’’اپنے وطن میں اجنبی‘‘
جب تک ہم اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہوتے، ہم آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے
وہ 'پاکستانی' جن کی آل اولاد ملک سے باہر کسی دوسرے ملک میں شاد و آباد ہے۔
جن کی مال و دولت کسی دوسرے ملک کے بینکوں میں محفوظ اور خراٹے لے رہی ہے اور جو خود پاکستان میں اس لیے مقیم ہیں کہ صرف اسی نادان ملک میں ان کو اعلیٰ عہدے مل سکتے ہیں۔ وہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن بن سکتے ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ ، وزیر اور وزیراعظم بن سکتے ہیں اور حکمرانی کے مفت میں مزے لے سکتے ہیں اور اس سب کے باوجود کوئی ان کی باز پرس کرنے والا نہیں کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں اور کیا پاکستان میں کبھی پیدا ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس ملک کو لوٹو اور اپنا سب کچھ آل اولاد سمیت ملک سے باہر رکھو تاکہ وہ ہر خطرے سے مطمئن اور محفوظ رہے اور غیر ملک میں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
یہاں تو یہ تک بھی ہوا کہ کوئی صاحب کسی کاروبار یا کسی دوسرے سلسلے میں پاکستان آئے، وہ کسی حکمران کو اپنے لیے مفید اور اچھے لگے تو وزیراعظم تک بنا دیے گئے، ایسے ہی جیسے کسی ملک کا بادشاہ مر گیا تو نئے بادشاہ کے لیے تنازع پیدا ہو گیا کیونکہ کوئی اس کا وارث نہیں تھا چنانچہ درباریوں نے بالآخر یہ حل نکالا کہ اچھا یوں کرتے ہیں کہ کل صبح شہر کے صدر دروازے سے جو کوئی بھی اندر داخل ہو گا ،وہ ہمارا بادشاہ ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ایک گداگر جو صدر دروازے سے داخل ہونے والا پہلا شخص تھا،بادشاہ بن گیا، اس نے حیرت زدہ ہو کر بادشاہت سنبھالی اور پہلا حکم یہ دیا کہ حلوہ پکائو چنانچہ دیگیں چڑھا دی گئیں۔
حلوہ پک گیا اور بادشاہ سمیت سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ دوسرے دن بادشاہ نے پھر ایک ایسا ہی حکم دیا اور اس طرح جب کئی دن تک ایسے ہی کھانے پینے کے حکم جاری ہوتے رہے تو پڑوس کی حکومتوں نے یہ حالت دیکھ کر اس ملک پر قبضہ کرنے کا سوچا اور چڑھائی کر دی۔ بادشاہ کو جب حملے کی اطلاع دی گئی تو اس نے نیا حکم دیا کہ میرا تھیلا 'بریف کیس' لے آئو جو بادشاہ بننے کے وقت میرے پاس تھا چنانچہ تھیلا لایا گیا، بادشاہ نے تخت سے اٹھ کر اس تھیلے کو گلے میں ڈالا اور درباریوں کو الوداع کہہ کر جس دروازے سے شہر میں داخل ہوا تھا، اسی سے باہر نکل گیا۔ آج کے دور میں یوں کہیں کہ وہ اس بریف کیس سمیت ملک سے باہر کے جس ملک سے آیا تھا واپس ادھر چلا گیا۔ اب اس گداگر کا یہ بریف کیس بھرا ہوا تھا اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔ ہمارے ہاں بریف کیس والے ایک سے زیادہ ایسے بادشاہ ہو گزرے ہیں۔ شاید آج بھی مل جائیں۔
میں انھی 'اجنبی' پاکستانیوں کا ذکر کر رہا ہوں جن کا یوں تو اس ملک سے برائے نام اور محض پیدائشی تعلق ہے مگر وہ اس ملک پر قابض ہیں، اس کے مالک بنے ہوئے ہیں، ان دنوں الیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں، کوئی پوچھے کہ متوقع امیدواروں میں سے کتنے حق سچ کے پاکستانی ہیں، جن کی اولاد اور جن کی مال و دولت اس ملک میں ہے۔ ان کا کوئی بیٹا باہر کاروبار نہیں کرتا یا ملک سے باہر مقیم نہیں یعنی باہر کے کسی ملک کا شہری نہیں اور وہ شخص اندر باہر سے سچا اور کھرا پاکستانی ہے مگر جواب یہ ہے کہ بدقسمتی سے ایسے کئی لیڈر صحیح پاکستانی نہیں ہیں۔
