گرم گرم باتیں
پاکستان میں ہم ہر کچھ دن ایک نئے طرح کے امتحان سے گزرتے ہیں، زندگی بھی عجیب ہے،
BARCELONA:
پاکستان میں ہم ہر کچھ دن ایک نئے طرح کے امتحان سے گزرتے ہیں، زندگی بھی عجیب ہے، ہمارے یہاں خوشی چھوٹی چھوٹی شکلوں میں کوئی ایک آدھ کرکٹ میچ جیت کر بھی کبھی آتی ہے لیکن مشکلیں ہر کچھ دن میں شکل بدل کر سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔
ایسا نہیں کہ چیزیں پاکستان بنتے ہی خراب ہوگئی تھیں، کوئی تیس سال پہلے مشکلوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ ہمارے پاکستان میں موجود تیس سالہ مشکلات جوان اور مضبوط ہوگئی ہیں، جس نے پوری قوم کو تھکا تھکا کر مجبور، مظلوم اور کمزور بنا دیا ہے۔
کچھ دن پہلے اس مشکل نے ایک نئی شکل لی۔ شکل ''گرمی'' کی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں دس مہینے برف پڑتی ہے بلکہ ہمارے یہاں تو سردی بھی ایسی ہوتی ہے کہ اکثر اے سی چلانے پڑتے ہیں لیکن اس بار تو گرمی نے حد ہی کردی پاکستان میں۔
قوم کے اوپر جب مشکلات نے ''گرمی'' کی شکل لی تو کسی عام وقت پر نہیں بلکہ انتظار کرتی رہی کہ جیسے ہی رمضان شروع ہوں جب ہی مسلمانوں کا صحیح طور پر امتحان لیا جائے اور رمضان شروع ہوتے ہی موسم کا پارہ چڑھ گیا۔ کراچی شہر میں پچھلے کچھ دن سے شدید گرمی رہی، نہ ہی بارش اور نہ ہی سورج ڈوبنے کے بعد بھی گرمی کسی طرح کم ہونے کا نام لیتی۔ گرمی جیسے آکر جانا بھول گئی تھی، کسی کراچی والے نے اس گرمی سے تنگ آکر جل کر کہا کہ کاش سورج کی بیوی ہوتی تو شاید وہی اسے قابو میں رکھتی، لیکن افسوس کہ سورج ''بیچلر'' ہے اور اپنی مرضی کا مالک اس لیے اس نے موسم کے ساتھ مل کر کراچی کو تندور بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔
ہمارے یہاں مشکل پہلے ہی سے لوڈشیڈنگ کی شکل لے چکی ہے اور ہماری قوم بجلی کے نہ ہونے سے کافی حد تک سمجھوتہ بھی کرچکی ہے، دنیا کے ہر بڑے ملک میں کسی شہر میں بجلی چلی جائے تو حکومت بجلی کی کمپنی کو پہلے گھنٹے کے بعد بھاری فائن کرنا شروع کردیتی ہے، ساتھ ہی ہر گھر میں بجلی کمپنی والے نوٹس بھیجتے ہیں کہ بجلی جانے سے اگر آپ کا کوئی نقصان ہوا ہو جیسے فریج یا ڈیپ فریزر میں رکھی چیزیں خراب ہوگئی ہوں تو ہم اس کا ہرجانہ بھر دیں گے۔
ہمارے یہاں سارا سارا دن بجلی نہ ہو اور بجلی کے محکمے کے دفتر فون کیا جائے تو وہ فون اٹھانے کی زحمت تک نہیں کرتے، ایسے میں جب مشکل بھی بہت زیادہ گرمی کی شکل میں بیٹنگ کرنے قوم کے خلاف آجائے تو بے چاری مظلوم تھکی ہوئی قوم کے صرف چھکے ہی چھوٹیں گے اور کیا۔
کہیں پڑھا تھا کہ بڑے آدمی کو نیچا دکھانے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں یا تو اس کو کسی بھی طرح سے نیچے گھسیٹ لیں یا پھر اس سے اونچے ہوجائیں تو وہ خود بخود ہی نیچے ہوجائے گا۔ ہم پاکستان میں پڑنے والی گرمی کو نیچا تو نہیں کرسکتے لیکن ہاں پاکستان سے زیادہ گرم ملکوں کی طرف رخ موڑ لیتے ہیں، وہاں کا سوچ کر کراچی خودبخود ٹھنڈا لگنے لگے گا۔
