عام آدمی کی طاقت
اکثریت ملکی حالات کے متعلق ایک رگیدا ہوا جملہ ادا کر کے اپنے تمام فرائض سے صرفِ نظر کر لیتی ہے۔
اکثریت ملکی حالات کے متعلق ایک رگیدا ہوا جملہ ادا کر کے اپنے تمام فرائض سے صرفِ نظر کر لیتی ہے۔ "میں اکیلا انسان کیا کر سکتا ہوں، پورے کا پورا معاشرہ ہی گل سڑ چکا ہے" ۔ میری نظر میں یہ فقرہ، بولنے والے کی اپنی تحقیر کرتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ اس شخص نے لڑنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لی ہے حالانکہ دنیا کو تو صرف عام آدمی نے تبدیل کیا ہے۔
روڈلف روسلر (Rudolf Roessler) ایک عام پبلشر تھا اور ایک متوسط طبقے کی زندگی گزار رہا تھا۔ خیالات اچھے تھے۔ وہ جرمن ہونے کے باوجود سمجھتا تھا کہ دوسری جنگ عظیم میں اتنی قتل و غارت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اسے نظر آ رہا تھا کہ جرمنی کی سیاسی قیادت خود بھی تباہ ہو جائے گی اور دنیا کو بھی برباد کر ڈالے گی۔ ایک پبلشر کی حیثیت سے وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا لیکن اس نے ایک حیرت انگیز فیصلہ کیا اور وہ تھا جنگی معلومات کو برطانیہ اور سووویت روس تک پہنچانے کا غیر معمولی کام۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع میں جرمن افواج ہر طرف فاتح بن کر سامنے آ رہی تھیں۔ لندن بے بس ہو چکا تھا۔ ہٹلر نے دنیا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ایلن ٹرنگ(Alan Turing) وہ ذہین حساب دان تھا جس نے جرمنی کی جنگی معلومات کو ڈی کوڈ (De-Code) کرنے کے لیے پہلی مشین بنائی۔ یہ مشین دراصل دنیا کا پہلا کمپیوٹر تھا ۔ یہ ایجاد غیر معمولی تھی۔ مگر اس میں ایک سقم تھا۔ کسی بھی پیغام کو ڈی کوڈ کرنے کی رفتار بہت سست تھی۔
یہ روڈلف روسلر تھا جس نے اس مشین میں اتنی جدت پیدا کر ڈالی کہ جنگ کا پانسا پلٹ گیا۔ دراصل روسلر کی بنائی ہوئی مشین کا ایلن ٹرنگ کے بنائے ہوئے کمپیوٹر سے بہت کم تعلق تھا۔ یہ مشین ہزار گنا تیز رفتار اور خفیہ معلومات کو پراسس کرنے کی برق رفتار اہلیت رکھتی تھی۔ روسلر وہ کام کر چکا تھا جسکا اثر آج دنیا کے ہر خطے میں موجود ہے۔ اس کی مشین، صرف چھ گھنٹے میں جرمنی کے ہر خفیہ پیغام کو درست الفاظ میں ڈھال سکتی تھی۔ یہ رفتار اس رفتار کے بالکل برابر تھی جس میں جرمن بری اور بحری فوج کو خفیہ پیغام کے ذریعے حکم دیا جاتا تھا کہ وہ فلاں مقام پر حملہ کر دیں۔
ڈی کوڈ کرنے کے بعد، روسلر یہ پیغام روس کی افواج کو بھجوا دیتا تھا جو انتہائی رازداری سے پوری اتحادی افواج کو پہنچا دیا جاتا تھا۔ عام سے کتابوں کے پبلشر نے اتحادی فوجوں کو وہ صلاحیت دیدی کہ وہ جرمنی کے ہر حملے کا بر وقت مقابلہ کر سکتی تھیں۔ جرمنی نے ایک انتہائی خفیہ حملے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس کا نام آپریشن ذیٹا ڈیل (Operation Zitadell) رکھا گیا۔ یہ گرمیوں میں کرسک کے خلاف ترتیب دیا گیا تھا۔ روسلر نے یہ منصوبہ اپنی مشین سے بروقت ڈی کوڈ کر کے اتحادی افواج کے حوالے کر دیا۔ جرمن افواج کی شکست کا آغاز آپریشن ذیٹاڈیل سے ہوا۔ یہ تمام کام، ایک معمولی شخص کے غیر معمولی کام سے شروع ہوا۔ اس نے آنے والی دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔
