الطاف حسین کا خطاب…قابل غور باتیں
قوم فیصلہ کرے کہ اسے طالبان کا پاکستان چاہیے یا قائداعظم کا، الطاف حسین
BIRMINGHAM:
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اتوار کو سوات میں ملالہ یوسف زئی' کائنات اور شازیہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کے اجتماعات سے بیک وقت ٹیلی فونک خطاب کیا۔
اپنے خطاب میں انھوں نے ان بچیوں پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی۔ان کے خطاب کا سب سے اہم نکتہ پاک فوج کو یہ کہنا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف کارروائی کرے ، اس معاملے میں ایم کیوایم ان کا ساتھ دے گی، انھوں نے مزید کہا کہ صرف ایم کیو ایم ہی نہیں اٹھارہ کروڑ عوام بھی پاک فوج کا ساتھ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم کی بیٹیوں پر طالبان کے حملے کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔انھوں نے کہا کہ اس واقعے پر بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی خاموشی پر انھیںحیرت ہے۔ طالبان کے خلاف پوری قوم کو سر پر کفن باندھ کر نکلنا ہو گا' قوم فیصلہ کرے کہ اسے طالبان کا پاکستان چاہیے یا قائداعظم کا۔انھوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اپیل کی کہ وہ ملالہ' کائنات اور شازیہ پر قاتلانہ حملے کا از خود نوٹس لیں۔ انھوں نے میاں نواز شریف' چو دھری شجاعت حسین' اسفند یار ولی اور دیگر سیاستدانوںسے کہا کہ وہ ملک بچانے کے لیے ایک نکتے پر جمع ہو جائیں۔
الطاف حسین نے ملالہ یوسف زئی کو ''قوم کی بیٹی'' کا خطاب دیا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سندھ کے شہر سکھر میں اسلام زندہ باد کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس میں انھوں نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کے معاملے کو ہوا دے کر کسی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔ ملک میں کچھ طاقتیں نئے آپریشن کی تیاریاں کر رہی ہیں۔انھوں نے خارجہ تعلقات کے حوالے سے کہا کہ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کرنا ہو گی' حکومت کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں' امریکی اشارے پر پالیسیاں بنائی اور ختم کی جاتی ہیں' موجودہ حکمراں نااہل ہیں۔
ایک طرف یہ گرما گرم تقریریں ہو رہی تھیں تو دوسری طرف پشاور میں ایک پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا' اخباری اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد سیکڑوں میں تھی' اس واردات میں ایک ایس پی اپنے چار گن مینوں سمیت جاں بحق ہوا جب کہ 2 اہلکار زخمی ہوئے' حملہ آور قبائلی علاقے کی طرف فرار ہو گئے۔
ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد پاکستان کی سیاست ایک ہنگامہ خیز دور میں داخل ہوگئی ہے۔ طالبان نے اس قاتلانہ حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے، اس لیے حکومت، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔اسی تناظر میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کی باتیں سامنے آنے لگیں۔فوج اس حوالے سے اپنا موقف دے چکی ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔یہ بات درست بھی ہے۔سوات اور جنوبی وزیرستان میں جو آپریشن ہوا، اس کی منظوری حکومت نے ہی دی تھی۔الطاف حسین کے خطاب سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے شمالی وزیرستان کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اور دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کے خطاب سے یہ اشارہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حق میں نہیں ہیں۔
