امیر بننے کے مجرب نسخے
میری اینڈرسن ایک عام سی خاتون تھی، وہ امریکا کی ریاست الباما میں رہتی تھی،
LONDON:
میری اینڈرسن ایک عام سی خاتون تھی، وہ امریکا کی ریاست الباما میں رہتی تھی، یہ بات 1902 کی ہے۔ میری ایک دن اپنے ڈرائیور کے ساتھ نیویارک جا رہی تھی، راستے میں بارش ہوگئی۔ اس طویل سفر میں میری کے ڈرائیور کو بار بار گاڑی روک کر اترنا پڑتا اور وہ کار کے شیشے صاف کرتا۔ اس وقت تک شیشے صاف کرنے کے وائپر ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ اس پورے عمل میں ڈرائیور کے ساتھ ساتھ میری کو بھی یہ کام انجام دینا پڑا، یوں وہ بھیگ گئی اسے ٹھنڈ لگ گئی اور وہ بیمار پڑگئی۔ گھر لوٹی تو ذہن میں ایک الجھن سوار تھی کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ جس سے گاڑی کے شیشے کار کے اندر بیٹھے بیٹھے صاف ہوجائیں اور کار سے اترنا بھی نہ پڑے۔
سوچتے سوچتے ذہن میں خیالات آتے گئے، وہ اس میں جت گئی، اس نے اپنے خیالات کو باقاعدہ کاغذی شکل میں تحریر کرنا شروع کردیا، کچھ خاکے بنے، کچھ بہتر لگے، یہ خاکے لے کر لوہار کے پاس پہنچی اور اس سے وائپر بنوائے، یہ وائپر شیشے کے باہر یعنی ونڈ اسکرین کے ساتھ لگے تھے جسے کار کے اندر ہینڈل دبا کر کنٹرول کیا جاسکتا تھا، یوں آسانی سے ڈرائیور بارش میں بھی کار کے اندر بیٹھے بیٹھے ہینڈل کے ذریعے اپنا شیشہ صاف کرسکتا تھا۔ میری نے اپنی اس ایجاد کو باقاعدہ حکومت سے رجسٹرڈ کروایا، اب اس کی ایجاد کو کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر بنوا نہیں سکتا تھا۔ چند ہی سال میں ملک بھر میں یہ وائپر فروخت ہونے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیٹری سے بھی چلنے لگے اور آج وائپر جو ایک خاتون میری اینڈرسن کی ایجاد ہے ہر گاڑی کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ میری نے اپنی ذہانت سے وائپر ایجاد کیے اور اس سے اتنا کمایا اور امیر خاتون بن گئی، اس کی ذہانت سے بے شمار حادثات ہونے سے بچ گئے۔ یقیناً میری ایک عظیم عورت ہے۔
میری کی اس پوری داستان میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ اول انسانیت کی خدمت جو آج تک جاری ہے، دوئم دولت کا اکٹھا ہونا، یہ دونوں بہت توجہ طلب ہیں۔ ان دنوں ہمارے ملک میں دولت کو اکٹھا کرنے کی تراکیب اتنی عام ہوگئی ہیں کہ اب عام لوگ بھی اس پر عمل کرکے ککھ سے لکھ پتی بن چکے ہیں۔ اس فہرست میں این جی اوز کا شمار بلند درجوں پر ہے لیکن حکومت کی توجہ اور سختی نے بہت سے لوگوں کے کان کھڑے کردیے۔ چلیے کچھ تو تواضح ان کی بھی ہونی چاہیے کہ جنھوں نے سالہا سال سے مفت کے ڈالرز اور پاؤنڈ سے اپنی صحت میں ایسی بحالی پیدا کی کہ نہ پوچھیے، اور اب بہت سے لوگوں کو پریشانیاں لاحق ہیں۔
دولت جمع کرنے کی تراکیب چاہے کسی بھی قسم کی ہوں اس میں سب سے زیادہ انسان کی قسمت کا عمل دخل ہوتا ہے اور جو وقت سے فائدہ اٹھا لے وہی سکندر ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسی قسم کے اسکینڈلز پر سے نظر گزری تو طبیعت عش عش کر اٹھی، ایک سابق وزیر جن کا اپنا طیارہ بھی ہے، ہمیشہ ایک بڑے ہوٹل کے صدارتی سوئیٹ میں رہا کرتے تھے، حالانکہ وہ ایک پولیس گریڈ 19 کے افسر کے صاحبزادے تھے، یقیناً گریڈ 19 بھی انھیں طویل انتظار کے بعد نصیب ہوا ہوگا، لہٰذا منہ میں سونے کا چمچہ والی بات کِرکری ہوگئی، لیکن ان کی ایک شوگر مل سے دوسری شوگر مل اور پھر اربوں کے اثاثے بہرحال ان کے علاوہ بھی نجانے کتنے ستم گر ہیں کہ جن کے پاس یقیناً تراکیب کا خزانہ موجودہ ہوگا۔ ہماری خوبرو ماڈل ایان علی بھی یقیناً امیر ترین بننے کے کسی مجرب نسخے پر عمل کر رہی تھیں کہ بیچ میں کچھ گڑ بڑ ہوگئی یا تو نسخہ نامکمل تھا یا پھر ایان علی کی قسمت۔
بات ہو رہی تھی دولت جمع کرنے کے اسکینڈلز کے بارے میں تو ایک بڑا اسکینڈل پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کے بارے میں بھی تھا۔ یہ پاکستان کا ایک عظیم صنعتی یونٹ ہے جسے اونے پونے فروخت کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا گیا تھا۔ یعنی اس حد تک دولت اکٹھی کرنے کا منصوبہ کہ جس سے ہماری قوم برسوں انھیں کوستی رہے، یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا تھا، اس عظیم ادارے کو ہماری ماضی کی حکومت نے 21 ارب 68 کروڑ روپے میں فروخت کردیا تھا۔ اتفاق سے ہم اسٹیل مل اور اس کی بڑی رہائشی کالونی کو دیکھ چکے ہیں اگر آپ کو بھی اس عظیم پروجیکٹ کو دیکھنے کا شرف ہوا ہو تو 21 ارب اور 68 کروڑ کی رقم کی تُک ہرگز ہضم نہ ہوتی۔
اس ظاہری نجکاری کے عمل کو اتنی جلدی جلدی بھگتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس کا ایک اہم خط جو خریداروں کو ایک ہفتے بعد ملتا ہے چند گھنٹوں میں ہی اسی دن دے کر اپنی جانب سے کام پکا کرلیا گیا لیکن شاید بھگتانے والے یہ بھول گئے تھے کہ یہ ملک اور اس کے چپے چپے سے محبت کرنے والے اسے یوں سرعام نیلام نہ ہونے دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے خریداروں میں کراچی کا ایک صنعت کار گروپ، ایک روسی کمپنی بھی شامل تھی جس کے ساتھ بھارتی اسٹیل میگنٹ لکشمی متل تھا، ہم آج بھی پاکستان اسٹیل ملز کے اس بڑے کرپشن کو روکنے کے لیے سابق چیئرمین آف اسٹیل مل لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم کو دعا دیتے ہیں اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔
دولت جمع کرنے میں بظاہر تو کوئی برائی نظر نہیں آتی، اگرچہ یہ مرض کی شکل نہ اختیار کرلے اور یہ مرض تو ایسا ہے کہ اس کا علاج اس زندگی میں تو ممکن نہیں، ہاں اگر اوپر والے کی طرف سے عنایت ہو تو شاید بات بن بھی جائے۔ کسی حوالے سے ایک ایسے صاحب سے بھی واقفیت ہے جو خیر سے شہر کے بڑے معروف اور پوش علاقے میں پندرہ سو گز کے وسیع گھر میں رہتے ہیں، گھر کے اندر رہنے والوں سے رابطہ کرنے کے لیے پہلے حفاظتی گارڈز سے تصدیق کروانی ضروری ہے، موصوف کسی زمانے میں ایک سرکاری ادارے میں کام کیا کرتے تھے۔ نجانے کیسے این جی او بنانے کی سوجھی اور گونگے بہرے بچوں کا ایک چھوٹا سا تین کمروں پر مشتمل اسکول کھول لیا، اس کے اساتذہ غیر تربیت یافتہ آس پڑوس کی لڑکیاں ہی تھیں، جو ٹائم پاس کرنے اور جیب خرچ پورا کرنے آجاتی تھیں لیکن اس چند گز کے گنے چنے بچوں کے اسکول کو جاپان کی کسی فلاحی تنظیم کی جانب سے خاصی موٹی امداد ملتی تھی۔
ظاہر ہے جس سے بچوں کا تو کیا ہی بھلا ہوتا البتہ صاحب کا بزنس ضرور بڑھتا گیا، وہ کاروبار کے بچے پیدا کرتے گئے، جب بھی ان صاحب کے بارے میں سننے کو ملا یہی سنا بہت پریشان ہیں قرضوں میں الجھے ہوئے ہیں، ایک سے لیتے ہیں دوسرے کو تھما دیتے ہیں، بس رولنگ چل رہی ہے، نجانے ان کا یہ ظاہری اسکول اب کہاں ہے۔ اتنا ضرور پتہ ہے کہ ایک بیٹی جسے بڑے لاڈ سے پالا تھا بیاہ کر حیدرآباد گئی تھی، اپنے گھر خوش نہیں ہے، ٹینشن میں اضافہ ہی ہوا ہے، غالباً ایک ہی بیٹا ہے اور جھنجھٹ اتنا۔ ایگزیکٹ کی مثال بھی سامنے ہے۔ امیر بننے کے مجرب نسخے اگر کسی حکیم کے پاس ملتے تو شاید صورتحال مختلف ہوتی لیکن یہ تو ان کے ہاتھ لگے ہیں جو نیم حکیم ہیں۔
میری اینڈرسن ایک عام سی خاتون تھی، وہ امریکا کی ریاست الباما میں رہتی تھی، یہ بات 1902 کی ہے۔ میری ایک دن اپنے ڈرائیور کے ساتھ نیویارک جا رہی تھی، راستے میں بارش ہوگئی۔ اس طویل سفر میں میری کے ڈرائیور کو بار بار گاڑی روک کر اترنا پڑتا اور وہ کار کے شیشے صاف کرتا۔ اس وقت تک شیشے صاف کرنے کے وائپر ایجاد نہیں ہوئے تھے۔ اس پورے عمل میں ڈرائیور کے ساتھ ساتھ میری کو بھی یہ کام انجام دینا پڑا، یوں وہ بھیگ گئی اسے ٹھنڈ لگ گئی اور وہ بیمار پڑگئی۔ گھر لوٹی تو ذہن میں ایک الجھن سوار تھی کہ کچھ ایسا ہوجائے کہ جس سے گاڑی کے شیشے کار کے اندر بیٹھے بیٹھے صاف ہوجائیں اور کار سے اترنا بھی نہ پڑے۔
سوچتے سوچتے ذہن میں خیالات آتے گئے، وہ اس میں جت گئی، اس نے اپنے خیالات کو باقاعدہ کاغذی شکل میں تحریر کرنا شروع کردیا، کچھ خاکے بنے، کچھ بہتر لگے، یہ خاکے لے کر لوہار کے پاس پہنچی اور اس سے وائپر بنوائے، یہ وائپر شیشے کے باہر یعنی ونڈ اسکرین کے ساتھ لگے تھے جسے کار کے اندر ہینڈل دبا کر کنٹرول کیا جاسکتا تھا، یوں آسانی سے ڈرائیور بارش میں بھی کار کے اندر بیٹھے بیٹھے ہینڈل کے ذریعے اپنا شیشہ صاف کرسکتا تھا۔ میری نے اپنی اس ایجاد کو باقاعدہ حکومت سے رجسٹرڈ کروایا، اب اس کی ایجاد کو کوئی شخص اس کی اجازت کے بغیر بنوا نہیں سکتا تھا۔ چند ہی سال میں ملک بھر میں یہ وائپر فروخت ہونے لگے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بیٹری سے بھی چلنے لگے اور آج وائپر جو ایک خاتون میری اینڈرسن کی ایجاد ہے ہر گاڑی کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ میری نے اپنی ذہانت سے وائپر ایجاد کیے اور اس سے اتنا کمایا اور امیر خاتون بن گئی، اس کی ذہانت سے بے شمار حادثات ہونے سے بچ گئے۔ یقیناً میری ایک عظیم عورت ہے۔
میری کی اس پوری داستان میں دو باتیں بہت اہم ہیں۔ اول انسانیت کی خدمت جو آج تک جاری ہے، دوئم دولت کا اکٹھا ہونا، یہ دونوں بہت توجہ طلب ہیں۔ ان دنوں ہمارے ملک میں دولت کو اکٹھا کرنے کی تراکیب اتنی عام ہوگئی ہیں کہ اب عام لوگ بھی اس پر عمل کرکے ککھ سے لکھ پتی بن چکے ہیں۔ اس فہرست میں این جی اوز کا شمار بلند درجوں پر ہے لیکن حکومت کی توجہ اور سختی نے بہت سے لوگوں کے کان کھڑے کردیے۔ چلیے کچھ تو تواضح ان کی بھی ہونی چاہیے کہ جنھوں نے سالہا سال سے مفت کے ڈالرز اور پاؤنڈ سے اپنی صحت میں ایسی بحالی پیدا کی کہ نہ پوچھیے، اور اب بہت سے لوگوں کو پریشانیاں لاحق ہیں۔
دولت جمع کرنے کی تراکیب چاہے کسی بھی قسم کی ہوں اس میں سب سے زیادہ انسان کی قسمت کا عمل دخل ہوتا ہے اور جو وقت سے فائدہ اٹھا لے وہی سکندر ہے۔ کچھ عرصہ قبل اسی قسم کے اسکینڈلز پر سے نظر گزری تو طبیعت عش عش کر اٹھی، ایک سابق وزیر جن کا اپنا طیارہ بھی ہے، ہمیشہ ایک بڑے ہوٹل کے صدارتی سوئیٹ میں رہا کرتے تھے، حالانکہ وہ ایک پولیس گریڈ 19 کے افسر کے صاحبزادے تھے، یقیناً گریڈ 19 بھی انھیں طویل انتظار کے بعد نصیب ہوا ہوگا، لہٰذا منہ میں سونے کا چمچہ والی بات کِرکری ہوگئی، لیکن ان کی ایک شوگر مل سے دوسری شوگر مل اور پھر اربوں کے اثاثے بہرحال ان کے علاوہ بھی نجانے کتنے ستم گر ہیں کہ جن کے پاس یقیناً تراکیب کا خزانہ موجودہ ہوگا۔ ہماری خوبرو ماڈل ایان علی بھی یقیناً امیر ترین بننے کے کسی مجرب نسخے پر عمل کر رہی تھیں کہ بیچ میں کچھ گڑ بڑ ہوگئی یا تو نسخہ نامکمل تھا یا پھر ایان علی کی قسمت۔
بات ہو رہی تھی دولت جمع کرنے کے اسکینڈلز کے بارے میں تو ایک بڑا اسکینڈل پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری کے بارے میں بھی تھا۔ یہ پاکستان کا ایک عظیم صنعتی یونٹ ہے جسے اونے پونے فروخت کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا گیا تھا۔ یعنی اس حد تک دولت اکٹھی کرنے کا منصوبہ کہ جس سے ہماری قوم برسوں انھیں کوستی رہے، یہ منصوبہ کامیاب نہ ہوسکا تھا، اس عظیم ادارے کو ہماری ماضی کی حکومت نے 21 ارب 68 کروڑ روپے میں فروخت کردیا تھا۔ اتفاق سے ہم اسٹیل مل اور اس کی بڑی رہائشی کالونی کو دیکھ چکے ہیں اگر آپ کو بھی اس عظیم پروجیکٹ کو دیکھنے کا شرف ہوا ہو تو 21 ارب اور 68 کروڑ کی رقم کی تُک ہرگز ہضم نہ ہوتی۔
