لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
ہم خود ایسے کئی آفریدیوں کو جانتے ہیں جو نہایت حلال اور صاف و شفاف طریقے پر مشہور ہیں
اب کوئی کہاں تک کسی کو سمجھائے، سینیٹ کے الیکشن سے پہلے اگر ہم اس آفریدی صاحب کو سمجھاتے کہ میاں خواہ مخواہ خچر نما گھوڑوں پر داؤ لگانے سے باز رہو اور کھیسے میں یہ جو روپے پھدک رہے ہیں،
ہمیں دے ڈالو، تو ہر گز نہ مانتے، جیسا کہ اسامہ بن لادن کو سمجھاتے رہے کہ او میاں ویزہ تو تمہارا ویسے بھی لگ چکا ہے۔ جاتے جاتے ہمارے ہاتھوں مشرف بہ مشرف یا مشرف بہ امریکا ہو جاؤ لیکن مجال ہے جو مان کر دیا ہو۔ کیونکہ جانے والوں کو کہاں روکا جا سکا ہے۔ لیکن دوستوں کے بجائے دشمنوں کو مالا مال کر گئے۔ ہمارے ساتھ کرم فرماتے تو نہ صرف اپنے لیے دعا گوؤں کی ایک خاصی تعداد متعین کرتے بلکہ ہم اپنے بائیں ہاتھ کو ہلاتے اور ایک عدد نہایت ہی معقول قدو قامت کی باتصویر کتاب بھی ان پر لکھ ڈالتے۔ مرنا تو سب کو ہے لیکن مرنے مرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
قتل ہوں گے ترے ہاتھوں سے خوشی اس کی ہے
آج اترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے
اور اب اس آفریدی کو دیکھئے، رقم بھی گئی اور عزت سادات بھی۔ ''پیسہ'' لوگوں کے پاس چلا گیا اور تجربہ اس کے پاس رہ گیا۔ ہمیں تو سوچ سوچ کر دکھ ہوتا ہے، کاش! یہ شخص ذرا ہوش کے ناخن لیتا اور سینیٹ کے ریس کورس میں ایسے گھوڑوں پر داؤ نہ لگاتا جنھیں خچر بننے میں ایک رات بھی نہیں لگتی بلکہ ہوتے خچر ہی ہیں صرف گھوڑوں کا میک اپ کر کے آتے ہیں
ہیں یہ گھوڑے کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ کچھ خچر کھلا
اس کے حصے میں چار ووٹ آئے لیکن یقینی ہے کہ کچھ اور گھوڑوں کو بھی اس نے چارہ ڈالا ہو گا جو عین وقت پر خچر نکلے۔ ایسے میں معلوم ریٹس کے مطابق اس نے کم از کم پندرہ بیس کروڑ روپے گندے نالے میں بہا دیے۔ ٹھہریئے ہم ذرا منہ میں آیا ہوا پانی نگل لیں، پندرہ بیس کروڑ نمبوؤں کا تصور ہی منہ کو پانی پانی کرنے کے لیے کافی ہے، ہاں تو اگرچہ پندرہ بیس کروڑ روپے (نہ جانے گننے میں کتنا عرصہ لگتا ہو گا) اگر وہ ہمیں دے دیتا تو اس پر اتنی زور دار کتاب لکھ مارتے کہ اس کی ساٹھ پشتوں تک کو امر کر دیتے، بلکہ یہ وعدہ بھی کر سکتے تھے کہ ہر کالم میں اس کا ذکر کریں گے،
موضوع خواہ کچھ ہو ہم کسی نہ کسی طرح اس کا ذکر لے ہی آتے، کیوں کہ قیامت کا ذکر چھیڑنے پر بات ان کی جوانی تک پہچانا ہی تو ہمارا واحد ہنر ہے مثلاً لوڈ شیڈنگ پر لکھتے لکھتے ہم اچانک ''گریز'' کر کے لکھتے کہ کاش، اس وقت صاحب وزیر بجلی ہوتے، پٹرولیم کا موضوع ہوتا تو ابتدا ہی یوں کرتے کہ آج ہمارے دوست نے ٹیلی فون پر بتایا، مہنگائی کا تذکرہ کرتے تو بیچ میں بات کو یوں موڑنا کیا مشکل ہے کہ آج ہم اپنے دوست کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے، اور یہ طرز کلام بلکہ طرز کالم آج کل اچھا خاصا مقبول بھی ہے۔ بات کو ئی بھی ہو، امریکا برطانیہ میں رہنے والے دوستوں رشتہ داروں کا تذکرہ نکل ہی آتا ہے جو ہر وقت اصرار کر کے کالم نگار کو امریکا تشریف لانے کی استدعا کرتے رہتے ہیں یا انتہائی اہم پوسٹوں پر تعینات دوستوں رشتہ داروں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے، ہم بھی اگر بات بات پر دوست کو کالم میں مہمان بناتے تو اعتراض کرنے والا کون ہے۔
