کراچی کا فلاحی نسخہ… ایک آدمی ایک درخت
موذن مرحبا بروقت بولا۔ کراچی کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے۔ درخت، درخت درخت۔
موذن مرحبا بروقت بولا۔ کراچی کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے۔ درخت، درخت درخت۔ کراچی میں جو ماحولیات کے ماہرین بیٹھے ہیں۔ یہ ان کی آواز ہے۔ کیسے آڑے وقت میں جب یہ ستم رسیدہ شہر گرمی سے بولایا ہوا ہے۔ وہ سامنے آئے ہیں۔ کراچی کو کیا چاہیے۔ فی آدمی ایک درخت۔ فوری طور پر بڑے پیمانے پر درختوں کو اگانے کا انتظام کیا جائے۔ مگر کونسے درخت۔ اس شہر کو اپنے درخت درکار ہیں۔ یہ جو دور دور کے باغوں جنگوں سے پود لائی جاتی ہے اور اجنبی درخت اگائے جاتے ہیں وہ درخت نہیں چاہئیں۔ اپنے درخت مثلاً نیم، املی، برگد، گل مہر اپنے دیسی درخت اگانے کا اہتمام کرو۔ پھر دیکھو کہ کراچی کے ماحول میں کتنی جلدی کتنی بڑی تبدیلی آتی ہے۔ اس وقت تو صورت احوال یہ ہے کہ اس شہر میں درختوں کے پھلنے پھولنے کی گنجائش ہی نہیں نظر آ رہی ہے۔
یہ خلاصہ ہے جنگلات کے ان ماہرین کے خیالات کا جو کراچی کے ایسے مختلف اداروں سے وابستہ ہیں۔ آج ہی ایک اخبار میں ان کے تاثرات ایک رپورٹ میں سمیٹے گئے ہیں۔ یہ بات کراچی کے پارکوں اور ہارٹی کلچر کے ڈائریکٹر جنرل نیاز سمرو صاحب نے کہی ہے کہ قاعدے سے تو کراچی میں درختوں کا تناسب یہ ہونا چاہیے کہ ہر آدمی کے لیے ایک درخت۔
اور اس سے ہمارا خیال گزرے زمانے کی طرف گیا۔ اس سرزمین پاک و ہند میں اکثر علاقوں میں گرمی کا موسم سخت ہی گزرتا تھا۔ اور وہ سہولتیں جو نئے زمانے نے ٹیکنالوجی کے زور پر فراہم کی ہیں وہ کہاں تھیں۔ بجلی ہی نہیں تھی تو بجلی کے پنکھے اور اے سی کہاں سے آ جاتے۔ فریج اور فریزر کہاں سے مہیا ہوتے۔
پھر یہ موسم خلقت پر کیسے گزرتا تھا۔ ارے گرمی کی ستائی ہوئی مخلوق کا سب سے بڑا رفیق تو درخت تھا۔ کسی شاعر نے اس زمانے کو کتنا صحیح بیان کیا ہے؎
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
آج کل کی تیز رفتار سواریاں ان دنوں کہاں تھیں۔ وہی صدیوں سے رینگتی ہوئی بیل گاڑی، ٹکرم، ٹم ٹم، اکہ یا کہہ لیجیے یکہ۔ صاحب حیثیت لوگوں کے لیے رتھیں، بگھیاں۔
دیہاتی لوگ اپنی دو ٹانگوں پر بھروسہ کرتے تھے۔ لُو کے توڑ کے لیے ایک گٹھی پیاز کی گرہ میں باندھی، لاٹھی پکڑی اور نکل کھڑے ہوئے۔ دھوپ ہے تو ہُوا کرے۔ رستے میں گھنے سایہ دار درخت جو ہوں گے۔ پیاس لگے گی تو کیا کریں گے۔ ارے جب راہ میں شجر سایہ دار ہوں گے تو کسی پیپل تلے، کسی برگد کے سائے میں کنواں بھی نظر آئے گا۔ آتیاں جاتیاں پنہارنیں، اردگرد منڈلاتے پیٹھ پر مشک لادے سقے اور پھر جابجا پیاؤ اور سبیلیں۔ یعنی ہندو پانی اور مسلم پانی دونوں مہیا۔ پیاؤ پر تو اوک سے پانی پلایا جاتا تھا۔ تو ہندو ہی نہیں پیاسے مسلمان کے لیے بھی گنجائش تھی کہ اپنے دونوں ہاتھ ہونٹوں کے قریب لا کر چلو بنائے اور اوک سے پانی پی لے۔
