بحران در بحران
آج کل پاکستانی سیاست دھماکا خیز صورت حال سے دوچار ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے
آج کل پاکستانی سیاست دھماکا خیز صورت حال سے دوچار ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جو اس بحران میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ اس کا آغاز کور کمانڈر کراچی کی ایک تقریر سے ہوا جس میں انھوں نے بالواسطہ طور پر آگاہ کیا کہ کون کون سے عناصر اور گروہ کراچی کا امن تباہ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کور کمانڈر کراچی کی تقریر نے سب کے کان کھڑے کر دیے۔ ابھی اس تقریر کی گونج فضا میں ہی تھی کہ ڈی جی رینجرز سندھ نے سندھ ایپکس کمیٹی کو ایک بریفنگ میں بتایا کہ کراچی میں بھتہ خوری، زمینوں پر ناجائز قبضے، تعمیرات، قربانی کی کھالوں، زکوٰۃ، فطرہ، پانی چوری، اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی ذرایع سے تقریباً 230 ارب روپے سالانہ وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ غیر قانونی رقم مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے دھڑے لیاری گینگ وار اور دیگر جرائم پیشہ عناصر وصول کرتے ہیں اور اس کا حصہ بااثر اور اعلیٰ شخصیات تک پہنچایا جاتا ہے۔
یہ رقم شہر میں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔ کراچی میں بیشتر جرائم کی سرپرستی ایک بڑی سیاسی جماعت کرتی ہے جب کہ دیگر سیاسی لیڈر اور بلڈر بھی اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ ترجمان سندھ رینجرز کے مطابق دہشت گرد گروہوں، ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم کی فنڈنگ کی مربوط نظام کی تفصیلات ایپکس کمیٹی کے سامنے پیش کی گئیں جن کے مطابق کراچی فش ہاربر میں غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی رقم لیاری گینگ وار، مختلف دھڑوں اور سندھ کی کچھ اعلیٰ شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ کروڑوں روپے ماہانہ مختلف گینگ وار دھڑوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہ پیسہ اسلحہ کی خریداری اور مسلح جھتوں کو پالنے میں استعمال ہوتا ہے۔ بریفنگ میں زکوٰۃ اور فطرانے کے نام پر جبری رقم کی وصولی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے حاصل شدہ رقم کروڑوں روپے سالانہ ہے۔ قربانی کی کھالوں سے حاصل شدہ رقم بھی دہشت گردوں کی فنڈنگ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان ہوں یا دوسرے دہشت گرد گروہ ان کی طاقت ناجائز ذرایع آمدن میں پوشیدہ ہے۔ سیکڑوں ہزاروں دہشت گردوں کو ماہانہ تنخواہ اسلحہ ٹریننگ اور دوسری سہولیات کے لیے کروڑوں اربوں روپے کی رقم کا ہونا ضروری ہے۔ پھر اس طرح ریاست کے اندر ریاست قائم کی جاتی ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ اپنی مسلح افرادی قوت اور طاقت کی بنا پر بیرونی ملک دشمن قوتوں کے لیے پسندیدہ ہتھیار ہوتے ہیں۔ بیرونی ملک دشمن قوتیں انھیں صرف فنڈنگ کرتی ہیں اور اپنے ٹارگٹ ان دہشت گرد گروہوں کے ذریعے حاصل کرتی ہیں جو پاکستانی ہی ہوتے ہیں۔ اس طرح سے وہ پس پردہ رہتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وقت تک جتنے بھی سیاسی و مذہبی قتل و غارت ہوئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر میں یہی طریقہ واردات استعمال ہوا ہے۔ اس طرح سے کسی ملک کو اندر سے کھوکھلا کیا جاتا ہے۔
معاشی اور ہر طرح کی ترقی کے لیے اس کا ہونا ضروری ہے۔ جب کوئی ملک مستقل بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے تو اس سے خوشحالی اور ترقی بھی روٹھ جاتی ہے۔ نتیجے میں اس کی بدحالی، پسماندگی اور غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مزید غربت، مزید جرائم لے کر آتی ہے اور جرائم میں اضافے سے مزید دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ غریب، بیروزگار افراد دہشت گردوں کا آسان چارہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا منحوس چکر ہے کہ جب کوئی ملک اس میں پھنس جاتا ہے تو اس کا اس سے نکلنا محال ہوتا ہے۔ ملک دشمن قوتیں بھی اس ملک کے دہشت گرد گروہوں کو بڑے پیمانے پر رقم فراہم کر کے اس ملک کو اس جال سے نکلنے نہیں دیتیں۔ اس طرح سے دہشت گرد گروہوں کے ذریعے اس ملک کے اقتدار اعلیٰ میں نقب اس طرح لگائی جاتی ہے کہ اس ملک کی معاشی اور خارجہ پالیسی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ سمیت اہم اداروں میں لوگوں کو خرید لیا جاتا ہے۔