میری ایننگ Mary Anning ایک غریب برطانوی لڑکی تھی۔ وہ تعلیم حاصل نہ کر سکی تاہم وہ اَن پڑھ تھی مگر جاہل نہیں تھی۔ یہ1810-30ء کا برطانیہ تھا۔ میری میں ایک حیرت انگیز خداداد صلاحیت تھی۔ وہ قدیم نمونوں(Fossils) کو پرکھ سکتی تھی۔ صرف بارہ برس کی عمر میں اس بچی نے لاکھوں برس پہلے کے ایک جانور کا ڈھانچا دریافت کر لیا۔ یہ"I Chthosaur" کا پہلا مصدقہ اصلی دھڑ تھا۔ برطانیہ کی سائنس سوسائٹی نے دریافت کی قدر کرنے کے بجائے ا سے درست تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ بارہ سال کی اس بچی پر سائنسی ماہرین نے تحقیق کے تمام دروازے بند کر دیے۔ مگر میری نے ان سب کو غلط ثابت کر دیا۔ غربت کی بدولت میری کے پاس سائنسی جریدے خریدنے کے پیسے نہیں تھے۔
وہ دور دور سے پرانے رسائل اور کتابیں مانگ تانگ کر لاتی تھی۔ وہ ہر وقت پڑھتی رہتی تھی۔ اس کے شہر کا نام لائم ریگس(Lyme Regis) تھا۔ چھوٹے سے شہر کے ارد گرد عام سی زمین تھی۔ میری نے زمین کھود کھود کر قدیم فوسل نمونے نکالنے شروع کر دیے۔ وہ ان نمونوں پر سائنسی مضامین لکھتی تھی۔ میری کی سائنسی تحقیق کی شہرت آہستہ آہستہ پھیلتی چلی گئی۔ سائنسدان معمولی سے شہر میں اس کے حاصل کردہ نمونے دیکھنے آتے اور ششدر رہ جاتے تھے۔ کئی بار وہ میری کی غربت کا فائدہ اٹھا کر اس کے تحقیقاتی نمونوں کو خرید بھی لیتے تھے۔
ایڈیم سیڈوک(Adam Sedgwick) نے اس کی تحقیق سے متاثر ہو کر اپنے سائنسی رویہ کو "Evolution" کی تھیوری کی طرف مائل کیا۔ ایڈیم سیڈوک کے شاگرد "ڈارون" نے اس تھیوری کی بنیاد پر سائنس میں انقلابی کام کیا۔ ڈارون کی ارتقائی تھیوری اب پوری دنیا میں پڑھائی جاتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر میری کے کام سے کشید شدہ ہے۔ میری1847ء میں کینسر کی بدولت جہان فانی سے کوچ کر گئی۔1865ء میں چارلس ڈکننز (Charles Dickens) جیسے عظیم لکھاری نے میری کے کارناموں پر ایک خوبصورت مضمون لکھا اور اسے وہ خراج عقیدت پیش کیا جسکی وہ اپنی زندگی میں مستحق تھی۔ برطانوی سائنس سوسائٹی نے 2010ء نے پانچ ان برطانوی خواتین کی فہرست شایع کی، جنھوں نے دنیا کو تبدیل کر دیا۔ میری ایننگ کا نام اس میں سرِفہرست تھا۔ اس مفلس عورت کی تحقیق نے موجودہ سائنس کا رخ تبدیل کر ڈالا اور انسان کے وجود کے ظہور پذیر ہونے پر غیر معمولی کام کر ڈالا۔ میری ایک عام سی عورت تھی مگر دراصل اس کا کام ہرگز ہرگز عام نہیں تھا۔