اگر آپ کاحافظہ کمزور نہیں ہے تو آپ ان خبروں کو یاد کریں جن میں ایسے انکشاف کیے جاتے رہے ہیں اور جن کی تردید نہیں کی گئی کیونکہ دن کے سورج کی کون تردید کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے بڑے طبقے کی ایک صحیح نمایندہ خاتون کا بیان چھپا ہے، اسے آپ گھر کی گواہی سمجھیں۔ پاکستان کی سابق سفیر وفاقی وزیر اور جھنگ کے ایک اونچے سیاسی خاندان کی وارث بیگم عابدہ حسین صاحبہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان ان ملکوں کو دیکھ کر اپنی خارجہ پالیسی بناتا ہے جو اسے ڈیفالٹ ہونے سے بچاتے ہیں اور قرضہ دیتے ہیں۔
جب تک ہم اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہوتے، ہم آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے۔ بیگم صاحبہ نے کہا کہ جن کے بچے اور اثاثے ملک سے باہر ہیں، ان کے الیکشن لڑنے پر پابندی ہونی چاہیے جو لوگ مخدوم کہلاتے ہیں، انھوں نے ملک اور قوم کو کچھ نہیں دیا ،صرف خدمت کرائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں اور میرے شوہر جناب فخر امام اپنے حلقوں سے الیکشن لڑیں گے اور مجھے کوئی ٹکٹ دے نہ دے فیصل حیات کے خلاف ضرور الیکشن لڑوں گی۔
دونوں میاں بیوی جو پائے کے سیاستدان ہیں قطعاً بے داغ کردار کے مالک ہیں اور اصولوں کے لیے قربانی پر تیار رہتے ہیں۔ میں خود اس کا گواہ ہوں کہ جناب فخر امام نے ضیاء الحق کی ناراضی مول لے کر ملتان کی قیادت سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ وہ ایک جگہ سے الیکشن ہار گئے تھے، ان کی بیگم صاحبہ ایک مدت سے سیاست میں ہیں اور انھوں نے صاف ستھری سیاست کی ہے۔ میں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ پہلی بار پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں، ان کے والد ماجد سید عابد حسین سے میری نیاز مندی تھی۔ بیگم صاحبہ نے اپنے بڑے باپ کی عزت پر آنچ نہیں آنے دی۔
اب ان کی تیسری نسل سیاست میں ہے۔ اس وقت میں ان کی ان باتوں کو اپنی تائید میں نقل کر رہا ہوں کہ جن لوگوں کا سب کچھ یعنی مال و دولت اور اولاد ملک سے باہر ہے، ان کو کسی حال میں بھی الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ الیکشن کمیشن یہ کام کر سکتا ہے یا سپریم کورٹ دونوں ادارے قاعدوں کے پابند ہیں لیکن پاکستان کے عوام سے پوچھیں تو وہ ایسے لوگوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت تو بڑی بات ہے ان کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ آخر ایسے لوگوں کا اس ملک پر کیا حق ہے۔ ہماری سیاست کا یہ ایک افسوسناک پہلو تھا جس کی نشاندہی کی ضرورت تھی اور عوام تک یہ بات پہنچانی تھی کہ وہ غلط لوگوں کو ووٹ دے کر بعد میں رونا پیٹنا شروع نہ کر دیں کہ اب کوئی ان کی سنتا نہیں اور ان کا ممبر ان کو کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ جب اس کا کام نکل گیا تو وہ کیوں دستیاب ہو کیونکہ وہ اس پاکستان کے ساتھ کوئی جذباتی تعلق نہیں رکھتا۔ وہ تو اپنے وطن میں ایک اجنبی ہے۔