یہاں تک وہ ملک اپنی خود مختاری سے ہاتھ دھو کر غیروں کا غلام بن جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آپس کے اختلافات چاہے یہ مذہبی ہوں یا سیاسی اس حد تک نہیں لے جانا چاہیے جو قتل و غارت کا سبب بنیں اور جو شخص یا گروہ اس طرح کی بدامنی کا سبب بنیں وہ غدار ہیں۔ ان سے ملک دشمنوں کا سلوک کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں برداشت اور رواداری سے کام لینا چاہیے۔ یہ حقیقت ہمیں ایک لمحہ کے لیے فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جزا سزا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اللہ کے کام ہیں۔ اسے ہی کرنے دینے چاہئیں نہ کہ اس کے کرنے کے کام انسان کرنے لگے۔ جزا سزا اللہ ہی کو زیبا ہے۔ تمام مذاہب کے مطابق زمین کو اللہ نے تخلیق کیا اور انسان اس کی مخلوق ہے۔ تو اس دنیا میں اگر اربوں نہیں تو کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو کسی مذہب اور خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دیتا کہ ایسے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیں لیکن اللہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ اس نے تمام انسانوں کو تخلیق کیا ہے۔
کوئی اسے مانے، نہ مانے، اسے اس کی پرواہ نہیں۔ اس نے سب کی حفاظت کرنی ہے۔ وہ سب کا پروردگار ہے۔ ہمیں بھی اپنے دل و دماغ کو وسیع کرنا چاہیے۔ تنگ نظری، تنگ ذہنی سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ بے شمار لوگ بے شمار گروہ اور قومیں ہیں جن کے بے شمار نظریات ہیں۔ اگر انسانوں میں رواداری اور برداشت نہیں ہو گی تو دنیا ایک قتل گاہ بن جائے گی۔ ہر جگہ جنگ و جدل کا سماں رہے گا۔ بھوک بدامنی کا راج ہو جائے گا۔ اسلام انسانوں کو خوف اور بھوک سے نجات دلانے کے لیے ہے۔ عالم انسانیت ہزاروں سال سے جنگ و جدل کا شکار ہے۔ اس کے لیے سب سے بڑا انعام یہی ہے کہ دنیا ایک ایسی جگہ بن جائے جہاں امن ہی امن ہو۔ جب امن ہو گا تو بھوک بھی نہیں رہے گی۔ لیکن یہ اس وقت ہی ہو گا جب انسان اپنے نظریات دوسروں پر طاقت سے نہ ٹھونسے۔
...اگست ستمبر کراچی کے لیے فیصلہ کن ہیں۔
سیل فون:۔0346-4527997۔
یہ رقم شہر میں دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے۔ کراچی میں بیشتر جرائم کی سرپرستی ایک بڑی سیاسی جماعت کرتی ہے جب کہ دیگر سیاسی لیڈر اور بلڈر بھی اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں۔ ترجمان سندھ رینجرز کے مطابق دہشت گرد گروہوں، ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم کی فنڈنگ کی مربوط نظام کی تفصیلات ایپکس کمیٹی کے سامنے پیش کی گئیں جن کے مطابق کراچی فش ہاربر میں غیر قانونی طریقوں سے حاصل کی گئی رقم لیاری گینگ وار، مختلف دھڑوں اور سندھ کی کچھ اعلیٰ شخصیات میں تقسیم کی جاتی ہیں۔ کروڑوں روپے ماہانہ مختلف گینگ وار دھڑوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔ یہ پیسہ اسلحہ کی خریداری اور مسلح جھتوں کو پالنے میں استعمال ہوتا ہے۔ بریفنگ میں زکوٰۃ اور فطرانے کے نام پر جبری رقم کی وصولی کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے حاصل شدہ رقم کروڑوں روپے سالانہ ہے۔ قربانی کی کھالوں سے حاصل شدہ رقم بھی دہشت گردوں کی فنڈنگ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان ہوں یا دوسرے دہشت گرد گروہ ان کی طاقت ناجائز ذرایع آمدن میں پوشیدہ ہے۔ سیکڑوں ہزاروں دہشت گردوں کو ماہانہ تنخواہ اسلحہ ٹریننگ اور دوسری سہولیات کے لیے کروڑوں اربوں روپے کی رقم کا ہونا ضروری ہے۔ پھر اس طرح ریاست کے اندر ریاست قائم کی جاتی ہے۔ یہ دہشت گرد گروہ اپنی مسلح افرادی قوت اور طاقت کی بنا پر بیرونی ملک دشمن قوتوں کے لیے پسندیدہ ہتھیار ہوتے ہیں۔ بیرونی ملک دشمن قوتیں انھیں صرف فنڈنگ کرتی ہیں اور اپنے ٹارگٹ ان دہشت گرد گروہوں کے ذریعے حاصل کرتی ہیں جو پاکستانی ہی ہوتے ہیں۔ اس طرح سے وہ پس پردہ رہتے ہوئے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وقت تک جتنے بھی سیاسی و مذہبی قتل و غارت ہوئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر میں یہی طریقہ واردات استعمال ہوا ہے۔ اس طرح سے کسی ملک کو اندر سے کھوکھلا کیا جاتا ہے۔
معاشی اور ہر طرح کی ترقی کے لیے اس کا ہونا ضروری ہے۔ جب کوئی ملک مستقل بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے تو اس سے خوشحالی اور ترقی بھی روٹھ جاتی ہے۔ نتیجے میں اس کی بدحالی، پسماندگی اور غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ مزید غربت، مزید جرائم لے کر آتی ہے اور جرائم میں اضافے سے مزید دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ غریب، بیروزگار افراد دہشت گردوں کا آسان چارہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا منحوس چکر ہے کہ جب کوئی ملک اس میں پھنس جاتا ہے تو اس کا اس سے نکلنا محال ہوتا ہے۔ ملک دشمن قوتیں بھی اس ملک کے دہشت گرد گروہوں کو بڑے پیمانے پر رقم فراہم کر کے اس ملک کو اس جال سے نکلنے نہیں دیتیں۔ اس طرح سے دہشت گرد گروہوں کے ذریعے اس ملک کے اقتدار اعلیٰ میں نقب اس طرح لگائی جاتی ہے کہ اس ملک کی معاشی اور خارجہ پالیسی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ سمیت اہم اداروں میں لوگوں کو خرید لیا جاتا ہے۔
یہاں تک وہ ملک اپنی خود مختاری سے ہاتھ دھو کر غیروں کا غلام بن جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ آپس کے اختلافات چاہے یہ مذہبی ہوں یا سیاسی اس حد تک نہیں لے جانا چاہیے جو قتل و غارت کا سبب بنیں اور جو شخص یا گروہ اس طرح کی بدامنی کا سبب بنیں وہ غدار ہیں۔ ان سے ملک دشمنوں کا سلوک کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں برداشت اور رواداری سے کام لینا چاہیے۔ یہ حقیقت ہمیں ایک لمحہ کے لیے فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جزا سزا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اللہ کے کام ہیں۔ اسے ہی کرنے دینے چاہئیں نہ کہ اس کے کرنے کے کام انسان کرنے لگے۔ جزا سزا اللہ ہی کو زیبا ہے۔ تمام مذاہب کے مطابق زمین کو اللہ نے تخلیق کیا اور انسان اس کی مخلوق ہے۔ تو اس دنیا میں اگر اربوں نہیں تو کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو کسی مذہب اور خدا پر ایمان نہیں رکھتے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو حکم دیتا کہ ایسے لوگوں کو تباہ و برباد کر دیں لیکن اللہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ اس نے تمام انسانوں کو تخلیق کیا ہے۔
کوئی اسے مانے، نہ مانے، اسے اس کی پرواہ نہیں۔ اس نے سب کی حفاظت کرنی ہے۔ وہ سب کا پروردگار ہے۔ ہمیں بھی اپنے دل و دماغ کو وسیع کرنا چاہیے۔ تنگ نظری، تنگ ذہنی سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔ بے شمار لوگ بے شمار گروہ اور قومیں ہیں جن کے بے شمار نظریات ہیں۔ اگر انسانوں میں رواداری اور برداشت نہیں ہو گی تو دنیا ایک قتل گاہ بن جائے گی۔ ہر جگہ جنگ و جدل کا سماں رہے گا۔ بھوک بدامنی کا راج ہو جائے گا۔ اسلام انسانوں کو خوف اور بھوک سے نجات دلانے کے لیے ہے۔ عالم انسانیت ہزاروں سال سے جنگ و جدل کا شکار ہے۔ اس کے لیے سب سے بڑا انعام یہی ہے کہ دنیا ایک ایسی جگہ بن جائے جہاں امن ہی امن ہو۔ جب امن ہو گا تو بھوک بھی نہیں رہے گی۔ لیکن یہ اس وقت ہی ہو گا جب انسان اپنے نظریات دوسروں پر طاقت سے نہ ٹھونسے۔
...اگست ستمبر کراچی کے لیے فیصلہ کن ہیں۔
سیل فون:۔0346-4527997۔