مطلب ہے نازو غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
ہم اردو میں خواہ مخواہ فارسی ڈال کر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ مال حرام بود بجائے حرام رفت، کیوں کہ ضروری تو نہیں کہ ہر آفریدی ۔۔۔۔ آپ سمجھ گئے کیوں کہ اتنے سارے جانے والوں میں ایک دو حاجی بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم خود ایسے کئی آفریدیوں کو جانتے ہیں جو نہایت حلال اور صاف و شفاف طریقے پر مشہور ہیں اور آفریدیوں کی شان ہیں مثلاً شاہد آفریدی، رحمت شاہ آفریدی، خاطر آفریدی، ساحر آفریدی اور لطیف آفریدی وغیرہ، لیکن اس بات پر ہمیشہ افسوس رہے گا کہ اس محترم آفریدی نے اپنی حق حلال کی کمائی نہایت ہی بے کار لوگوں کو کھلائی جو اب اس رقم کو ایک مرتبہ پھر انویسٹ کر کے پھر خچر سے گھوڑے بن جائیں گے ۔
اب کے سینیٹ کے اس میلے میں جن جن کی ''چادریں'' چرائی گئیں، ان سب سے ہمیں ہمدردی بالکل بھی نہیں ہے۔ آخر کس حکیم نے ان کو یہ ''ھوالشافی'' لکھا تھا کہ تم جا کر چوروں گرہ کٹوں کے بھرے میلے میں اپنی پھولی ہوئی جیبوں کی نمائش کرتے پھرو، جب کہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
بس اک نگاہ چوکی اور مال ''ممبروں'' کا
یہ درست ہے کہ اس ''میلے'' میں انسان تجربہ بہت حاصل کرتا ہے اور بہت سارے روشن چہروں کے پیچھے چھپے ہوئے گھناؤنے چہرے دیکھ لیتا ہے جیسے کہ اب بھی بہت سوں نے دیکھ لیے ہوئے ہوں گے جسے وہ انناس سمجھتے ہیں وہ عورت نکلتی ہے اور جس پر عورت کا گمان ہوتا ہے وہ طوائف نکلتی ہے، یعنی ان کو ''یارانے'' بھی معلوم ہو جاتے ہیں اور کچھ جاں پہچان میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے بقول خاطر غزنوی
اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
تجربہ اور عبرت تو مل جاتے ہیں لیکن انتہائی گراں قیمت پر ۔۔۔ اس سلسلے میں ہماری محترمہ بیگم نسیم ولی خان کا قصہ بھی بڑا ہی عبرت ناک ہے، باچا خان کے گھرانے کی یہ ''خاتون آہن'' درحقیقت وہی عورت ہے جس کے لیے ایک ٹپے میں کہا گیا تھا ''' اگر نوجوانوں سے کچھ نہ ہو سکا تو اے فخر افغان 'عورتیں آپ کو جتائیں گی''۔ لیکن اس منڈی میں آکر وہ بھی جیت کے بجائے بہت ساری عبرت پکڑ کر ساتھ لے گئیں۔ بے چاری کو کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ آپ کون ہیں بلکہ ایک لحاظ سے انھیں بے عزتی'بے توقیری' احسان فراموشی اور طوطا چشمی کا ایک نمونہ بنا کر کنارے کر دیا گیا، حیرت ہوتی ہے کہ یہ وہی بیگم نسیم ولی خان ہیں جن کو مور بی بی مور بی بی کہہ کر یہی ''منہ'' تھکتے نہیں تھے۔
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
