ابراہیم گوٹھ سے ہارورڈ یونیورسٹی تک

اپنی ذہانت و محنت کے بل بوتے پر اس کا شمار سکول کی بہترین طالبات میں ہونے لگا

ایک نوجوان غریب لڑکی کی تعلیمی داستانِ جہد جس نے انسان دوست مددگاروں اور اپنی ماں کے سہارے معاشرے میں بلند مقام پا لیا ۔ فوٹو : فائل

یونانی مفکر ارسطو کا خوبصورت قول ہے ''انسان خوشحال ہو، تو تعلیم ایک زیور ہے، غریب ہو، تو اس کی پناہ گاہ!'' یہ منفرد بات تعلیم و علم کی اہمیت کو بخوبی اجاگر کرتی ہے۔ یہی وہ ہتھیار ہیں جن کی مدد سے پاکستان کی نوجوان نسل اپنی ہی نہیں ملک و قوم کی تقدیر بھی بدل سکتی ہے۔ اب انعم فاطمہ ہی کو لیجیے جس نے پچیس برس قبل نہایت غریب خاندان میں جنم لیا مگر اپنے شفیق اساتذہ کی رہنمائی، ماں کی مدد اور اپنی محنت و ذہانت کے باعث آج وہ معاشرے میں اعلیٰ مقام پر کھڑی ہے۔ یہ رتبہِ بلند اسے تعلیم ہی کے ذریعے ہی حاصل ہوا۔

انعم فاطمہ کراچی کے قریب واقع ایک بستی، ابراہیم گوٹھ میں پیدا ہوئی۔ اس کا باپ بہ حیثیت ڈرائیور نجی کمپنی میں ملازم تھا۔ ماں گھروں میں کام کاج کرتی یعنی ماسی تھی۔ دونوں میاں بیوی اتنا کمالیتے کہ اپنا اور اپنے پانچ بچوں کا پیٹ بھرسکیں۔ باپ بچوں کو پڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا، مگر ماں کی خواہش تھی کہ اس کے بچے پڑھ لکھ کر ''بابو'' بن جائیں۔ چناں چہ وہ اپنی سب سے بڑی بچی، انعم کو سرکاری سکول بھجوانے لگی۔سیکنڈری سکول میں صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی۔

ممکن تھا کہ انعم آٹھویں پاس کرکے گھر بیٹھ جاتی کہ اس کی قسمت سنوارنے ایک آسمانی مدد آن پہنچی۔ ہوا یہ کہ کراچی کی ایک سماجی تنظیم، ٹی سی ایف (دی سٹیزن فائونڈیشن) نے ابراہیم گوٹھ کے قریب ہی ایک ہائی سکول قائم کردیا۔ ایک تعلیم گھرانے میں کام کرتے ہوئے انعم کی ماں کو اس درس گاہ کا پتا چلا۔ لہٰذا اس نے بیٹی کو نئے سکول کی نویں جماعت میں داخل کرادیا۔

مگر یہ مرحلہ باآسانی طے نہیں ہوا۔ سکول گھر سے خاصا دور تھا اور باپ نہیں چاہتاتھا کہ بیٹی اتنی دور تنہا جائے آئے۔ مگر ماں انعم کو داخل کرانے پر بضد تھی۔ یہ مسئلہ بھی آڑے آیا کہ ٹرانسپورٹ اخراجات کہاں سے آئیں گے؟ سکول کی فیس تو چند روپے تھی، مگر بس کا خرچ محدود آمدن میں سے کیسے نکلتا؟ تب ماں نے ایک گھر اور پکڑلیا مگر بیٹی کو جاہل بنانا گوارا نہ کیا۔ پاکستان میں سیکڑوں والدین اپنا بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے ایسی ہی بے مثال قربانیاں دیتے ہیں۔ یہ ہماری قوم کے حقیقی غیر معروف اورخاموش (Unsung) ہیرو ہیں۔



ٹی سی ایف سکول پہنچ کر انعم ایک نئے جہان سے متعارف ہوئی۔ ٹی سی ایف سکول میں تمام استانیاں نہایت ذمے داری سے طالبات کو تعلیم دیتیں، نتیجتاً فطری طور پر کم ذہین اور سست لڑکیاں بھی کچھ نہ کچھ سیکھ لیتیں۔ اس سکول میں پہنچ کر انعم کے جوہر کھلے۔ اپنی ذہانت و محنت کے بل بوتے پر اس کا شمار سکول کی بہترین طالبات میں ہونے لگا۔ انعم کو اپنے خاندان میں میٹرک کرنے والی لڑکی بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہی نہیں، اس نے امتحان میں اتنے شاندار نمبر لیے کہ اسے ایک اچھے کالج میں داخلہ مل گیا۔


