بے حسی کی نئی فصل
معروف ہندی دانشور چانکیہ نے کہا تھا کہ حکمران بن جانا آسان ہوتا ہے، مگر حکمرانی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔
KARACHI:
معروف ہندی دانشور چانکیہ نے کہا تھا کہ حکمران بن جانا آسان ہوتا ہے، مگر حکمرانی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ افلاطون حکمرانی کے لیے فلسفی بادشاہ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کبھی فوجی اور تاجر کو اپنا حکمران مت بنانا کیونکہ فوجی حکمرانی کی نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا جب کہ تاجر منافع اور چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر غلط فیصلے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا مگر کیا کریں، پاکستان میں 32 برس فوج اور اب ایک تاجر حکمران ہے، جو عام آدمی کو درپیش مسائل اور مشکلات کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ایسے کاموں پر قومی وسائل لٹا رہا ہے جس کا فائدہ اس ملک کے شہریوں کے بجائے صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود ہے۔
درج بالا ابتدائی سطریں اس لیے کہ چار دن کی قیامت خیز گرمی نے کراچی میں سیکڑوں افراد کی جانیں ضرور لیں، لیکن ساتھ ہی حکمرانی کے باقی ماندہ پوشیدہ عیوب بھی نمایاں کر دیے۔ اس صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس نئی صورتحال کے حوالے سے کوئی ٹھوس اور دیرپا حکمت عملی تیار کرنے کے بجائے مختلف تاویلیں دے کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو تعداد ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچی، وہ مرنے والوں کی اصل تعداد کا عشر عشیر بھی نہیں۔
ایسے لاتعداد غریب اور لاچار افراد جن کے اعزاء انھیں کسی اسپتال یا شفاخانے لے جانے کی استعداد ہی نہیں رکھتے تھے یا انھیں اس کا موقع نہیں مل سکا، بے بسی کے عالم میں جاں بحق ہو گئے، جنھیں جیسے تیسے اسپتال پہنچا دیا گیا، وہاں وہ مناسب طبی امداد، دیکھ بھال اور ادویات کی قلت کا شکار ہو کر اپنی جان سے گئے۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ ڈھائی کروڑ آبادی کا شہر جسے حکمران اپنے مخصوص مفادات کی خاطر منی پاکستان کہتے نہیں تھکتے، اس میں کل 6 سرکاری اسپتال ہیں، جو اول تو شہر کی ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہیں، پھر کرپشن، بدعنوانیوں اور بدانتظامی کے سبب بنیادی طبی سہولیات کے بدترین فقدان کا شکار ہیں۔
انگریز جو اپنے استعماری مقاصد کے لیے ہندوستان آیا تھا، اس نے کمپنی بہادر کے دور ہی سے ہندوستان میں ترقی دوست اقدامات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ چنائے (سابقہ مدراس) میں پہلی لوکل سیلف گورنمنٹ قائم کر کے اس کے تحت سرکاری اسکول اور اسپتال قائم کیے گئے اور فراہمی و نکاسی آب کا نظام متعارف کرایا گیا۔ پھر اس نظام کو بنگال اور گجرات تک بڑھا دیا گیا۔ دہلی پر قبضہ اور 1858ء میں پورے ہندوستان کے تاج برطانیہ کے تحت چلے جانے کے بعد ہر ضلع میں ایک انٹرمیڈیٹ کالج اور ایک سول اسپتال، ہر تحصیل میں ایک ہائی اسکول اور چھوٹا اسپتال قائم کیا۔ جب کہ قصبہ جات اور بڑے گاؤں میں پرائمری اسکول اور پبلک ڈسپنسریاں قائم کیں۔ درجن بھر کے قریب پرفضا مقامات پر ٹی بی سینی ٹوریم قائم کیے۔ نتیجتاً ہندوستان میں عام اور متعدی بیماریوں کے علاوہ خطرناک بیماریوں پر کنٹرول آسان ہوا اور ان کی شرح میں نمایاں کمی آئی۔
پاکستان کی 80 فیصد آبادی نچلے اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے، جس کے وسائل اس قدر محدود ہوتے ہیں کہ وہ بمشکل دو وقت کی روٹی کے سوا کسی اور جانب سوچنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ بچوں کی تعلیم تو بہت دور کی بات بیماری میں علاج معالجہ کرانا تک ان کے بس کی بات نہیں ہوتی، بلکہ اکثریت دعاؤں پر گزارا کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد نئے سرکاری اسپتالوں کا قیام تو دور کی بات انگریزی دور میں قائم ہونے والے سرکاری اسپتال بھی عدم توجہی کے باعث آہستہ آہستہ روبہ زوال ہوتے ہوئے تباہی کے آخری دہانے تک جا پہنچے۔ یہ اسپتال جو غریب اور نچلے متوسط طبقے کے علاج معالجہ کا واحد ذریعہ ہوا کرتے ہیں، حکمرانوں کی نااہلی، بدانتظامی اور بدعنوانیوں کے باعث اب ان میں نہ ڈاکٹر میسر ہوتے ہیں، نہ ادویات اور دوسری طبی سہولیات۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کی بہت بڑی آبادی اللہ توکل زندگی گزار رہی ہے۔
اس کے علاوہ ان 68 برسوں کے دوران نہ ملک کے ہر شہری کے لیے سماجی تحفظ (Social Security) کا وسیع البنیاد نظام مرتب کرنے پر توجہ دی گئی ہے اور نہ ہی عام آدمی کی سماجی ترقی کے لیے اہداف کا تعین کیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں عام شہری کے لیے بڑھاپے کی پنشن کا تصور محال ہے۔ بڑھاپے اور بیوگی کی پنشن ان افراد یا ان کی بیواؤں کو مل رہی ہے، جو یا تو سرکاری اور نیم سرکاری اداروں سے ریٹائر ہوئے یا دوران ملازمت جاں بحق ہوئے۔ یا پھر نجی شعبہ کے ان ملازمین کو مل رہی ہے، جو دوران ملازمت EOBI میں کسی نہ کسی طور رجسٹر ہو گئے تھے۔ ان افراد کی تعداد 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔
گلوبلائزیشن اور نئے معاشی ایجنڈے یعنی اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کے نام پر نجی شعبہ کے صنعتی یونٹ اور دیگر ادارے اب افرادی قوت ٹھیکیداری نظام کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ ان محنت کشوں کو نہ تقرر نامہ دیا جاتا ہے اور نہ انھیں سوشل سیکیورٹی میں رجسٹر کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے محنت کش طبقات کی واضح اکثریت ان سہولیات کے حصول سے محروم رہتی ہے، جو ان کا بنیادی حق ہے۔ جب کہ دکانوں، ٹھیلوں اور راج مزدوری کرنے والے کسی قطار شمار میں نہیں ہیں۔ حالانکہ دنیا کے بیشتر ممالک میں تمام شہری سوشل سیکیورٹی میں رجسٹر ہوتے ہیں۔ جو بڑھاپے میں پنشن (بلاامتیاز صنف) اور مفت علاج معالجہ کے حقدار ہوتے ہیں۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ 2005ء تک پاکستان میں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا کوئی ادارہ نہیں تھا۔ تباہ کن زلزلے کے بعد رسمی طور پر یہ ادارہ قائم کیا گیا، جس میں حسب روایت من پسند افراد کی تقریر کر کے خانہ پری کر لی گئی۔ جن کا ڈیزاسٹر مینجمنٹ سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ نتیجتاً 2010ء کے خوفناک سیلاب کے دوران اندازہ ہوا کہ یہ ادارہ نہ لیپنے کا ہے نہ پوتنے کا، بلکہ محض ایک ایسا سفید ہاتھی ہے، جو قومی خزانے پر ایک نیا بوجھ بن چکا ہے۔ کسی بھی ہنگامی صورت میں اس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، بلکہ ہر ایمرجنسی میں فوج طلب کرنا پڑتی ہے۔ حالانکہ یہ ادارہ اب تک کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں جب کہ اس سے کئی گنا زیادہ امداد کی رقم ہڑپ کر چکا ہے۔ نہ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں رتی بھر بھی ترقیاتی کام ہو سکا ہے اور نہ ہی 2010ء کے سیلاب متاثرین کی مکمل بحالی ہو سکی۔ خاص طور پر بالاکوٹ کو نئی جگہ منتقل کرنے کا منصوبہ ہنوز کھٹائی میں پڑا ہوا ہے۔ اس ادارے کی نو برسوں میں کیا کارکردگی رہی، ہر پاکستانی بخوبی واقف ہے۔
عالمگیر گرمائش (Global Warming) ایک ایسا مظہر ہے، جس کے بارے میں ہر ذی شعور شخص کچھ نہ کچھ آگہی رکھتا ہے۔ مگر حکمرانوں کی آنکھوں پر جمی چربی کی دبیز تہہ، کانوں میں ٹھنسی روئی اور عقل پر پڑے پتھرانھیں اپنے مفادات سے آگے سوچنے ہی نہیں دے رہے۔ انھیں کیا معلوم کہ 2010ء میں ہونے والی کوپن ہیگن کانفرنس کی قراردادوں میں کیا کہا گیا تھا اورکیا اقدامات تجویز کیے گئے تھے۔ یہ حکمران اشرافیہ صرف پاکستان کے مقدر کی خرابی ہی نہیں ہے، بلکہ اس دھرتی پر بھی بوجھ بن چکی ہے۔ ان کی سمجھ ہی میں نہیں آسکتا کہ کرہ ارض پر درجہ حرات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ دنیابھرمیں اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختلف حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے علاوہ عوام کو تیز شعاعوں سے بچنے کی آگہی دینے کے کئی پروگرام جاری ہیں۔ مگرپاکستان میں ایسے کسی پروگرام پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ حالانکہ گزشتہ مئی میں بھارت میں درجہ حرارت میںاضافے کے نتیجے میں درجنوں اموات کی خبریں آئی تھیں۔
شاید ہم نے ان خبروں کو کافر ہندوؤں کی موت سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا اور یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ یہ سانحہ خود ہمارے یہاں بھی رونما ہو سکتا ہے۔ اسی لیے کوئی پیش بندی کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جولائی سے ستمبر کے دوران پورا ملک ایک مرتبہ پھر شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہو گا۔ مگر ان بارشوں کی تباہیوں سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنے کے بجائے پوری توانائی ایم کیو ایم کو بھارتی ایجنٹ قراردینے پر صرف ہو رہی ہے۔ غداری کے سرٹیفیکٹ جس طرح بانٹے جا رہے ہیں، انھیں دیکھتے ہوئے اندازہ ہو رہا ہے کہ اس ملک میں صرف ایک مخصوص طبقہ ہی محب وطن ہے باقی سب غدار۔ اس ملک کی بنیاد رکھنے والے بنگالی تو اپنا حق مانگنے پر پہلے ہی غدار قرار دیے جا چکے، اب ایم کیو ایم نشانے پر ہے۔ یہ سب وہ لوگ کر رہے ہیں جو 1946ء تک یونینسٹ پارٹی میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور 13 اگست 1947ء کی شام تک انگریز بہادر کو سلامیاں دیتے رہے۔ واہ کیاشان ہے حب الوطنی کی۔ حکمران اشرافیہ نے اس ملک میں بے حسی کی جو فصل بوئی ہے، لگتا ہے کہ اب اس کے کٹنے کا وقت آ چکا ہے۔