ہمارا مرکزی اور خوفناک المیہ یہ ہے کہ عام آدمی نے کسی بھی مصیبت کا مقابلہ کرنے کی بجائے مکمل طور پر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ جہاں جہاں حکومتی نظام نااہلی اور کرپشن کی بدولت ایک اذیت ناک خوف میں تبدیل ہو چکا ہے، وہیں وہیں ہر آدمی نے اسے اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا ہے۔ شکوہ، شکایت اور بے بسی کے علاوہ کوئی ردِعمل سامنے نہیں آتا۔ آپ کراچی میں حالیہ گرمی کے جانی نقصان کو دیکھئے۔ یہ بالکل درست بات ہے کہ صوبائی حکومت شدید نااہلی اور لاتعلقی کا شکار ہے۔ مگر اس کا ایک دوسرا حل بھی تھا۔ ہر گلی اور محلہ سے صرف ایک انسان اٹھتا۔ اپنے اپنے علاقہ میں لوگوں کو سمجھاتا کہ گرمی سے بچاؤ کے کیا طریقے ہیں۔ وہ ہیٹ سٹروک (Heat Strock) کے مریض کو بتاتا کہ صرف پورے بدن پر گیلے تولیے کے رگڑنے سے بدن کی حرارت کم ہو سکتی ہے۔ وہ کسی دکان دار سے بات کر کے نمکول اور برف خانے سے کچھ برف منگوا کر رکھ لیتا تو سیکڑوں جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
میرے علم میں ہے کہ یہ کام دراصل حکومت وقت کا ہے لیکن اگر وہ کام نہیں کر رہی، تو پھر کسی نا کسی نے تو یہ فریضہ انجام دینا ہے۔ ہر گلی محلہ میں ڈاکٹر، حکیم موجود ہیں۔ وہ صرف چار پانچ دن کے لیے اہل محلہ سے ملکر اپنے ذاتی کلینک یا مطب میں ہیٹ سٹروک کے مریضوں کا علاج شروع کر دیتے تو اس صورت میں بھی جانی نقصان کم کیا جا سکتا تھا۔ این۔ جی۔ اوز اور دیگر فلاحی ادارے اگر آبادی کے مکینوں کے تعاون سے صرف ایک چھوٹا سا مرکز کھول لیتے، جہاں معمولی سی طبی سہولت اور آگاہی کا سامان ہوتا تو آج صورت مختلف ہوتی۔ اگر یونیورسٹیوں، کالجوں کے طلباء اور طالبات اس گرمی کی شدت سے لڑنے کے لیے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمت پیش کر دیتے تو یہ جنگ جیتی جا سکتی تھی، وہ بھی کم سے کم جانی نقصان اٹھا کر! آپ یہ بھی چھوڑ دیجیے۔
اگر قلفیاں اور آئس کریم بیچنے والے اپنی ریڑھیوں پر سادہ سا ٹھنڈا پانی مریضوں کو نمک میں ملا کر دیتے رہتے تو بھی صورتحال بدل سکتی تھی۔ اگر رکشہ اور بس والے اپنے سامان میں صرف نمکول اور گیلے تولیے رکھ لیتے، تو مریضوں کو اسپتال پہنچاتے ہوئے ابتدائی طبی امداد پہنچائی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ درجنوں طریقے تھے جن میں فعال عام آدمی، حکومت کی پستی کا گلہ کرنے بجائے، میدان عمل میں آ سکتے تھے۔ مگر سب کچھ حکومت کے ذمہ کر دیا گیا۔ جو کچھ ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔
اب آپ کرپشن کی جانب آئیے۔ پورے ملک میں ہر شہری کو پتہ ہے کہ سرکاری شعبہ میں کہاں کہاں رشوت عروج پر ہے۔ اگر صرف پچاس آدمی دفتر کے باہر صبح سے شام خاموشی سے بیٹھ جائیں جہاں ان کے جائزکام نہیں ہو رہے، تو یہ عمل رائیگاں نہیں جا سکتا۔ اگر صرف چند دن، معدوے چند لوگ، ان دفاتر کے باہر خاموشی سے، بغیر کسی سیاست، شور اور نعرے کے بیٹھ جائیں، تو یقین فرمائیے، قیامت آ سکتی ہے۔ کسی بابو کے اختیار میں نہیں ہو گا، کہ کسی کے جائز کام کو روک سکے۔ آپ اس خاموشی اور پُرامن احتجاج کو کسی بڑے سے بڑے سیاسی آدمی کے گھر یا دفتر کے باہر مسلسل کر کے دیکھیے، آپکو اندازہ ہو جائیگا کہ عام آدمی کی خاموشی اور صبر میں کتنی طاقت ہے۔ دنیا میں اس طرح کی لازوال مثالیں موجود ہیں۔ مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ عام آدمی کو اپنی طاقت اور اہمیت کا قطعاً اندازہ نہیں۔ شائد یہ انکشاف کبھی بھی نہیں ہو گا؟