بے لگام کرپشن بلاامتیاز احتساب
اس آپریشن کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بے لگام دہشتگردوں نے ملک میں بیگناہ شہریوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا
بعض وقت معاشرے اور ملک بگاڑ کی اس خطرناک منزل پر پہنچ جاتے ہیں کہ انھیں سدھارنے کی صرف دو صورتیں رہ جاتی ہیں، ایک بلا امتیاز اور غیر جانبدارانہ الیکشن، سخت اور کڑا احتساب دوسرا راستہ انقلاب فرانس کا رہ جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ اب ایک ایسے ہی مقام پر پہنچ گیا ہے جس کی اصلاح ناگزیر ہو گئی ہے۔ ہمارے ملک میں دہشتگردی اور سنگین جرائم اس قدر خطرناک صورت اختیار کر گئے تھے کہ ہماری افواج کو اس کی روک تھام کے لیے سخت قدم اٹھانا پڑا، یہ قدم ضرب عضب کے نام سے اٹھایا گیا۔
اس آپریشن کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بے لگام دہشتگردوں نے ملک میں بیگناہ شہریوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا اور 50 ہزار سے زیادہ معصوم پاکستانی شہید کر دیے گئے تھے، اس دہشتگردی کا مرکز شمالی وزیرستان تھا، سو آرمی نے اس مرکز کو نشانہ بنانا شروع کیا، اگرچہ اس آپریشن میں ہمارے فوجیوں کو بھی بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا لیکن شمالی وزیرستان کو اپنی پناہ گاہ اور ہیڈ کوارٹر بنانے والے دہشتگردوں کا بڑی حد تک صفایا کر دیا گیا اور ان کے ٹھکانوں کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ دہشتگردوں کا گڑھ اگرچہ شمالی وزیرستان تھا لیکن دہشتگرد سارے ملک میں پھیل گئے تھے اور خودکش حملوں اور بارودی گاڑیوں کے دھماکوں کے ذریعے بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کر رہے تھے۔
شمالی وزیرستان میں کامیاب کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں ان کا نیٹ ورک تتر بتر ہو گیا، ضرب عضب آپریشن کو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے جب کہ ملک میں دہشت گردی کا سلسلہ 10 سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اس دوران 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رہی اس کے بعد 2013ء سے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقتدار میں رہی لیکن ان دس بارہ سال کے دوران کسی جمہوری حکومت نے اس خوفناک عفریت کے خاتمے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ جمہوری حکومتوں کی ترجیحات مختلف تھیں، 50 ہزار پاکستانیوں کا بے رحمانہ قتل ہماری حکمراں اشرافیہ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ ان کی ساری توجہ لوٹ مار پر لگی ہوئی تھی۔
ہمارا دوسرا سب سے بڑا قومی مسئلہ بے تحاشا اور ناقابل یقین کرپشن ہے۔ اس حمام میں حکمران اور اپوزیشن دونوں ہی ننگے کھڑے ہیں، چونکہ سیاسی میدان میں کرپشن کو روکنے والا کوئی فرد یا ادارہ موجود نہیں لہٰذا اس میدان میں بھی فوج کو ہی مداخلت کرنی پڑی۔ فوج کی جانب سے بعض اہم سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بڑے اور بااثر ملزموں میں خوف و ہراس اور بھگدڑ دکھائی دے رہی ہے، کچھ بڑے ایجنٹ پکڑے گئے ہیں اور بہت سارے اعلیٰ سطح کے لٹیرے پکڑے جانے کے خوف سے ضمانت قبل از گرفتاری کروا کر وقتی طور پر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر تھا، جہاں دہشت گردوں کی قیادت خود محفوظ رہ کر سارے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے تھی، جب دہشت گردوں کے اس گڑھ کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو نہ صرف دہشت گردوں کی قیادت تتر بتر ہو گئی بلکہ ان کا پورا نیٹ ورک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گیا اور دہشت گردوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرپشن کا بھی کوئی شمالی وزیرستان جیسا گڑھ ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اشرافیہ خود ہی کرپشن کا شمالی وزیرستان ہے۔ کرپشن کے خلاف جو آپریشن ہوتا نظر آ رہا ہے وہ عام طور پر اعلیٰ سطح کے کرپٹ آئیکون کے فرنٹ مینوں تک محدود نظر آ رہا ہے، ماضی میں ایک ادارے کے سربراہ کو کرپشن کے الزام پر گرفتار کیا گیا تھا جس پر 86 ارب روپے کے کرپشن کا الزام تھا اس طرح اور بھی اداروں کے سربراہوں کے خلاف اربوں کی کرپشن کے الزامات عائد ہوتے رہے لیکن یہ سارے کردار آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہو گئے کیونکہ ان کی سرپرست اشرافیہ نہ صرف موجود تھی بلکہ بااثر اور طاقتور بھی تھی، سو اس نے اربوں کی کرپشن میں ملوث اپنے فرنٹ مینوں کو سزاؤں سے بچا لیا۔ پچھلے تین چار ماہ سے ایک ماڈل آیان گرفتار ہے، اسے ایئرپورٹ پر 5 لاکھ ڈالر کے ساتھ پکڑا گیا ہے وہ شہزادیوں کی طرح جیل میں رہ رہی ہے اور بیباکی کے ساتھ قانون اور انصاف کا مقابلہ کر رہی ہے، کہا جا رہا ہے کہ ایک سال کے دوران اس نے 50 سے زیادہ اسی طرح کے بیرون ملک دورے کیے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ خاتون اشرافیہ کی ایجنٹ ہے جس کی وجہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جا رہی ہے، غالباً حتمی چالان تک نہیں کاٹا گیا؟
ملک میں کرپشن کی بدترین صورتحال کا اندازہ اس انکشاف سے لگایا جا سکتا ہے کہ فشریز کے ایک عہدیدار کو کرپشن کے بے شمار الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، تو اس عہدیدار نے ہوشربا انکشافات کیے۔ اس مرد مجاہد نے لیاری کے مجاہدوں کو بھی بھاری رقم دینے کا اقرار کیا ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ جب اس کے اثاثوں کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس کے پاس 70 کروڑ کے اثاثے ہیں۔ ہم نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کے بڑے اڈے شمالی وزیرستان کی طرح کرپشن کے بڑے اڈوں کے خلاف بے رحمانہ اور بلاامتیاز کارروائی کے بغیر اس ملک سے کرپشن کا وہ بھیانک کلچر ختم نہیں ہو سکتا، جس نے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو بھوک، غربت، بیماری، بے روزگاری کے صحراؤں میں دھکیل دیا ہے۔کرپشن کی لامتناہیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری اشرافیہ اور اس کے کولیگس نے بینکوں سے ڈھائی ارب کا قرضہ لیا تھا جو معاف کرا لیا گیا۔
یہ کیس اعلیٰ عدلیہ کی میزوں تک پہنچ گیا لیکن کچھ عرصے بعد پبلک کی نظروں سے اس طرح اوجھل ہو گیا کہ اس کا ذکر تک نہیں سنا جاتا، درجنوں قومی اداروں میں مجموعی طور پر کھربوں کی کرپشن کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں چونکہ ان قومی اداروں کے سربراہ ایلیٹ سے تعلق رکھتے تھے یا ایلیٹ کے لائے ہوئے تھے لہٰذا ان کے خلاف بھی کارروائیاں سرد خانوں کی نذر ہو گئیں۔ ملک کے نامور سیاستدانوں کے خلاف اربوں کی کرپشن کے الزامات کے کیسز بھی ہماری اعلیٰ عدلیہ کی میزوں تک پہنچے لیکن بوجوہ یہ کیسز بھی عشروں کا عرصہ گزرنے کے باوجود زیر التوا ہی رہے۔ غیر ملکوں میں اربوں کی جائیدادوں کے اسکینڈلز بھی میڈیا میں ہنگامہ بنے رہے لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔
اربوں کی کرپشن کے ریفرنسوں پر عشروں تک شنوائی ہوتی رہی، آخر میں اخباروں کے کونوں میں تین چار سطری خبریں لگیں کہ ان کیسوں کے ملزمان بے گناہ ثابت ہو گئے۔ یہ ایسی پراسرار داستانیں ہیں جو ملک بھر میں بکھری ہوئی ہیں، یہ سب کیوں ہوا؟ اس لیے کہ اشرافیہ بے حد طاقتور ہے اب کرپشن کے خلاف جو آپریشن ہو رہا ہے اسے ہم اصل کرپٹ مافیا کے فرنٹ مینوں ایجنٹوں کے خلاف آپریشن کہہ سکتے ہیں، جب تک کرپشن کے شمالی وزیرستان کے خلاف بے رحمانہ آپریشن نہیں ہوتا ملک ان معاشی دہشت گردوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ کیا ہماری فوج یہ کارنامہ انجام دے کر تاریخ میں سر بلند رہے گی؟
اس آپریشن کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ بے لگام دہشتگردوں نے ملک میں بیگناہ شہریوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تھا اور 50 ہزار سے زیادہ معصوم پاکستانی شہید کر دیے گئے تھے، اس دہشتگردی کا مرکز شمالی وزیرستان تھا، سو آرمی نے اس مرکز کو نشانہ بنانا شروع کیا، اگرچہ اس آپریشن میں ہمارے فوجیوں کو بھی بڑا جانی نقصان اٹھانا پڑا لیکن شمالی وزیرستان کو اپنی پناہ گاہ اور ہیڈ کوارٹر بنانے والے دہشتگردوں کا بڑی حد تک صفایا کر دیا گیا اور ان کے ٹھکانوں کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ دہشتگردوں کا گڑھ اگرچہ شمالی وزیرستان تھا لیکن دہشتگرد سارے ملک میں پھیل گئے تھے اور خودکش حملوں اور بارودی گاڑیوں کے دھماکوں کے ذریعے بے گناہ پاکستانیوں کو قتل کر رہے تھے۔
شمالی وزیرستان میں کامیاب کارروائیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں ان کا نیٹ ورک تتر بتر ہو گیا، ضرب عضب آپریشن کو ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے جب کہ ملک میں دہشت گردی کا سلسلہ 10 سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہے اس دوران 2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کی حکومت قائم رہی اس کے بعد 2013ء سے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت اقتدار میں رہی لیکن ان دس بارہ سال کے دوران کسی جمہوری حکومت نے اس خوفناک عفریت کے خاتمے کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ جمہوری حکومتوں کی ترجیحات مختلف تھیں، 50 ہزار پاکستانیوں کا بے رحمانہ قتل ہماری حکمراں اشرافیہ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا کیونکہ ان کی ساری توجہ لوٹ مار پر لگی ہوئی تھی۔
ہمارا دوسرا سب سے بڑا قومی مسئلہ بے تحاشا اور ناقابل یقین کرپشن ہے۔ اس حمام میں حکمران اور اپوزیشن دونوں ہی ننگے کھڑے ہیں، چونکہ سیاسی میدان میں کرپشن کو روکنے والا کوئی فرد یا ادارہ موجود نہیں لہٰذا اس میدان میں بھی فوج کو ہی مداخلت کرنی پڑی۔ فوج کی جانب سے بعض اہم سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے بڑے اور بااثر ملزموں میں خوف و ہراس اور بھگدڑ دکھائی دے رہی ہے، کچھ بڑے ایجنٹ پکڑے گئے ہیں اور بہت سارے اعلیٰ سطح کے لٹیرے پکڑے جانے کے خوف سے ضمانت قبل از گرفتاری کروا کر وقتی طور پر اپنے آپ کو محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر تھا، جہاں دہشت گردوں کی قیادت خود محفوظ رہ کر سارے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے تھی، جب دہشت گردوں کے اس گڑھ کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو نہ صرف دہشت گردوں کی قیادت تتر بتر ہو گئی بلکہ ان کا پورا نیٹ ورک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ گیا اور دہشت گردوں کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کرپشن کا بھی کوئی شمالی وزیرستان جیسا گڑھ ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اشرافیہ خود ہی کرپشن کا شمالی وزیرستان ہے۔ کرپشن کے خلاف جو آپریشن ہوتا نظر آ رہا ہے وہ عام طور پر اعلیٰ سطح کے کرپٹ آئیکون کے فرنٹ مینوں تک محدود نظر آ رہا ہے، ماضی میں ایک ادارے کے سربراہ کو کرپشن کے الزام پر گرفتار کیا گیا تھا جس پر 86 ارب روپے کے کرپشن کا الزام تھا اس طرح اور بھی اداروں کے سربراہوں کے خلاف اربوں کی کرپشن کے الزامات عائد ہوتے رہے لیکن یہ سارے کردار آہستہ آہستہ نظروں سے اوجھل ہو گئے کیونکہ ان کی سرپرست اشرافیہ نہ صرف موجود تھی بلکہ بااثر اور طاقتور بھی تھی، سو اس نے اربوں کی کرپشن میں ملوث اپنے فرنٹ مینوں کو سزاؤں سے بچا لیا۔ پچھلے تین چار ماہ سے ایک ماڈل آیان گرفتار ہے، اسے ایئرپورٹ پر 5 لاکھ ڈالر کے ساتھ پکڑا گیا ہے وہ شہزادیوں کی طرح جیل میں رہ رہی ہے اور بیباکی کے ساتھ قانون اور انصاف کا مقابلہ کر رہی ہے، کہا جا رہا ہے کہ ایک سال کے دوران اس نے 50 سے زیادہ اسی طرح کے بیرون ملک دورے کیے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ خاتون اشرافیہ کی ایجنٹ ہے جس کی وجہ اس کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی جا رہی ہے، غالباً حتمی چالان تک نہیں کاٹا گیا؟
ملک میں کرپشن کی بدترین صورتحال کا اندازہ اس انکشاف سے لگایا جا سکتا ہے کہ فشریز کے ایک عہدیدار کو کرپشن کے بے شمار الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے، تو اس عہدیدار نے ہوشربا انکشافات کیے۔ اس مرد مجاہد نے لیاری کے مجاہدوں کو بھی بھاری رقم دینے کا اقرار کیا ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ جب اس کے اثاثوں کی تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اس کے پاس 70 کروڑ کے اثاثے ہیں۔ ہم نے کہا تھا کہ دہشت گردوں کے بڑے اڈے شمالی وزیرستان کی طرح کرپشن کے بڑے اڈوں کے خلاف بے رحمانہ اور بلاامتیاز کارروائی کے بغیر اس ملک سے کرپشن کا وہ بھیانک کلچر ختم نہیں ہو سکتا، جس نے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو بھوک، غربت، بیماری، بے روزگاری کے صحراؤں میں دھکیل دیا ہے۔کرپشن کی لامتناہیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری اشرافیہ اور اس کے کولیگس نے بینکوں سے ڈھائی ارب کا قرضہ لیا تھا جو معاف کرا لیا گیا۔
یہ کیس اعلیٰ عدلیہ کی میزوں تک پہنچ گیا لیکن کچھ عرصے بعد پبلک کی نظروں سے اس طرح اوجھل ہو گیا کہ اس کا ذکر تک نہیں سنا جاتا، درجنوں قومی اداروں میں مجموعی طور پر کھربوں کی کرپشن کی داستانیں میڈیا کی زینت بنتی رہی ہیں چونکہ ان قومی اداروں کے سربراہ ایلیٹ سے تعلق رکھتے تھے یا ایلیٹ کے لائے ہوئے تھے لہٰذا ان کے خلاف بھی کارروائیاں سرد خانوں کی نذر ہو گئیں۔ ملک کے نامور سیاستدانوں کے خلاف اربوں کی کرپشن کے الزامات کے کیسز بھی ہماری اعلیٰ عدلیہ کی میزوں تک پہنچے لیکن بوجوہ یہ کیسز بھی عشروں کا عرصہ گزرنے کے باوجود زیر التوا ہی رہے۔ غیر ملکوں میں اربوں کی جائیدادوں کے اسکینڈلز بھی میڈیا میں ہنگامہ بنے رہے لیکن نتیجہ ٹائیں ٹائیں فش کے علاوہ کچھ نہ نکلا۔
اربوں کی کرپشن کے ریفرنسوں پر عشروں تک شنوائی ہوتی رہی، آخر میں اخباروں کے کونوں میں تین چار سطری خبریں لگیں کہ ان کیسوں کے ملزمان بے گناہ ثابت ہو گئے۔ یہ ایسی پراسرار داستانیں ہیں جو ملک بھر میں بکھری ہوئی ہیں، یہ سب کیوں ہوا؟ اس لیے کہ اشرافیہ بے حد طاقتور ہے اب کرپشن کے خلاف جو آپریشن ہو رہا ہے اسے ہم اصل کرپٹ مافیا کے فرنٹ مینوں ایجنٹوں کے خلاف آپریشن کہہ سکتے ہیں، جب تک کرپشن کے شمالی وزیرستان کے خلاف بے رحمانہ آپریشن نہیں ہوتا ملک ان معاشی دہشت گردوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ کیا ہماری فوج یہ کارنامہ انجام دے کر تاریخ میں سر بلند رہے گی؟