اس حقیقت کو بھی ماننا پڑے گا کہ ہماری بعض مذہبی جماعتوں نے ملالہ پر ہونے والے حملے پر مشروط قسم کا ردعمل ظاہر کیا جسے شاید ملک کے عوامی حلقوں نے زیادہ پسند نہیں کیا،بہرحال شمالی وزیرستان میں آپریشن ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، اس کا فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے اور وہ جب مناسب سمجھے گی ، اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرلے گی۔ملک کی صورتحال پر غور کریں تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان کثیرالجہتی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔دہشت گرد ایک مظہر ہے تو بلوچستان میں جاری گڑبڑ دوسرا مظہرہے، تیسرا فیکٹر جرائم پیشہ اور بھتہ مافیا ہے جو کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں سرگرم ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ان تمام مظاہر اور فیکٹرز کے درمیان ایک تعلق یا رشتہ قائم ہوگیا ہے جوریاست کی بنیادیں کھوکھلی کررہا ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغان جنگ کی باقیات پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات بگاڑنے میں ان باقیات کا اہم کردار ہے ورنہ بطور ریاست پاکستان کا امریکا یا مغربی یورپ سے کوئی ٹکرائو نہیں ہے۔ پاکستان اب اس موڑ پر آ گیا ہے' جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ ریاست کے معاملات نان اسٹیٹ ایکٹرز یا افغان جنگ کی باقیات نے چلانے ہیں یا آئین و قانون کے مطابق اختیارات رکھنے والے ریاستی اداروں اور شخصیات نے چلانے ہیں۔ طالبان نے پہلے سوات پر کنٹرول قائم کیا۔ جو قوتیں طالبان کی معاون ومدگار بنیں، ملک کے حساس اداروں کو ان کا یقیناً علم ہوگا۔
جنوبی وزیرستان میں بھی طالبان کا کنٹرول قائم ہوا۔ بیت اللہ محسود کے دور میں یہ علاقہ پاکستان کے لیے نو گو ایریا بن گیا تھا۔پھر سوات اور جنوبی وزیرستان میں پاک فوج نے آپریشن کیا اور یہاں سے باغیوں کا کنٹرول ختم کرکے ریاست کی رٹ کو بحال کیا۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں اور شخصیات کھل کر افغان جنگ کی باقیات یا نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کھل کر حمایت کررہی ہیں۔پاکستان کے قبائلی علاقے جہاں ریاست کی رٹ نہیں ہے' وہاں اگر ریاست اپنی عملدرآمد کے لیے حرکت میں آئے تو ایک مخصوص گروہ اس کی مخالفت کرتا ہے۔ یہی گروہ دوسری سانس میں ڈرون حملوں کو پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر حملہ قرار دیتا ہے۔
یہ دو عملی کی بدترین مثال ہے' اگر شمالی و جنوبی وزیرستان یا کوئی دوسرا قبائلی علاقہ پاکستان کا حصہ ہے تو ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ ان علاقوں میں آئین و قانون کی رٹ نافذ کرے۔ ان علاقوں میں پناہ گزین شرپسندوں' جرائم پیشہ گروہوں اور اینٹی ٹیسٹ عناصر کی بیخ کنی کرے۔اس پر کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور طالبان اپنی کارروائیوں سے نہ صرف بے گناہ افراد کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں بلکہ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کر رہے ہیں۔پاکستان کو بچانے کے لیے ان کا محاسبہ کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں مدارس کی اسکرونٹی پر اعتراض یا تحفظات کی اس لیے کوئی قانونی اور اخلاقی اہمیت نہیں کہ جب ملک میں نجی سطح پر کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا جاتا ہے تو اس کا ایک قانونی طریقہ کار ہے۔
اس تعلیمی ادارے کا نصاب بھی منظور شدہ ہوتا ہے،حسابات کا آڈٹ بھی کیا جاسکتا ہے توکسی دینی مدرسے کے قیام کو آئین و قانون کے دائرے میں کیوں نہیں لایا جانا چاہیے' جو لوگ مدارس کی اسکرونٹی یا آڈٹ پر اعتراض کر رہے ہیں تو ان کا طرز عمل بھی ان حساس اداروں جیسا ہے جو اپنے حسابات کا آڈٹ نہیں کراتے اور اپنے اخراجات کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں'اس قسم کے موقف کو درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ بہرحال ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے خطاب میں جو مطالبہ کیا' وہ قابل غور ہے' پیپلز پارٹی' مسلم لیگ ن' ق لیگ اور اے این پی کو اس معاملے میں متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر مصلحتوں اور تعلقات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا ' پاکستان اگر نان اسٹیٹ ایکٹرز پر قابو پا لیتا ہے تو بلوچستان کا مسئلہ بھی خود بخود ختم ہو جائے گا اور پاکستان عالمی تنہائی سے بھی باہر آ جائے گا۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے اتوار کو سوات میں ملالہ یوسف زئی' کائنات اور شازیہ پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنے کارکنوں اور ہمدردوں کے اجتماعات سے بیک وقت ٹیلی فونک خطاب کیا۔