دنیا کا سب سے گرم دن آج تک امریکا کے علاقے کیلیفورنیا میں ریکارڈ کیا گیا ہے وہ جگہ جس کا پہلے نام ''گرین لینڈ رینچ'' تھا، اس سب سے گرم دن کے بعد اس کا نام بدل کر ''ڈیتھ ویلی'' رکھ دیا گیا تھا۔
دس جولائی 1913 کو اس جگہ 134F فارن ہائٹ یعنی 56.7 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہ اتنی گرم جگہ ہے کہ ستمبر کے موسم میں اسے عام لوگوں کے لیے بند کردیا جاتا ہے، یعنی عام حالات میں بھی یہاں اتنی گرمی ہوتی ہے کہ کوئی بھی شخص یہاں منٹوں میں بے ہوش ہوسکتا ہے۔
امریکا کے بعد باری آتی ہے افریقہ کی، یہاں کا علاقہ ''کبلی'' وہ جگہ ہے جہاں انسانی زندگی کے قدیم ترین سراغ پائے جاتے ہیں، یہاں سے ملنے والی انسانی ہڈیاں دو لاکھ سال پرانی ہیں، تاریخی حقائق کے علاوہ یہ جگہ اپنی حدت اور تپش کے لیے بھی مشہور ہے، سات جولائی 1931 کو کبلی کا درجہ حرارت 131 فارن ہائٹ یعنی 55 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جو ڈیتھ ویلی سے تین ڈگری کم ہے، لیکن اس گرمی میں بے ہوش ہونے والے شخص کو اس فرق سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
تیسرے نمبر پر آتی ہے کویت کی باری جب کہ دونوں جگہ درجہ حرارت یعنی ڈیتھ ویلی اور کبلی کے بہت عرصہ پہلے کے ہیں لیکن اس کے بعد جو ریکارڈز بنے حال ہی کے ہیں، کویت میں جولائی اکتیس 2012 کو درجہ حرارت 128 فارن ہائٹ تھا یعنی 53 سینٹی گریڈ۔ لیکن وہاں کا نظام پاکستان سے بہت مختلف ہے جب کہ وہاں بھی مزدور گرمی میں باہر کام کرتے ہیں، غریب کے گھر میں اے سی نہیں ہے لیکن وہاں سے آٹھ سو لوگوں کی گرمی کی وجہ سے ہلاک ہونے کی خبر نہیں آئی۔
کویت کے بعد آتی ہے ہماری باری، نہیں نہیں اس سال کی بات نہیں ہو رہی اس بار تو صرف 111 فارن ہائٹ یعنی 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہی پہنچا ہے، ابھی تک ، یہ ریکارڈ ہم نے چھبیس مئی 2010 کو بنایا تھا جس دن موہنجو دڑو کے علاقے میں درجہ حرارت 128.3 فارن ہائٹ یعنی 53.4 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شکر ہے وہ جگہ پہلے ہی سے ''موہنجو دڑو'' تھی ورنہ اس دن وہاں کچھ بھی ہوتا موہنجو دڑو ہی بن جاتا۔
ہمارے بعد آتا ہے عراق جہاں کا درجہ حرارت 3 اگست 2011 کو 127 فارن ہائٹ یعنی 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، اس کے بعد کوئی جگہ ایسی نہیں ہے دنیا میں جہاں درجہ حرارت 125 فارن ہائٹ سے اوپر گیا ہو، گرم جگہیں ہیں لیکن درجہ حرارت کسی بھی جگہ 110 فارن ہائٹ، 115 فارن ہائٹ سے زیادہ ہونا مشکل ہوتا ہے۔
میکسیکو، سعودی عرب خصوصاً جدہ، انڈیا، الجیریا یہاں تک کہ آسٹریلیا تک درجہ حرارت 125 فارن ہائٹ تک پہنچ چکا ہے لیکن اس سے اوپر نہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات ہے کہ بیشتر درجہ حرارت کے ریکارڈز پچھلے دس پندرہ سال میں ہی بنے ہیں اور اسٹڈی یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں سردی اتنی تیزی سے نہیں بڑھی جتنی گرمی۔
اگر آپ پاکستان کے کسی کراچی جیسے شہر میں ہیں اور یہ کالم پڑھ کر اوپر لکھے گئے شہروں کے درجہ حرارت جان کر مزید گرمی لگنے لگ گئی ہو تو کالم پڑھنا بند کریں، کمرے کی کھڑکی کھولیں، باہر صرف 100 فارن ہائٹ ہو رہا ہے تو اتنے گرم موسموں کی بات کے بعد آپ کو اپنا موسم ایئرکنڈیشنڈ جیسا لگے گا۔
پاکستان میں ہم ہر کچھ دن ایک نئے طرح کے امتحان سے گزرتے ہیں، زندگی بھی عجیب ہے، ہمارے یہاں خوشی چھوٹی چھوٹی شکلوں میں کوئی ایک آدھ کرکٹ میچ جیت کر بھی کبھی آتی ہے لیکن مشکلیں ہر کچھ دن میں شکل بدل کر سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔
ایسا نہیں کہ چیزیں پاکستان بنتے ہی خراب ہوگئی تھیں، کوئی تیس سال پہلے مشکلوں کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ ہمارے پاکستان میں موجود تیس سالہ مشکلات جوان اور مضبوط ہوگئی ہیں، جس نے پوری قوم کو تھکا تھکا کر مجبور، مظلوم اور کمزور بنا دیا ہے۔
کچھ دن پہلے اس مشکل نے ایک نئی شکل لی۔ شکل ''گرمی'' کی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں دس مہینے برف پڑتی ہے بلکہ ہمارے یہاں تو سردی بھی ایسی ہوتی ہے کہ اکثر اے سی چلانے پڑتے ہیں لیکن اس بار تو گرمی نے حد ہی کردی پاکستان میں۔
قوم کے اوپر جب مشکلات نے ''گرمی'' کی شکل لی تو کسی عام وقت پر نہیں بلکہ انتظار کرتی رہی کہ جیسے ہی رمضان شروع ہوں جب ہی مسلمانوں کا صحیح طور پر امتحان لیا جائے اور رمضان شروع ہوتے ہی موسم کا پارہ چڑھ گیا۔ کراچی شہر میں پچھلے کچھ دن سے شدید گرمی رہی، نہ ہی بارش اور نہ ہی سورج ڈوبنے کے بعد بھی گرمی کسی طرح کم ہونے کا نام لیتی۔ گرمی جیسے آکر جانا بھول گئی تھی، کسی کراچی والے نے اس گرمی سے تنگ آکر جل کر کہا کہ کاش سورج کی بیوی ہوتی تو شاید وہی اسے قابو میں رکھتی، لیکن افسوس کہ سورج ''بیچلر'' ہے اور اپنی مرضی کا مالک اس لیے اس نے موسم کے ساتھ مل کر کراچی کو تندور بنانے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی۔
ہمارے یہاں مشکل پہلے ہی سے لوڈشیڈنگ کی شکل لے چکی ہے اور ہماری قوم بجلی کے نہ ہونے سے کافی حد تک سمجھوتہ بھی کرچکی ہے، دنیا کے ہر بڑے ملک میں کسی شہر میں بجلی چلی جائے تو حکومت بجلی کی کمپنی کو پہلے گھنٹے کے بعد بھاری فائن کرنا شروع کردیتی ہے، ساتھ ہی ہر گھر میں بجلی کمپنی والے نوٹس بھیجتے ہیں کہ بجلی جانے سے اگر آپ کا کوئی نقصان ہوا ہو جیسے فریج یا ڈیپ فریزر میں رکھی چیزیں خراب ہوگئی ہوں تو ہم اس کا ہرجانہ بھر دیں گے۔
ہمارے یہاں سارا سارا دن بجلی نہ ہو اور بجلی کے محکمے کے دفتر فون کیا جائے تو وہ فون اٹھانے کی زحمت تک نہیں کرتے، ایسے میں جب مشکل بھی بہت زیادہ گرمی کی شکل میں بیٹنگ کرنے قوم کے خلاف آجائے تو بے چاری مظلوم تھکی ہوئی قوم کے صرف چھکے ہی چھوٹیں گے اور کیا۔
کہیں پڑھا تھا کہ بڑے آدمی کو نیچا دکھانے کے دو ہی طریقے ہوتے ہیں یا تو اس کو کسی بھی طرح سے نیچے گھسیٹ لیں یا پھر اس سے اونچے ہوجائیں تو وہ خود بخود ہی نیچے ہوجائے گا۔ ہم پاکستان میں پڑنے والی گرمی کو نیچا تو نہیں کرسکتے لیکن ہاں پاکستان سے زیادہ گرم ملکوں کی طرف رخ موڑ لیتے ہیں، وہاں کا سوچ کر کراچی خودبخود ٹھنڈا لگنے لگے گا۔
دنیا کا سب سے گرم دن آج تک امریکا کے علاقے کیلیفورنیا میں ریکارڈ کیا گیا ہے وہ جگہ جس کا پہلے نام ''گرین لینڈ رینچ'' تھا، اس سب سے گرم دن کے بعد اس کا نام بدل کر ''ڈیتھ ویلی'' رکھ دیا گیا تھا۔
