ٹیکس نیٹ اور امیر طبقہ

شہریوں کی ایک بڑی تعداد اپنی استعداد کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتی


Editorial October 15, 2012
پاکستان میں امیر طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بڑے فیصلے کر لیے ہیں جن پر آیندہ چند ہفتوں میں عملدرآمد ہو جائے گا. فوٹو: فائل

لاہور: وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے ٹوکیو میں کہا ہے کہ دس لاکھ امیر ٹیکس نیٹ میں آ جائیں تو ملک کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں امیر طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بڑے فیصلے کر لیے ہیں جن پر آیندہ چند ہفتوں میں عملدرآمد ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کے لیے قانون سازی بھی کرنی پڑی تو کی جائے گی۔ پاکستان شدید معاشی مسائل کا شکار ہے۔ بجٹ مسلسل خسارے میں چلا آ رہا ہے جسے پورا کرنے کی کوشش میں بیرون ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے خطیر امداد حاصل کی جاتی ہے۔ حکومت کی آمدن کا اصل ذریعہ اندرون ملک وصول ہونے والے ٹیکس ہیں۔ امرا کا ایک بڑا طبقہ ٹیکس ادائیگی سے گریز کرتا ہے۔ وزیر خزانہ نے درست نشاندہی کی ہے کہ ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے مزید 10 لاکھ امرا کو ٹیکس نیٹ میں لانا پڑے گا۔ شہریوں کی ایک بڑی تعداد اپنی استعداد کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتی بلکہ سرکاری اہلکاروں کے تعاون سے ٹیکس چوری کی قبیح عادت میں ملوث ہے۔

بعض سرکاری اہلکار بھی اس طبقے کو ٹیکس چوری کے خفیہ راستوں سے آگاہ کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ کو اس جانب بھی اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے اربوں روپے کی ٹیکس چوری اور قومی خزانے میں جمع ہونے کے بجائے سرکاری اہلکاروں کی جیب میں جانے والی رقم کے راستے بھی مسدود کرنا ہوں گے۔ یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ایوانوںمیں موجود فاٹا کے منتخب ارکان ٹیکس سے مبرا چلے آ رہے ہیں' بلوچستان کے قبائلی سردار بھی ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔اس طبقے سے ٹیکس تو ایک طرف یوٹیلٹی بلوں کی وصولی بھی نہیں ہوتی ۔ سندھ کے وڈیرے اور گدی نشین بھی ٹیکس نامی چیز سے ناواقف ہی چلے آ رہے ہیں۔ پنجاب کے سرائیکی علاقے کے جاگیردار اور گدی نشین بھی ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

سینیٹ' قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان کے گوشواروں' جو انھوں نے الیکشن کمیشن میں جمع کرا رکھے ہیں' کی جانچ پڑتال کی جائے تو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی کے نعرے لگا کر پاکستان پر حکمرانی کرنے والے یہ افراد ٹیکس کی مد میں کتنی رقم جمع کراتے اور سہولیات کی مد میں قومی خزانے سے کتنی رقم ہڑپ کر جاتے ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں کاروباری طبقہ' پروفیشنل' وکلا' انجینئر' ڈاکٹر' سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ہی براہ راست ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اشیاء صرف پر عائد جنرل سیلز ٹیکس' پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکس، درآمدات پر عائد کسٹم ڈیوٹی اور یوٹیلٹی بلوں میں شامل ٹیکس بھی بالواسطہ طور پر عوام کی جیبوں ہی سے وصول کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان کی معاشی پسماندگی کی بنیادی وجہ حکمران طبقے' قبائلی سردار' گدی نشین اور دیہی خطے سے وابستہ امرا کا ٹیکس نیٹ سے باہر ہونا ہے۔ پرتعیش زندگی کے مزے لوٹنے والے بڑے بڑے سیاستدان بارہا برملا اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ چند ہزار روپے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ دریں اثناء امرا کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جس نے اپنی آمدنی چھپانے اور ٹیکس کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ٹرسٹ بنا رکھے ہیں۔ وزیر خزانہ مندرجہ بالا طبقات کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے پر توجہ دیں اور اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کریں تو پاکستان کی پسماندگی اور غربت پر بآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔ ہر بار عوام ہی کو قربانی کا بکرا بنانے سے بات نہیں بنے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں