لگی رہتی ہے۔ میں اپنے طالب علموں کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے پاس ڈائری رکھیں اور ہر روز ڈائری لکھنے کی عادت بنائیں۔ الیکٹرونک آلات جیسے کمپیوٹر، اسمارٹ فونز وغیرہ نے آج کی نسل کو انجوائے منٹ اور خوشیوں کو محسوس کرنے والے لمحات سے دور کردیا ہے۔ میں آج بھی باقاعدگی سے ڈائری لکھتا ہوں۔
٭لیکن آپ سوشل میڈیا کا استعمال بھی تو کرتے ہیں؟
انوپم کھیر: جی ہاں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ میں ٹوئٹر کے ذریعے لوگوں سے رابطے میں رہتا ہوں اور ایسا کرنا مجھے اچھا لگتا ہے، کیوںکہ لوگوں کے بارے میں جان کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ دوسری طرف میں اسے اپنی رائے کے اظہار کا بہترین ذریعہ بھی سمجھتا ہوں۔ میں اس پر کسی بھی قسم کے سیاسی یا دوسرے کسی ایشو پر اپنی رائے کا اظہار کرنے سے نہیں ڈرتا۔
٭آپ نے اپنے شو میں جتنی بھی شخصیات کو مدعو کیا، ان میں زیادہ تر آپ کے دوست یا پھر وہ لوگ تھے جن کے ساتھ آپ کام کر چکے ہیں، تو کیا ان کے لیے آسان تھا کہ وہ آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنے حالات زندگی بیان کرتے؟
انوپم کھیر: ایسا کچھی بھی نہیں ہوتا تھا، کیوںکہ ہم سب ہی ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہوتے اس لیے بڑے آرام اور سکون سے وہ میرے سوالوں کے جواب دے دیا کرتے تھے۔ ویسے بھی لوگ فلمی شخصیات کے بارے میں تو چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جاننے کے شوقین ہوتے ہیں۔
٭آپ نے فلم انڈسٹری کے مختلف ڈائریکٹرز کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان میں سے کس کے ساتھ آپ کا سب سے اچھا تجربہ رہا ؟
انوپم کھیر: میں کرن جوہر، سبھاش گھئی اور یش چوپڑہ جیسے فلم میکرز کے ساتھ کام کر چکا ہوں۔ ان سب کے ساتھ ہی میری گریٹ کیمسٹری بنتی تھی۔ آج نیراج پانڈے جیسے ڈائریکٹرز جو فلموں میں روایت سے ہٹ کر تبدیلی لانے کے خواہش مند ہیں، ان کے ساتھ کام کرنا بھی میرے لیے اچھا تجربہ رہ۔ نیراج کے ساتھ میں پہلے فلم A Wednesdayکرچکا ہوں اور اب ان کے ساتھ فلم بے بی کی ہے۔
٭وہ کیا وجہ تھی جس کی بناء پر آپ نے فلم بے بی میں کام کیا ؟
انوپم کھیر: مجھے اچھے رول کرنا پسند ہیں اور اچھے لوگوں کے ساتھ کام کرنا بھی اچھا لگتا ہے۔ میں بہ حثیت اداکار اور انسان کبھی اپنے آپ کو سنجیدگی نہیں لیتا۔ بس آپ کو اپنا کام پوری ایمان داری کے ساتھ اچھا کرنے کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کسی دور میں یش راج فلمز میں اس لیے کام کرتا تھا کہ مجھے ان کہ لگائے ہوئے فلمی سیٹ بہت اچھے لگتے تھے۔ میں نے شاہ رخ کی کچھ فلموں میں گیسٹ اپیئرنس کا بور کام کیا، کیوںکہ میں شاہ رخ کو پسند کرتا ہوں میں نے فلم دبنگ میں اس لیے کام کیا کیوںکہ مجھے محسوس ہوا کہ یہ کردار مجھے ضرور کرنا چاہیے۔ میں جذبہ فلم بھی کر رہا ہوں، حالاںکہ اس کا اسکرپٹ غیرمعمولی نہیں، لیکن کیوںکہ میں نے ایک لمبے عرصہ سے سنجے گپتا کے ساتھ کام نہیں کیا، اس لیے میں یہ فلم کر رہا ہوں اور پھر اس فلم میں ایشوریا بھی تو ہیں تو پھر میں یہ فلم کیوں نہ کروں۔