جن کی مال و دولت کسی دوسرے ملک کے بینکوں میں محفوظ اور خراٹے لے رہی ہے اور جو خود پاکستان میں اس لیے مقیم ہیں کہ صرف اسی نادان ملک میں ان کو اعلیٰ عہدے مل سکتے ہیں۔ وہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے رکن بن سکتے ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ ، وزیر اور وزیراعظم بن سکتے ہیں اور حکمرانی کے مفت میں مزے لے سکتے ہیں اور اس سب کے باوجود کوئی ان کی باز پرس کرنے والا نہیں کہ آپ کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں اور کیا پاکستان میں کبھی پیدا ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس ملک کو لوٹو اور اپنا سب کچھ آل اولاد سمیت ملک سے باہر رکھو تاکہ وہ ہر خطرے سے مطمئن اور محفوظ رہے اور غیر ملک میں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔
یہاں تو یہ تک بھی ہوا کہ کوئی صاحب کسی کاروبار یا کسی دوسرے سلسلے میں پاکستان آئے، وہ کسی حکمران کو اپنے لیے مفید اور اچھے لگے تو وزیراعظم تک بنا دیے گئے، ایسے ہی جیسے کسی ملک کا بادشاہ مر گیا تو نئے بادشاہ کے لیے تنازع پیدا ہو گیا کیونکہ کوئی اس کا وارث نہیں تھا چنانچہ درباریوں نے بالآخر یہ حل نکالا کہ اچھا یوں کرتے ہیں کہ کل صبح شہر کے صدر دروازے سے جو کوئی بھی اندر داخل ہو گا ،وہ ہمارا بادشاہ ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ایک گداگر جو صدر دروازے سے داخل ہونے والا پہلا شخص تھا،بادشاہ بن گیا، اس نے حیرت زدہ ہو کر بادشاہت سنبھالی اور پہلا حکم یہ دیا کہ حلوہ پکائو چنانچہ دیگیں چڑھا دی گئیں۔
حلوہ پک گیا اور بادشاہ سمیت سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ دوسرے دن بادشاہ نے پھر ایک ایسا ہی حکم دیا اور اس طرح جب کئی دن تک ایسے ہی کھانے پینے کے حکم جاری ہوتے رہے تو پڑوس کی حکومتوں نے یہ حالت دیکھ کر اس ملک پر قبضہ کرنے کا سوچا اور چڑھائی کر دی۔ بادشاہ کو جب حملے کی اطلاع دی گئی تو اس نے نیا حکم دیا کہ میرا تھیلا 'بریف کیس' لے آئو جو بادشاہ بننے کے وقت میرے پاس تھا چنانچہ تھیلا لایا گیا، بادشاہ نے تخت سے اٹھ کر اس تھیلے کو گلے میں ڈالا اور درباریوں کو الوداع کہہ کر جس دروازے سے شہر میں داخل ہوا تھا، اسی سے باہر نکل گیا۔ آج کے دور میں یوں کہیں کہ وہ اس بریف کیس سمیت ملک سے باہر کے جس ملک سے آیا تھا واپس ادھر چلا گیا۔ اب اس گداگر کا یہ بریف کیس بھرا ہوا تھا اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔ ہمارے ہاں بریف کیس والے ایک سے زیادہ ایسے بادشاہ ہو گزرے ہیں۔ شاید آج بھی مل جائیں۔
میں انھی 'اجنبی' پاکستانیوں کا ذکر کر رہا ہوں جن کا یوں تو اس ملک سے برائے نام اور محض پیدائشی تعلق ہے مگر وہ اس ملک پر قابض ہیں، اس کے مالک بنے ہوئے ہیں، ان دنوں الیکشن کی باتیں ہو رہی ہیں، کوئی پوچھے کہ متوقع امیدواروں میں سے کتنے حق سچ کے پاکستانی ہیں، جن کی اولاد اور جن کی مال و دولت اس ملک میں ہے۔ ان کا کوئی بیٹا باہر کاروبار نہیں کرتا یا ملک سے باہر مقیم نہیں یعنی باہر کے کسی ملک کا شہری نہیں اور وہ شخص اندر باہر سے سچا اور کھرا پاکستانی ہے مگر جواب یہ ہے کہ بدقسمتی سے ایسے کئی لیڈر صحیح پاکستانی نہیں ہیں۔