اس ظاہری نجکاری کے عمل کو اتنی جلدی جلدی بھگتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس کا ایک اہم خط جو خریداروں کو ایک ہفتے بعد ملتا ہے چند گھنٹوں میں ہی اسی دن دے کر اپنی جانب سے کام پکا کرلیا گیا لیکن شاید بھگتانے والے یہ بھول گئے تھے کہ یہ ملک اور اس کے چپے چپے سے محبت کرنے والے اسے یوں سرعام نیلام نہ ہونے دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے خریداروں میں کراچی کا ایک صنعت کار گروپ، ایک روسی کمپنی بھی شامل تھی جس کے ساتھ بھارتی اسٹیل میگنٹ لکشمی متل تھا، ہم آج بھی پاکستان اسٹیل ملز کے اس بڑے کرپشن کو روکنے کے لیے سابق چیئرمین آف اسٹیل مل لیفٹیننٹ جنرل عبدالقیوم کو دعا دیتے ہیں اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو۔ آگے آپ سمجھدار ہیں۔
دولت جمع کرنے میں بظاہر تو کوئی برائی نظر نہیں آتی، اگرچہ یہ مرض کی شکل نہ اختیار کرلے اور یہ مرض تو ایسا ہے کہ اس کا علاج اس زندگی میں تو ممکن نہیں، ہاں اگر اوپر والے کی طرف سے عنایت ہو تو شاید بات بن بھی جائے۔ کسی حوالے سے ایک ایسے صاحب سے بھی واقفیت ہے جو خیر سے شہر کے بڑے معروف اور پوش علاقے میں پندرہ سو گز کے وسیع گھر میں رہتے ہیں، گھر کے اندر رہنے والوں سے رابطہ کرنے کے لیے پہلے حفاظتی گارڈز سے تصدیق کروانی ضروری ہے، موصوف کسی زمانے میں ایک سرکاری ادارے میں کام کیا کرتے تھے۔ نجانے کیسے این جی او بنانے کی سوجھی اور گونگے بہرے بچوں کا ایک چھوٹا سا تین کمروں پر مشتمل اسکول کھول لیا، اس کے اساتذہ غیر تربیت یافتہ آس پڑوس کی لڑکیاں ہی تھیں، جو ٹائم پاس کرنے اور جیب خرچ پورا کرنے آجاتی تھیں لیکن اس چند گز کے گنے چنے بچوں کے اسکول کو جاپان کی کسی فلاحی تنظیم کی جانب سے خاصی موٹی امداد ملتی تھی۔
ظاہر ہے جس سے بچوں کا تو کیا ہی بھلا ہوتا البتہ صاحب کا بزنس ضرور بڑھتا گیا، وہ کاروبار کے بچے پیدا کرتے گئے، جب بھی ان صاحب کے بارے میں سننے کو ملا یہی سنا بہت پریشان ہیں قرضوں میں الجھے ہوئے ہیں، ایک سے لیتے ہیں دوسرے کو تھما دیتے ہیں، بس رولنگ چل رہی ہے، نجانے ان کا یہ ظاہری اسکول اب کہاں ہے۔ اتنا ضرور پتہ ہے کہ ایک بیٹی جسے بڑے لاڈ سے پالا تھا بیاہ کر حیدرآباد گئی تھی، اپنے گھر خوش نہیں ہے، ٹینشن میں اضافہ ہی ہوا ہے، غالباً ایک ہی بیٹا ہے اور جھنجھٹ اتنا۔ ایگزیکٹ کی مثال بھی سامنے ہے۔ امیر بننے کے مجرب نسخے اگر کسی حکیم کے پاس ملتے تو شاید صورتحال مختلف ہوتی لیکن یہ تو ان کے ہاتھ لگے ہیں جو نیم حکیم ہیں۔