بھارت کی دو اہم خبریں
اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی چالیس فیصد آبادی ’’غربت کی لکیر‘‘ کے نیچے زندگی گزار رہی ہے
دو تین دن کے وقفے سے بھارت کی دو دلچسپ متضاد اور ایک دوسرے سے بہت قریبی تعلق رکھنے والی دو خبریں نظر سے گزریں۔
پہلی خبر کے مطابق بھارت کے ایک مشہور شہر گوالیار سے 35 ہزار لوگوں نے ایک لانگ مارچ شروع کیا ہے جو آگرہ، متھرا اور فرید آباد وغیرہ سے ہوتا ہوا اس ماہ کے آخر تک بھارت کی راجدھانی دہلی پہنچے گا۔ اس لانگ مارچ میں مزدور کسان سمیت مختلف غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے جوان، بوڑھے، بچّے، خواتین شامل ہیں۔ بھارت کی ایک تنظیم ایکتا فورم نے اس لانگ مارچ کا اہتمام کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ مارچ ایکتا فورم نے غربت اور بھوک کے خلاف منظم کیا ہے۔
منتظمین کا خیال ہے کہ دلی پہنچتے پہنچتے 35 ہزار بھوکوں کا یہ مارچ ایک لاکھ سے زیادہ بھوکوں میں بدل جائے گا۔ 35 ہزار بھوکوں کی اس تعداد کو دیکھ کر اسی مہان بھارت کی ایک اور تعداد ذہن میں گھوم گئی اور یہ تعداد ہے 36 لاکھ ان بھارتی ناریوں کی جو اپنے اور اپنے پریوار کی بھوک مٹانے کے لیے بھارت کے مختلف علاقوں میں اپنا جسم بیچ رہی ہیں۔ ایک اور اطلاع کے مطابق بھارت میں ہر سال ایک لاکھ کسان قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ خودکشیاں کرلیتے ہیں۔ اور ترقی یافتہ ملکوں کے مستند اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی چالیس فیصد آبادی ''غربت کی لکیر'' کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی لکیر کہاں سے شروع ہوتی ہے، کہاں پر ختم ہوتی ہے، اس کا ہمیں صحیح اندازہ نہیں۔
دوسری تازہ خبر کے مطابق پنڈت جواہر لال نہرو خاندان کی بہو اور موجودہ حکمراں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا نے 2007 سے 2012 تک 300 کروڑ یعنی 3 ارب کی جائیداد بنائی، تفصیل کے مطابق رابرٹ واڈرا نے 2007 کے بعد 5 کمپنیاں بنائیں جن کی مجموعی مالیت 50 لاکھ روپے تھی، خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ کمپنیاں منافع بخش نہ تھیں، لیکن اس کے باوجود سونیا گاندھی کے داماد نے 300 کروڑ کی جائیداد بنالی۔ ''انڈیا اگینسٹ کرپشن'' نامی تنظیم کے دو رہنمائوں اروند گجرال اور پرشانت بھوشن نے الزام لگایا ہے کہ رابرٹ نے یہ جائیداد بدعنوانیوں عرف کرپشن کے ذریعے بنائی ہے، جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ بے چارہ انّا ہزارے بھی کرپشن کے خلاف جھنڈا اٹھا کر میدان میں آیا اور بہت جلد تھک کر سیاست کی طرف مائلِ پرواز ہے لیکن کرپشن ذرا نہیں تھکی بلکہ پوری طرح چاق و چوبند ہے۔
پاکستان 65 برسوں سے جن مسائل کا شکار ہے، ہمارے سیاست دان اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بار بار کی فوجی مداخلتوں کی وجہ سے ہمارے ملک میں جمہوریت کا پودا جڑیں نہیں پکڑسکا۔ اگر ہمارے ملک میں بار بار فوجی مداخلت نہ ہوتی اور جمہوریت کا تسلسل جاری رہتا تو نہ صرف عوام کے مسائل حل ہوجاتے بلکہ ہمارا ملک جنّت بن جاتا۔ یہ دلیل بلاشبہ بہت معقول ہے لیکن عوام کے مسائل کے حل نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سیاست دان اپنا سارا وقت ''اپنے مسائل'' حل کرنے میں لگاتے رہے اور اس روایت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قدم قدم پر ایک رابرٹ واڈرا اپنے کھاتے میں 300 کروڑ سے کئی گنا زیادہ کی جائیداد لیے کھڑا نظر آتا ہے۔