٭آپ کی ایک فلم دعوت عشق میں آپ کا رول بہت زبردست تھا، لیکن آپ کے نزدیک اس فلم کی ناکامی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
انوپم کھیر: مجھے نہیں پتا کہ دعوت عشق کیوں ناکام ہوگئی۔ اس بارے میں سمجھنا واقعی مشکل ہے کہ ہٹ اور فلاپ کا کوئی فارمولا نہیں ہوتا، لیکن اس فلم کی وجہ سے مجھے ادیتہ رائے کپور کی صورت میں بہترین دوست ضرور مل گیا۔
٭آپ ایک ایسے ایکٹر ہیں جو اپنی عمر سے دگنی عمر کے رول کرنے پر کبھی نہیں شرمائے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آج کے اداکار اس چیز سے خوف زدہ ہیں؟
انوپم کھیر: میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ آج ایکٹر ز اولڈ رول کرنے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں نے اگر آج سے تیس سال پہلے فلم سراناش میں کام نہ کیا ہو تا تو آج یہاں نہ ہوتا کہ میں نے اپنی پہلی فلم میں ہی بوڑھے آدمی کا رول کیا تھا، کیوںکہ میرے پاس چوائس نہیں تھی۔ مجھے کام کی تلاش تھی نہ گھر تھا اور نہ ہی کھانے کو کچھ اس لیے یہ فلم کی لیکن مجھے فخر ہے کہ میں نے ایک بہترین فلم میں کام کیا اور کیوںکہ میرا تعلق تھیٹر سے بھی تھا تو اس لیے بھی اس فلم کے حوالے سے میں بہت خوش تھا۔
٭آپ ایک طویل عرصہ سے فلم انڈسٹری سے وابستہ ہیں کوئی ایسا کردار جس نے آپ کو جسمانی یا دماغی طور پر چیلینج کیا ہو؟
میں کسی بھی کردار کو معمولی نہیں سمجھتا، کیوںکہ ایسا کروں گا تو بہترین کام کیسے کر پاؤں گا کرداروں کی درجہ بندی ان کے حسن کو ماند کر دیتی ہے۔ میں پریم رتن دھن پاؤ میں بھی کام کر رہا ہوں مجھے اس فلم کے ڈائریکٹر سورج برجاٹیہ کے ساتھ کام کرنا پسند ہے اور میں ان سے یہ ہی کہتا ہوں کہ سر آپ سین اپنی مرضی سے کرائیں کیوںکہ میں اپنے کام کو مشکل نہیں بنا نا چاہتا۔ البتہ میں جہاں سمجھتا ہوں اپنے ڈائریکٹرز کو اپنے تخلیقی خیالات سے ضرور آگاہ کرتا ہوں، جو ان کے لیے قابل قبول ہوتے ہیں تو وہ ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔
٭کیا آپ اکشے کمار کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں جو انہوں نے فلم انڈسٹری میں بھائی چارے اور اتحاد کے خاتمے کے بارے میں کہی تھی؟
انوپم کھیر: جی میں اکشے کی اس بات سے سو فی صد متفق ہوں۔ مجھے خود بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہر کوئی یہاں تنہا ہے۔ کسی ایک کا دوسرے سے کوئی تعلق یا رابطہ نہیں رہتا۔ ہالی وڈ میں اس کے برعکس ہے۔ اس کا ذمے دار کسی حد تک ٹیکنالوجی کو بھی ٹھیرایا جاسکتا ہے۔ اس نے زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھی ختم کردیا ہے۔ اب دلیپ کمار اور دیو آنند یا امیتابھ بچن اور ونود کھنہ جیسی دوستی فلم انٖڈسٹری میں نظر نہیں آتی۔