کہاں کا احترام، کیسی وفاداری، کون سی پشتو، جو آگے بڑھ کر تھام لے مینا اسی کی ہے۔ ویسے بھی اتنی تیز مارکیٹ میں ایک یکہ و تنہا بے یارو مددگار بوڑھی عورت کی بساط ہی کیا۔ چاہے وہ ''کس کس'' کی ''کیا کیا'' نہ ہو، کبھی کبھی تو ہمیں لگتا ہے کہ مصر کے بازار میں ایک مرتبہ پھر ایک بوڑھی ''سوت کی اٹنی'' لے کر چلی تھی، لیکن یہ خیال آتے ہی ایک اور خیال سر ابھارتا ہے کہ کہیں یہ ذہین و فطین اور سرد و گرم چشیدہ خاتون صرف امتحان لینے اور کچھ لوگوں کی ''پہچان'' اجاگر کرنے تو نہیں اٹھی تھی اور یقیناً یہ ہی بات رہی ہو گی، ان کی صحت واقعی بڑی کمزور ہے اور شاید ان کا مقصد سینٹر بننے کا تھا بھی نہیں، صرف یہی دکھانا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ کہ وقت پڑنے پر ''باپ'' بھی بنا سکتے ہیں اور ماں کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔
تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلاؤں
کبھی ترکش میں تمہارے کوئی ''نخچیر'' بھی تھا
نادانی تھی ہوگئی ورنہ ہمیں یقین ہے کہ اگر لوگ ان کا احترام کرتے ہوئے ''ہاں'' کر دیتے تو وہ خود ہی شکریہ کے ساتھ ہٹ جاتیں لیکن چوک ہو گئی اور ''شکنتلا پہچان لی گئی'' آفریدی تو صرف دولت ہار گئی لیکن بیگم نسیم ولی خان نہ صرف خود ہار گئی بلکہ ولی خان بھی ہار گئے، باچا خان بھی ہار گئے اور فخر افغان کو ''جتانے والی'' بھی ہار گئے... سینیٹ کی یہ منڈی پہلے بھی لگتی رہی ہے ،آیندہ بھی لگتی رہے گی اور اس میں حسب معمول ایمانوں، غیرتوں اور وفاداریوں کے سودے بھی ہوتے رہیں گے، لیکن اب کے جو منڈی لگی وہ ہمیشہ یادگار رہے گی کہ اس میں واقعی ایک ذرا سی بات پر برسوں کے ''یارانے'' بھی گئے اور درحقیقت کچھ لوگ ''پہچانے'' بھی گئے۔
وہ سر بام چڑھے زلف کا پردہ لے کر
ہم قیامت کی نظر باز تھے پہچان گئے
میکدہ ہے یہ نہیں دیر و حرم اے واعظ
لاکھ کافر جو یہاں ہو کے مسلمان گئے
ہمیں دے ڈالو، تو ہر گز نہ مانتے، جیسا کہ اسامہ بن لادن کو سمجھاتے رہے کہ او میاں ویزہ تو تمہارا ویسے بھی لگ چکا ہے۔ جاتے جاتے ہمارے ہاتھوں مشرف بہ مشرف یا مشرف بہ امریکا ہو جاؤ لیکن مجال ہے جو مان کر دیا ہو۔ کیونکہ جانے والوں کو کہاں روکا جا سکا ہے۔ لیکن دوستوں کے بجائے دشمنوں کو مالا مال کر گئے۔ ہمارے ساتھ کرم فرماتے تو نہ صرف اپنے لیے دعا گوؤں کی ایک خاصی تعداد متعین کرتے بلکہ ہم اپنے بائیں ہاتھ کو ہلاتے اور ایک عدد نہایت ہی معقول قدو قامت کی باتصویر کتاب بھی ان پر لکھ ڈالتے۔ مرنا تو سب کو ہے لیکن مرنے مرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
قتل ہوں گے ترے ہاتھوں سے خوشی اس کی ہے
آج اترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے
اور اب اس آفریدی کو دیکھئے، رقم بھی گئی اور عزت سادات بھی۔ ''پیسہ'' لوگوں کے پاس چلا گیا اور تجربہ اس کے پاس رہ گیا۔ ہمیں تو سوچ سوچ کر دکھ ہوتا ہے، کاش! یہ شخص ذرا ہوش کے ناخن لیتا اور سینیٹ کے ریس کورس میں ایسے گھوڑوں پر داؤ نہ لگاتا جنھیں خچر بننے میں ایک رات بھی نہیں لگتی بلکہ ہوتے خچر ہی ہیں صرف گھوڑوں کا میک اپ کر کے آتے ہیں
ہیں یہ گھوڑے کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ کچھ خچر کھلا
اس کے حصے میں چار ووٹ آئے لیکن یقینی ہے کہ کچھ اور گھوڑوں کو بھی اس نے چارہ ڈالا ہو گا جو عین وقت پر خچر نکلے۔ ایسے میں معلوم ریٹس کے مطابق اس نے کم از کم پندرہ بیس کروڑ روپے گندے نالے میں بہا دیے۔ ٹھہریئے ہم ذرا منہ میں آیا ہوا پانی نگل لیں، پندرہ بیس کروڑ نمبوؤں کا تصور ہی منہ کو پانی پانی کرنے کے لیے کافی ہے، ہاں تو اگرچہ پندرہ بیس کروڑ روپے (نہ جانے گننے میں کتنا عرصہ لگتا ہو گا) اگر وہ ہمیں دے دیتا تو اس پر اتنی زور دار کتاب لکھ مارتے کہ اس کی ساٹھ پشتوں تک کو امر کر دیتے، بلکہ یہ وعدہ بھی کر سکتے تھے کہ ہر کالم میں اس کا ذکر کریں گے،
موضوع خواہ کچھ ہو ہم کسی نہ کسی طرح اس کا ذکر لے ہی آتے، کیوں کہ قیامت کا ذکر چھیڑنے پر بات ان کی جوانی تک پہچانا ہی تو ہمارا واحد ہنر ہے مثلاً لوڈ شیڈنگ پر لکھتے لکھتے ہم اچانک ''گریز'' کر کے لکھتے کہ کاش، اس وقت صاحب وزیر بجلی ہوتے، پٹرولیم کا موضوع ہوتا تو ابتدا ہی یوں کرتے کہ آج ہمارے دوست نے ٹیلی فون پر بتایا، مہنگائی کا تذکرہ کرتے تو بیچ میں بات کو یوں موڑنا کیا مشکل ہے کہ آج ہم اپنے دوست کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے، اور یہ طرز کلام بلکہ طرز کالم آج کل اچھا خاصا مقبول بھی ہے۔ بات کو ئی بھی ہو، امریکا برطانیہ میں رہنے والے دوستوں رشتہ داروں کا تذکرہ نکل ہی آتا ہے جو ہر وقت اصرار کر کے کالم نگار کو امریکا تشریف لانے کی استدعا کرتے رہتے ہیں یا انتہائی اہم پوسٹوں پر تعینات دوستوں رشتہ داروں کے حوالے سے بات کی جاتی ہے، ہم بھی اگر بات بات پر دوست کو کالم میں مہمان بناتے تو اعتراض کرنے والا کون ہے۔
مطلب ہے نازو غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر
ہم اردو میں خواہ مخواہ فارسی ڈال کر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ مال حرام بود بجائے حرام رفت، کیوں کہ ضروری تو نہیں کہ ہر آفریدی ۔۔۔۔ آپ سمجھ گئے کیوں کہ اتنے سارے جانے والوں میں ایک دو حاجی بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم خود ایسے کئی آفریدیوں کو جانتے ہیں جو نہایت حلال اور صاف و شفاف طریقے پر مشہور ہیں اور آفریدیوں کی شان ہیں مثلاً شاہد آفریدی، رحمت شاہ آفریدی، خاطر آفریدی، ساحر آفریدی اور لطیف آفریدی وغیرہ، لیکن اس بات پر ہمیشہ افسوس رہے گا کہ اس محترم آفریدی نے اپنی حق حلال کی کمائی نہایت ہی بے کار لوگوں کو کھلائی جو اب اس رقم کو ایک مرتبہ پھر انویسٹ کر کے پھر خچر سے گھوڑے بن جائیں گے ۔
اب کے سینیٹ کے اس میلے میں جن جن کی ''چادریں'' چرائی گئیں، ان سب سے ہمیں ہمدردی بالکل بھی نہیں ہے۔ آخر کس حکیم نے ان کو یہ ''ھوالشافی'' لکھا تھا کہ تم جا کر چوروں گرہ کٹوں کے بھرے میلے میں اپنی پھولی ہوئی جیبوں کی نمائش کرتے پھرو، جب کہ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
بس اک نگاہ چوکی اور مال ''ممبروں'' کا
یہ درست ہے کہ اس ''میلے'' میں انسان تجربہ بہت حاصل کرتا ہے اور بہت سارے روشن چہروں کے پیچھے چھپے ہوئے گھناؤنے چہرے دیکھ لیتا ہے جیسے کہ اب بھی بہت سوں نے دیکھ لیے ہوئے ہوں گے جسے وہ انناس سمجھتے ہیں وہ عورت نکلتی ہے اور جس پر عورت کا گمان ہوتا ہے وہ طوائف نکلتی ہے، یعنی ان کو ''یارانے'' بھی معلوم ہو جاتے ہیں اور کچھ جاں پہچان میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے بقول خاطر غزنوی
اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
تجربہ اور عبرت تو مل جاتے ہیں لیکن انتہائی گراں قیمت پر ۔۔۔ اس سلسلے میں ہماری محترمہ بیگم نسیم ولی خان کا قصہ بھی بڑا ہی عبرت ناک ہے، باچا خان کے گھرانے کی یہ ''خاتون آہن'' درحقیقت وہی عورت ہے جس کے لیے ایک ٹپے میں کہا گیا تھا ''' اگر نوجوانوں سے کچھ نہ ہو سکا تو اے فخر افغان 'عورتیں آپ کو جتائیں گی''۔ لیکن اس منڈی میں آکر وہ بھی جیت کے بجائے بہت ساری عبرت پکڑ کر ساتھ لے گئیں۔ بے چاری کو کسی نے یہ بھی نہیں کہا کہ آپ کون ہیں بلکہ ایک لحاظ سے انھیں بے عزتی'بے توقیری' احسان فراموشی اور طوطا چشمی کا ایک نمونہ بنا کر کنارے کر دیا گیا، حیرت ہوتی ہے کہ یہ وہی بیگم نسیم ولی خان ہیں جن کو مور بی بی مور بی بی کہہ کر یہی ''منہ'' تھکتے نہیں تھے۔
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں
کہاں کا احترام، کیسی وفاداری، کون سی پشتو، جو آگے بڑھ کر تھام لے مینا اسی کی ہے۔ ویسے بھی اتنی تیز مارکیٹ میں ایک یکہ و تنہا بے یارو مددگار بوڑھی عورت کی بساط ہی کیا۔ چاہے وہ ''کس کس'' کی ''کیا کیا'' نہ ہو، کبھی کبھی تو ہمیں لگتا ہے کہ مصر کے بازار میں ایک مرتبہ پھر ایک بوڑھی ''سوت کی اٹنی'' لے کر چلی تھی، لیکن یہ خیال آتے ہی ایک اور خیال سر ابھارتا ہے کہ کہیں یہ ذہین و فطین اور سرد و گرم چشیدہ خاتون صرف امتحان لینے اور کچھ لوگوں کی ''پہچان'' اجاگر کرنے تو نہیں اٹھی تھی اور یقیناً یہ ہی بات رہی ہو گی، ان کی صحت واقعی بڑی کمزور ہے اور شاید ان کا مقصد سینٹر بننے کا تھا بھی نہیں، صرف یہی دکھانا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ کہ وقت پڑنے پر ''باپ'' بھی بنا سکتے ہیں اور ماں کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔
تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلاؤں
کبھی ترکش میں تمہارے کوئی ''نخچیر'' بھی تھا
نادانی تھی ہوگئی ورنہ ہمیں یقین ہے کہ اگر لوگ ان کا احترام کرتے ہوئے ''ہاں'' کر دیتے تو وہ خود ہی شکریہ کے ساتھ ہٹ جاتیں لیکن چوک ہو گئی اور ''شکنتلا پہچان لی گئی'' آفریدی تو صرف دولت ہار گئی لیکن بیگم نسیم ولی خان نہ صرف خود ہار گئی بلکہ ولی خان بھی ہار گئے، باچا خان بھی ہار گئے اور فخر افغان کو ''جتانے والی'' بھی ہار گئے... سینیٹ کی یہ منڈی پہلے بھی لگتی رہی ہے ،آیندہ بھی لگتی رہے گی اور اس میں حسب معمول ایمانوں، غیرتوں اور وفاداریوں کے سودے بھی ہوتے رہیں گے، لیکن اب کے جو منڈی لگی وہ ہمیشہ یادگار رہے گی کہ اس میں واقعی ایک ذرا سی بات پر برسوں کے ''یارانے'' بھی گئے اور درحقیقت کچھ لوگ ''پہچانے'' بھی گئے۔
وہ سر بام چڑھے زلف کا پردہ لے کر
ہم قیامت کی نظر باز تھے پہچان گئے
میکدہ ہے یہ نہیں دیر و حرم اے واعظ
لاکھ کافر جو یہاں ہو کے مسلمان گئے