اسے ہم اپنی بدقسمتی کہیں یا ہمارے ناکردہ گناہوں کی سزا کہ ہماری ساری توجہ سوئس بینک کے 5 ارب روپوں پر لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہماری ایلیٹ یعنی اشرافیہ کے سیکڑوں داماد اپنی تجوریوں، اپنے ملکی اور غیر ملکی بینکوں، ملک کے اندر اور بیرون ملک اربوں روپے اور اربوں کی جائیداد کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ نہ ہمارے یہاں کوئی انّا ہزارے ہے نہ ہمارے ملک میں کوئی ''انڈیا اگینسٹ کرپشن'' جیسی تنظیم موجود ہے جو اشرافیہ، اس کے بیٹوں، دامادوں کی اربوں کی کرپشن کو عوام میں لائے اور اس کے خلاف تحریک چلائے۔ لے دے کے ایک ہماری عدلیہ ہے جس کے کندھوں پر اتنا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ اس بے چاری کے کندھے جھک گئے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان میں 40 فیصد سے زیادہ انسان اس لیے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کہ ہماری دو فیصد سے کم اشرافیہ قومی دولت کے 80 فیصد حصے پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ بھارتی وزیراعظم سردار من موہن سنگھ نے اپنے ایک غریب پرور بیان میں غربت کو انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک کہا ہے۔ اور ان ہی سردار جی پر یہ الزام ہے کہ موصوف 2 کھرب کے ایک کرپشن کیس کو اپنی وزارتِ عظمیٰ کی پگڑی میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ ہندوستان ہو یا پاکستان ہر جگہ کرپشن کی رادھا دھڑلے سے ناچ رہی ہے۔ آج کے تازہ انکشاف کے مطابق ہماری وزارتِ صنعت کے ایک ذیلی محکمے میں ایک ارب کی بدعنوانی یا کرپشن ہوئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی کرپشن کے اب تک بے شمار انکشافات ہوتے رہیں جن میں حکمرانوں کی اولاد کے علاوہ اعلیٰ عدالتی اوتاروں کی اولاد کی کرپشن بھی شامل ہے، لیکن یہ ساری کرپشن، قانون اور انصاف کے جھروکوں میں ٹہلتی دِکھائی دیتی ہے۔
گوالیار سے چلنے والا 35 ہزار لوگوں کے اس لانگ ترین مارچ کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ بھارت میں 65 سال سے بلاکسی رکاوٹ کے جمہوریت کی گاڑی فراٹے بھرتی چل رہی ہے، پھر اتنی طویل جمہوریت کے باوجود بھارت میں لانگ مارچ کیوں نکل رہے ہیں۔ بھارت جیسے تیزی سے ترقی کرنے والے ملک میں 36 لاکھ ناریاں اپنے پیٹ بھرنے کے لیے اپنے جسم بیچنے پر کیوں مجبور ہیں۔ لاکھوں کسان کیوں خودکشیاں کررہے ہیں۔ آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصّہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کیوں گزار رہا ہے؟
اس پس منظر میں، میں جب پاکستان کے امید پرست دوستوں کو یہ کہتے یا لکھتے دیکھتا ہوں کہ جمہوریت کا تسلسل ہی ان تمام مسائل کا حل ہے تو دکھ بھی ہوتا ہے افسوس بھی۔ کیا ہم اس بدنما حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب تک دولت کی تقسیم کا کوئی منصفانہ نظام قائم نہیں ہوگا، جب تک ارتکازِ دولت کے راستے بند نہیں کیے جائیں گے، جب تک دولت جمع کرنے کی غیر انسانی ہوس کے منہ میں لگام نہیں دی جائے گی، جب تک دولت جمع کرنے کے تمام ناجائز راستوںکو سیل نہیں کیا جائے گا، جب تک جائز اور حلال منافع کے گلے میں رسّی نہیں ڈالی جائے گی، جب تک محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر محنت کرنے والوں اور باصلاحیت لوگوں کو بہتر زندگی گزارنے کے مواقع مہیا نہیں کیے جائیں گے، اس وقت تک جمہوریت غریب گھرانوں کی بیوہ اور ایلیٹ کی داشتہ بنی رہے گی۔
سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے 11 سالہ آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد پچھلے ساڑھے 4 سال سے ہمارے ملک میں جمہوری حکومت موجود ہے اور ایک غیر سرکاری ادارے ''سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر'' کی رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران غریبوں کی تعداد میں ایک کروڑ 80 لاکھ کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ جمہوریت ایک ترقی یافتہ سیاسی نظام ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر ملک میں اشرافیہ نے اس نظام کو یرغمال بنالیا ہے، جس نظام میں 80 فیصد دولت 2 فیصد ہاتھوں میں مرکوز ہوجائے گی اور حکمران قانون اور انصاف اس دو فیصد لٹیرے طبقات کے محافظ بنے رہیں گے، اس نظام میں نہ آمریت غربت و افلاس کو ختم کرسکتی ہے، نہ اشرافیہ کی داشتہ جمہوریت عوام کو غربت سے نجات دلاسکتی ہے۔