اپنے خطاب میں انھوں نے ان بچیوں پر قاتلانہ حملے کی شدید مذمت کی۔ان کے خطاب کا سب سے اہم نکتہ پاک فوج کو یہ کہنا ہے کہ وہ طالبان کے خلاف کارروائی کرے ، اس معاملے میں ایم کیوایم ان کا ساتھ دے گی، انھوں نے مزید کہا کہ صرف ایم کیو ایم ہی نہیں اٹھارہ کروڑ عوام بھی پاک فوج کا ساتھ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم کی بیٹیوں پر طالبان کے حملے کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔انھوں نے کہا کہ اس واقعے پر بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی خاموشی پر انھیںحیرت ہے۔ طالبان کے خلاف پوری قوم کو سر پر کفن باندھ کر نکلنا ہو گا' قوم فیصلہ کرے کہ اسے طالبان کا پاکستان چاہیے یا قائداعظم کا۔انھوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے اپیل کی کہ وہ ملالہ' کائنات اور شازیہ پر قاتلانہ حملے کا از خود نوٹس لیں۔ انھوں نے میاں نواز شریف' چو دھری شجاعت حسین' اسفند یار ولی اور دیگر سیاستدانوںسے کہا کہ وہ ملک بچانے کے لیے ایک نکتے پر جمع ہو جائیں۔
الطاف حسین نے ملالہ یوسف زئی کو ''قوم کی بیٹی'' کا خطاب دیا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سندھ کے شہر سکھر میں اسلام زندہ باد کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس میں انھوں نے کہا کہ ملالہ یوسفزئی پر حملے کے معاملے کو ہوا دے کر کسی آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے۔ ملک میں کچھ طاقتیں نئے آپریشن کی تیاریاں کر رہی ہیں۔انھوں نے خارجہ تعلقات کے حوالے سے کہا کہ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کرنا ہو گی' حکومت کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں' امریکی اشارے پر پالیسیاں بنائی اور ختم کی جاتی ہیں' موجودہ حکمراں نااہل ہیں۔
ایک طرف یہ گرما گرم تقریریں ہو رہی تھیں تو دوسری طرف پشاور میں ایک پولیس چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا' اخباری اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد سیکڑوں میں تھی' اس واردات میں ایک ایس پی اپنے چار گن مینوں سمیت جاں بحق ہوا جب کہ 2 اہلکار زخمی ہوئے' حملہ آور قبائلی علاقے کی طرف فرار ہو گئے۔
ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے بعد پاکستان کی سیاست ایک ہنگامہ خیز دور میں داخل ہوگئی ہے۔ طالبان نے اس قاتلانہ حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے، اس لیے حکومت، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے اس پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔اسی تناظر میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کی باتیں سامنے آنے لگیں۔فوج اس حوالے سے اپنا موقف دے چکی ہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔یہ بات درست بھی ہے۔سوات اور جنوبی وزیرستان میں جو آپریشن ہوا، اس کی منظوری حکومت نے ہی دی تھی۔الطاف حسین کے خطاب سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے شمالی وزیرستان کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اور دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کے خطاب سے یہ اشارہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حق میں نہیں ہیں۔
اس حقیقت کو بھی ماننا پڑے گا کہ ہماری بعض مذہبی جماعتوں نے ملالہ پر ہونے والے حملے پر مشروط قسم کا ردعمل ظاہر کیا جسے شاید ملک کے عوامی حلقوں نے زیادہ پسند نہیں کیا،بہرحال شمالی وزیرستان میں آپریشن ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے، اس کا فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے اور وہ جب مناسب سمجھے گی ، اس کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرلے گی۔ملک کی صورتحال پر غور کریں تو یہ لگتا ہے کہ پاکستان کثیرالجہتی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔دہشت گرد ایک مظہر ہے تو بلوچستان میں جاری گڑبڑ دوسرا مظہرہے، تیسرا فیکٹر جرائم پیشہ اور بھتہ مافیا ہے جو کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں سرگرم ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ان تمام مظاہر اور فیکٹرز کے درمیان ایک تعلق یا رشتہ قائم ہوگیا ہے جوریاست کی بنیادیں کھوکھلی کررہا ہے۔
یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ افغان جنگ کی باقیات پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود ہیں۔ امریکا اور پاکستان کے تعلقات بگاڑنے میں ان باقیات کا اہم کردار ہے ورنہ بطور ریاست پاکستان کا امریکا یا مغربی یورپ سے کوئی ٹکرائو نہیں ہے۔ پاکستان اب اس موڑ پر آ گیا ہے' جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ ریاست کے معاملات نان اسٹیٹ ایکٹرز یا افغان جنگ کی باقیات نے چلانے ہیں یا آئین و قانون کے مطابق اختیارات رکھنے والے ریاستی اداروں اور شخصیات نے چلانے ہیں۔ طالبان نے پہلے سوات پر کنٹرول قائم کیا۔ جو قوتیں طالبان کی معاون ومدگار بنیں، ملک کے حساس اداروں کو ان کا یقیناً علم ہوگا۔
جنوبی وزیرستان میں بھی طالبان کا کنٹرول قائم ہوا۔ بیت اللہ محسود کے دور میں یہ علاقہ پاکستان کے لیے نو گو ایریا بن گیا تھا۔پھر سوات اور جنوبی وزیرستان میں پاک فوج نے آپریشن کیا اور یہاں سے باغیوں کا کنٹرول ختم کرکے ریاست کی رٹ کو بحال کیا۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں اور شخصیات کھل کر افغان جنگ کی باقیات یا نان اسٹیٹ ایکٹرز کی کھل کر حمایت کررہی ہیں۔پاکستان کے قبائلی علاقے جہاں ریاست کی رٹ نہیں ہے' وہاں اگر ریاست اپنی عملدرآمد کے لیے حرکت میں آئے تو ایک مخصوص گروہ اس کی مخالفت کرتا ہے۔ یہی گروہ دوسری سانس میں ڈرون حملوں کو پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر حملہ قرار دیتا ہے۔
یہ دو عملی کی بدترین مثال ہے' اگر شمالی و جنوبی وزیرستان یا کوئی دوسرا قبائلی علاقہ پاکستان کا حصہ ہے تو ریاست کو حق حاصل ہے کہ وہ ان علاقوں میں آئین و قانون کی رٹ نافذ کرے۔ ان علاقوں میں پناہ گزین شرپسندوں' جرائم پیشہ گروہوں اور اینٹی ٹیسٹ عناصر کی بیخ کنی کرے۔اس پر کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز اور طالبان اپنی کارروائیوں سے نہ صرف بے گناہ افراد کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں بلکہ پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا کر رہے ہیں۔پاکستان کو بچانے کے لیے ان کا محاسبہ کیا جانا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان میں مدارس کی اسکرونٹی پر اعتراض یا تحفظات کی اس لیے کوئی قانونی اور اخلاقی اہمیت نہیں کہ جب ملک میں نجی سطح پر کوئی تعلیمی ادارہ قائم کیا جاتا ہے تو اس کا ایک قانونی طریقہ کار ہے۔
اس تعلیمی ادارے کا نصاب بھی منظور شدہ ہوتا ہے،حسابات کا آڈٹ بھی کیا جاسکتا ہے توکسی دینی مدرسے کے قیام کو آئین و قانون کے دائرے میں کیوں نہیں لایا جانا چاہیے' جو لوگ مدارس کی اسکرونٹی یا آڈٹ پر اعتراض کر رہے ہیں تو ان کا طرز عمل بھی ان حساس اداروں جیسا ہے جو اپنے حسابات کا آڈٹ نہیں کراتے اور اپنے اخراجات کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں'اس قسم کے موقف کو درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔ بہرحال ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے خطاب میں جو مطالبہ کیا' وہ قابل غور ہے' پیپلز پارٹی' مسلم لیگ ن' ق لیگ اور اے این پی کو اس معاملے میں متفقہ موقف اپنانا چاہیے۔ پاکستان نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر مصلحتوں اور تعلقات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا ' پاکستان اگر نان اسٹیٹ ایکٹرز پر قابو پا لیتا ہے تو بلوچستان کا مسئلہ بھی خود بخود ختم ہو جائے گا اور پاکستان عالمی تنہائی سے بھی باہر آ جائے گا۔