اگر آپ کاحافظہ کمزور نہیں ہے تو آپ ان خبروں کو یاد کریں جن میں ایسے انکشاف کیے جاتے رہے ہیں اور جن کی تردید نہیں کی گئی کیونکہ دن کے سورج کی کون تردید کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے بڑے طبقے کی ایک صحیح نمایندہ خاتون کا بیان چھپا ہے، اسے آپ گھر کی گواہی سمجھیں۔ پاکستان کی سابق سفیر وفاقی وزیر اور جھنگ کے ایک اونچے سیاسی خاندان کی وارث بیگم عابدہ حسین صاحبہ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان ان ملکوں کو دیکھ کر اپنی خارجہ پالیسی بناتا ہے جو اسے ڈیفالٹ ہونے سے بچاتے ہیں اور قرضہ دیتے ہیں۔
جب تک ہم اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہوتے، ہم آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنا سکتے۔ بیگم صاحبہ نے کہا کہ جن کے بچے اور اثاثے ملک سے باہر ہیں، ان کے الیکشن لڑنے پر پابندی ہونی چاہیے جو لوگ مخدوم کہلاتے ہیں، انھوں نے ملک اور قوم کو کچھ نہیں دیا ،صرف خدمت کرائی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں اور میرے شوہر جناب فخر امام اپنے حلقوں سے الیکشن لڑیں گے اور مجھے کوئی ٹکٹ دے نہ دے فیصل حیات کے خلاف ضرور الیکشن لڑوں گی۔
دونوں میاں بیوی جو پائے کے سیاستدان ہیں قطعاً بے داغ کردار کے مالک ہیں اور اصولوں کے لیے قربانی پر تیار رہتے ہیں۔ میں خود اس کا گواہ ہوں کہ جناب فخر امام نے ضیاء الحق کی ناراضی مول لے کر ملتان کی قیادت سے استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ وہ ایک جگہ سے الیکشن ہار گئے تھے، ان کی بیگم صاحبہ ایک مدت سے سیاست میں ہیں اور انھوں نے صاف ستھری سیاست کی ہے۔ میں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں جب وہ پہلی بار پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں، ان کے والد ماجد سید عابد حسین سے میری نیاز مندی تھی۔ بیگم صاحبہ نے اپنے بڑے باپ کی عزت پر آنچ نہیں آنے دی۔
اب ان کی تیسری نسل سیاست میں ہے۔ اس وقت میں ان کی ان باتوں کو اپنی تائید میں نقل کر رہا ہوں کہ جن لوگوں کا سب کچھ یعنی مال و دولت اور اولاد ملک سے باہر ہے، ان کو کسی حال میں بھی الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ الیکشن کمیشن یہ کام کر سکتا ہے یا سپریم کورٹ دونوں ادارے قاعدوں کے پابند ہیں لیکن پاکستان کے عوام سے پوچھیں تو وہ ایسے لوگوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت تو بڑی بات ہے ان کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کریں گے۔ آخر ایسے لوگوں کا اس ملک پر کیا حق ہے۔ ہماری سیاست کا یہ ایک افسوسناک پہلو تھا جس کی نشاندہی کی ضرورت تھی اور عوام تک یہ بات پہنچانی تھی کہ وہ غلط لوگوں کو ووٹ دے کر بعد میں رونا پیٹنا شروع نہ کر دیں کہ اب کوئی ان کی سنتا نہیں اور ان کا ممبر ان کو کہیں بھی دستیاب نہیں ہے۔ جب اس کا کام نکل گیا تو وہ کیوں دستیاب ہو کیونکہ وہ اس پاکستان کے ساتھ کوئی جذباتی تعلق نہیں رکھتا۔ وہ تو اپنے وطن میں ایک اجنبی ہے۔