پہلی خبر کے مطابق بھارت کے ایک مشہور شہر گوالیار سے 35 ہزار لوگوں نے ایک لانگ مارچ شروع کیا ہے جو آگرہ، متھرا اور فرید آباد وغیرہ سے ہوتا ہوا اس ماہ کے آخر تک بھارت کی راجدھانی دہلی پہنچے گا۔ اس لانگ مارچ میں مزدور کسان سمیت مختلف غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے جوان، بوڑھے، بچّے، خواتین شامل ہیں۔ بھارت کی ایک تنظیم ایکتا فورم نے اس لانگ مارچ کا اہتمام کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ مارچ ایکتا فورم نے غربت اور بھوک کے خلاف منظم کیا ہے۔
منتظمین کا خیال ہے کہ دلی پہنچتے پہنچتے 35 ہزار بھوکوں کا یہ مارچ ایک لاکھ سے زیادہ بھوکوں میں بدل جائے گا۔ 35 ہزار بھوکوں کی اس تعداد کو دیکھ کر اسی مہان بھارت کی ایک اور تعداد ذہن میں گھوم گئی اور یہ تعداد ہے 36 لاکھ ان بھارتی ناریوں کی جو اپنے اور اپنے پریوار کی بھوک مٹانے کے لیے بھارت کے مختلف علاقوں میں اپنا جسم بیچ رہی ہیں۔ ایک اور اطلاع کے مطابق بھارت میں ہر سال ایک لاکھ کسان قرض ادا نہ کرسکنے کی وجہ خودکشیاں کرلیتے ہیں۔ اور ترقی یافتہ ملکوں کے مستند اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی چالیس فیصد آبادی ''غربت کی لکیر'' کے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ غربت کی لکیر کہاں سے شروع ہوتی ہے، کہاں پر ختم ہوتی ہے، اس کا ہمیں صحیح اندازہ نہیں۔
دوسری تازہ خبر کے مطابق پنڈت جواہر لال نہرو خاندان کی بہو اور موجودہ حکمراں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا نے 2007 سے 2012 تک 300 کروڑ یعنی 3 ارب کی جائیداد بنائی، تفصیل کے مطابق رابرٹ واڈرا نے 2007 کے بعد 5 کمپنیاں بنائیں جن کی مجموعی مالیت 50 لاکھ روپے تھی، خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ کمپنیاں منافع بخش نہ تھیں، لیکن اس کے باوجود سونیا گاندھی کے داماد نے 300 کروڑ کی جائیداد بنالی۔ ''انڈیا اگینسٹ کرپشن'' نامی تنظیم کے دو رہنمائوں اروند گجرال اور پرشانت بھوشن نے الزام لگایا ہے کہ رابرٹ نے یہ جائیداد بدعنوانیوں عرف کرپشن کے ذریعے بنائی ہے، جس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ بے چارہ انّا ہزارے بھی کرپشن کے خلاف جھنڈا اٹھا کر میدان میں آیا اور بہت جلد تھک کر سیاست کی طرف مائلِ پرواز ہے لیکن کرپشن ذرا نہیں تھکی بلکہ پوری طرح چاق و چوبند ہے۔
پاکستان 65 برسوں سے جن مسائل کا شکار ہے، ہمارے سیاست دان اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ بار بار کی فوجی مداخلتوں کی وجہ سے ہمارے ملک میں جمہوریت کا پودا جڑیں نہیں پکڑسکا۔ اگر ہمارے ملک میں بار بار فوجی مداخلت نہ ہوتی اور جمہوریت کا تسلسل جاری رہتا تو نہ صرف عوام کے مسائل حل ہوجاتے بلکہ ہمارا ملک جنّت بن جاتا۔ یہ دلیل بلاشبہ بہت معقول ہے لیکن عوام کے مسائل کے حل نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سیاست دان اپنا سارا وقت ''اپنے مسائل'' حل کرنے میں لگاتے رہے اور اس روایت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں قدم قدم پر ایک رابرٹ واڈرا اپنے کھاتے میں 300 کروڑ سے کئی گنا زیادہ کی جائیداد لیے کھڑا نظر آتا ہے۔