خاص بات یہ کہ ٹی سی ایف نے اس غریب لڑکی کو آگے بڑھنے کے لیے بھر پور موقع دیئے اور ہر قدم پر اس کی مالی مدد کرتی رہی۔ انعم نے انٹر بھی شاندار نمبروں سے پاس کیا۔ چناں چہ اسے کراچی میں اعلیٰ تعلیم دینے والے مشہور ادارے انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ میں داخلہ مل گیا۔ وہاں اس نے ایم بی اے میں داخلہ لیا۔

اس تعلیمی ادارے میں بھی انعم نے کمال مہارت سے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا اور خوب لگن سے پڑھائی کرکے خاص و عام سے داد سمیٹی۔ دو سال پہلے اس لڑکی پر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا۔ انعم کو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک، ہارورڈ یونیورسٹی (امریکا)کے سمر سکول میں تین ماہ تک تعلیم پانے کا سنہرا موقع ملا۔ یوں ایک غریب بستی، ابراہیم گوٹھ کی باسی دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں جاپہنچی۔ یہ انقلاب اللہ تعالیٰ کے کرم، اپنی جدوجہد اور انسان دوست مددگاروں کے ذریعے ہی رونما ہوا۔

انعم بتاتی ہے ''جب میں نے ابا کو بتایا، میں ہارورڈ جارہی ہوں، تو وہ کہنے لگے، ارے یہ کون سی جگہ ہے؟ بعد ازاں انہوں نے اپنے باس سے اس کی بابت پوچھا۔ باس تو اچھل پڑے اور اپنے ڈرائیور کو مبارک باد دی کہ اس کی بیٹی کو ایسا بڑا اعزاز نصیب ہوا۔ تب ابا نے جانا کہ ان کی بیٹی نے اہم کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے دعائیں دیں۔''

انعم کی خواہش ہے کہ وہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کوئی عمدہ ملازمت کرے اور ماں باپ کا بڑھاپا ایسے گزرے کہ انھیں ہر آسائش میسر ہو۔ ساتھ ساتھ وہ تا عمر اپنی مادر علمی، ٹی سی ایف کی مدد کرنا چاہتی ہے۔

اسی ادارے نے بیکس انعم کی انگلی تھامی اور اسے چلنا پھرنا، بھاگنا سکھایا۔ یہ ادارہ محض انعم کی سرپرست نہیں بلکہ پاکستان بھر میں لاکھوں غریب بچوں کی زندگیاں بدلنے میں محو ہے۔ دی سٹیزن فائونڈیشن کی بنیاد کراچی میں 1995ء میں ان حساس و درد مند مخیر پاکستانیوں نے رکھی جو اپنے دیس میں تعلیم کی حالت زار پر دل گرفتہ و پریشان تھے۔ ان پاکستانیوں نے پھر عزم کیا ، پاکستان بھر میں خصوصاً کچی اور غریب آبادیوں کے نزدیک پہلی تا دسویں جماعت تک معیاری تعلیم دینے والے ایسے اسکول تعمیر کیے جائیں جہاں فیس کم سے کم ہو تاکہ غربا کے بچے داخلہ لے سکیں۔ ان اسکولوں میں عموماً کتابیں کاپیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

بیس سال قبل مٹھی بھر دردمند پاکستانیوں نے جو خواب دیکھا تھا، وہ آج عظیم الشان طریقے سے عملی تعبیر میں ڈھل چکا۔ اس وقت ٹی سی ایف پورے پاکستان میں ''1065'' سکول کھول چکی جن میں ''ایک لاکھ پینسٹھ ہزار'' بچے بچیاں زیر تعلیم ہیں۔ تنظیم صنف نسواں کو بڑھوتری و ترقی کے بھر پور مواقع دیتی ہے۔ اسی لیے سکول میں ''50 فیصد'' لڑکیوں ہی کو داخلہ ملتا ہے۔ بیشتر اسکولوں میں ماہانہ فیس صرف ''10 روپے'' ہے جبکہ اپنے بچے کو تعلیم دلوانے پر ایک غریب خاندان کا ماہانہ خرچ عموماً ''30 روپے'' اٹھتا ہے۔

اتنے کم خرچ کے باوجود ٹی سی ایف اسکول ہر سہولت و آسائش سے محروم بچوں کو یہ سنہرا موقع عطا کرتا ہے کہ وہ بذریعہ تعلیم خود کو ڈاکٹر، انجینئر اور استاد کے روپ میں بدلیں اور اپنی زندگیاں سنوار لیں۔ ٹی سی ایف کے بانیوں کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی ذاتی تشہیر ضروری نہیں سمجھی۔ ورنہ پاکستان میں رواج ہے کہ کوئی سماجی رہنما ذرا مشہور ہوجائے تو اسے اپنی مشہوری کرانے کا چسکا لگ جاتا ہے۔ ٹی سی ایف کے بانی اس روش میں گرفتار نہیں ہوئے۔ شاید وہ پاکستان اور مصیبت زدہ ہم وطنوں کی خدمت کو کسی قسم کا احسان نہیں بلکہ اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں اور داد کے طلب گار نہیں!
Load Next Story