سبیل کی شان دوسری تھی۔ کورے مٹکے پانی سے بھرے رکھے ہیں۔ پینے کے لیے کُوزے میسر ہیں۔ پھر ایک مصرعہ بھی پیاسوں کو دلاسا دیتا نظر آئے گا۔
پانی پیو کہ نعمت رب جلیل ہے
اور اگر محرم کا موسم ہے تو یوں استقبال کیا جائے گا؎
پیاسو سبیل ہے یہ شہیدوں کے نام کی
یا یوں کہ؎
پانی پیو تو یاد کرو پیاس حسین کی
گھروں میں گھڑونچی پر آراستہ گھڑے۔ کچی ٹھلیاں، صراحیاں، صراحیوں کی گردنوں میں پڑے موتیا یا بیلے چنبیلی کے ہار۔ پیاسے کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔ پھر کسی نہ کسی راستے برف بھی تو آن پہنچا تھا۔
مگر نئے زمانے کو دعا دو کہ گرمی کے توڑ کے نئے نئے نسخے نکل آئے اور بددعا دو کہ پھر مورکھوں نے سوچا کہ اب ہمیں درختوں کی کیا ضرورت ہے۔ تو نئے زمانے کے لکھ پتی لکڑہاڑوں نے جنگل کے جنگل صاف کر ڈالے۔ شہروں میں ارباب شہر نے منصوبے بنائے کہ شاہراہوں پر لہراتے درخت گراؤ اور سڑکوں کو چوڑا کرو۔ مجید شیخ نے اپنی کتاب 'لاہور' ٹیلز آف اے فیبلڈ سٹی، میں انگریزوں کے زمانے کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ تجویز یہ پیش ہوئی کہ مال روڈ خم ہوتی ہوئی چلتی ہے۔ اسے خط مستقیم میں استوار کیا جائے۔ اس منصوبے کی خاطر بہت سے درخت کاٹنے پڑتے۔ اس زمانے میں یہاں ایک انگریز فوجی کرنل نیپیر تعینات تھا۔ اس نے کہا کہ کلہاڑی کی زد میں آئے ہوئے درخت کی بددعا میں نہیں لینا چاہتا۔ سو وہ منصوبہ لپیٹ دیا گیا اور مال روڈ کے درخت بچ گئے۔ مگر جب انگریزوں کا دور گزر گیا اور دیسی لوگوں کا راج آیا تو درختوں کی بددعا کو انھوں نے ایک کان سنا دوسرے کان اڑا دیا۔ اور مال کو دو رویہ بنانے کے چکر میں کتنے درخت کاٹ ڈالے۔ اور پھر پھولوں کی کتنی کیاریوں کو اجاڑ ڈالا۔
پھر ایک منصوبہ بنا کہ کینال روڈ کو چوڑا کیا جائے۔ اس منصوبے کی وجہ سے نہر کے دونوں طرف سارے درخت تھر تھر کانپنے لگے۔ یہ منصوبہ ان کی موت کا پروانہ تھا۔ مگر خیر اس وقت ایک تحریک، درخت بچاؤ تحریک وجود میں آ چکی تھی۔ اس نے اس منصوبے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
غریب کراچی میں درخت ویسے ہی کم کم تھے۔ پاکستان بننے کے بعد البتہ درخت لگائے گئے اور یہ شہر بھی ہرا بھرا نظر آنے لگا۔ مگر پیچھے پیچھے نئے لکڑہاڑے بھی نمودار ہو گئے۔ انھوں نے پہلے سندھ کے جنگلوں کو تاڑا، پھر شہروں کے درختوں پر ان کی نظر بد کا سایہ پڑ گیا۔ شہر کی سڑکیں جلد ہی ٹریفک سے بھر گئیں۔ درخت غائب ہونے لگے۔ درختوں کے دلدادگان اور ماحولیات کے ماہرین بیشک جو کہہ رہے ہیں نیک نیتی سے کہہ رہے ہیں مگر جس کاروباری طبقہ کا مفاد جنگلوں کی صفائی اور درختوں کی کٹائی سے وابستہ ہے بات تو کسی نہ کسی بہانے انھیں کی مانی جائے گی۔ سو کراچی والے فی آدمی ایک درخت کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر مشکوک ہے۔