اسے ہم اپنی بدقسمتی کہیں یا ہمارے ناکردہ گناہوں کی سزا کہ ہماری ساری توجہ سوئس بینک کے 5 ارب روپوں پر لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہماری ایلیٹ یعنی اشرافیہ کے سیکڑوں داماد اپنی تجوریوں، اپنے ملکی اور غیر ملکی بینکوں، ملک کے اندر اور بیرون ملک اربوں روپے اور اربوں کی جائیداد کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ نہ ہمارے یہاں کوئی انّا ہزارے ہے نہ ہمارے ملک میں کوئی ''انڈیا اگینسٹ کرپشن'' جیسی تنظیم موجود ہے جو اشرافیہ، اس کے بیٹوں، دامادوں کی اربوں کی کرپشن کو عوام میں لائے اور اس کے خلاف تحریک چلائے۔ لے دے کے ایک ہماری عدلیہ ہے جس کے کندھوں پر اتنا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ اس بے چاری کے کندھے جھک گئے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان میں 40 فیصد سے زیادہ انسان اس لیے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں کہ ہماری دو فیصد سے کم اشرافیہ قومی دولت کے 80 فیصد حصے پر قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔ بھارتی وزیراعظم سردار من موہن سنگھ نے اپنے ایک غریب پرور بیان میں غربت کو انسانیت کی سب سے بڑی تضحیک کہا ہے۔ اور ان ہی سردار جی پر یہ الزام ہے کہ موصوف 2 کھرب کے ایک کرپشن کیس کو اپنی وزارتِ عظمیٰ کی پگڑی میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ ہندوستان ہو یا پاکستان ہر جگہ کرپشن کی رادھا دھڑلے سے ناچ رہی ہے۔ آج کے تازہ انکشاف کے مطابق ہماری وزارتِ صنعت کے ایک ذیلی محکمے میں ایک ارب کی بدعنوانی یا کرپشن ہوئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی کرپشن کے اب تک بے شمار انکشافات ہوتے رہیں جن میں حکمرانوں کی اولاد کے علاوہ اعلیٰ عدالتی اوتاروں کی اولاد کی کرپشن بھی شامل ہے، لیکن یہ ساری کرپشن، قانون اور انصاف کے جھروکوں میں ٹہلتی دِکھائی دیتی ہے۔
گوالیار سے چلنے والا 35 ہزار لوگوں کے اس لانگ ترین مارچ کو دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ سوال سر اٹھا رہا ہے کہ بھارت میں 65 سال سے بلاکسی رکاوٹ کے جمہوریت کی گاڑی فراٹے بھرتی چل رہی ہے، پھر اتنی طویل جمہوریت کے باوجود بھارت میں لانگ مارچ کیوں نکل رہے ہیں۔ بھارت جیسے تیزی سے ترقی کرنے والے ملک میں 36 لاکھ ناریاں اپنے پیٹ بھرنے کے لیے اپنے جسم بیچنے پر کیوں مجبور ہیں۔ لاکھوں کسان کیوں خودکشیاں کررہے ہیں۔ آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصّہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی کیوں گزار رہا ہے؟
اس پس منظر میں، میں جب پاکستان کے امید پرست دوستوں کو یہ کہتے یا لکھتے دیکھتا ہوں کہ جمہوریت کا تسلسل ہی ان تمام مسائل کا حل ہے تو دکھ بھی ہوتا ہے افسوس بھی۔ کیا ہم اس بدنما حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جب تک دولت کی تقسیم کا کوئی منصفانہ نظام قائم نہیں ہوگا، جب تک ارتکازِ دولت کے راستے بند نہیں کیے جائیں گے، جب تک دولت جمع کرنے کی غیر انسانی ہوس کے منہ میں لگام نہیں دی جائے گی، جب تک دولت جمع کرنے کے تمام ناجائز راستوںکو سیل نہیں کیا جائے گا، جب تک جائز اور حلال منافع کے گلے میں رسّی نہیں ڈالی جائے گی، جب تک محنت اور صلاحیت کی بنیاد پر محنت کرنے والوں اور باصلاحیت لوگوں کو بہتر زندگی گزارنے کے مواقع مہیا نہیں کیے جائیں گے، اس وقت تک جمہوریت غریب گھرانوں کی بیوہ اور ایلیٹ کی داشتہ بنی رہے گی۔
سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے 11 سالہ آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد پچھلے ساڑھے 4 سال سے ہمارے ملک میں جمہوری حکومت موجود ہے اور ایک غیر سرکاری ادارے ''سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر'' کی رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران غریبوں کی تعداد میں ایک کروڑ 80 لاکھ کا مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ جمہوریت ایک ترقی یافتہ سیاسی نظام ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر ملک میں اشرافیہ نے اس نظام کو یرغمال بنالیا ہے، جس نظام میں 80 فیصد دولت 2 فیصد ہاتھوں میں مرکوز ہوجائے گی اور حکمران قانون اور انصاف اس دو فیصد لٹیرے طبقات کے محافظ بنے رہیں گے، اس نظام میں نہ آمریت غربت و افلاس کو ختم کرسکتی ہے، نہ اشرافیہ کی داشتہ جمہوریت عوام کو غربت سے نجات دلاسکتی ہے۔