دس جولائی 1913 کو اس جگہ 134F فارن ہائٹ یعنی 56.7 سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہ اتنی گرم جگہ ہے کہ ستمبر کے موسم میں اسے عام لوگوں کے لیے بند کردیا جاتا ہے، یعنی عام حالات میں بھی یہاں اتنی گرمی ہوتی ہے کہ کوئی بھی شخص یہاں منٹوں میں بے ہوش ہوسکتا ہے۔
امریکا کے بعد باری آتی ہے افریقہ کی، یہاں کا علاقہ ''کبلی'' وہ جگہ ہے جہاں انسانی زندگی کے قدیم ترین سراغ پائے جاتے ہیں، یہاں سے ملنے والی انسانی ہڈیاں دو لاکھ سال پرانی ہیں، تاریخی حقائق کے علاوہ یہ جگہ اپنی حدت اور تپش کے لیے بھی مشہور ہے، سات جولائی 1931 کو کبلی کا درجہ حرارت 131 فارن ہائٹ یعنی 55 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، جو ڈیتھ ویلی سے تین ڈگری کم ہے، لیکن اس گرمی میں بے ہوش ہونے والے شخص کو اس فرق سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
تیسرے نمبر پر آتی ہے کویت کی باری جب کہ دونوں جگہ درجہ حرارت یعنی ڈیتھ ویلی اور کبلی کے بہت عرصہ پہلے کے ہیں لیکن اس کے بعد جو ریکارڈز بنے حال ہی کے ہیں، کویت میں جولائی اکتیس 2012 کو درجہ حرارت 128 فارن ہائٹ تھا یعنی 53 سینٹی گریڈ۔ لیکن وہاں کا نظام پاکستان سے بہت مختلف ہے جب کہ وہاں بھی مزدور گرمی میں باہر کام کرتے ہیں، غریب کے گھر میں اے سی نہیں ہے لیکن وہاں سے آٹھ سو لوگوں کی گرمی کی وجہ سے ہلاک ہونے کی خبر نہیں آئی۔
کویت کے بعد آتی ہے ہماری باری، نہیں نہیں اس سال کی بات نہیں ہو رہی اس بار تو صرف 111 فارن ہائٹ یعنی 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہی پہنچا ہے، ابھی تک ، یہ ریکارڈ ہم نے چھبیس مئی 2010 کو بنایا تھا جس دن موہنجو دڑو کے علاقے میں درجہ حرارت 128.3 فارن ہائٹ یعنی 53.4 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، شکر ہے وہ جگہ پہلے ہی سے ''موہنجو دڑو'' تھی ورنہ اس دن وہاں کچھ بھی ہوتا موہنجو دڑو ہی بن جاتا۔
ہمارے بعد آتا ہے عراق جہاں کا درجہ حرارت 3 اگست 2011 کو 127 فارن ہائٹ یعنی 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، اس کے بعد کوئی جگہ ایسی نہیں ہے دنیا میں جہاں درجہ حرارت 125 فارن ہائٹ سے اوپر گیا ہو، گرم جگہیں ہیں لیکن درجہ حرارت کسی بھی جگہ 110 فارن ہائٹ، 115 فارن ہائٹ سے زیادہ ہونا مشکل ہوتا ہے۔
میکسیکو، سعودی عرب خصوصاً جدہ، انڈیا، الجیریا یہاں تک کہ آسٹریلیا تک درجہ حرارت 125 فارن ہائٹ تک پہنچ چکا ہے لیکن اس سے اوپر نہیں۔ لیکن غور کرنے کی بات ہے کہ بیشتر درجہ حرارت کے ریکارڈز پچھلے دس پندرہ سال میں ہی بنے ہیں اور اسٹڈی یہ بتاتی ہے کہ دنیا میں سردی اتنی تیزی سے نہیں بڑھی جتنی گرمی۔
اگر آپ پاکستان کے کسی کراچی جیسے شہر میں ہیں اور یہ کالم پڑھ کر اوپر لکھے گئے شہروں کے درجہ حرارت جان کر مزید گرمی لگنے لگ گئی ہو تو کالم پڑھنا بند کریں، کمرے کی کھڑکی کھولیں، باہر صرف 100 فارن ہائٹ ہو رہا ہے تو اتنے گرم موسموں کی بات کے بعد آپ کو اپنا موسم ایئرکنڈیشنڈ جیسا لگے گا۔